انٹرنیٹ پر کل کتنا ڈیٹا ہے؟
میرئے ایک دوست کی 2006میں شادی ہوئی۔ اسکے پاس کسی عزیز کا دیا ہوا ڈیجیٹل کیمرہ تھا۔ انوکھی چیز تھی اس لئے میں بھی سیکھنے والوں میں شامل تھا۔400کےلگ بھگ تصاویربنائی گئیں۔ منتخب تصاویرفوٹو اسٹوڈیو والےکےپاس جمع ہوگئیں۔تاکہ فوٹوالبم تشکیل دےکر گھر کے 👇
کسی بریف کیس میں ہمیشہ کےلئےمحفوظ کرلیا جائے۔تاہم تمام تصاویر کو کسی سٹوریج ڈیوائس میں بھی محفوظ کرنے کا خیال آیا۔شہر کا رخ کیا گیا۔صرف128MB سٹوریج کی حامل ڈیوائس میسرتھی جبکہ کمپیوٹرتصاویرکا حجم 1 گیگا بائٹ کےلگ بھگ بتارہاتھا۔ ڈیوائس کی قیمت کودیکھتےہوئےارادہ ملتوی کردیاگیااور👇
دہی بھلے کی پلیٹ کھا کر گھر کی راہ لی۔2020میں ایک عزیز کی شادی ہوئی ہے۔13گیگابائٹ تصاویری ڈیٹاایک کلک میں آن لائن محفوظ کرلیا گیا۔15سالہ نوجوان کو یہ عمل کرتے دیکھا تو سوال پوچھا بیٹا یہ تصاویر دوبارہ کیسے واپس لائی جاسکتی ہیں تو جواب ملا انکل دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جاو 👇
اپنی آئی ڈی لگاو اور دیکھ لو۔ذہن میں سوال آیاکہ اسطرح تو پتہ نہیں کتنی دنیا نے آن لائن ڈیٹا محفوظ کررکھا ہے۔اور جب انٹرنیٹ کا اپنا اتنا ڈیٹا ہے تو آخر یہ سب کہاں ہے اور کتنا ہے؟آئیے ان تمام سوالات کے جواب تلاش کرتےہیں۔آج بیش بہا آن لائن ویب سائٹس ہیں جو ڈیٹامحفوظ بنانےکی پیشکش 👇
کے ساتھ موجودہیں۔ اکیلا گوگل 15گیگابائٹس کی فری سہولت فراہم کررہا ہے۔سٹوریج ڈیوائسز ٹیرا بائٹس میں میسرہیں۔ اورقیمتیں بھی پہنچ میں ہیں۔1990میں برطانوی ماہر ٹم برنر لی نے ورلڈ وائیڈ ویب ایجادکرکے انقلاب برپا کیاتھا۔تب سےآن لائن ڈیٹامحفوظ کرنیکاسلسلہ جاری ہے۔تو سب سےپہلےجانتے ہیں👇
کہ ڈیٹا ہوتاکیاہے؟ اسکی سادہ سی منطق ہے۔آپ کسی بھی کی بورڈ سے کچھ بھی ٹائپ کریں اور کسی بھی دوسرئے شخص کو بھیجیں وہ کسی نہ کسی سٹوریج ڈیوائس میں محفوظ رہتا ہے جب تک اسکو ڈیلیٹ نہ کیا جائے۔ایک ایس ایم ایس، ای میل اور ایموجی سینڈ کرنے سے لیکر یوٹیوب پر لمبی لمبی وڈیوز بھی کسی نہ 👇
کسی جگہ محفوظ ہیں۔یہ تمام محفوظ شدمواد انگریزی میں ڈیٹاکہلاتاہے۔آ جکی دنیا میں ویسے اس ڈیٹا کی حفاظت بہت مشکل عمل بن چکاہےکیوں کہ اسکو چرانے والے بڑئے چالاک ہوگئے ہیں۔بحرحال جس طرح کائنات میں موجود ہرشے کو ماپنے اور گننے کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ہے۔ ویسے ہی آن لائن ڈیٹا بھی شمار👇
کرنےکاطریقہ کا رموجود ہے۔آپ انگریزی حروف تہجی کا 1 ہندسہ لکھیں جیسے Aتو یہ1 بٹ ہے۔ایسے 8بٹ 1بائٹ کے برابرہیں۔1000بائٹس کا مجموعہ 1 کلوبائٹ بن جاتا ہے۔1000 کلو بائٹ 1 میگا بائٹ اور1000 میگا بائٹ 1 گیگا بائٹ کہلاتا ہے۔1000گیگابائٹ 1 ٹیرا بائٹ بن جاتا ہے۔1000 ٹیرابائٹ1 پیٹا بائٹ 👇
کے برابر ہے۔اگر 1000پیٹابائٹ جمع کریں تو 1 یوٹا بائٹ بنتاہےجبکہ ڈیٹاکی سب سے بلندترین ویلیو 1 زوٹابائٹ 1000 یوٹابائٹ کےبرابرہے۔ بائٹ سٹوریج کی سائنسی اکائی ہے۔1 محتاط اندازے کے مطابق 2015تک 25جبکہ 2020تک 50بلین ڈیوائسز انٹرنیٹ سے جڑ چکی ہیں۔دنیا کی موجودہ آبادی لگ بھگ 8ارب ہے۔ 👇
اگر ہم عمر اور وسائل کی تقسیم کو نظرانداز کردیں۔توسمجھ آتی ہے کہ دنیاکےہرفردکی کم ازکم 6ڈیوائسزانٹرنیٹ سےجڑی ہوئی ہیں۔1994میں امریکی آئی ٹی کمپنی AT اینڈ T نے پہلی مرتبہ عام صارفین کے لئے آن لائن ڈیٹا محفوظ کرنیکی سہولت مہیاکی تھی۔واضح کرتا چلوں کہ یہ عمل کلوڈ کمپیوٹنگ کہلاتاہے👇
جسے1960میں امریکی کمپیوٹرسائنسدان جوزف لکلائیڈرنےایجادکیاتھا جب وہ ڈیٹا کی ترسیل پرکام کر رہاتھا۔گوگل کےچیف ایگزیکٹوایرک سمتھ کےمطابق انٹرنیٹ کے کل ڈیٹا کا حجم 500ملین ٹیرابائٹس کےبرابر ہے۔ جو 5بلین گیگا بائٹ بھی کہا جاسکتاہے۔اگرہم قدرت کی بنائی سٹوریج ڈیوائس یعنی انسانی دماغ👇
کی گنجائش کی بات کریں تو اوسط ایک انسانی دماغ کی یاداشت 2500ملین ٹیرا بائٹس ہے یعنی ایک انسان کا دماغ ابھی انٹرنیٹ کے کل محفوظ شدہ ڈیٹا سے 5 گنا زیادہ ہے۔انٹرنیٹ پر سٹوریج مہیا کرنے کے حساب سے امریکی کمپنی ڈراپ بکس 900ملین صارفین کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔اسے 2007میں بنایا گیا 👇
جب کمپنی کے بانی ڈریوہوسٹن دوران تعلیم اپنی سٹوریج ڈیوائس بھول جایا کرتے تھے۔خیال آیا کہ کیوں نہ ڈیٹاآن لائن محفوظ کرلیا جائے تاکہ سٹوریج ڈیوائس رکھنےکا جھنجٹ ہی ختم ہوجائے۔آج کمپنی 10بلین ڈالرز کے اثاثوں کی مالک ہے۔آئی ڈرائیو،ایمازون ڈرائیو اور ون ڈرائیو بھی سرکردہ کمپنیاں ہیں👇
جو مختلف پیکجز کی صورت میں آن لائن ڈیٹا محفوظ بناتی ہیں۔البتہ کل کتنی ہیں یہ شمار کرنا مشکل ہے۔اگر ہم گوگل کی بات کریں تو روزانہ 20پیٹابائٹس ڈیٹا پراسس ہوتا ہے۔1 لاکھ ملازمین اور 1100مشینیں اس ڈیٹا کو صارف سے ڈیٹا سینٹرتک لانے اور واپس لیجانے کا کام کررہی ہیں۔ہر سیکنڈ میں گوگل 👇
سرچ بار 40ہزار دفعہ کلک ہوتا ہے۔یہ شرح دیکھی جائے تو ماہانہ سرچ کا حجم ساڑھے3 بلین جبکہ سالانہ حجم 1 اعشاریہ 2 ٹریلین تک جاتا ہے۔جبکہ1 گوگل سرچ سے جتنی توانائی استعمال ہوتی ہے اس سے 60واٹ کا بلب 17سیکنڈ تک جلایا جا سکتا ہے۔گوگل کل15 ڈیٹا سینٹرز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔👇
جبکہ ایمازون 14اور فیس بک 12 ڈیٹا سینٹرز کے ساتھ دوسرئے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ان 41 ڈیٹا سینٹرز کا مجموعی زمینی حجم 15 ملین مربع فٹ بنتا ہے۔اکیلے گوگل کے ڈیٹاسینٹرز تقریبا50 ٹیراواٹ فی گھنٹہ کے حساب سے بجلی کھا رہے ہیں جبکہ زمین کی ماحولیائی آلودگی میں 2فیصد حصہ بھی رکھتے ہیں۔👇
جسکی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ گوگل اکیلا سالانہ 3بلین گیلن پانی استعمال کرتا ہے جس سے ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔مستقبل میں تنقید سے بچنے کے لئے گہرئے برف کے سمندر میں ڈیٹا سینٹرز قائم کرنے کے تجربات جاری ہیں۔گوگل، فیس بک، مائیکروسافٹ اور ایمازون دنیا میں ڈیٹا کے 👇
لحاظ سے سب سے آگے ہیں۔چاروں کا مجموعی ڈیٹا 1200پیٹابائٹس کے برابر بنتا ہے۔گوگل کی کل آمدنی میں یوٹیوب اکیلی 10 فیصد کی مالک ہے۔جسکے ڈیٹا کا حجم 400 پیربائٹس کےلگ بھگ ہے۔ٹوئٹر صارفین ایک منٹ میں 4 لاکھ73 ہزار ٹوئٹ کرتےہیں۔سنیپ چیٹ پر20 لاکھ۔انسٹا گرام پر50000تصاویراپلوڈہوتی ہیں۔👇
لنکڈ ان پر120 صارف اپنا پروفائل بناتےہیں۔یوٹیوب پر ہرمنٹ میں500 گھنٹےکے برابر ویڈیوز اپلوڈہوتی ہیں۔روزانہ ڈیڑھ بلین صارفین فیس بک پر آن لائن ہوتے ہیں جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ڈیٹا اپلوڈ ہونیکی یہی رفتا ر رہی تو 2025تک آن لائن ڈیٹا 175ذیٹا بائٹس تک پہنچ جائےگا۔👇
یہ تمام اعدادوشمار اندازے کے مطابق ہیں۔اس صورتحال سے سمجھ آتی ہے کہ قدرت کی بنائی گی سٹوریج ڈیوائس یعنی انسانی دماغ کے برابر پہنچنے کے لئے انسان کو ابھی مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔
2015 میں کوشش کی گئی کہ ملک کے تمام بڑے شاپنگ سینٹرز اور فوڈ اسٹورز کو FBR کے ساتھ آن لائن منسلک کیا جائے تاکہ سیلز ٹیکس براہ راست جمع ہو لیکن سیاسی دباؤ کیوجہ سے عمل نہ ہوسکا. موجودہ حکومت نے یہ منصوبہ نافذ کردیاہے. 6000 سے زائد ریٹیلرز 👇
کو پوائنٹ آف سیل نامی سسٹم کے ذریعے FBR سے منسلک کردیا گیا ہے. خریدار جو بھی خریدے گا اسکی آن لائن رسید پر FBR کا ٹیکس نمبر درج ہوگا. جس کا مطلب ہے کہ انکم ٹیکس براہ راست حکومت کے پاس چلا گیا ہے. مزید یقین دہانی کے لئے رسید پر لنک بھی موجود ہے. جو آن لائن چیک کیا جا سکتا ہے 👇
ریونیو بورڈ ریٹیلرز کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ایک خفیہ ایجنسی کے ذریعے سروے بھی شروع کررہا ہے. ڈیٹا کی تصدیق کے بعد بورڈ کی ویب سائٹ پر ہر مہینے کی 3 تاریخ تک نئی ریٹیلرز فہرست جاری کردی جایا کرے گی. جسکی بنا پر وہ ریٹیلر پوائنٹ آف سیل رسید دینےکا پابند👇
جس دن 22سال تک جدوجہد کرنیوالا پاکستان کا بائیسواں وزیراعظم حلف اٹھارہا تھا میں ملکہ کوہسار مری کے مال روڈ پر بیٹھا ٹھنڈے موسم میں گرم کافی کے مزئے لے رہا تھا۔جرنلزم میں ماسٹر ز پروگرام کا پہلا سمسٹر چل رہاتھا۔ہمراہ دوستوں میں سے 1 نےسوال پوچھا تھا👇
کہ مستقبل کے جرنلسٹ صاحب بتایے تبدیلی کا نعرہ کامیاب ہوگا کہ ناکام؟ میں نے عرض کی تھی کہ نعرہ تو کامیاب ہوچکا۔ عوام روائتی سیاست سے تنگ آچکی تھی اس لئے سیٹ خالی تھی۔عمران خان صاحب نے کچھ خامیوں کی فہرست مرتب کی اور عوام کو باور کروا لیا کہ وہ ہی اب ملک کے نجات دہندہ ہیں۔👇
لیکن اصل امتحان اب شروع ہوگا کیونکہ وہ بے لوث سوچ کے حامل آدمی ہیں لیکن مفاد پرست ٹولے کے حصار میں ہیں۔اور یہ ٹولہ انکو کہیں کا نہیں چھوڑئے گا۔ بہتر ہوتا وہ اپنی پارٹی میں شمولیت کی کم از کم قابلیت ماسٹر ڈگر ی رکھتے۔امیدواروں میں سے قابل ترین لوگوں کو ٹکٹ دیتے۔ جو جیت کرانقلابی👇
کسی ملک کا بادشاہ اچانک انتقال کرگیا. نئے بادشاہ کے انتخاب کیلئے اجلاس شروع ہوا مختلف آپشنز پر غور جاری تھا. محل کے سامنے سے بندر کا تماشا دکھانے والا ایک مداری گزر رہا تھا. دربان سے چہل پہل کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ بادشاہ کا انتخاب ہورہاہے👇
مداری 3 دن بعد گھوم پھر کے واپس محل کے پاس سے گزر رہا تھا کہ پھر وہی چہل پہل قائم تھی. دربان سے وجہ پوچھی تو وہی جواب ملا
مداری کرتا کراتا اجلاس میں پہنچ گیا اور بادشاہ بننےکی فرمائش کردی. سب نے حیران ہوکر وجہ معلوم کی تو مداری نےکہا کہ بادشاہ کا کام رعایا کوکنٹرول کرنا ہوتاہے👇
اور مجھ سے زیادہ تجربہ بھلا کسے ہے جو روزانہ مجعموں کو کنٹرول کرتا ہے. بالآخر سوچ بچار کے بعد مداری کو بادشاہ بنادیا گیا. بندر کی خدمت پر بھی 2 خادم مامور کردئیے گئے. ہمسائیوں کو بھی خبر معلوم ہوگئی کہ مداری بادشاہ بن گیا ہے.چناچہ ایک ہمساے نے ہمت کی اور سرحد پر حملہ کردیا.👇
بیشتر میڈیا رپورٹس کے مطابق کابل کو شمال جنوب اور مشرق اطراف سے طالبان نے گھیرے میں لےلیاہے. سٹریٹ فائیٹنگ شروع ہوچکی ہے. کابل شہر کی تمام روشنیاں تمام رات بجھی رہیں.
الجزیرہ کےمطابق امریکی طیاروں نےکابل کےاطراف میں بمباری کی ہے تاکہ طالبان👇
کی پیشقدمی روکی جاسکے. غنی انتظامیہ نے ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو طالبان سے مذاکرات کرےگی. جس میں غنی کے استعفے سمیت بیرون ملک بحفاظت جانیکی شرائط طےہونگی. باقی آفیشلز بھی جاسکتےہیں.
نیویارک ٹائمزکےمطابق امریکی صدر فوری طورپر 1000 امریکی فوجیوں کوافغانستان میں تعینات کرنےجارہے👇
ہیں. جو افغانستان سے تمام امریکیوں کی بحفاظت منتقلی ممکن بنائیں گے.تمام سفارتی عملہ بھی شامل ہے.جبکہ وہ افغانی جنہوں نے جنگ میں امریکہ کی مددکی انکو بھی نکالا جاےگا.
اخبار ڈیلی میل کےمطابق امریکہ نےبرطانیہ کو ٹاسک کیاہے کہ وہ اب افغانستان کےحالات کوکنٹرول کرے.
سب سے بڑی وجہ مذہبی مسلک کافرق ہے. طالبان نے 1995 میں افغانستان میں ایک شعیہ مسجد کا نام بدلا اورشعیہ کمیونٹی کو مسلک بدلنے یا دوسرے مذہب کے لوگوں پر لگاے گئے اضافی ٹیکس کی ادائیگی کرنیکا کہا. دونوں طرف سے حملے شروع ہوے. ایران نے 👇
حزب اللہ کی طرح حزب افغانستان بناکر امداد جاری رکھی. طالبان کو خطرہ محسوس ہوا تو نفرت مزید بڑھی. 1998 میں مزار شریف میں ایران کے 11 عدد سفارتی عملے کو قتل کردیا. ایران نے شدید ردعمل دیا. حتی کہ افغانستان پر حملے کی تیاری شروع کردی. ماسٹر مائنڈ سعودی عرب جاگا سفارتی کوششوں 👇
سے ایران کو حملے سے روک لیا. لیکن 950 کلومیٹر طویل ایران - افغانستان بارڈر پر حالات کشیدہ رہے. جبکہ افغانستان سے شعیہ کمیونٹی کی ایران اور پاکستان کی طرف نقل مکانی جاری رہی. ایران شمالی اتحاد کی سپورٹ کرتا رہا لیکن کامیابی نہ ملی. 2001 میں امریکی آمد کو نہ صرف خوش آمدید کہا 👇
کھجورکی پیداوارمیں پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پرہے. سالانہ 6 لاکھ ٹن کھجور پیداہوتی ہے. 80 فیصدبرآمدکرنےسے10 کروڑ ڈالرحاصل ہوتےہیں.سندھ کاپیداواری حصہ 50 فیصدسے زائدہے.جبکہ سندھ کی پیداوارمیں 90 فیصد حصہ خیرپورکاہے. جہاں کےباغات دنیابھرمیں مشہورہیں. ان باغات👇
کی شروعات 1300 سال پہلے محمد بن قاسم کے دور میں ہوئی. باغات 32000 ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں. کھجور کی پکائی کے عمل کے دوران ملک بھر سے ہزاروں افراد روزگار کے حصول کیلئے یہاں آتے ہیں. یہاں سے لائے گئے چھوہارے سکھر کی منڈی میں فروخت ہوتے ہیں. جوایشیا کی سب بڑی چھوہارا.👇
منڈی ہے. پاکستان دنیا میں چھوہارے کا سب سے بڑا ایکسپورٹر جبکہ بھارت خریدار ہے. لیکن باہمی تناو کی وجہ سے 2 سال سے ایکسپورٹ واہگہ بارڈر کی بجائے دبئی سے ممکن بنائی جارہی ہے. جس سے آمدنی میں نمایاں کمی ہوئی ہے.20 لاکھ بوری سے تعداد 13 لاکھ پرآگئی ہے. اتنی بڑی تعداد میں پیداوار کے👇