دوستو۔۔!
بہت زیادہ پروپیگنڈے دیکھ کر آج میں کچھ اہم حقاٸق بتانے پر مجبور ہوا ہوں، شاٸد کوٸی گمراہ راہ راست پر آجاۓ۔کیونکہ یہ وطن جتنا میرا ہےاتنا ہی سب پاکستانیوں کا ہے اور وطن سے محبت سنت رسول ص ہے۔
اس وقت داعش کے سپورٹر +TTP BLA+ANP+ PTM +جمیعت+ اچکزٸی وغیرہ یہ سب اس وقت 1/10
2/10
ایک پیج پر موجود ہیں اور مل کر پاک آرمی کے خلاف منظم پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ان کو ایک سیاسی جماعت ،خونی لبڑلز، بھارت اور دوسری اسلام دشمن طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔واضع رہے کہ افغانستان کا منظرنامہ بدلنے سے مجاہدین برسراقتدار آچکے ہیں جو اس سیٹ اپ کے ماسٹرماٸنڈذ کیلیے ایک بہت
3/10
بڑا دھچکہ ہے۔کیونکہ کالعدم دہشتگرد جماعتیں نے اندھیرے میں رکھ کر مسلمان پاکستانی بھولےنوجوان ورکرز کے دماغوں میں بھر رکھا تھا کہ وہ افغان مجاہدین کے نقش قدم پر ہیں اور پاک آرمی مرتد آرمی ہے اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا افضل ترین عمل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فضل الرحمن کو افغان
4/10
مجاہد منافق کہتےتھے اور افغان مجاہدین کے استاد مولانا سمیع الحق شہید فضل الرحمن کو سخت ناپسند کرتے تھے۔فضل الرحمن ان سے اِتنا بغض رکھتا تھا کہ ان کے جنازے تک میں شریک نہ ہوا تھا۔جبکہ ان کے جنازے میں حافظ سعید سمیت کشمیری مجاہدین اور افغان مجاہدین تک نے شرکت کی تھی۔ اور
5/10
اہم بات یہ ہےکہ یہ پاکستانی مشترکہ ٹولہ اس داعش کے ابوبکر بغدادی کو اپنا امیر تسلیم کرکے اعلان بھی کر چکا تھا جس داعش کو امریکہ نےافغان مجاہدین کے مدمقابل اتارا تو افغان مجاہدین نے ان کے پرخچے اڑا دیے تھے۔اس سے آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ دہشتگرد تنظیمیں کیسے مسلم نوجوانوں سے
6/10
انکے اپنے ہی وطن میں جہاد کی آڑ میں دہشتگردی کرواتی ہیں۔
ان نوجوانوں کو ابھی تک اندھیرے میں رکھا ہوا ہے کہ افغان مجاہدین بھی ہمارے ساتھ ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کیلیے بہت سے پروپیگنڈے کرواتے ہیں جیسےTTP کے سرغنہ مولوی فقیر کو اشرف غنی نے مارچ کے مہینے آزاد کیا تو یہ اسے
7/10
افغان مجاہدین سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسےاور سب دہشتگردوں کو افغان طالبان نے آتے ہی چھوڑ دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت اور بھارتی ایجنسی را کی زیرنگرانی پاکستان میں دہشتگردی کرنےوالوں پر افغان مجاہدین کے ترجمان نے واضع کر دیا ہے کہ افغانستان کی
8/10
سرزمین پاکستان کےخلاف ہرگز استعمال نہیں ہونےدیں گے۔
دوستو۔۔یہ میرےوطن کے تلخ حقاٸق ہیں۔اور یاد رکھنا کہ وطن،اسلام دشمنوں کی طرف سےتیار کردہ ایسی تنظیموں میں شہادت نہیں کتےکی موت مقدر ہوتی ہے۔
اب آخر میں اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ ٹولا آج کل تحریک لبیک میں سراٸیت کرکے انہیں
9/10
بھی اپنے مذموم کاز پر لانے کیلیے اور انہیں اپنے دھڑے میں شامل کرنےکیلیےسرتوڑ کوشش کر رہا ہے لیکن تحریک لبیک کی محب وطن قیادت ابھی تک ان کے چنگل میں نہیں آٸی اور میں یہاں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ تحریک لبیک کے نوجوان ہمیشہ پاکستان اور پاک فوج کا نعرہ لگاتے ہیں۔اگر ان کے سوشل
10/10
میڈیا اکاٶنٹس سے پاکستان یا پاک فوج کے خلاف کوٸی پوسٹ ہوتی ہے تو سمجھ جاٸیں وہ TLP کے بھیس میں دھڑا گروپ والے ہیں۔
اللہ پاکستان اور عالم اسلام کی محافظ پاک فوج کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور عالم اسلام و پاک دھرتی کے دشمنوں کو نیست ونابود کرے آمین
چاچا افلاطون بقلم خود
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
وہ وقت جب بغداد میں اسلامی سلطنت کا زوال ہوا اور ہلاکو خان نے ظلم و بربریت سے بغداد کی پرسکون فضاء کو تباہ و برباد کیا تو علم حاصل کرنے کی غرض سے موجود ایک مسافر نے حالات دیکھ کر شکستہ دلی کے ساتھ وہاں سے کوچ کیا۔ لیکن پھر وہ کسی ایک جگہ کے قیام پر مطمئن نہ ہوسکے اور
(1/15)
(2/15)
اطراف عالم کو دیکھنے کے آرزو مند ہوۓ۔
دوستو۔۔!
آج بات کرتے ہیں اس مشہور زمانہ شخصیت کی جن کی رباعیاں اور حکاٸتیں دنیا بھر میں پڑھی اور پڑھاٸی جاتیں ہیں اور انکی لکھی کتابیں بلاشبہ شاہکار ہیں۔
اس شخصیت کا اسم گرامی شرف الدین تھا لقب مصلح الدین اور سعدی تخلص ہے۔ اور
(3/15)
عام طور پر دنیا انہیں شیخ سعدی رح کے نام سے جانتی ہے۔
آپ ایران کے شہر شیراز میں تقریباً 1184 ع میں عبداللہ شیرازی کے گھر پیدا ہوئے۔
آپ کے والد عبداﷲ شیرازی ملک کے حکمران سعد زنگی کے پاس کام کرتے تھے۔
شیخ سعدی کو بچپن ہی سے ادب اور شعرو شاعری کا شوق تھا اس لیے بچپن
باباجی کے آخری ایام کے کچھ اہم واقعات
14جولائی 1948 کا دن تھا جب باباجی محمد علی جناح کو انکی علالت کےپیش نظر کوئٹہ سےزیارت منتقل کیا گیا تھا
21 جولائی کو جب انہیں زیارت پہنچے ہوئے فقط ایک ہفتہ گزرا تھا،انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اب انہیں صحت کےسلسلے میں زیادہ خطرات
1/25
2/25
مول نہیں لینےچاہییں اور اب انہیں واقعی اچھےطبی مشورے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جوں ہی انہیں اپنے بھائی کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین کے ذریعے کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کو پیغام بھجوایا کہ وہ لاہور کے
3/25
ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں۔
جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا معدہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ان کے سینے اور پھیپھڑوں کے بارے میں صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش
چکوال کے ایک گاٶں میں غلام علی تارڑ کے گھر 1944 میں پیدا ہونے والے بچے کےبارے میں کون جانتا تھا کہ یہ مرد مجاہد شہدا بدر اور شہدا احد کے جانشینوں میں اپنا نام رقم کرواۓ گا اور جاسوسی اور گوریلا وار کی دنیا میں اہل کفر پر اسکا نام ایک خوف کی علامت بن کر رہ جاۓ گا اور وہ
1/20
2/20
تاریخ میں ہمیشہ کرنل امام کے نام سے امر ہوجاۓ گا۔۔۔
آج اسی مرد مجاہد اور افغان وار کے بعد خانہ جنگی کے محرکات پر مختصر بات کریں گے۔۔
سلطان امیر تارڑ نے 1966 ع میں پاکستان فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1994ع میں وہ بریگیڈٸیر کے عہدے پر ریٹاٸرڈ ہوئے۔ مگر اس سروس کے
3/20
دوران انہوں نے عقل کو دنگ کر دینے والے ایسے کام سرانجام دیے جن کی وجہ سے انکا نام اور کام تاریخ میں امر ہوچکا ہے۔۔
ماوراٸی شہرت کے حامل کرنل امام نے سوویت اتحاد کے افغانستان پر قبضہ کے بعد 1980ء میں شروع ہونے والے افغان جہاد میں پاکستان کی آئی ایس آئی کی طرف سے افغانیوں
ایران کی تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہےکہ رستم و سہراب والے ایران کے کھیلوں میں فن پہلوانی کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔
آج آپ سے ایران کے ایک مشہور پہلوان کا زکر کرتے ہیں جسکی ایک تصویر جھوٹے شرم ناک کیپشن کے ساتھ پاکستان میں خوب واٸرل رہی ہے۔ ابراہیم یزدی جو کہ یزدی عظیم کے نام سے 1/11
2/11
جانے جاتے ہیں وہ تقریباً 1786ع میں ایران کے شہر تفت میں پیدا ہوۓ۔
اسے ایران کا ہیرو مانا جاتا ہے۔
قاجار بادشاہ ناصر الدین شاہ کے کہنے پر اسے باقاٸدہ اعزاز کے ساتھ تہران لایا گیا تھا ۔
جب یہ نوعمری میں تھے تو مسلسل ٹانگوں کے درد میں مبتلا رہنے پر ڈاکٹروں کی طرف
3/11
سے کوٸی صحت مندانہ سرگرمی (کھیل ) وغیرہ تجویز کی گٸی، جس پر اس نے کشتی کی طرف رخ کیا اور پھر کچھ ہی وقت میں اس نے اپنے مضبوط ،لچکدار لمبے جسم اور ہمت کی وجہ سے شہر کے تمام پہلوانوں کی کمر زمین پہ رگڑدی۔
اس نوجوان ہیرو کی شہرت تہران پہنچی تو ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ
مسلمانوں کے سنہرے دور کو یاد کرتے ہوۓ افغانستان کے صوبے غزنی کے عہدرفتہ پر بات کرتے ہیں۔
غزنی خراسان کا ایک اہم شہر اور 962ء سے 1187ء تک سلطنت غزنویہ کا دار الحکومت تھا۔
افغانستان کی خانہ جنگی میں کچھ شہر جن کو نقصان نہیں پہنچا ، ان میں سے ایک غزنی بھی ہے کیونکہ یہ شہر شہر 1/17
2/17
اولیا ہے اور تمام افغانوں کے لیے یہ شہر افتخار کا باعث ہے اس وجہ سے یہ خانہ جنگی میں بھی محفوظ رہا
یہ شہر غزنی کے بادشاہوں کے عروج کے زمانے میں دارالخلافہ رہا ہے بالخصوص سلطان محمود غزنوی نے اپنے دور حکومت (997 ع تا 1030 ع) میں اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیےجس کی وجہ سےاسے
3/17
حضرت غزنی کہا جاتا ،اس دور میں یہ شہر قوت و شوکت اور اسلامی عظمت کا بےمثال نمونہ تھاموجودہ غزنی سےشمال مشرق کو پانچ کلومیٹر دور قدیم غزنی کےکھنڈر موجود ہیں۔غزنی شہر کے آثار آج بھی بڑی اچھی شکل میں موجود ہیں جس طرح لاہور کا شاہی قلعہ اچھی شکل میں موجود ہےاسی طرح غزنی کا قلعہ
دل شہر تحیر ہے کہ وہ مملکت آرا
کیا سلطنت بلخ و سمرقند بخارا
افغانستان کے ولولہ انگیز تاریخی شہر بلخ کو دنیا بھر میں اہمیت حاصل رہی ہے۔
آج اس شہر کی تاریخ اور اہمیت پر تھوڑی بات کرتے ہیں۔
تقریباً چار ہزار سال سے بلخ شہر کی بدولت افغانستان کو ایشیا میں سیاسی، معاشی، مذہبی اور 1/10
2/10
سماجی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔
بلخ کے تاریخی تجارتی راستے کی وجہ سے یہاں خانہ بدوشوں، جنگجوؤں اور مہاجرین کا آنا جانا رہا ہے۔
اور یہ لوگ جاتے ہوئے کئی راز یہیں چھوڑ گئے جو اب سامنے آ رہے ہیں۔
آج ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہزاروں سال تک ایک چوتھائی دنیا میں خوشحالی
3/10
اور فلسفہ پھیلانے میں افغانستان کا بہت اہم کردار ہے۔ باختر کے میدانی علاقے افغانستان کی خفیہ تاریخ کا مجموعہ ہیں۔یہیں سکندرِ اعظم کی فوج نے پیش قدمی کی، بلخ کے بادشاہ کو قتل کیا اور اس کی خوبصورت بیٹی سے شادی کی۔ اس کے تقریباً پندرہ سو سال بعد چنگیز خان نے اس علاقے کو