سیف الرحمن جن کی بیٹی کے ساتھ مریم کے بیٹے جنید صفدر کی شادی ہوئی ہے وہ کبھی چوبرجی لاہور میں زم زم کے نام سے ایک چھوٹا سا میڈیکل سٹور چلایا کرتا تھا جس طرح اسحاق ڈار نوازشریف کے لیے منی لانڈرنگ کرکے ویسپا سکوٹر سے سیدھا مرسڈیز پر پہنچا تھا بالکل اسی طرح یہ صاحب بھی نوازشریف کی
کرپشن میں فرنٹ مین کے طور پر کار ہائے نمایا سر انجام دیکر ککھ پتی سے ارب پتی بنا پاکستان کے قطر کے ساتھ نوازشریف کی حکومت میں کیے گئے معاہدے کچھ اس طرح ہیں کہ 2028 تک پاکستان کا ہر شہری جو بھی گیس استعمال کرے گا اس کی قیمت کا آٹھ دس فیصد نوازشریف کے بچوں کو پہنچے گا جو کہ اربوں
روپے سالانہ بنتے ہیں سیف الرحمن کی ریڈکو کمپنی کی یہی ذمہ داری ہے کہ اس کرپشن کے مال میں سے اپنا حصہ وصول کرکے باقی حسن و حسین نواز مریم نواز اور اسماء نواز کے خفیہ اکاؤنٹس میں منتقل کرنا ان صاحب کو نوازشریف نے 1997 میں سینٹر بھی بنایا تھا اور حزب مخالف کو تُن کر رکھنے کے لیے ایک
احتساب کمیشن بھی بنایا تھا جس کا چئرمین یہی فرنٹ مین سیف الرحمن تھا جب نوازشریف کی حکومت ختم ہوئی تو یہ بھی پکڑا گیا حامد میر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک روز راولپنڈی کی احتساب عدالت میں جیل سے پیشی پر آیا ہوا آصف علی زرداری بیٹھا ہوا تھا کہ سیف الرحمن بھی وہاں آیا تو اسے بھی
ہتھکڑی لگی ہوئی تھی وہ آتے ہی آصف زرداری کے قدموں میں گر کر معافیاں مانگنے لگا کہ موصوف جب احتساب کمیشن کے چئیرمین تھے تب اس کے حکم پر زرداری پر لانڈھی جیل میں بدترین تشدد کیا گیا تھا اور بلیڈ کے ساتھ اس کی زبان پر کٹ بھی لگائے گئے تھے بس اس کی تلافی کے لیے زرداری کے قدموں میں
گر کر معافیاں مانگتا رہا پھر پلی بار گین کے ذریعہ ایک بڑی رقم ادا کرکے سیف الرحمن جیل سے رہا ہوا اور نوازشریف کی حکومت آتے ہی دوبارہ پھر سے فرنٹ مینی والے دھندے پر لگ گیا کبھی آپ غور سے دیکھنا اسحاق ڈار اور سیف الرحمن جب بھی صحافیوں سے باتیں کرتے ہیں تو کبھی بھی آنکھ ملا کر نہیں
کرتے ہمیشہ آنکھیں چرا کر ہی بات کرتے ہیں یہ دونوں بڑے قومی چور
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
طاہرہ اشرف نامی ایک خاتون نرس جس کا تعلق میاں چنوں کے ایک نواحی گاؤں سے ہے اسلام آباد کے ایک سرکاری ہسپتال میں آٹھویں گریڈ کی ملازمہ تھی جس کا محمد اشرف نامی شوہر بھی اسلام آباد میونسپلٹی میں گریڈ دس کا سرکاری ملازم تھا نوازشریف جب پہلی مرتبہ 1990 وزیراعظم بنا تو اس نرس کو
وزیراعظم ہاؤس میں نوازشریف کی والدہ کی تیمارداری کے لیے دو ماہ کے لیے عارضی ڈیوٹی پر تعین کیا گیا جاذب نظر اور خوبرو جسمانی ساخت کی مالکہ اس نرس پر رنگین مزاج نوازشریف کی جب نظر پڑی تو پھر اس دو ماہ کی عارضی تعیناتی کو وزیراعظم ہاؤس میں نرس کی نئی آسامی پیدا کرکے مستقبل طور پر
نا صرف تعین کر دیا گیا بلکہ اس کو گریڈ اٹھارہ کی بجائے گریڈ سترہ پر پروموٹ بھی کر دیا گیا نوازشریف کے ساتھ اس چالیس سالہ نرس کا تعلق اس قدر گہرا ہوتا چلا گیا کہ وزیراعظم ہاؤس میں دن رات کی مصروفیات میں اس طرح کھو کر رہ گئی کہ اس کا گریڈ دس کا ملازم شوہر کئی کئی ہفتے اپنی بیوی کا
جنوری 2016 چارسدہ یونیورسٹی میں ایک بیہمانہ دہشت گردی کے نتیجہ میں بیس سے زائید معصوم پاکستانی طلباء کی جانیں ضائع ہو گئیں اور درجنوں زخمی ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں سوگ اور غم کی لہر پھیل گئی وزیراعظم نوازشریف اس وقت ڈیوس میں سرکاری دورے پر تھے توقع یہی کی جارہی تھی کہ وہ 1/1
وہ اپنا دورہ مختصر کرکے جلد از جلد وطن واپس پہنچ جائیں گے مگر اس وقت سب لوگ حیران اور پریشان ہو کر رہ گئے کہ جب شدید قسم کی دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک کا وزیراعظم ڈیوس سے وطن واپس آنے کی بجائے لندن چلا گیا اور وہاں نامعلوم وجوہات کی بنا پر تقریبا ایک ہفتہ تک رکا رہا 1/2
لندن رکنے کی وجوہات کا انکشاف تب ہوا جب پاناما لیکس میں اس کی خفیہ جائیدادوں کی تفصیلات شائع ہوئیں چونکہ پاناما پیپرز نے دنیا بھر کی نامور شخصیات کی کرپشن کہانیاں آئی سی آئی جے کی ویب سائیٹ پر ڈالنے سے قبل ان تمام شخصیات سے اپنے نمائندوں کے ذریعہ ملاقاتیں کرکے انکا موقف 1/3
ہر صاحب عقل کے لیے نوازشریف کی سیاسی زندگی میں ایک سبق بہت واضح نظر آتا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ جس نے بھی بھلائی کی ہے اس نے اسے نقصان ضرور پہنچایا ہے 1979 کے بلدیاتی الیکشن میں ایک عام سے دوکاندار شیخ عبیداللہ کے مقابلے میں کونسلر کا انتخاب بری طرح ہارنے بلکہ ضمانتیں ضبط کرانے و
والا نوازشریف اپنی زندگی کا پہلا جنرل الیکشن بھی بری طرح ہار جاتا اگر لاہور کی بڑی آرائیں فیملی کا سرخیل میاں اظہر اس کی حمایت نا کرتا اہلیان لاہور بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1985 کا غیر جماعتی الیکشن سیاسی طور پر نومولود نوازشریف نے میاں اظہر کے کندھوں پر لڑا تھا ورنہ اسے پولنگ
ایجنٹ بھی ملنا ممکن نا تھا پھر جب میاں اظہر نے اس کی کرپشن اور بدمعاشی کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا تو اس نے اس کا پتا ہی کاٹ دیا پنجاب کے بڑے زمیندار اور پرانے سیاسی خاندان پرویز الہی کی وزارت عالیہ پر متفق ہو چکے اگر چوہدری پرویز الہی ضیاءالحق کے سامنے ڈٹ جاتا تو نوازشریف ک
روزنامہ جنگ جیو کی نوازشریف کے ساتھ اٹ کتے والی لڑائی رہتی تھی 1998 میں نوازشریف نے جنگ گروپ کا کاغذی کوٹہ بند کر دیا جنگ اخبار 16صفحات کی بجائے دو صفحے تک محدود ہو کر رہ گیا تو جنگ والوں نے ایک روز نوازشریف کی کچھ نیم غیر اخلاقی تصاویر چھاپ کر اگلے روز مکمل غیر اخلاقی تصویریں
شایع کرنے کا اعلان کر دیا تو اسی روز جنگ اخبار کا کوٹہ بحال ہوگیا
پھر جب امریکہ کو علم ہوا کہ افغانستان میں اس کی شکست کا اصل ذمہ دار تو پاک فوج ہے تو امریکہ نے افواج پاکستان سے بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے اندر امریکی پے رول پر پلنے والے سارے ادارے(جنگ جیو وغیرہ) تنظیموں اور افراد کو افواج پاکستان کے خلاف متحرک کر دیا اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ
28مئی 1998 کی صبح اس وقت کے وزیر خارجہ گوہر ایوب خان وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد تشریف لے گئے تاکہ وزیراعظم کو قومی سلامتی کے ذمہ داروں کا پیغام پہنچا دے کہ ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے اب مزید انتظار کرنا ممکن نہیں رہا کیونکہ گزری ہوئی شب پاکستان کے پاسبانوں نے ملکی سلامتی کے خلاف
بھارتی ناپاک منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے گزاری تھی اسرائیل کے ساتھ مل کر بھارتی فضائیہ پاکستان کی حساس تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے سری نگر ائر بیس پر تیاری مکمل کر چکی تھی اور متعینہ وقت کا انتظار کیا جارہا تھا کہ افواج پاکستان نے ہندوستان کو اس جارحیت سے روکنے کے فوری انتظامات
کر لیے بلکہ ہندوستان کو بھر پور جواب دینے کے لیے خفیہ مقامات پر لاؤنچنگ پیڈز پر میزائلوں کو چڑھا دیا گیا تھا پھر وزارت خارجہ کے ذریعہ ہنگامی بنیادوں پر بھارتی سفیر کو نیند سے بیدار کرا کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہار واجپائی کو سخت پیغام دے دیا گیا کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی کاروائی
کہتے پاکستان کو فوج لوٹ کر کھا گئی جبکہ حقائق یہ ہیں۔
جب ایوب خان نے حکومت چھوڑی تو پاکستان دنیا کی چھٹی معاشی طاقت تھی دنیا کا بہترین نہری نظام سات ڈیم صنعتی اور زرعی انقلاب اسی دور میں برپا ہوئے پاکستان پر کوئی قرضہ نا تھا پھر ذوالفقارعلی بھٹو کی جب حکومت ختم ہوئی تو پاکستان
آٹھ ارب ڈالر کا مقروض تھا ضیاءالحق کے دور حکومت میں بہت زیادہ ترقیاتی کام بھی ہوئے مگر اس کے باوجود قرضہ آٹھ ارب ڈالر ہی رہا اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا پھر نوازشریف اور بے نظیر کے جمہوری ادوار جن کی مدت گیارہ سال ہی ہے جب نوازشریف کی حکومت 1999 میں ختم ہوئی تو بیرونی قرضہ آٹھ ارب
ڈالر سے بڑھ کر اڑتیس ارب ڈالر ہوچکے تھے پرویز مشرف کے دور حکومت میں بہت زیادہ ترقیاتی کام بھی ہوئے مگر قرضے تو وہی رہے جو نوازشریف چھوڑ کر گیا تھا یعنی اڑتیس ارب ڈالر البتہ پرویز مشرف نے سولہ ارب ڈالر زر مبادلہ کے ذخائر بھی قومی خزانہ میں چھوڑے جو اسے نوازشریف حکومت سے صرف پچپن