امام جوزی رحمہ اللہ نے ترکی کے مشہور شہر انطاکیہ کے قاضی کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔ چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کر دیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قاضی نے کہا : خدا تیرا بھلا کرے، میں عالم آدمی ہوں اور دین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے، ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں، لہذا مجھ پر رحم کر۔
چور نے کہا : الحمد للہ ! آج اللہ تعالی نے مجھے لوٹنے کیلئے کسی مفلس، قلاش اور فقیر و نادار شخص کی بجائے ایک صاحب ثروت شخص کو
میرے قابو میں دیا ہے، جسے میں لوٹ بھی لوں تو وہ واپس شہر جا کر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے۔ (یوں میرے دل پر بوجھ نہیں ہوگا)
قاضی نے کہا : خدا کے بندے تو نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ *دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہےجومیراطریقہ ہے
پس جس نے میرا طریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت
تو اے چور ! ڈاکے ڈالنا اور لوگوں کو راستے میں لوٹنا یہ بدعت ہے نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور دین نہیں۔ میں آپکا خیر خواہ ہوں آپ کو چوری سے منع کرتا ہوں کہ مبادا نبی کریم ﷺ کی اس لعنت والی وعید میں آپ شامل نہ ہوجائیں
چور نے کہا :میری جان! یہ حدیث مرسل ہے (جو شوافع کے ہاں حجت نہیں) اور بالفرض اس حدیث کو درست بھی مان لیا جائے تو آپ کا اس ’’چور‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے جو بالکل ’’قلاش‘‘ ہو، فاقوں نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال دیئے ہو ں اور ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرا نہ ہو؟ ایسی صورت میں
ایسے شخص کیلئے آپ کا مال بالکل پاک و حلال ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا کہ *دنیا اگر محض خون ہوتی تو مومن کا اس میں سے کھانا حلال ہوتا۔* نیز علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کو اپنے یا اپنے خاندان کے مارے جانے کا خوف ہو
تو اس کیلئے دوسرے کا مال حلال ہے۔ اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزر رہا ہوں، لہذا شرافت سے سارا مال میرے حوالے کر دو۔
قاضی نے کہا : اچھا اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو مجھے اپنے کھیتوں میں جانے دو، وہاں میرے خادم نے آج جو اناج بیچا ہوگا اس کا مال میں ان سے لے کر واپس آکر آپ کے
حوالے کر دیتا ہوں۔
چور نے کہا : ہرگز نہیں آپ کی حالت اس وقت پرندے کی مانند ہے، جو ایک دفعہ پنجرے سے نکل گیا پھر اسے پکڑنا مشکل ہے۔ مجھے یقین نہیں کہ ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس لوٹیں گے۔
قاضی نے کہا : میں آپ کو قسم دینے کو تیار ہوں کہ انشاءاللہ
میں نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے اسے پورا کروں گا۔
چور نے کہا : مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ *یمین المکرہ لاتلزم* (مجبور کی قسم کا اعتبار نہیں) اسی طرح قرآن مجید میں بھی ہے
*اِلٌا مَن اَکرہَ وَ قلبہ مُطمَئنٌ بالایمان* مجبور آدمی زبان سے کلمۂ کفر بول سکتا ہے تو مجبوری کی حالت میں جب کلمۂ کفر بولنے کی اجازت ہے تو جھوٹی قسم بھی کھائی جاسکتی ہے، لہذا فضول بحث سے پرہیز کریں اور جو کچھ ہے آپ کے پاس میرے حوالے کردیں۔
قاضی اس پر لاجواب ہوگیا اور
اپنی سواری، مال، کپڑے سوائے شلوار کے اس کے حوالے کردیا۔
چور نے کہا : شلوار بھی اتار کر دیں۔
قاضی نے کہا : اللہ کے بندے نماز کا وقت ہوچکا ہے اور بغیر کپڑوں کے نماز جائز نہیں۔ قرآن کریم میں بھی ہے *خذو زینتکم عند کل مسجد* (اعراف، ۳۱) اور اس آیت کا معنی تفاسیر میں یہی
بیان کیا گیا ہے کہ نماز کے وقت کپڑے پہنے رکھو۔
نیز شلوار حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔
چور نے کہا : اس کا آپ غم نہ کریں کیونکہ ننگے حالت میں آپ کی نماز بالکل درست ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہم سے
حدیث بیان کی، وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے، وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے کہ
*العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم*
ننگے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اور ان کا امام بیچ میں کھڑا ہو۔
نیز امام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں، مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے، بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پر نظر نہ پڑے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہو کر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں۔
اور ستر پر نظر پڑنے والی جو روایت آپ نے سنائی اول تو وہ سنداً درست نہیں، اگر مان بھی لیں تو وہ حدیث اس پر محمول ہے کہ کسی کے ستر کو شہوت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اور فی الوقت ایسی حالت نہیں اور آپ تو کسی صورت میں بھی گناہ گار نہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ہیں۔
خود بے پردہ نہیں ہو رہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کر رہا ہوں۔ لہذا لایعنی بحث مت کریں اور جو کہہ رہا ہوں اس پر عمل کریں۔
قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہونا چاہئے، ہم تو جھگ مار رہے ہیں۔ جو کچھ تجھے چاہئے لے پکڑ۔ *لاحول ولا قوۃ الا باللہ*
اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں,
میرا بیٹا اور اسکی والدہ....... .*
🤒
بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.
1949 میں بہیج تقی الدین نامی شخص کو لبنان کا وزیر زراعت مقرر کیاگیا۔
انکے بھائی سعید تقی الدین کو جو کہ ایک نامور لکھاری اور صحافی تھے،اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی کو مندرجہ ذیل خط لکھا:
میرے بھائی! تمہیں بہت مبارک!
مجھے پتہ چلا ھے کہ تم وزیر بن گئے ہو۔۔
یہ ہمارے خاندان اور علاقے دونوں کیلئے بڑی عزت کی بات یے۔
لیکن میں تمہیں ایک بات یاد دلانا چاہوں گا۔
کہ جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو اپنے والد کے ساتھ بستر میں سونے کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے، کہ والد صاحب کس کو اجازت دینگے۔
اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے والد اس موقع پر ہمارے ھاتھ سونگھا کرتے تھے تاکہ انہیں یقین ہوجاے کہ ہمارے ھاتھ صاف ستھرے ہیں اور ہم نے کھانا کھانے کے بعد اور کھیل کھود کے بعد اپنے ھاتھ دھو لیے ہیں،اسکے بعد ہی وہ ہمیں اپنے ساتھ سونے کی اجازت دیتے تھے۔
اسلامی تعلیمات کا بنیادی منبع قرآن کریم، احادیث نبوی ﷺ اور سنت رسول ﷺ ہے۔ قرآن اور احادیث عربی زبان میں ہونے کیوجہ سے عجمی ممالک میں ترجمہ کے ساتھ پڑھا جاتا رہا ہے۔ بد قسمتی سے ہندوستان و دیگر عجمی ممالک کی معاشرتی آداب زندگی بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ بنتی رہیں
مثلاً نکاح ایک سادہ سی بات ہے۔ گواہان کی موجودگی میں مرد اور عورت ایک دوسرے کو میاں/بیوی تسلیم کرنا۔ اسکے بعد خاوند کی طرف سے قریبی دوست اور رستہ داروں کو دعوت ولیمہ دینا۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ کو معلوم نہیں کیوں اتنا لمبا، مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا ہے۔
دوسری وجہ اسلامی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مولوی، امام کو بچے کی پیدائش پر، نکاح کے موقعہ پر اور نماز جنازہ کیلئے بلایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سارے کام ہمیں خود کرنے چاہیں۔
قصور وار ہم سبھی ہیں کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو عرصہ دراز سے ترک کئے رکھا۔ رسموں کا سہارا لیا۔۔۔
لالہ میلہ رام نے 1872 میں لاہور مال روڈ پر واقع اپنی قیمتی جائیداد میں سے وسیع رقبہ پرندوں (آزاد پرندوں) کی بہبود اور انہیں دانہ ڈالنے کے لئے وقف کیا جو ابتدا میں "مکان چڑیا خانہ" کہلاتا تھا بعد میں "چڑیا گھر" کے نام سے مشہور ہوا۔ "مکان چڑیا خانہ" کی اصطلاح پر ایک
سوال اٹھتا ہے کہ مکان اور خانہ ایک ہی معنی کے دو الفاظ اس میں کیوں ہیں؟ تو ممکن ہے کہ یہ علاقہ جس میں ایک پہاڑی بھی موجود ہے اس کو چڑیا خانہ کہا گیا ہو اور اس کے اندر موجود عمارت کو مکان کہا جاتا ہو اور یوں وہ عمارت مکان چڑیا خانہ کہلائی ہو۔
اس پرند گھر کو چڑیا گھر کہا گیا
جو بعد میں دیگر جانوروں کی بہبود کے لئے بھی استعمال ہونا شروع ہو گیا، لوگ ان جانوروں کی سیوا کرنے اور دیکھنے چڑیا گھر آنا شروع ہو گئے۔ یوں ZOO کے لئے چڑیا گھر کی اصطلاح نے جنم لیا۔
ایک بات یاد رہے کہ لاہور چڑیاگھر دنیا کا چوتھا قدیم ترین زو ہے جس کا رقبہ ابتدا میں کافی زیادہ تھا
آرمی کا سیلیکشن پراسیس دیکھ لو۔ جس بچے میں زرا سی چوں چراں نظر آتی ہے اس کو فوج کے لیے ان فٹ قرار دیدیا جاتا ہے۔ فوج انسانی تاریخ کا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہی حکم ماننے کی ہے۔ ڈسپلن کی۔ ایک سسٹم میں رہ کر اپنے سینئر کی
ہر بات پر فوری عمل کرنےکی۔ اوور تھنکنگ کرنے والا، سوال پر سوال کرنے والا، اعتراض، یا نفسیاتی/ ہائپر بندہ فوج کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ فوج کو لیڈرشپ اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے، مگر انقلابیوں کی نہیں۔ ذہین ترین افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر فلاسفرز اور تخلیق کاروں کی گنجائش نہیں ہوتی
اس پراسیس سی منتخب ہونے والے اگلے بیس سے تیس سال فوج کے مختلف شعبوں میں زندگی گذارتے ہیں۔ سخت ترین ٹریننگ سے گذرتے ہیں، لیڈرشپ کورسز کرتے ہیں، اور ہزاروں میں سے ڈیڑھ سو کے قریب میجر جرنیل کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں، اور ان میں سے چند ایک جرنیل کے۔ جرنیلوں کی یہ لاٹ مستقل بھی ہے
*میرا کسی بات پر اپنے والد صاحب سے ایسا اختلاف ھوگیا کہ ھماری آوازیں اونچی ھوگئیں, میرے ھاتھ میں کچھ درسی کاغذات تھے جو میں نے غصے سے میز پرپٹخے اور دھڑام سے دروازہ بندکرتے ھوئے اپنے کمرے میں آگیا.*
*بستر پر گرکر ھونے والی بحث پر ایسادماغ الجھا کہ نیند ھی اڑگئی.صبح یونیورسٹی گیا توبھی ذھن کل واقعے میں اٹکارھا.ندامت وخجالت کے مارےدوپہرتک صبر جواب دے گیا.جیب سے موبائل نکالا اور اباجی کو یوں میسج کیا کہ*
*میں نے کہاوت سن رکھی ھے کہ پاؤں کا تلوا پاؤں کے اوپری حصے سے زیادہ
نرم ھوتا ھے.گھر آرھا ھوں قدم بوسی کرنے دیجئےگا تاکہ کہاوت کی تصدیق ھوسکے*
*میں جب گھر پہنچاتو اباجی صحن ھی میں کھڑے میرا ھی انتظار کررھےتھے.اپنی نمناک آنکھوں سے مجھے گلے لگایا اور کہا قدم بوسی کی تو میں تم کو اجازت نہیں دیتا تاھم کہاوت بالکل سچی ھے کیونکہ جب تم چھوٹےسے تھے تو