پنجاب کے %70 خاندانوں کو 725,000 روپے سالانہ مالیت کا ہیلتھ کارڈ جاری کیا جا چکا ہے جس کے طفیل وہ کسی بھی سرکاری یا نجی ہسپتال میں علاج معالجے کی سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں
مزید ایک سال میں یہ کارڈ پنجاب کے %100 خاندانوں تک پہنچ چکا ہو گا
تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے پہلے ہی تین سالوں میں راجن پور، لیّہ، اٹک، بہاولنگر اور سیالکوٹ میں پانچ نئے مدر اینڈ چائلڈ کیئر ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا، لاھور کے 5 بڑے ہسپتالوں کی upgradation اور توسیع سمیت renovation پر بھی کام جاری ہے
عثمان بزدار کے پہلے 3 سال میں شعبہ تعلیم کیلیے 442 ارب روپے مختص کیے گئے، 21 یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جن میں سے 6 یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں اور باقی 15 یونیورسٹیوں میں بھی ان شاء اللہ 2023 تک درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہو گا
جو 6 یونیورسٹیاں قائم کی جا چکی ہیں ان میں وومن یونیورسٹی راولپنڈی، کوہسار یونیورسٹی مری، بابا گرونانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب، ایمرسن کالج یونیورسٹی ملتان، چکوال یونیورسٹی اور میانوالی یونیورسٹی شامل ہے
عثمان بزدار کے پہلے 3 سالہ دور میں پنجاب میں 86 نئے کالج بنائے گئے ہیں جن کے علاوہ 76 مزید نئے کالج اس وقت زیر تعمیر ہیں اور ان پر انتہائی تیزی سے کام جاری ہے
ان 3 سالوں میں پنجاب کے 27,000 سے زیادہ سکولوں کو اپ گریڈ کیا گیا، پرائمری سکولوں کو ایلیمنٹری، ایلیمنٹری کو ہائی اور ہائی سکولوں کو ہائیر سیکنڈری سکول بنایا گیا جن میں سے %40 سکول صرف جنوبی پنجاب کے ہیں
محکمہ مال نے ماضی کے حکمران خاندانوں اور ان کے زیر سایہ پلنے والے MNAs اور MPAs سمیت دیگر قبضہ مافیاؤں سے 186,000 ایکڑ سے زیادہ زمینوں کے 50-50 سال پرانے قبضے بھی چھڑوائے جن کی مالیت 462 ارب روپے سے بھی زیادہ ہے
پنجاب میں 2018 تک صرف 25 اراضی ریکارڈ سینٹر تھے جن میں 60 نئے اراضی ریکارڈ سینٹروں کا اضافہ کیا گیا اور 20 نئے موبائل اراضی ریکارڈ سینٹروں کو بھی پہلی بار عثمان بزدار کی اس 3 سالہ حکومت میں ہی متعارف کروایا گیا
نوازشریف اور آصف زرداری کے دس سالہ دورِ اقتدار میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کبھی 14 ارب ڈالر تک بھی نہیں پہنچی تھیں لیکن آج 2021 میں ٹیکسٹائل کی وہی برآمدات 15.4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور اس میں الحمد للہ روز بروز اضافہ ہو رہا ہے
انفرمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں 2018 تک ہماری برآمدات صرف 1.06 ارب ڈالر تھیں جو آج 2021 میں الحمد للہ 2.12 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور ان میں بھی مسلسل اضافے کا رحجان ہے
#کابل دھماکوں کے بعد #امریکہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کے #پاکستان سے انخلا میں مدد مانگتے ہوئے تقریباً 4000 افغانیوں کو 3 ہفتوں کے لیے پاکستان میں رکھنے کی بھیک مانگی ہے جس کے بعد امریکہ انہیں یہاں سے لے جانے کا پابند ہے، جہاں بھی لے جائے یہ اس کا اپنا سر درد ہے
پاکستان نے انہیں صرف 30 دن کے ویزے پر کراچی، لاھور اور راولپنڈی اسلام آباد کے کچھ ہاسٹلوں اور ہوٹلوں کی حدود میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، انہیں ماضی کی طرح پاکستان میں آزاد نہیں چھوڑا جائے گا
یہ امریکہ پر پاکستان کا ایک اور احسان ہے اور وقت کی مناسبت سے یہی بہترین اقدام ہے
2/2
اگر امریکہ نے لے جانے سے انکار کر دیا تو ویزا کی مدت ختم ہوتے ہی انہیں طورخم بارڈر سے افغانستان میں واپس دھکا دینے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی
کیا گیا تھا جس کا پاکستان میں کوئی کانسیپٹ نہیں تھا اور میں اُس پروگرام میں اس وقت شامل ہوا تھا جب اس کے صرف آئیڈیا پر کام ہو رہا تھا
آئیڈیا کو فائنل کرنے کے بعد ہم نے انتھک محنت کر کے لاھور کے ہر ایک کلومیٹر کی حدود میں تقریباً ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی ہر اچھی دکان کو
2/10
منتخب کیا اور ان سے بارگیننگ کی کہ اگر ہم آپ کی بلامعاوضہ مشہوری کریں اور ہمارے لاھور میں موجود کم سے کم ایک لاکھ ممبران آپ کے علاقے میں باقی تمام دکانوں کو چھوڑ کے صرف آپ کے پاس آئیں تو آپ انہیں (بغیر بارگیننگ کیے) تیار بل میں کیا رعایت دیں گے؟ آپ حیران ہوں گےکہ پیٹرول پمپ
#قاضی_فائز_عیسیٰ کو امید تھی کہ وہ اپنی حامی بار کونسلوں کی مدد سے دباؤ ڈال کے سپریم کورٹ کی 17 میں سے خالی 3 اسامیوں پر اپنے حمایت یافتہ جج صاحبان لانے میں کامیاب ہو جائے گا جس کے بعد اس کے اثاثوں کی بابت حکومتی درخواست پر اگر سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مشتمل
بنچ بھی بنا تو وہاں اسہی کا پلڑا بھاری رہے گا اور اکثریتی فیصلے سے حکومتی ریویو پٹیشن خارج ہو جائے گی، مگر جب قاضی فائز عیسیٰ اپنے تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود اپنے حامی جج صاحبان کی تقرریاں کروانے میں ناکام رہا تو اسے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں اپنی برطرفی دیوار پر
2/4
لکھی نظر آنے لگی اور اس کے چیف جسٹس بننے کے خواب بھی چکناچور ہوگئے جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف ہونے کی بجائے سیاسی شہید بننے کے لیے پوری پلاننگ کے ساتھ اسد طور اور قیوم صدیقی وغیرہ سے پٹیشن منگوائی اور اس پر ازخود نوٹس
3/4
🔸58 روپے کلو بیچی جانے والی چینی کاشتکار سے اس کی فصل آدھی قیمت پر چھین کے بنائی جاتی تھی اور وہ آدھی قیمت بھی صرف اثرورسوخ والے کاشتکاروں کو ہی یک مشت اور پوری ملتی تھی جبکہ 58 روپے والی چینی بھی ہر سال مارکیٹ سے غائب ہوتی اور 140 روپے کلو تک بھی بکا کرتی تھی؟
2/6
🔸شوگر ملیں ٹیکس بچانے کے لیے اپنی پروڈکشن ہی نہیں دکھاتی تھیں اور جو آٹے میں نمک برابر ٹیکس دیتی تھیں اس سے کہیں زیادہ رقوم حکومت سے سبسڈی کی شکل میں لیتی تھیں اور ان کے بچائے ہوئے ٹیکسوں سمیت انہیں ادا کی ہوئی سبسڈی کی رقوم بھی ہماری ہی جیبوں سے نکالی جاتی تھیں؟
3/6
کہاں ہیں جو پوچھا کرتے تھے کہ عمران خان کی حکومت نے شوگر مافیا کے خلاف کیا کر لیا؟
لو دیکھ لو، عمران خان کی حکومت نے پاکستان کے سب سے بڑے شوگر مافیا کو 44 ارب روپے کا جرمانہ کر کے دکھا دیا، اب اس مافیا کی ایسی کی تیسی کہ یہ چینی کا بحران پیدا کرنے کیلیے کرشنگ روکنے کی جرأت کرے👏
امریکہ بننے کی کوشش کرو گے تو #AbsolutelyNot سننے کو ملے گا
جب سے شوگر ملیں کسانوں سے پوری قیمت پر گنا خرید کے چینی بنا رہی ہیں تب سے وہ چینی شوگر ملوں میں 84 روپے کلو تیار ہو رہی ہے، اس پر معاملہ عدالت میں بھی ہے، دیکھتے ہیں کہ عدالتیں 85 سے 100 روپے کے درمیان اس قیمت کو کہاں مقرر کرتی ہے؟