آرمی کا سیلیکشن پراسیس دیکھ لو۔ جس بچے میں زرا سی چوں چراں نظر آتی ہے اس کو فوج کے لیے ان فٹ قرار دیدیا جاتا ہے۔ فوج انسانی تاریخ کا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہی حکم ماننے کی ہے۔ ڈسپلن کی۔ ایک سسٹم میں رہ کر اپنے سینئر کی
ہر بات پر فوری عمل کرنےکی۔ اوور تھنکنگ کرنے والا، سوال پر سوال کرنے والا، اعتراض، یا نفسیاتی/ ہائپر بندہ فوج کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ فوج کو لیڈرشپ اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے، مگر انقلابیوں کی نہیں۔ ذہین ترین افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر فلاسفرز اور تخلیق کاروں کی گنجائش نہیں ہوتی
اس پراسیس سی منتخب ہونے والے اگلے بیس سے تیس سال فوج کے مختلف شعبوں میں زندگی گذارتے ہیں۔ سخت ترین ٹریننگ سے گذرتے ہیں، لیڈرشپ کورسز کرتے ہیں، اور ہزاروں میں سے ڈیڑھ سو کے قریب میجر جرنیل کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں، اور ان میں سے چند ایک جرنیل کے۔ جرنیلوں کی یہ لاٹ مستقل بھی ہے
اور عارضی بھی۔ ہر تین سال بعد ان میں سے ٹاپ سینئرز ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اور چاہے کچھ بھی کر گذریں، انکا فوج کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں رہ جاتا۔ نئے لوگ فوجی کی کمان سنبھال لیتے ہیں۔
غور کرنے والے اس نکتے تک پہنچ گئے ہونگے کہ فوج میں نہ فلاسفرز ہوتے ہیں، نہ سائنسدان،
نہ تخلیق کار، نہ ہی نابغہ روزگار باقی سیاسی جینئس۔
اب آ جائیے پارلیمنٹ کی طرف۔
بیس کروڑ کے ملک سے بہترین اذہان منتخب کرنے کی آزادی ہے۔ کوئی لمٹ نہیں کہ کیسا ہی ذہین و فطین بندہ اسمبلی یا سینیٹ کا حصہ بن جائے۔ جینئس، فلاسفر، مفکر، مدبر، رہنما ۔ ۔ ۔ کیسا بھی بندہ ہو پارلیمنٹ کیلئے
بہترین ہے۔ تین چار سو کے قریب یہ پارلیمنٹیرین چاہیں تو زندگی بھر کے لیے پارلیمنٹ میں رہ سکتے ہیں۔ اور رہتے آئے ہیں۔ انکو ریٹائرمنٹ کا خدشہ بھی نہیں ہے۔
ایسے میں چالیس سال سے ہم یہ رونا سنتے آئے ہیں کہ فوج ہمیں کام نہیں کرنے دیتی۔ جرنیل ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں۔
ہم ملک و قوم کی خدمت کیسے کریں ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔ جبکہ سوال سادہ سا ہے۔ ۔ ۔
اور وہ سوال یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ کیا جرنیل آئن اسٹائن ہیں؟
کیا جرنیل اس قدر ذہین اور اسمارٹ ہیں کہ چار سو ٹاپ کے لیڈرز کو آسانی سے استعمال کر لیتے ہیں؟
کیا جرنیلوں کی چانکیہ سیاست و طاقت اس قدر
پیچیدہ ہے کہ بیس کروڑ کی رہنمائی کے دعویداروں کی سمجھ ہی میں نہیں آتی؟
کیا جرنیلوں کا یہ ٹولہ، جس کے ٹاپ کے اذہان ہر سال ریٹائر ہوتے چلے جاتے ہیں، اس قدر ذہین ہیں کہ اس "برین ڈرین" کے باوجود اپنی طاقت برقرار رکھتے ہیں اور آپ جیسے نابغوں کو آگے بھگائے پھرتے ہیں؟
ان سوالوں کا جواب "نہیں" ہونا چاہیے، مگر افسوس کے ساتھ حالات یہ بتاتے ہیں کہ جواب نہیں نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جرنیلوں کی یہ مختصر مگر ذہین لاٹ، ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے چار سو سروں کے مقابلے میں واقعی آئن اسٹائن ہیں۔ ۔ ۔ کیونکہ ہماری قوم کا سیاسی رجحان فلاسفر، تخلیق کار، مدبر،
جینئس کو رہنما منتخب کرنے کا نہیں ہے، بلکہ نوٹنکی، شعبدہ باز، زبان دراز، منہ پھٹ، موالی، غنڈے، بدمعاش، مذہبی بلیک میلرز، لسانی و علاقائی تعصب بیچنے والے، اوسط سے بھی نیچے کا آئی کیو رکھنے والوں کو منتخب کرنے کی طرف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے
چہرے دیکھیں تو حماقت دھمادھم برستی نظر آتی ہے، انکی زبانوں سے نکلتے الفاظ کو منطق و فراست کی پیمانے پر پرکھیے، تو ایک محلے کی جھگڑالو عورت سے اوپر نہیں ملیں گے۔ اکادکا استثنا کو چھوڑ کر یہ ساری لاٹ وراثت زدہ گٹھ جوڑ کی پیداوار ہے، جو اپنے اپنے علاقے میں موجود پولیس، پٹوار، مولوی،
اور زمین کی طاقت سے پارلیمنٹ تک آتے ہیں، اور قوم کے رہنما بن جانے کا دعوی کرتے ہیں۔
خود ہی غور کر لیں کہ آپ کے یہ "جینئس" کیا ان جرنیلوں کو سیاست سے باہر رکھ سکتے ہیں؟ جو آپس میں بیٹھ کر اسمبلی میں ایک ڈھنگ کی بحث نہیں کر سکتے،
وہ دنیا کی بہترین فوج کے سیزنڈ جرنیلوں کے مقابلے میں پارلیمان کے فیصلوں کو عزت دلوا سکتے ہیں؟
اسکا جواب میں آپ کے سر میں موجود نیورونز کے کنیکشنز پر چھوڑتا ہوں۔
تحریر: محمودفیاض
نوٹ: فوج سیلیکشن کے وقت یہ ضرور دیکھتی ھے کہ بچے میں سیکھنے کی صلاحیت ھے ؟ کیونکہ کہ پھر ساری سروس میں اس کو مختلف پیشہ ورانہ کورسزز کرواے جاتے ہیں۔ حتی کہ وہ کندن بن جاتا ھے
اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں,
میرا بیٹا اور اسکی والدہ....... .*
🤒
بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.
1949 میں بہیج تقی الدین نامی شخص کو لبنان کا وزیر زراعت مقرر کیاگیا۔
انکے بھائی سعید تقی الدین کو جو کہ ایک نامور لکھاری اور صحافی تھے،اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی کو مندرجہ ذیل خط لکھا:
میرے بھائی! تمہیں بہت مبارک!
مجھے پتہ چلا ھے کہ تم وزیر بن گئے ہو۔۔
یہ ہمارے خاندان اور علاقے دونوں کیلئے بڑی عزت کی بات یے۔
لیکن میں تمہیں ایک بات یاد دلانا چاہوں گا۔
کہ جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو اپنے والد کے ساتھ بستر میں سونے کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے، کہ والد صاحب کس کو اجازت دینگے۔
اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے والد اس موقع پر ہمارے ھاتھ سونگھا کرتے تھے تاکہ انہیں یقین ہوجاے کہ ہمارے ھاتھ صاف ستھرے ہیں اور ہم نے کھانا کھانے کے بعد اور کھیل کھود کے بعد اپنے ھاتھ دھو لیے ہیں،اسکے بعد ہی وہ ہمیں اپنے ساتھ سونے کی اجازت دیتے تھے۔
اسلامی تعلیمات کا بنیادی منبع قرآن کریم، احادیث نبوی ﷺ اور سنت رسول ﷺ ہے۔ قرآن اور احادیث عربی زبان میں ہونے کیوجہ سے عجمی ممالک میں ترجمہ کے ساتھ پڑھا جاتا رہا ہے۔ بد قسمتی سے ہندوستان و دیگر عجمی ممالک کی معاشرتی آداب زندگی بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ بنتی رہیں
مثلاً نکاح ایک سادہ سی بات ہے۔ گواہان کی موجودگی میں مرد اور عورت ایک دوسرے کو میاں/بیوی تسلیم کرنا۔ اسکے بعد خاوند کی طرف سے قریبی دوست اور رستہ داروں کو دعوت ولیمہ دینا۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ کو معلوم نہیں کیوں اتنا لمبا، مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا ہے۔
دوسری وجہ اسلامی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مولوی، امام کو بچے کی پیدائش پر، نکاح کے موقعہ پر اور نماز جنازہ کیلئے بلایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سارے کام ہمیں خود کرنے چاہیں۔
قصور وار ہم سبھی ہیں کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو عرصہ دراز سے ترک کئے رکھا۔ رسموں کا سہارا لیا۔۔۔
لالہ میلہ رام نے 1872 میں لاہور مال روڈ پر واقع اپنی قیمتی جائیداد میں سے وسیع رقبہ پرندوں (آزاد پرندوں) کی بہبود اور انہیں دانہ ڈالنے کے لئے وقف کیا جو ابتدا میں "مکان چڑیا خانہ" کہلاتا تھا بعد میں "چڑیا گھر" کے نام سے مشہور ہوا۔ "مکان چڑیا خانہ" کی اصطلاح پر ایک
سوال اٹھتا ہے کہ مکان اور خانہ ایک ہی معنی کے دو الفاظ اس میں کیوں ہیں؟ تو ممکن ہے کہ یہ علاقہ جس میں ایک پہاڑی بھی موجود ہے اس کو چڑیا خانہ کہا گیا ہو اور اس کے اندر موجود عمارت کو مکان کہا جاتا ہو اور یوں وہ عمارت مکان چڑیا خانہ کہلائی ہو۔
اس پرند گھر کو چڑیا گھر کہا گیا
جو بعد میں دیگر جانوروں کی بہبود کے لئے بھی استعمال ہونا شروع ہو گیا، لوگ ان جانوروں کی سیوا کرنے اور دیکھنے چڑیا گھر آنا شروع ہو گئے۔ یوں ZOO کے لئے چڑیا گھر کی اصطلاح نے جنم لیا۔
ایک بات یاد رہے کہ لاہور چڑیاگھر دنیا کا چوتھا قدیم ترین زو ہے جس کا رقبہ ابتدا میں کافی زیادہ تھا
امام جوزی رحمہ اللہ نے ترکی کے مشہور شہر انطاکیہ کے قاضی کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔ چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کر دیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قاضی نے کہا : خدا تیرا بھلا کرے، میں عالم آدمی ہوں اور دین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے، ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں، لہذا مجھ پر رحم کر۔
چور نے کہا : الحمد للہ ! آج اللہ تعالی نے مجھے لوٹنے کیلئے کسی مفلس، قلاش اور فقیر و نادار شخص کی بجائے ایک صاحب ثروت شخص کو
میرے قابو میں دیا ہے، جسے میں لوٹ بھی لوں تو وہ واپس شہر جا کر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے۔ (یوں میرے دل پر بوجھ نہیں ہوگا)
قاضی نے کہا : خدا کے بندے تو نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ *دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہےجومیراطریقہ ہے
*میرا کسی بات پر اپنے والد صاحب سے ایسا اختلاف ھوگیا کہ ھماری آوازیں اونچی ھوگئیں, میرے ھاتھ میں کچھ درسی کاغذات تھے جو میں نے غصے سے میز پرپٹخے اور دھڑام سے دروازہ بندکرتے ھوئے اپنے کمرے میں آگیا.*
*بستر پر گرکر ھونے والی بحث پر ایسادماغ الجھا کہ نیند ھی اڑگئی.صبح یونیورسٹی گیا توبھی ذھن کل واقعے میں اٹکارھا.ندامت وخجالت کے مارےدوپہرتک صبر جواب دے گیا.جیب سے موبائل نکالا اور اباجی کو یوں میسج کیا کہ*
*میں نے کہاوت سن رکھی ھے کہ پاؤں کا تلوا پاؤں کے اوپری حصے سے زیادہ
نرم ھوتا ھے.گھر آرھا ھوں قدم بوسی کرنے دیجئےگا تاکہ کہاوت کی تصدیق ھوسکے*
*میں جب گھر پہنچاتو اباجی صحن ھی میں کھڑے میرا ھی انتظار کررھےتھے.اپنی نمناک آنکھوں سے مجھے گلے لگایا اور کہا قدم بوسی کی تو میں تم کو اجازت نہیں دیتا تاھم کہاوت بالکل سچی ھے کیونکہ جب تم چھوٹےسے تھے تو