2015 میں کوشش کی گئی کہ ملک کے تمام بڑے شاپنگ سینٹرز اور فوڈ اسٹورز کو FBR کے ساتھ آن لائن منسلک کیا جائے تاکہ سیلز ٹیکس براہ راست جمع ہو لیکن سیاسی دباؤ کیوجہ سے عمل نہ ہوسکا. موجودہ حکومت نے یہ منصوبہ نافذ کردیاہے. 6000 سے زائد ریٹیلرز 👇
کو پوائنٹ آف سیل نامی سسٹم کے ذریعے FBR سے منسلک کردیا گیا ہے. خریدار جو بھی خریدے گا اسکی آن لائن رسید پر FBR کا ٹیکس نمبر درج ہوگا. جس کا مطلب ہے کہ انکم ٹیکس براہ راست حکومت کے پاس چلا گیا ہے. مزید یقین دہانی کے لئے رسید پر لنک بھی موجود ہے. جو آن لائن چیک کیا جا سکتا ہے 👇
ریونیو بورڈ ریٹیلرز کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ایک خفیہ ایجنسی کے ذریعے سروے بھی شروع کررہا ہے. ڈیٹا کی تصدیق کے بعد بورڈ کی ویب سائٹ پر ہر مہینے کی 3 تاریخ تک نئی ریٹیلرز فہرست جاری کردی جایا کرے گی. جسکی بنا پر وہ ریٹیلر پوائنٹ آف سیل رسید دینےکا پابند👇
ہوجاےگا. اگر وہ درجہ اول کا ریٹیلر نہیں ہے تو وہ 10 تاریخ تک فہرست سے نام نکالنے کیلئے درخواست دائر کرسکتاہے. رسید کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے خریداروں کے لئے انعامی اسکیم بھی متعارف کروائی جارہی ہے تاکہ کسٹمرز لازمی طور پر رسید حاصل کریں. ابھی یہ نظام ابتدائی مراحل میں ہے 👇
لیکن پھر بھی سیلز ٹیکس کی مد میں رواں مالی سال قومی خزانے میں 30 ارب روپے اضافی جمع ہونیکی امید ہے. اگلے 2 سال میں پوائنٹ آف سیلز کی تعداد 5 لاکھ تک لے جانے کا ہدف ہے. اس نظام کاسب سے بڑا فائدہ اسمگل شدہ سامان کی خریداری روکنا بھی ہے. عوام نے اگر رسید لینےکی عادت ڈال لی تو یہ 👇
نظام ملک میں انقلاب برپا کردے گا. فی الحال نظام میں درجہ اول کے ریٹیلرز کو شامل کیا جارہا ہے.
امید ہے ملک میں ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ ہوگا. اور ملکی آمدنی میں اضافہ ہوگا.
آپ اس نظام کے بارے میں مزید جانتے ہیں تو پلیز سب کے علم میں اضافہ فرمائیں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
انٹرنیٹ پر کل کتنا ڈیٹا ہے؟
میرئے ایک دوست کی 2006میں شادی ہوئی۔ اسکے پاس کسی عزیز کا دیا ہوا ڈیجیٹل کیمرہ تھا۔ انوکھی چیز تھی اس لئے میں بھی سیکھنے والوں میں شامل تھا۔400کےلگ بھگ تصاویربنائی گئیں۔ منتخب تصاویرفوٹو اسٹوڈیو والےکےپاس جمع ہوگئیں۔تاکہ فوٹوالبم تشکیل دےکر گھر کے 👇
کسی بریف کیس میں ہمیشہ کےلئےمحفوظ کرلیا جائے۔تاہم تمام تصاویر کو کسی سٹوریج ڈیوائس میں بھی محفوظ کرنے کا خیال آیا۔شہر کا رخ کیا گیا۔صرف128MB سٹوریج کی حامل ڈیوائس میسرتھی جبکہ کمپیوٹرتصاویرکا حجم 1 گیگا بائٹ کےلگ بھگ بتارہاتھا۔ ڈیوائس کی قیمت کودیکھتےہوئےارادہ ملتوی کردیاگیااور👇
دہی بھلے کی پلیٹ کھا کر گھر کی راہ لی۔2020میں ایک عزیز کی شادی ہوئی ہے۔13گیگابائٹ تصاویری ڈیٹاایک کلک میں آن لائن محفوظ کرلیا گیا۔15سالہ نوجوان کو یہ عمل کرتے دیکھا تو سوال پوچھا بیٹا یہ تصاویر دوبارہ کیسے واپس لائی جاسکتی ہیں تو جواب ملا انکل دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جاو 👇
جس دن 22سال تک جدوجہد کرنیوالا پاکستان کا بائیسواں وزیراعظم حلف اٹھارہا تھا میں ملکہ کوہسار مری کے مال روڈ پر بیٹھا ٹھنڈے موسم میں گرم کافی کے مزئے لے رہا تھا۔جرنلزم میں ماسٹر ز پروگرام کا پہلا سمسٹر چل رہاتھا۔ہمراہ دوستوں میں سے 1 نےسوال پوچھا تھا👇
کہ مستقبل کے جرنلسٹ صاحب بتایے تبدیلی کا نعرہ کامیاب ہوگا کہ ناکام؟ میں نے عرض کی تھی کہ نعرہ تو کامیاب ہوچکا۔ عوام روائتی سیاست سے تنگ آچکی تھی اس لئے سیٹ خالی تھی۔عمران خان صاحب نے کچھ خامیوں کی فہرست مرتب کی اور عوام کو باور کروا لیا کہ وہ ہی اب ملک کے نجات دہندہ ہیں۔👇
لیکن اصل امتحان اب شروع ہوگا کیونکہ وہ بے لوث سوچ کے حامل آدمی ہیں لیکن مفاد پرست ٹولے کے حصار میں ہیں۔اور یہ ٹولہ انکو کہیں کا نہیں چھوڑئے گا۔ بہتر ہوتا وہ اپنی پارٹی میں شمولیت کی کم از کم قابلیت ماسٹر ڈگر ی رکھتے۔امیدواروں میں سے قابل ترین لوگوں کو ٹکٹ دیتے۔ جو جیت کرانقلابی👇
کسی ملک کا بادشاہ اچانک انتقال کرگیا. نئے بادشاہ کے انتخاب کیلئے اجلاس شروع ہوا مختلف آپشنز پر غور جاری تھا. محل کے سامنے سے بندر کا تماشا دکھانے والا ایک مداری گزر رہا تھا. دربان سے چہل پہل کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ بادشاہ کا انتخاب ہورہاہے👇
مداری 3 دن بعد گھوم پھر کے واپس محل کے پاس سے گزر رہا تھا کہ پھر وہی چہل پہل قائم تھی. دربان سے وجہ پوچھی تو وہی جواب ملا
مداری کرتا کراتا اجلاس میں پہنچ گیا اور بادشاہ بننےکی فرمائش کردی. سب نے حیران ہوکر وجہ معلوم کی تو مداری نےکہا کہ بادشاہ کا کام رعایا کوکنٹرول کرنا ہوتاہے👇
اور مجھ سے زیادہ تجربہ بھلا کسے ہے جو روزانہ مجعموں کو کنٹرول کرتا ہے. بالآخر سوچ بچار کے بعد مداری کو بادشاہ بنادیا گیا. بندر کی خدمت پر بھی 2 خادم مامور کردئیے گئے. ہمسائیوں کو بھی خبر معلوم ہوگئی کہ مداری بادشاہ بن گیا ہے.چناچہ ایک ہمساے نے ہمت کی اور سرحد پر حملہ کردیا.👇
بیشتر میڈیا رپورٹس کے مطابق کابل کو شمال جنوب اور مشرق اطراف سے طالبان نے گھیرے میں لےلیاہے. سٹریٹ فائیٹنگ شروع ہوچکی ہے. کابل شہر کی تمام روشنیاں تمام رات بجھی رہیں.
الجزیرہ کےمطابق امریکی طیاروں نےکابل کےاطراف میں بمباری کی ہے تاکہ طالبان👇
کی پیشقدمی روکی جاسکے. غنی انتظامیہ نے ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو طالبان سے مذاکرات کرےگی. جس میں غنی کے استعفے سمیت بیرون ملک بحفاظت جانیکی شرائط طےہونگی. باقی آفیشلز بھی جاسکتےہیں.
نیویارک ٹائمزکےمطابق امریکی صدر فوری طورپر 1000 امریکی فوجیوں کوافغانستان میں تعینات کرنےجارہے👇
ہیں. جو افغانستان سے تمام امریکیوں کی بحفاظت منتقلی ممکن بنائیں گے.تمام سفارتی عملہ بھی شامل ہے.جبکہ وہ افغانی جنہوں نے جنگ میں امریکہ کی مددکی انکو بھی نکالا جاےگا.
اخبار ڈیلی میل کےمطابق امریکہ نےبرطانیہ کو ٹاسک کیاہے کہ وہ اب افغانستان کےحالات کوکنٹرول کرے.
سب سے بڑی وجہ مذہبی مسلک کافرق ہے. طالبان نے 1995 میں افغانستان میں ایک شعیہ مسجد کا نام بدلا اورشعیہ کمیونٹی کو مسلک بدلنے یا دوسرے مذہب کے لوگوں پر لگاے گئے اضافی ٹیکس کی ادائیگی کرنیکا کہا. دونوں طرف سے حملے شروع ہوے. ایران نے 👇
حزب اللہ کی طرح حزب افغانستان بناکر امداد جاری رکھی. طالبان کو خطرہ محسوس ہوا تو نفرت مزید بڑھی. 1998 میں مزار شریف میں ایران کے 11 عدد سفارتی عملے کو قتل کردیا. ایران نے شدید ردعمل دیا. حتی کہ افغانستان پر حملے کی تیاری شروع کردی. ماسٹر مائنڈ سعودی عرب جاگا سفارتی کوششوں 👇
سے ایران کو حملے سے روک لیا. لیکن 950 کلومیٹر طویل ایران - افغانستان بارڈر پر حالات کشیدہ رہے. جبکہ افغانستان سے شعیہ کمیونٹی کی ایران اور پاکستان کی طرف نقل مکانی جاری رہی. ایران شمالی اتحاد کی سپورٹ کرتا رہا لیکن کامیابی نہ ملی. 2001 میں امریکی آمد کو نہ صرف خوش آمدید کہا 👇
کھجورکی پیداوارمیں پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پرہے. سالانہ 6 لاکھ ٹن کھجور پیداہوتی ہے. 80 فیصدبرآمدکرنےسے10 کروڑ ڈالرحاصل ہوتےہیں.سندھ کاپیداواری حصہ 50 فیصدسے زائدہے.جبکہ سندھ کی پیداوارمیں 90 فیصد حصہ خیرپورکاہے. جہاں کےباغات دنیابھرمیں مشہورہیں. ان باغات👇
کی شروعات 1300 سال پہلے محمد بن قاسم کے دور میں ہوئی. باغات 32000 ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں. کھجور کی پکائی کے عمل کے دوران ملک بھر سے ہزاروں افراد روزگار کے حصول کیلئے یہاں آتے ہیں. یہاں سے لائے گئے چھوہارے سکھر کی منڈی میں فروخت ہوتے ہیں. جوایشیا کی سب بڑی چھوہارا.👇
منڈی ہے. پاکستان دنیا میں چھوہارے کا سب سے بڑا ایکسپورٹر جبکہ بھارت خریدار ہے. لیکن باہمی تناو کی وجہ سے 2 سال سے ایکسپورٹ واہگہ بارڈر کی بجائے دبئی سے ممکن بنائی جارہی ہے. جس سے آمدنی میں نمایاں کمی ہوئی ہے.20 لاکھ بوری سے تعداد 13 لاکھ پرآگئی ہے. اتنی بڑی تعداد میں پیداوار کے👇