"رکوع" یہ لفظ پورے قرآن میں کسی بھی آیت میں استعمال نہیں ہوا جبکہ فرقہ پرست نمازی نماز میں گوڈوں پر ہاتھ رکھ کر کوڈے ہونے کو رکوع کہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ھے
(1) اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا
حقیقتا تم سب کا والی وارث (وَلِيُّكُمُ) اللہ ہے اور اپنے پیغام دینے والا (وَرَسُوۡلُهٗ) کا بھی اور
وہ لوگ جو ایمان والے ہیں انکا بھی۔
(2) الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ
جنھوں نے الصلاۃ Establish کی یعنی قرآنی قوانین کی پیروی کا نظام قائم کیا۔
(3) وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ
اور جو ایتائے زکوٰۃ کرتے ہیں یعنی بنی نوع انسان کو سامان نشوونما بہم پہنچاتے ہیں
آیت کے آخر میں (وَهُمۡ رَاكِعُوۡنَ) کہہ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو درج بالا کام انجام دیتے ہیں وھی رَاكِعُوۡنَ یعنی قرآن کو عملی طور پر تسلیم کرنے والے ہیں صرف انکا والی وارث اللہ ہے۔
درج بالا آیت مبارکہ کے مطابق "رکع" صلوة کا حصہ ھے ھی نہیں۔ اب گوڈوں پر ہاتھ رکھ کر
پانچ وقت کوڈے ہونے والے خیر منائیں کیوں کہ رکع ایسے ھی ہونا ہے جیسے درج بالا آیت مبارکہ بتایا گیا ہے۔
آگے چل کر "ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ" کی انتہائی واضح اور سادہ الفاظ میں وضاحت سورۃ المرسلات کی آیت 47 تا 49 میں لِّلْمُكَذِّبِيْنَ یعنی
عملی طور پر جھٹلانے والوں کے مدمقابل لا کر کی گئی ھے یعنی اسکے معنی عملی طور پر فرمانبرداری کے ہیں۔
فَبِاَيِّ حَدِيْثٍ بَعْدَهٝ يُؤْمِنُـوْنَ (5/50)
پس اس کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب اختیار (قرآنی حکومت کے افسران) ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں تنازعہ ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر
یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے
آپ خود سوچیں جب علماء ایک واؤ پر صرف اپنی دوکانداری کےلئے اڑے ہیں وہاں روشنی کیسے طلوع ہو ؟
جبکہ آسان سی بات ہے کہ رسول کریم سینکڑوں سال پہلے وفات پا گئے تو اتھارٹی وھی رہے گی جس کو
"اے نبی [قیادت کا بلند منصب رکھنے والے]، جب تم اپنی عوام کے ایک حصے کو الحاق کے معاہدے یا ماتحتی سے آزاد کرتے ہو [طلقتُم النساء] تو یہ ضروری ہے کہ تم اس ضمن میں ان کی تیاری کے لیے ایک مقررہ مدت کا تعین کردیا کرو [لعدّتِھِنّ] اور
پھر اس مدت کے شمار کا خاص خیال رکھا کرو اور اس تمام کاروائی کے دوران اپنے پروردگار کے احکامات کی پرہیز گاری کرتے رہو۔ اس دوران اُن کے مراکز اور اداروں سے [من بیوتِھنّ] ان کا اخراج نہ کرو اور نہ ہی وہ خود ایسا کریں صرف اس صورت میں کہ وہ مرکز کے خلاف کسی
کھلی حدود فراموشی کے مرتکب ہو جائیں [بفاحشۃ مبینۃ] کیونکہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں تو جو بھی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو گویا اس نے اپنی ذات کے ساتھ ظلم کیا۔ تمہیں کیا علم کہ بعد ازاں اللہ تعالی اپنی مشیت سے کوئی نئی صورتِ حال سامنے لے آئے [یحدِثُ] [1]۔ فلھٰذا جب معینہ
مَّا يُقَالُ لَكَ۔۔۔۔ اَلِـيْمٍ (41/43)
آپ سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ھے
شَرَعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُّنِيْبُ (42/13)
"اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ
قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں تفرقہ نہ ڈالنا یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انہیں دعوت دے رہے ہو جو چاہتا ہے اللہ اسے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے"
تاریخ پر میرا ایمان نہیں ھے اور جو لوگ تاریخ پر ایمان رکھتے ھیں وہ تاریخ کو بھی نہیں مانتے۔ اس کی کیا وجہ ھے ؟
نمبر 1. علی ابن ابی طالب پہلے تینوں خلفاء کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ھیں ان تینوں خلفاء کی خلافت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔جو شخص ان تینوں خلفاء پر دشنام طرازی کرتا ھے ان کی
برائی کرتا ھے وہ درحقیقت علی ابن ابی طالب کو برا کہتا ھے کیونکہ انہوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کی مجلس شوری کے رکن تھے۔
نمبر 2. تاریخ کے مطابق علی ابن ابی طالب پہلے حکمران تھے جنہوں نے اپنے بیٹے حسن کو خلیفہ بنا کر خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا ان کا کوئی نام نہیں لیتا
اور پوری تاریخ میں معاویہ بن ابو سفیان کو ملوکیت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ھے حالانکہ علی اس سے پہلے حسن کو خلیفہ بنا کر ملوکیت کی سنت جاری کر چکے تھے اور حسن نے ملوکیت سنبھالتے ھی اس شرط پہ معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ کوفہ کا خزانہ اور دارالجبرو کا خراج اسے دیا جاتا رھے گا۔
اور جو میرے ذکر یعنی قرآن سے منہ پھیرے گا تو اس کی معیشت بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْـرًا (20/125)
کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں بینا تھا۔
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى (20/126)
فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تو بھی بھلایا گیا ہے۔