"اہل عرب جب شادی بیاہ کرتے تھے تو قدیم رواج کے مطابق دعوت کی تقریب میں شامل مہمانوں کی تواضع کےلیے بھنے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو روٹی کے اندر لپیٹ کرپیش کرتے تھے۔
اگر کسی تقریب میں گھرکے سربراہ کوپتا چلتاکہ اس شادی میں شریک افراد کی تعداد دعوت میں تیار کیے گوشت کے ٹکڑوں کی تعداد سے👇
زیادہ ہے ، یا زیادہ ہوسکتی ہے ، تو وہ کھانے کے وقت دو روٹیاں (گوشت کے بغیر) ایک دوسرے کے ساتھ لپیٹ کر اپنے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور انتہائی قریبی دوستوں میں تقسیم کرتے جبکہ گوشت روٹی کے اندر لپیٹ کر صرف باہر سے آئے ہوئے اجنبیوں کو پیش کیا جاتا تھا.
ایسا ہی ایک بار غریب شخص کے👇
ہاں شادی کی تقریب تھی جس میں اس شخص نے دعوت کے دن احتیاطاً بغیر گوشت کے روٹی کے اندر روٹی لپیٹ کر اپنے گھر والوں،رشتہ داروں اور متعدد قریبی قابلِ بھروسہ دوستوں کو کھانے میں پیش کی،تاکہ اجنبیوں کو کھانے میں روٹی کے ساتھ گوشت مل سکے اورکسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچاجاسکے.
جنہیں👇
صرف روٹی ملی تھی تو انہوں نے ایسے کھانا شروع کردیا گویا اس میں گوشت موجود ہے، سوائے اسکے ایک انتہائی قریبی رشتہ دار کے، اس نے روٹی کھولی گھر کے سربراہ کو بلایا اور غصے سے بلند آواز میں اس سے کہا،
"اے عبداللہ کے باپ یہ کیا مذاق ہے یہ تو روٹی گوشت کے بغیر ہے میں تو آج کے دن ہرگز 👇
یہ نہیں کھاؤں گا"
غریب شخص نے تحمل سے سنا اور مسکرا کر جواب دیا،
"اجنبیوں کا مجھ پر حق ہے کہ میرے دسترخوان پر انہیں ہرحال میں گوشت پیش کیا جائے"
"یہ لیجئے گوشت کا ٹکڑا اور معافی چاہتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی میں آپکو اپنے اہلِ خانہ میں شمار کر رہا تھا"👇
"قدیم عربی ادب سے ماخوذ"
ترجمہ نگار 🖊 "توقير بُھملہ"
حکمت:
موجودہ دور میں، ہم بہت سارے لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔انکو گھرکے فرد جیسا سمجھتے ہوئے یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مشکل وقت میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے،ہماری پیٹھ پیچھے ہماری عزت کی حفاظت کرتے ہوئے ہر حال میں 👇
وفاداری نبھائیں گے لیکن اکثر عین ضرورت کے وقت ہمارے اندازے غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔
اس لیے
"اس بات کو یقینی بنائیں کہ کون سی روٹی کون سے بندے کو دینی ہے"
کل فیکے کمہار کے گھر کے سامنے ایک چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔جانے کون ملنے آیا تھا؟
میں جانتا تھافیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔
وھی ھوا شام کو تھلے پر آکر بیٹھا ھی تھا کہ فیکا چلا آیا۔👇
کہنے لگا۔"صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ھے آپ کو یاد ھے ماسی نوراں ہوتی تھی وہ جو بھٹی پر دانے بھونا کرتی تھی۔جسکا اِکو اِک پُتر تھا وقار"
میں نے کہا"ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ھوں"
اللہ آپکابھلا کرے صاحب جی،وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔
سکول میں👇
اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ ھوتی تھی۔ اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔ماسٹر جی ڈانٹ کر اسے گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھااور دوائی لے۔اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھااور اچار کھولا۔
صاحب جی اج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ھے نا توسب👇
یہ 1282 ہجری کی بات ہے. سعودی عرب کے بریدہ شہر میں منیرہ نامی ایک نیک وصالح خاتون نے مرنے سے پہلے اپنے زیورات بھائی کے حوالے کئےکہ میری وفات کے بعد ان زیورات کو بیچ کر ایک دکان خرید لیں.پھراس دکان کو کرائے پر چڑھائیں اور آمدن کو محتاجوں پر خرچ کر دیں.
بہن کی وفات کے بعد بھائی نے
وصیت پر عمل کرتے ہوئے انکے زیورات بیچ کر بہن کے نام پر 12ریال میں ایک دکان خرید لی(اس زمانے میں 12 ریال کی بڑی ویلیو تھی) اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔کرائے کی رقم سے محتاجوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر دی جاتی رہی یہ سلسلہ دہائیوں جاری رہا۔ دہائیوں بعد دکان کا ماہانہ کرایہ 15
ہزار ریال تک پہنچ چکا تھا،اور اس رقم سے ضرورت مندوں کیلئے اچھی خاصی چیزیں خرید کر دی جاتی تھیں۔ پھر وہ دن آیا کہ سعودی حکومت نے بریدہ کی جامع مسجد میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دکان توسیع کی زد میں آ رہی تھی۔چنانچہ حکومت نے 5 لاکھ ریال میں یہ دکان خرید لی.
دکان کی دیکھ بھال
خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا.غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ کپڑے نہیں پہنتاتھا۔ ایک بار میرے ابا کو کپڑے کاسوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے۔تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جسکا+
اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای؟
میں نے کہا:”سوایا ہے چاچی“لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں۔لیکن اُنکو اعتبار نہ آیا خالہ،پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا
اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھاکہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کےبعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا۔تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے
جب ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کومیکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا‘جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا‘شاہی خاندان کے 35 مردوخواتین بھی تاجدار ہند کے ساتھ تھے۔
کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا‘
وہ بندر گاہ پہنچا‘اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا،👇
رسید لکھ کردی.دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لیکر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا،
نیلسن پریشان تھا‘
بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھااور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھاکہ وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کوجیل میں پھینک دے۔مگررنگون میں کوئی ایسامقام نہیں تھا👇
جہاں بادشاہ کو رکھاجاسکتا،
وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔
نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا،
نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور ظِلّ سُبحانی کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858کو اس گیراج میں پہچا،
7نومبر 1862 تک چار👇