اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب اختیار (قرآنی حکومت کے افسران) ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں تنازعہ ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر
یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے
آپ خود سوچیں جب علماء ایک واؤ پر صرف اپنی دوکانداری کےلئے اڑے ہیں وہاں روشنی کیسے طلوع ہو ؟
جبکہ آسان سی بات ہے کہ رسول کریم سینکڑوں سال پہلے وفات پا گئے تو اتھارٹی وھی رہے گی جس کو
رسول کریم نے اتھارٹی مانا (سورۃ یونس آیت 15) اور ہر تنازع میں اسی کی طرف لوٹنے کا حکم ہے تو پھر کسی اور کتاب کی گنجائش کیسے باقی رہتی ہے لیکن نہیں مولویوں مفتیوں اور ذاکروں کی ساری دشمنی صرف قرآن سے ہے اسے ماننے کے بعد ساری جاہ و حشمت سارا کاروبار ٹھپ ہوتا ہے تو
علماء کیسے لوگوں کو اس کی طرف راغب کرلیں۔
اصل میں آخرت پر یقین کا اصل جزو ایمان ہے یعنی رب العالمین کےسامنے جوابدہی مگر سارے یہاں زبانی دعوے دار ہیں اگر حقیقت میں ایمان رکھتے تو کسی کی جرات نہیں تھی کہ قرآن مجید سے اختلاف کرتا چہ جائیکہ تراجم کرپٹ ہر دئیے اور اسے سند دینے کے لیے
جھوٹی باتیں وضع کرکے انہیں رسول اللہ اور آئمہ سے منسوب کر دیا۔ یہاں آخرت کا صرف ڈھونگ رچایا جاتا ہے میزان عدل پل صراط وغیرہ کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ حوروں کے جسمانی خدوخال چسکے لے لے کر بیان کرنے والوں کو بھی اگر ان کا یقین ہوتا تو موت کی چاہ کرتے یہودی سٹنٹ نہ ڈلواتے۔
مروجہ اسلام صرف زبانی جمع خرچ ہے جس کی آڑ میں عام آدمی ذلیل اور مذہبی و حکومتی اشرافیہ عزت مآب ہے۔
بس یہی ساری کہانی ہے
رہی بات حکمرانوں کی پیروی اور غلامی کی تو منکم ساری بات صاف کر دیتا ہے مومنین میں سے تو جب امیرالمومنین حاکم وقت ہو تو اطاعت جائز ہو گی کہ
اس کے فیصلے کبھی قرآن مجید کے قوانین سے ہٹ کر نہیں ہو سکتے یہی قرآن مجید کی سچائی ہے مگر باپ دادا کے بنائے دائروں اور خود پہ طاری مذہبیت کے خول سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور سب سے مشکل دیوار عقیدوں اور عقیدتوں کی ہے جسے پار کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"اے نبی [قیادت کا بلند منصب رکھنے والے]، جب تم اپنی عوام کے ایک حصے کو الحاق کے معاہدے یا ماتحتی سے آزاد کرتے ہو [طلقتُم النساء] تو یہ ضروری ہے کہ تم اس ضمن میں ان کی تیاری کے لیے ایک مقررہ مدت کا تعین کردیا کرو [لعدّتِھِنّ] اور
پھر اس مدت کے شمار کا خاص خیال رکھا کرو اور اس تمام کاروائی کے دوران اپنے پروردگار کے احکامات کی پرہیز گاری کرتے رہو۔ اس دوران اُن کے مراکز اور اداروں سے [من بیوتِھنّ] ان کا اخراج نہ کرو اور نہ ہی وہ خود ایسا کریں صرف اس صورت میں کہ وہ مرکز کے خلاف کسی
کھلی حدود فراموشی کے مرتکب ہو جائیں [بفاحشۃ مبینۃ] کیونکہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں تو جو بھی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو گویا اس نے اپنی ذات کے ساتھ ظلم کیا۔ تمہیں کیا علم کہ بعد ازاں اللہ تعالی اپنی مشیت سے کوئی نئی صورتِ حال سامنے لے آئے [یحدِثُ] [1]۔ فلھٰذا جب معینہ
"رکوع" یہ لفظ پورے قرآن میں کسی بھی آیت میں استعمال نہیں ہوا جبکہ فرقہ پرست نمازی نماز میں گوڈوں پر ہاتھ رکھ کر کوڈے ہونے کو رکوع کہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ھے
(1) اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا
حقیقتا تم سب کا والی وارث (وَلِيُّكُمُ) اللہ ہے اور اپنے پیغام دینے والا (وَرَسُوۡلُهٗ) کا بھی اور
وہ لوگ جو ایمان والے ہیں انکا بھی۔
(2) الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ
جنھوں نے الصلاۃ Establish کی یعنی قرآنی قوانین کی پیروی کا نظام قائم کیا۔
(3) وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ
اور جو ایتائے زکوٰۃ کرتے ہیں یعنی بنی نوع انسان کو سامان نشوونما بہم پہنچاتے ہیں
مَّا يُقَالُ لَكَ۔۔۔۔ اَلِـيْمٍ (41/43)
آپ سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ھے
شَرَعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُّنِيْبُ (42/13)
"اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ
قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں تفرقہ نہ ڈالنا یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انہیں دعوت دے رہے ہو جو چاہتا ہے اللہ اسے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے"
تاریخ پر میرا ایمان نہیں ھے اور جو لوگ تاریخ پر ایمان رکھتے ھیں وہ تاریخ کو بھی نہیں مانتے۔ اس کی کیا وجہ ھے ؟
نمبر 1. علی ابن ابی طالب پہلے تینوں خلفاء کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ھیں ان تینوں خلفاء کی خلافت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔جو شخص ان تینوں خلفاء پر دشنام طرازی کرتا ھے ان کی
برائی کرتا ھے وہ درحقیقت علی ابن ابی طالب کو برا کہتا ھے کیونکہ انہوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کی مجلس شوری کے رکن تھے۔
نمبر 2. تاریخ کے مطابق علی ابن ابی طالب پہلے حکمران تھے جنہوں نے اپنے بیٹے حسن کو خلیفہ بنا کر خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا ان کا کوئی نام نہیں لیتا
اور پوری تاریخ میں معاویہ بن ابو سفیان کو ملوکیت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ھے حالانکہ علی اس سے پہلے حسن کو خلیفہ بنا کر ملوکیت کی سنت جاری کر چکے تھے اور حسن نے ملوکیت سنبھالتے ھی اس شرط پہ معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ کوفہ کا خزانہ اور دارالجبرو کا خراج اسے دیا جاتا رھے گا۔
اور جو میرے ذکر یعنی قرآن سے منہ پھیرے گا تو اس کی معیشت بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْـرًا (20/125)
کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں بینا تھا۔
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى (20/126)
فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تو بھی بھلایا گیا ہے۔