آج بات کرتے ہیں عقل کو دنگ کردینے والے تاریخ کے اس عظیم مسلمان ساٸنسدان کی جو بلاشبہ جدید ساٸنس کا بانی ہے، جن کے استوار کردہ قوانین پر چل کر ساٸنس نے اتنی ترقی کی ہےاور مذید تجربات جاری ہیں۔
ہم سب یہی جانتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ سر آئزک نیوٹن ہی دنیا کے سب سےبڑے سائنسدان
(1/25)
(2/25)
رہے ہیں،خاص طور پر فزکس کی دنیا میں ان کی خدمات بے مثال ہیں ۔
آئزک نیوٹن کو جدید آپٹکس یا علم بصریات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔کشش ثقل اور حرکیات کےاپنے قوانین کے علاوہ ،نیوٹن نے لینسوں اور پرزم کےساتھ حیرت انگیز تجربات کیے۔ ہم سب اپنے اسکول کے دنوں میں ، ان مرتب کئے ہوئے
(3/25)
بصریات کے قوائد کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ہم نے مرتب شدہ اس قانون کو بھی بڑی دل چسپی کےساتھ پڑھا کہ جب روشنی کسی پرزم سے گزرتی ہے تو یہ سات رنگوں کے قوس قزح میں تقسیم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیوٹن نے اپنے نظریات کے مطالعے کے لئے ایک مسلم سائنس دان ”الحزین“
(4/25)
کی دریافتوں کا سہارا لیا جو نیوٹن سے سات سو سال قبل پیدا ہوا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ نویں اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں عرب اور مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں جو تحقیق کی اور تجربات کی روشنی میں جو اصول وضع کیے وہ موجودہ سائنس
(5/25)
کے لئے بنیاد بنے۔ اس عرصے میں عرب دنیا میں ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا اور مسلمان سائنس دانوں نے محیر العقول تحقیق کی۔ ان کے قائم کردہ نظریات کو جدید ترین تحقیق بھی آج تک غلط ثابت نہیں کر سکی۔ اس تمام عرصے میں عرب اور خاص
(6/25)
طورپر مسلمان دنیا میں سائنسی علوم میں جس قدر تحقیق و ترقی ہوئی وہی جدید سائنس کی بنیاد ثابت ہوئی۔ مسلمانوں کے اس سنہری دور کےبڑے ناموں میں ابو علی الحسن بن الہیثم کا نام سب سےزیادہ نمایاں اور روشن ہے۔جن کو یورپ میں عام طور پر انکے لاطینی نام الحزین سے بھی جانا جاتا ہے اور
(7/25)
دنیا انہیں ”ابن الہیثم “ کے نام سے بھی جانتی ہے۔
ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں 965ء میں ہوئی۔
ابتداٸی تعلیم بصرہ سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلیے بغداد روانہ ہوۓ۔ ان کو بچپن ہی سے ساٸنسی علوم کا جنون کی حد تک شوق تھا۔
پھر بعد ازاں وہ طبیعات ، ریاضی ، انجنیئرنگ،
(8/25)
فلکیات اور ادویات کے مایہ ناز محقق بن کر ابھرے ۔اسکے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ کے بلانے پر رخت سفر باندھا اور مصر چلے گٸے۔
996ء میں وہ فاطمی خلافت مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی،
مصر
(9/25)
کے حاکم بامر اللہ فاطمی نےانہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا، ابن الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے جہاں اس وقت “السد العالی”(السد العالی ڈیم) قائم ہے اور اس کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے زمانے کے امکانات
(10/25)
کے حساب سے یہ کام ناممکن ہےاور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کر دیاجسے وہ پورا نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ الحاکم بامر اللہ کے پاس جاکر معذرت کر لی۔ جس پر وہ دس سال قید میں رہے ۔
ابن الہیثم کو بھی ہر سائنسدان کی طرح اپنی دریافتوں کو تحریر کرنے کے لیے وقت اور تنہائی کی
(11/25)
ضرورت تھی۔ جس پر قدرت کی طرف سے اس قید کو انہوں نے غنیمت جانا اور اسطرح سے انہیں اپنی تحقیق،مقالے لکھنے کا وقت مل گیا۔
ابن الہیثم دنیا کےوہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نےدرست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انہوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو
(12/25)
غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہےانہوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی بات ثابت کرنے کےلیے ریاضی کا سہارا لیا جو اس سے پہلےکسی نے نہیں کیا تھا۔
ابن الہیثم نے بطلیموس کے نظریات قبول نہیں کیے، بلکہ انہوں نے
(13/25)
بطلیموس کے روشنی کے حوالے سے بہت سارے نظریات کی مخالفت کی اور انہیں رد کردیا،انکی روشنی کےحوالےسےدریافتیں جدید سائنس کی بنیاد بنیں، مثال کےطور پر بطلیموس کا نظریہ تھا کہ دیکھنا تب ہی ممکن ہوتا ہےجب شعاع آنکھ سےکسی جسم سے ٹکراتی ہے، بعد کےسائنسدانوں نے اس نظریہ کو من و عن
(14/25)
قبول کیا، مگر ابن الہیثم نے اس نظریہ کی دھجیاں بکھیر کر ثابت کیا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور شعاع آنکھ سے نہیں بلکہ کسی جسم سے دیکھنے والے کی آنکھ سے ٹکراتی ہے۔
ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف یعنی مڑنا دریافت کیا، انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور
(15/25)
کرنےکیلیےعدسوں کا استعمال کیا۔ان کی سب سےاہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے۔ انہوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جسمیں آج کی جدید سائنس بھی رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی۔
علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اور شاہکار تصنیف ”کتاب المناظر“
(16/25)
ابن الہیثم نے لکھی تھی۔کروی اورسلجمی آئینوں پر تحقیق بھی ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ انہوں نےلینس کی میگنی فائنگ پاور کی بھی تشریح کی۔انہوں نےاپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے بنائے۔ حدبی عدسوں پران کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں مائیکرو سکوپ اور ٹیلی اسکوپ کی ایجاد ممکن
(17/25)
ہوئی۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے پر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا، جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے۔
ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (آنکھ کا پردہ)، کیٹاریکٹ اور کورنیا جو ابھی تک
(18/25)
مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصے ’پتلی‘ کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے۔ لاطینی میں مسور کو لینٹل کہتے ہیں،جو بعد میں لینس بن گیا۔دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ یعنی پن ہول کیمرہ بھی ابن الہیثم کی ہی قابل فخر ایجاد ہے، جس سے تصویری صنعت کا آغازہوا۔
(19/25)
انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا۔ ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے۔
سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصانیف شمار کی گئی ہیں جو سائنس پر ان کا
(20/25)
احسان عظیم ہے۔ راجر بیکن اور کیپلر نے ابن الہیثم کے کام سے بہت استفادہ کیا، جب کہ گلیلیو نے اپنی دوربین انہی کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے بنائی۔
یہ عظیم مسلمان ساٸنسدان ساٸنس پر مذید توجہ دینے کیلیے اندلس (اسپین) بھی گٸے۔
ابن الہیثم دنیا کے پہلے، درست اور سچے سائنسدان
(21/25)
تھےجنہوں نے بتایا کہ ہم چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اس نے اپنے تجربات کے ذریعہ ثابت کیا کہ ایمیشن کا نظریہ(جس میں کہا گیا ہےکہ ہماری نظروں سے روشنی ان چیزوں پر پڑتی ہے جو ہم دیکھتے ہیں) جو افلاطون ، یوکلڈ اور ٹولیمی نے تشکیل دیا تھا ، وہ غلط ہے۔
ابن الہیثم نے ثابت کیا کہ
(22/25)
ہم اس لئے دیکھتے ہیں کیونکہ روشنی ہماری آنکھوں کے اندر جاتی ہے۔ انکا اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ریاضی کے فارمولوں کا سہارا لینے پر انہیں پہلا نظریاتی ماہر طبیعیات بھی کہا جاتا ہے۔
لیکن ابن الہیثم کی شہرت ان کے پن ہول کیمرے کی دریافت کے لئے زیادہ پھیلی ۔ابن الہیثم نے
(23/25)
روشنی کے طشتت کو بھی دریافت کیا کہ روشنی مختلف رنگوں میں کس طرح تقسیم ہوتی ہے۔ ابن الہیثم نے سائے ، قوس قزح اور چاند گرہن کا بھی مطالعہ کیا اور بتایا کہ روشنی کس طرح زمین کے کرۂ ہوا سے ہٹ جاتی ہے۔ ابن الہیثم نے کرۂ ہوا کی بلندی کو قریب قریب درست طریقے سے ناپ لیا اور ان
(24/25)
کے مطابق زمین کے کرۂ ہوا کی بلندی تقریبا 100 کلومیٹر ہے۔
کچھ اسکالرز کا کہنا ہے کہ یہ ابن الہیثم ہی تھا جس نے سیاروں کے مدار کی تشریح کی تھی اور اسی بنیاد پر کوپرنیکس ، گیلیلیو ، کیپلر اور نیوٹن نے بہت بعد میں جاکر سیاروں کی حرکیات کا نظریہ دیا تھا۔
زندگی کے آخری دنوں
(25/25)
میں ابن الہیثم ہسپانیہ سے واپس مصر لوٹ آۓ جہاں 1039ع میں انکا انتقال ہو گیا۔
چاچا افلاطون بقلم خود

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with چاچا افلاطون

چاچا افلاطون Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @chflato

25 Sep
تاریخ کے جھروکوں سے مسلمانوں کے شاندار ماضی کو یاد کرتے ہوۓ ،زکر کرتے ہیں ایک ایسی ہستی کا جو بے شمار کتابوں کے مصنف تھے ، جن کی بیشتر تصانیف فقہ، کلام، منطق، اخلاق اور تصوف پر مشتمل ہیں۔ جن کی سب سے قیمتی اورمفید کتاب احیاء علوم الدین ہے جس کو بہت مقبولیت حاصل ہے
(1/23)
(2/23)
اس کتاب سے اسلامی دنیا کے علاوہ یورپ نے بھی خاص طورپر فائدہ اٹھایا۔ اور اس کا اصل نسخہ آج بھی کتب خانہ برلن میں موجود ہے۔ جن کی فارسی میں ”کیمیائے سعادت“ جہاں ایک بلند پایہ تصنیف ہے وہیں فقہ میں ”وسط بسیط“ مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ فلسفہ میں مقاصد الفلاسفہ
(3/23)
اورتہافتہ الفلاسفہ، منطق میں معیار العلم، محک نظر اور میزان العمل قابلِ ذکر ہیں ، جن کی خودنوشت ”المنقذ “ سوانح حیات ہے
جو ایک بڑے مفکر اور متکلم تھے اور جن کا نام محمد تھا، کنیت ابوحامد تھی اور لقب زین الدین تھا اور جنہیں ہم ابوحامد غزالی اور امام غزالی رح کے نام سے
Read 23 tweets
17 Sep
وہ وقت جب بغداد میں اسلامی سلطنت کا زوال ہوا اور ہلاکو خان نے ظلم و بربریت سے بغداد کی پرسکون فضاء کو تباہ و برباد کیا تو علم حاصل کرنے کی غرض سے موجود ایک مسافر نے حالات دیکھ کر شکستہ دلی کے ساتھ وہاں سے کوچ کیا۔ لیکن پھر وہ کسی ایک جگہ کے قیام پر مطمئن نہ ہوسکے اور
(1/15)
(2/15)
اطراف عالم کو دیکھنے کے آرزو مند ہوۓ۔
دوستو۔۔!
آج بات کرتے ہیں اس مشہور زمانہ شخصیت کی جن کی رباعیاں اور حکاٸتیں دنیا بھر میں پڑھی اور پڑھاٸی جاتیں ہیں اور انکی لکھی کتابیں بلاشبہ شاہکار ہیں۔
اس شخصیت کا اسم گرامی شرف الدین تھا لقب مصلح الدین اور سعدی تخلص ہے۔ اور
(3/15)
عام طور پر دنیا انہیں شیخ سعدی رح کے نام سے جانتی ہے۔
آپ ایران کے شہر شیراز میں تقریباً 1184 ع میں عبداللہ شیرازی کے گھر پیدا ہوئے۔
آپ کے والد عبداﷲ شیرازی ملک کے حکمران سعد زنگی کے پاس کام کرتے تھے۔
شیخ سعدی کو بچپن ہی سے ادب اور شعرو شاعری کا شوق تھا اس لیے بچپن
Read 15 tweets
11 Sep
باباجی کے آخری ایام کے کچھ اہم واقعات
14جولائی 1948 کا دن تھا جب باباجی محمد علی جناح کو انکی علالت کےپیش نظر کوئٹہ سےزیارت منتقل کیا گیا تھا
21 جولائی کو جب انہیں زیارت پہنچے ہوئے فقط ایک ہفتہ گزرا تھا،انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اب انہیں صحت کےسلسلے میں زیادہ خطرات
1/25
2/25
مول نہیں لینےچاہییں اور اب انہیں واقعی اچھےطبی مشورے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جوں ہی انہیں اپنے بھائی کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین کے ذریعے کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کو پیغام بھجوایا کہ وہ لاہور کے
3/25
ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں۔
جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا معدہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ان کے سینے اور پھیپھڑوں کے بارے میں صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش
Read 36 tweets
3 Sep
چکوال کے ایک گاٶں میں غلام علی تارڑ کے گھر 1944 میں پیدا ہونے والے بچے کےبارے میں کون جانتا تھا کہ یہ مرد مجاہد شہدا بدر اور شہدا احد کے جانشینوں میں اپنا نام رقم کرواۓ گا اور جاسوسی اور گوریلا وار کی دنیا میں اہل کفر پر اسکا نام ایک خوف کی علامت بن کر رہ جاۓ گا اور وہ
1/20
2/20
تاریخ میں ہمیشہ کرنل امام کے نام سے امر ہوجاۓ گا۔۔۔
آج اسی مرد مجاہد اور افغان وار کے بعد خانہ جنگی کے محرکات پر مختصر بات کریں گے۔۔
سلطان امیر تارڑ نے 1966 ع میں پاکستان فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1994ع میں وہ بریگیڈٸیر کے عہدے پر ریٹاٸرڈ ہوئے۔ مگر اس سروس کے
3/20
دوران انہوں نے عقل کو دنگ کر دینے والے ایسے کام سرانجام دیے جن کی وجہ سے انکا نام اور کام تاریخ میں امر ہوچکا ہے۔۔
ماوراٸی شہرت کے حامل کرنل امام نے سوویت اتحاد کے افغانستان پر قبضہ کے بعد 1980ء میں شروع ہونے والے افغان جہاد میں پاکستان کی آئی ایس آئی کی طرف سے افغانیوں
Read 20 tweets
1 Sep
ایران کی تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہےکہ رستم و سہراب والے ایران کے کھیلوں میں فن پہلوانی کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔
آج آپ سے ایران کے ایک مشہور پہلوان کا زکر کرتے ہیں جسکی ایک تصویر جھوٹے شرم ناک کیپشن کے ساتھ پاکستان میں خوب واٸرل رہی ہے۔ ابراہیم یزدی جو کہ یزدی عظیم کے نام سے 1/11
2/11
جانے جاتے ہیں وہ تقریباً 1786ع میں ایران کے شہر تفت میں پیدا ہوۓ۔
اسے ایران کا ہیرو مانا جاتا ہے۔
قاجار بادشاہ ناصر الدین شاہ کے کہنے پر اسے باقاٸدہ اعزاز کے ساتھ تہران لایا گیا تھا ۔
جب یہ نوعمری میں تھے تو مسلسل ٹانگوں کے درد میں مبتلا رہنے پر ڈاکٹروں کی طرف
3/11
سے کوٸی صحت مندانہ سرگرمی (کھیل ) وغیرہ تجویز کی گٸی، جس پر اس نے کشتی کی طرف رخ کیا اور پھر کچھ ہی وقت میں اس نے اپنے مضبوط ،لچکدار لمبے جسم اور ہمت کی وجہ سے شہر کے تمام پہلوانوں کی کمر زمین پہ رگڑدی۔
اس نوجوان ہیرو کی شہرت تہران پہنچی تو ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ
Read 11 tweets
29 Aug
مسلمانوں کے سنہرے دور کو یاد کرتے ہوۓ افغانستان کے صوبے غزنی کے عہدرفتہ پر بات کرتے ہیں۔
غزنی خراسان کا ایک اہم شہر اور 962ء سے 1187ء تک سلطنت غزنویہ کا دار الحکومت تھا۔
افغانستان کی خانہ جنگی میں کچھ شہر جن کو نقصان نہیں پہنچا ، ان میں سے ایک غزنی بھی ہے کیونکہ یہ شہر شہر 1/17
2/17
اولیا ہے اور تمام افغانوں کے لیے یہ شہر افتخار کا باعث ہے اس وجہ سے یہ خانہ جنگی میں بھی محفوظ رہا
یہ شہر غزنی کے بادشاہوں کے عروج کے زمانے میں دارالخلافہ رہا ہے بالخصوص سلطان محمود غزنوی نے اپنے دور حکومت (997 ع تا 1030 ع) میں اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیےجس کی وجہ سےاسے
3/17
حضرت غزنی کہا جاتا ،اس دور میں یہ شہر قوت و شوکت اور اسلامی عظمت کا بےمثال نمونہ تھاموجودہ غزنی سےشمال مشرق کو پانچ کلومیٹر دور قدیم غزنی کےکھنڈر موجود ہیں۔غزنی شہر کے آثار آج بھی بڑی اچھی شکل میں موجود ہیں جس طرح لاہور کا شاہی قلعہ اچھی شکل میں موجود ہےاسی طرح غزنی کا قلعہ
Read 18 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(