"اے نبی [قیادت کا بلند منصب رکھنے والے]، جب تم اپنی عوام کے ایک حصے کو الحاق کے معاہدے یا ماتحتی سے آزاد کرتے ہو [طلقتُم النساء] تو یہ ضروری ہے کہ تم اس ضمن میں ان کی تیاری کے لیے ایک مقررہ مدت کا تعین کردیا کرو [لعدّتِھِنّ] اور
پھر اس مدت کے شمار کا خاص خیال رکھا کرو اور اس تمام کاروائی کے دوران اپنے پروردگار کے احکامات کی پرہیز گاری کرتے رہو۔ اس دوران اُن کے مراکز اور اداروں سے [من بیوتِھنّ] ان کا اخراج نہ کرو اور نہ ہی وہ خود ایسا کریں صرف اس صورت میں کہ وہ مرکز کے خلاف کسی
کھلی حدود فراموشی کے مرتکب ہو جائیں [بفاحشۃ مبینۃ] کیونکہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں تو جو بھی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو گویا اس نے اپنی ذات کے ساتھ ظلم کیا۔ تمہیں کیا علم کہ بعد ازاں اللہ تعالی اپنی مشیت سے کوئی نئی صورتِ حال سامنے لے آئے [یحدِثُ] [1]۔ فلھٰذا جب معینہ
وقت آ جائے تو یا تو انہیں باعزت طریقے سے اپنے ساتھ جوڑ لو یا باعزت انداز میں علیحدگی دے دو اور اس عمل پر تم میں سے دو منصفین کی گواہی بھی لے لو جویہ گواہی اللہ کے قانون کے مطابق درج کریں۔ یہ نصیحت/ہدایت اُن کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر اور حیاتِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں
کیونکہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے قوانین کا خوف رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکل صورتِ حال سے باہر نکلنے کا سبب پیدا کر دیتا ہے [2]۔ اور وہ اس قدر سامانِ زیست عطا کر دیتا ہے جس کا حساب نہ کیا جا سکے۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اس کے لیے وہ ذاتِ پاک کارساز ہوتا ہے۔
درحقیقت اللہ اپنی منشاء کی تکمیل کیا کرتا ہے اور اللہ نے ہر چیز یا صورتِ حال کے لیے قاعدہ قانون مقرر کر رکھا ہے[3]۔ مزید برآں تمہارے انہی عوام میں سے جو جماعتیں اُس جاری خون ریزی کی وجہ سے [من المحیض] نقصان سےدوچار ہوئی ہوں [یئسن] اور تم ان کیلیے سوچ بچار میں مصروف ہو [ارتبتُم]
تو ان کی اصلاحِ احوال کے لیے انہیں [فعدّتُھُنّ] تین ماہ کا عرصہ دینا ضروری ہے۔ اور انہیں بھی جنہوں نے خون ریزی کا سامنا نہیں کیا۔ اور وہ جماعتیں جن پر کچھ ذمہ داریاں پوری کرنے کا بوجھ ہو [اولاتُ الاحمال]، تو ان کے لیے علیحدہ ہوجانے کے وقت کا تعین ان کی ذمہ داریوں کے ادا ہوجانے
کے وقت کے مطابق ہوگا۔ جو بھی اللہ کے قوانین کی پرہیزگاری کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی مشیت سے آسانیاں پیدا کر دے گا [4]۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اُس ذاتِ پاک نے تمہاری طرف جاری کیا ہے، اور جو بھی اللہ کے احکام کی پرہیز گاری کرے گا تو وہ اس کی ذات پر سے بداعمالیوں کے
اثرات کو دور کر دے گا اور اُس کے اجر کو بڑھا دے گا [5]۔ علیحدہ کیے جانے والی جماعتوں کو اپنے وسائل کی مدد سے اُسی طرح آباد کرو جیسے کہ تم خود آباد ہو اور انہیں نقصان پہنچا کر ان کی زندگیوں کو ضیق میں مت ڈالو۔ نیز اگر وہ بوجھ اور ذمہ داریوں کے نیچے دبی ہوں تو انہیں وسائل مہیا
کرو تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔ پھر اگر وہ تمہارے لیے کچھ وسائلِ زیست مہیا کرتی ہوں [ان ارضعن لکم] تو اس کا انہیں پورا معاوضہ ادا کرو۔ اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں آپس میں مختلف امور میں مشاورت کرتے رہو [واتمِرُوا] تاکہ اگر تم مشکلات اور
کمیابی کا سامنا کرو [ان تعاسرتُم] توتم میں سےایک دوسرے کو وسائل مہیا کرسکے [فستُرضع لہ اُخریٰ] [6] اس لیے کہ خوشحال پارٹی کو اپنی فراوانی میں سے خرچ کرنا چاہیئے اور جسے اُس کا رزق محدود پیمانے پر دیا گیا ہے [قُدِر علیہ رزقُہُ] وہ اسی کے مطابق خرچ کرے جو اسے اللہ نے دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کسی کو اس سےزیادہ مکلف نہیں کرتا جتنا کہ اس نے اُسے دیا ہوتا ہے۔ یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد فراوانی ضرور عطا کر دے گا [7]۔ اور ایسی کتنی ہی بستیاں/کمیونیٹیز تھیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی، توہم ان کا شدید محاسبہ کیا اور
انہیں سخت عذاب کے ساتھ سزا دی [8]۔ پس انہوں نے اپنی کرتوت کا مزا چکھا اور اُنکا آخری انجام خسارا ہی تھا [9]۔ اللہ نے اُن کے لیے سخت سزائیں تیار کر رکھی ہیں۔ فلھٰذا اللہ کے احکام کی پرہیز گاری کرو اےعقل والو جو کہ صاحبِ ایمان ہو۔ اللہ تمہاری جانب نصیحت و ہدایت جاری کر چکا ہے [10]
ایک ایسے رسول کے ذریعے جو تمہیں مفصل اور واضح کلام پڑھ کر سناتاہے تاکہ ایمان والوں اور اصلاحی کام کرنے والوں کو اندھیروں سےنکال کر روشنی میں لے آئے۔ پس جو بھی اللہ پر ایمان لے آئیگا اور اصلاحی کام کرے گا، وہ امن و عافیت کی ایسی زندگی [جنّات] میں داخل کر دیا جائیگا جس کے
تحت ہر قسم کی فراوانیاں رواں دواں ہوں گی [الانھار] اور جہاں وہ سب ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے خوبصورت سامانِ زیست تیار کیا ہے [11]۔ اللہ وہ ہے جس نے بے شمار خلائی کرے تخلیق کیے ہیں اور اسی طرح زمین کی مانند بہت سے سیارے بھی جن کے درمیان احکام صادر ہوتے ہیں تاکہ
تم سب یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے پیمانے/کلیے/قاعدے بنا دیے ہیں، اور بیشک اللہ نے علم [یعنی سائنس] کے قواعد کی رُو سے [عِلما"] ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے [12]۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب اختیار (قرآنی حکومت کے افسران) ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں تنازعہ ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر
یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے
آپ خود سوچیں جب علماء ایک واؤ پر صرف اپنی دوکانداری کےلئے اڑے ہیں وہاں روشنی کیسے طلوع ہو ؟
جبکہ آسان سی بات ہے کہ رسول کریم سینکڑوں سال پہلے وفات پا گئے تو اتھارٹی وھی رہے گی جس کو
"رکوع" یہ لفظ پورے قرآن میں کسی بھی آیت میں استعمال نہیں ہوا جبکہ فرقہ پرست نمازی نماز میں گوڈوں پر ہاتھ رکھ کر کوڈے ہونے کو رکوع کہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ھے
(1) اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا
حقیقتا تم سب کا والی وارث (وَلِيُّكُمُ) اللہ ہے اور اپنے پیغام دینے والا (وَرَسُوۡلُهٗ) کا بھی اور
وہ لوگ جو ایمان والے ہیں انکا بھی۔
(2) الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ
جنھوں نے الصلاۃ Establish کی یعنی قرآنی قوانین کی پیروی کا نظام قائم کیا۔
(3) وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ
اور جو ایتائے زکوٰۃ کرتے ہیں یعنی بنی نوع انسان کو سامان نشوونما بہم پہنچاتے ہیں
مَّا يُقَالُ لَكَ۔۔۔۔ اَلِـيْمٍ (41/43)
آپ سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ھے
شَرَعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُّنِيْبُ (42/13)
"اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ
قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں تفرقہ نہ ڈالنا یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انہیں دعوت دے رہے ہو جو چاہتا ہے اللہ اسے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے"
تاریخ پر میرا ایمان نہیں ھے اور جو لوگ تاریخ پر ایمان رکھتے ھیں وہ تاریخ کو بھی نہیں مانتے۔ اس کی کیا وجہ ھے ؟
نمبر 1. علی ابن ابی طالب پہلے تینوں خلفاء کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ھیں ان تینوں خلفاء کی خلافت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔جو شخص ان تینوں خلفاء پر دشنام طرازی کرتا ھے ان کی
برائی کرتا ھے وہ درحقیقت علی ابن ابی طالب کو برا کہتا ھے کیونکہ انہوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کی مجلس شوری کے رکن تھے۔
نمبر 2. تاریخ کے مطابق علی ابن ابی طالب پہلے حکمران تھے جنہوں نے اپنے بیٹے حسن کو خلیفہ بنا کر خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا ان کا کوئی نام نہیں لیتا
اور پوری تاریخ میں معاویہ بن ابو سفیان کو ملوکیت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ھے حالانکہ علی اس سے پہلے حسن کو خلیفہ بنا کر ملوکیت کی سنت جاری کر چکے تھے اور حسن نے ملوکیت سنبھالتے ھی اس شرط پہ معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ کوفہ کا خزانہ اور دارالجبرو کا خراج اسے دیا جاتا رھے گا۔
اور جو میرے ذکر یعنی قرآن سے منہ پھیرے گا تو اس کی معیشت بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ اَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْـرًا (20/125)
کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں بینا تھا۔
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتْكَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى (20/126)
فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تو بھی بھلایا گیا ہے۔