اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں,
میرا بیٹا اور اسکی والدہ....... .*
🤒
بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.
حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ *اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.*

*اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور
ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں.
پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک
بالکل بھلا چنگا ہو گیا.*

*پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.
* وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا.
میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی.
مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی,
الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.

یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔
وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ
ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ
کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔

میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے.
مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں.
میں اٹھ کر گھر چلا آیا.
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی
بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے *وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……
........ اوہ میرے خدایا…!

اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ بھی بھول جاتی ہے.

شاید اس تحریر کو پڑھنے سے کسی کو سیدھی راہ مل جائے اور کسی کے غم دور ہو جائیں......!
(منقول)

#قلمکار

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with آبی کوثر

آبی کوثر Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @NaikParveen22

28 Sep
1949 میں بہیج تقی الدین نامی شخص کو لبنان کا وزیر زراعت مقرر کیاگیا۔

انکے بھائی سعید تقی الدین کو جو کہ ایک نامور لکھاری اور صحافی تھے،اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی کو مندرجہ ذیل خط لکھا:

میرے بھائی! تمہیں بہت مبارک!

مجھے پتہ چلا ھے کہ تم وزیر بن گئے ہو۔۔
یہ ہمارے خاندان اور علاقے دونوں کیلئے بڑی عزت کی بات یے۔

لیکن میں تمہیں ایک بات یاد دلانا چاہوں گا۔

کہ جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو اپنے والد کے ساتھ بستر میں سونے کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے، کہ والد صاحب کس کو اجازت دینگے۔
اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے والد اس موقع پر ہمارے ھاتھ سونگھا کرتے تھے تاکہ انہیں یقین ہوجاے کہ ہمارے ھاتھ صاف ستھرے ہیں اور ہم نے کھانا کھانے کے بعد اور کھیل کھود کے بعد اپنے ھاتھ دھو لیے ہیں،اسکے بعد ہی وہ ہمیں اپنے ساتھ سونے کی اجازت دیتے تھے۔
Read 4 tweets
28 Sep
__قومی بیماری__

اسلامی تعلیمات کا بنیادی منبع قرآن کریم، احادیث نبوی ﷺ اور سنت رسول ﷺ ہے۔ قرآن اور احادیث عربی زبان میں ہونے کیوجہ سے عجمی ممالک میں ترجمہ کے ساتھ پڑھا جاتا رہا ہے۔ بد قسمتی سے ہندوستان و دیگر عجمی ممالک کی معاشرتی آداب زندگی بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ بنتی رہیں
مثلاً نکاح ایک سادہ سی بات ہے۔ گواہان کی موجودگی میں مرد اور عورت ایک دوسرے کو میاں/بیوی تسلیم کرنا۔ اسکے بعد خاوند کی طرف سے قریبی دوست اور رستہ داروں کو دعوت ولیمہ دینا۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ کو معلوم نہیں کیوں اتنا لمبا، مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا ہے۔
دوسری وجہ اسلامی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے مولوی، امام کو بچے کی پیدائش پر، نکاح کے موقعہ پر اور نماز جنازہ کیلئے بلایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سارے کام ہمیں خود کرنے چاہیں۔
قصور وار ہم سبھی ہیں کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو عرصہ دراز سے ترک کئے رکھا۔ رسموں کا سہارا لیا۔۔۔
Read 4 tweets
28 Sep
#قلمکار

لالہ میلہ رام نے 1872 میں لاہور مال روڈ پر واقع اپنی قیمتی جائیداد میں سے وسیع رقبہ پرندوں (آزاد پرندوں) کی بہبود اور انہیں دانہ ڈالنے کے لئے وقف کیا جو ابتدا میں "مکان چڑیا خانہ" کہلاتا تھا بعد میں "چڑیا گھر" کے نام سے مشہور ہوا۔ "مکان چڑیا خانہ" کی اصطلاح پر ایک
سوال اٹھتا ہے کہ مکان اور خانہ ایک ہی معنی کے دو الفاظ اس میں کیوں ہیں؟ تو ممکن ہے کہ یہ علاقہ جس میں ایک پہاڑی بھی موجود ہے اس کو چڑیا خانہ کہا گیا ہو اور اس کے اندر موجود عمارت کو مکان کہا جاتا ہو اور یوں وہ عمارت مکان چڑیا خانہ کہلائی ہو۔
اس پرند گھر کو چڑیا گھر کہا گیا
جو بعد میں دیگر جانوروں کی بہبود کے لئے بھی استعمال ہونا شروع ہو گیا، لوگ ان جانوروں کی سیوا کرنے اور دیکھنے چڑیا گھر آنا شروع ہو گئے۔ یوں ZOO کے لئے چڑیا گھر کی اصطلاح نے جنم لیا۔
ایک بات یاد رہے کہ لاہور چڑیاگھر دنیا کا چوتھا قدیم ترین زو ہے جس کا رقبہ ابتدا میں کافی زیادہ تھا
Read 7 tweets
27 Sep
#قلمکار
فوجی جرنیل آئن سٹائن ہیں؟

آرمی کا سیلیکشن پراسیس دیکھ لو۔ جس بچے میں زرا سی چوں چراں نظر آتی ہے اس کو فوج کے لیے ان فٹ قرار دیدیا جاتا ہے۔ فوج انسانی تاریخ کا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہی حکم ماننے کی ہے۔ ڈسپلن کی۔ ایک سسٹم میں رہ کر اپنے سینئر کی
ہر بات پر فوری عمل کرنےکی۔ اوور تھنکنگ کرنے والا، سوال پر سوال کرنے والا، اعتراض، یا نفسیاتی/ ہائپر بندہ فوج کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ فوج کو لیڈرشپ اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے، مگر انقلابیوں کی نہیں۔ ذہین ترین افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر فلاسفرز اور تخلیق کاروں کی گنجائش نہیں ہوتی
اس پراسیس سی منتخب ہونے والے اگلے بیس سے تیس سال فوج کے مختلف شعبوں میں زندگی گذارتے ہیں۔ سخت ترین ٹریننگ سے گذرتے ہیں، لیڈرشپ کورسز کرتے ہیں، اور ہزاروں میں سے ڈیڑھ سو کے قریب میجر جرنیل کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں، اور ان میں سے چند ایک جرنیل کے۔ جرنیلوں کی یہ لاٹ مستقل بھی ہے
Read 14 tweets
26 Sep
*چور اور قاضی*

امام جوزی رحمہ اللہ نے ترکی کے مشہور شہر انطاکیہ کے قاضی کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔ چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کر دیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قاضی نے کہا : خدا تیرا بھلا کرے، میں عالم آدمی ہوں اور دین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے، ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں، لہذا مجھ پر رحم کر۔

چور نے کہا : الحمد للہ ! آج اللہ تعالی نے مجھے لوٹنے کیلئے کسی مفلس، قلاش اور فقیر و نادار شخص کی بجائے ایک صاحب ثروت شخص کو
میرے قابو میں دیا ہے، جسے میں لوٹ بھی لوں تو وہ واپس شہر جا کر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے۔ (یوں میرے دل پر بوجھ نہیں ہوگا)
قاضی نے کہا : خدا کے بندے تو نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ *دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہےجومیراطریقہ ہے
Read 17 tweets
21 Sep
#قلمکار
=🌹🌺🌹=

*ایک نوجوان کہتاھے.......*

*میرا کسی بات پر اپنے والد صاحب سے ایسا اختلاف ھوگیا کہ ھماری آوازیں اونچی ھوگئیں, میرے ھاتھ میں کچھ درسی کاغذات تھے جو میں نے غصے سے میز پرپٹخے اور دھڑام سے دروازہ بندکرتے ھوئے اپنے کمرے میں آگیا.*
*بستر پر گرکر ھونے والی بحث پر ایسادماغ الجھا کہ نیند ھی اڑگئی.صبح یونیورسٹی گیا توبھی ذھن کل واقعے میں اٹکارھا.ندامت وخجالت کے مارےدوپہرتک صبر جواب دے گیا.جیب سے موبائل نکالا اور اباجی کو یوں میسج کیا کہ*

*میں نے کہاوت سن رکھی ھے کہ پاؤں کا تلوا پاؤں کے اوپری حصے سے زیادہ
نرم ھوتا ھے.گھر آرھا ھوں قدم بوسی کرنے دیجئےگا تاکہ کہاوت کی تصدیق ھوسکے*

*میں جب گھر پہنچاتو اباجی صحن ھی میں کھڑے میرا ھی انتظار کررھےتھے.اپنی نمناک آنکھوں سے مجھے گلے لگایا اور کہا قدم بوسی کی تو میں تم کو اجازت نہیں دیتا تاھم کہاوت بالکل سچی ھے کیونکہ جب تم چھوٹےسے تھے تو
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(