ہمارے یہاں عام طور پر کتب روایات والوں و ملاں و مفتیان حتی کہ کثرت سے لوگ کہتے پھرتے ہیں جبرائیل و میکائیل فرشتے ہیں جبکہ قرآن میں ہے "اگر تم کثیر کے کہنے پر چلو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے (6/116) " ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو
صرف قرآن ھی کو مانتے ہیں اور اس کی تعلیم بھی دیتے ہیں جبکہ قرآن جبرائیل و میکائیل کے متعلق کیا کہتا ھے اس پہ کوئی غور نہیں کرتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے
لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَهُدًى وَّبُشۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ (2/97)
انہیں بتا دو کہ جو بھی قرآنی ضابطے [جِبْرِيلَ ] کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے وہ یہ جان لے کہ یہ ضابطہ درحقیقت [فَإِنَّهُ ] تمہارے قلب پر اللہ ہی کے قوانین [بِإِذْنِ اللَّـهِ ] کو لے کر نازل ہوا ہے [نَزَّلَهُ ] اور
جو ہاتھوں کے درمیان ہے اس کی تصدیق [مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ] بھی کرتا ہے اور ایک مستقل ہدایت اور ایمان والوں کے لیے خوشخبری کی حیثیت رکھتا ہے۔
قُلۡ ۔۔۔۔ حاضر یعنی موجودہ گھڑی میں قُلۡ کون کہے گا ؟
مثلاً ایک مجمع قرآن سننے کے لئے آیا ہوا ھے تو اسکو "قل" کون کہے گا جبکہ
محمد ع تو حاضر میں بشری طور پر موجود ھی نہیں تو جناب سیدھی سی بات ہے اگر آپ نے انکو قرآن پر لیکچر دینا ہے تو آپ ہی "قل" کہیں گے۔ محمد علیہ السلام تو بشری طور پر آکر نہیں کہیں گے کیونکہ انکا تو انتقال ہوچکا ھے۔
"عَدُوًّا لِّجِبۡرِيۡلَ" جبرائیل سے دشمنی /جبرائیل کا دشمن
سوال یہ پیدا ہوتا ہے جبرائیل کیا ہے ؟
"ِّجِبۡرِيۡلَ" دو الفاظ کا مجموعہ ھے "جبر اور ائیل"
جبر کہتے ہیں قوت کو جیسے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے "جبری مشقت" یعنی قوت یا طاقت کی بنیاد پر جو محنت کروائی جائے اور
اللہ کو عبرانی زبان میں "ائیل" کہتے ہیں تو جبرائیل کا مطلب ہوا اللہ کی قوت۔ اللہ کی قوت اسکی آیات ہیں۔ لوگ اللہ کی آیات یعنی قرآن سے ہی دشمنی کرتے ہیں۔
قبل از نبوت محمد رسول اللہ جب تک لوگوں میں رہے تو لوگوں کا رویہ ٹھیک رہا۔ جیسے ہی انھوں نے اللہ کی آیات پپش کرنا شروع کیں
تو انکے جاننے والوں سمیت سب انکے دشمن ہوگئے۔ آج بھی اگر آپ مشاہدہ کرنا چاہیں تو آیات قرآنی پپش کریں جیسے ہی آپ انکو قرآنی آیات پیش کریں گے یہ دشمن ہوجائیں گے اور آپ پر لپک پڑیں گے۔ گالیاں دیں گے، دھمکیاں دیں گے دھمکی آمیز لہجے میں بات کریں گے۔
یہ دشمنی قرآنی آیات سنانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ھے۔ آپ جتنی چاہیں "کتب روایات" سنائیں لوگ واہ واہ کریں گے اور جیسے ہی قرآن پر بیان شروع کرو گے یا صرف قرآن کا بتاؤ گے تو آپکےدشمن ہوجائیں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ "عَدُوًّا لِّجِبۡرِيۡلَ" کسی مافوق الفطرت فرضی فرشتے سے نہیں بلکہ
اللہ کے نازل کردہ قرآن سے دشمنی ہے ۔
فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلۡبِكَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ
ہمارے یہاں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ جبرائیل نے قرآن کو قلب نبوی پہ نازل کیا جبکہ جبرائیل نے نہیں بلکہ جبرائیل یعنی قرآن کو ہی قلب پر نازل کیا گیا " یہ ضابطہ درحقیقت [فَإِنَّهُ ]
تمہارے قلب پر اللہ ہی کے قوانین [بِإِذْنِ اللَّـهِ] کو لے کر نازل ہوا ہے [نَزَّلَهُ] "
آگے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرائیل یعنی قرآن کو اللہ کے حکم کے ساتھ قلب نبوی پر کیوں نازل کیا گیا۔
مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡه۔۔۔۔۔۔۔تصدیق کرنے والا ہے اسکی جو اسکے دونوں ہاتھوں
کے درمیان ہے
یعنی جبرائیل اسکی تصدیق کرے گا جو بھی دونوں ہاتھوں کے درمیان ہے۔ وہ کیا ہے ؟
ہمیں گھر سے، دوستوں سے، مزہبی پیشواؤں سے، معاشرے سے اسلام یا احکامات الہیٰ کے نام پر جو چیزیں ملیں جیسے مختلف تفاسیر، تاریخ، سنی فرقے کی احادیث/روایات صحاح ستہ یا شیعہ فرقے کی صحاح اربعہ
سمیت سب کی سب، ان سب کی تصدیق جبرائیل یعنی قرآن کرے گا کہ ان میں کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے
وَهُدًى وَّبُشۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ
اور ہدایت اور خوشخبری ہے مومنین کے لئے
یعنی جبرائیل جو کہ کلام اللہ ہے صرف اسی میں ہدایت و خوشخبری موجود ہے بشرطیکہ اسکو لاگو کیا جائے
آگے دیکھتے ہیں کہ میکائیل کیا ھے ؟
مَنۡ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰٓئِکَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَجِبۡرِيۡلَ وَمِيْكَالَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلۡكٰفِرِيۡنَ (2/98)
جو ہو دشمن اللہ اور اسکے ملائکة اور اسکے پیغام دینے والوں اور جبریل اور مِيۡكٰالَ کا تو
پس اللہ دشمن ہے انکار کرنے والوں کے لئے
آیت میں " وَ " تمیزی ہے یعنی فرق کرتی ہے یہ کس میں فرق کر رھی ہے نوٹ کریں
(1) لِّلّٰهِ وَمَلٰٓئِکَتِهٖ "اللہ اور مَلٰٓئِکَتِهٖ کو الگ الگ کر رہی ہے" (2) مَلٰٓئِکَتِهٖ کو رُسُلِهٖ سےالگ کررہی ہے یعنی ملائکة اور رسول الگ الگ ہیں
(3) رُسُلِهٖ کو َجِبۡرِيۡلَ سے الگ کر رہی ہے (4) جِبۡرِيۡلَ سے مِيْكَالَ کو الگ کر رہی ہے
یعنی اللہ الگ ہے، ملائکة الگ ہے اور رسول الگ اور جبرئیل الگ ہے اسی طرح مِيْكَالَ الگ ہے یعنی یہ پانچوں الگ الگ ہیں
"مِيْكَالَ" و ک ل سے ھے اوراسکا ظرف میکال ہے، اسکے معنی
وہ نمائندہ ھوتا ھے جو خصوصی طور پر دوسروں کے لئے کام کرتا ہو یا کر رہا ہو اور اسکے معنی معاملات کو نمٹانا، دفاع کرنے والا، منتظم/مینجر جو کسی کو کنٹرول کرے اور انتظامیہ کا ذمہ دار ہو
لہذا جبرائیل اللہ کا کلام یعنی قرآن ہے اور میکال اسکا نمائندہ۔
آپ میکال بن کر اللہ کی نمائندگی کر سکتے ہیں جبرائیل یعنی اللہ کا کلام عوام کو پیش کرکے اسکے وکیل بن سکتے ہیں یہی رسول کی اطاعت ہے لیکن میکال کو بھی فرشتہ بنا دیا گیا۔ حیرت ہے ان فارسی اماموں اور ملاؤں و مفتیوں پر جبکہ میکال یعنی اللہ کا نمائندہ ھم نے خود بننا ہے اسکی وکالت کرکے
اور وکالت الکتاب یعنی قرآن سے ھوگی۔ آج آپ اللہ کے وکیل بن کر دیکھ لیں اس کے جبرائیل یعنی قرآن کو پیش کرکے دیکھ لیں تو یہ آیت بلکل واضح ہوجائے گی جب لوگوں کا ردعمل دشمنی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
سورۃ الاحزاب آیت 56 کی رو سے ”صل“ کا مطلب ”درود بھیجنا“ کیا جاتا ہے جو قرآن میں بالمعنوی تحریف کے مترادف ہے۔ ”درود“ فارسی زبان کا لفظ ھے جس کا مطلب ”دعا کرنا ھے“۔ مجوسی آگ کی پوجا کرتے تھے اور اسے نماز کہتے تھے اور آگ کی پوجا کے بعد جو دعا کرتے تھے اسے ”درود“ کہتے تھے۔
قرآن میں ھے
اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَهٝ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰم۔۔۔۔۔۔ تَسْلِيْمًا (33/56)
بے شک اللہ اور اسکے ملاٸکہ، نبی کی اعانت کرتے ہیں سپورٹ کرتے ہیں۔ اے ایمان والو اس (نبی) کی اعانت کرو سپورٹ کرو اور مطیع ہو جاؤ فرمانبرداری کے ساتھ
اسی طرح 34/43 میں مزکور ھے
هُوَ الَّـذِىْ يُصَلِّىْ عَلَيْكُمْ وَمَلَآئِكَـتُهٝ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۚ
وہی (اللہ) ھے جو تمہاری اعانت کرتا ہے اور اسکے ملاٸکہ بھی۔ تاکہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے
شاخیں :- قرآن اکیڈمی ڈیفنس
قرآن اکیڈمی یٰسین آباد
قرآن اکیڈمی کورنگی
قرآن انسٹیٹیوٹ گلستان جوہر
قرآن انسٹیٹیوٹ لطیف آباد
قرآن مرکز لانڈھی
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
ڈاکٹر اسرار کو چند لاعلم حلقوں کی جانب سے ماڈرن ملا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور تواتر سے ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ موصوف روایتی ملاٹوں کی طرح نہ تو فرقہ پرست تھے نہ ھی شدت پسند نظریات کے حامل تھے حالانکہ یہ سب جھوٹ اور فریب پہ مبنی ھے۔
ڈاکٹر اسرار، مفتی تقی عثمانی، الیاس قادری طاہر القادری اور طارق جمیل سے قطعا مختلف نہیں بس طریقہ واردات زرا مختلف تھا اور وھی پرانی شراب نئی پیکنگ میں جاہل قوم کو چپکاتے رھے۔
تنظیم اسلامی کے ممبران نہ صرف غیر قانونی جہادی سرگرمیوں میں ملوث تھے بلکہ
پہلا رخ
7 نبوی، عمر بن خطاب نے اسلام قبول کیا۔ پہلی بار سرعام آذان بھی دلوائی اور نماز بھی پڑھی۔
دوسرا رخ
بقول مودودی 12 نبوی کو واقعہ معراج پیش آیا جہاں 50 نمازوں کا تحفہ ملا جو موسی رسول اللہ کے کہنے پر گھٹتے گھٹتے 5 رہ گئیں
بالو بتیاں وے ماھی سانوں مارو سنگلاں نال 😜😜
ایک اور رخ
جب مسجد نبوی بنائی گئی تو ایک مجلس شوری بلائی گئی کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے بلایا جائے؟
مخلف آراء سامنے آئیں، جن میں نقارہ بجانا آگ جلانا وغیرہ شامل تھیں۔ پھر ایک صحابی نے کہا کہ مجھے کچھ الفاظ خواب میں سکھائے گئے ہیں۔
جب وہ سنے گئے تو فائنل ہوا کہ یہی آذان دی جائے
دوسرا رخ
معراج کے موقع پر یروشلم میں آذان بھی ہوئی۔ تکبیر بھی کہی گئی اور محمد رسول اللہ نے مرحوم انبیاء کرام کو باجماعت نماز بھی پڑھائی جبکہ نماز نامی عذاب تو ابھی ملا ھی نہیں
جب آپ غیرمسلموں کو دین کی دعوت دیتے وقت اپنی روایات کی کتابوں کے مطابق یہ کہیں گے کہ:
ہمارے نبی نے 52 برس کی عمر میں 6 سالہ عائشہ سے نکاح کیا۔
ہمارے نبی نے اونٹ کے پیشاب میں شفا بیان فرمائی ہے۔
ہمارے نبی سلام رات کو سوتے وقت اپنی چارپائی کے نیچے ایک برتن رکھتے تھے اور
اس میں پیشاب اور فضلہ کرتے تھے جسے آپ کے صحابہ بڑے شوق سے کھاتے تھے۔
ہمارے نبی کی دو آنکھیں پیچھے بھی تھیں لیکن جب عائشہ پر زنا کا الزام لگا تو نبی نے عائشہ سے بول چال بند کردی۔
پھر اس کے بعد اگر آپ غیرمسلم سے یہ کہیں کہ دین اسلام قبول کرلو اور ہاں اگر قبولیت کے بعد تم نے
دین چھوڑا تو تمہیں بطور مرتد قتل کردیا جائے گا تو کیا آپ کے خیال میں وہ غیرمسلم آپ کی دعوت سے متاثر ہو کر دین اسلام قبول کرلے گا ؟
آپ نے اسے یہ کہا کہ دین اسلام میں ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے اور اگر اس نے پوچھ لیا کہ دنیا میں کسی ایک مسلم ملک کی مثال دکھاؤ جہاں
اے مومنو ! جب بھی تمہیں اجتماعی کام کیلئے یوم الجمعہ کی ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور ہر قسم کی مصروفیت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ھے اگر تم علم رکھتے ہو (62/9)
*يَّوۡمِ الۡجُمُعَة مرکب اضافی ھے۔ یہاں يَّوۡمِ کے معنی وقت، دورانیہ اور پیریڈ کے
ھیں اور الۡجُمُعَة کے معنی جمع ھونے کے ھیں۔ يَّوۡمِ الۡجُمُعَة سے پہلے "اذا" ہنگامی بلاوے کا قرینہ ھے ۔جب کبھی بھی نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ ھو تو ایمان والو !سب کام چھوڑ کر مرکز میں آ جاؤ.
سورة 24 آیت 62 میں اسی الصلوة کو امر جامع کہا ھے۔ ثابت ھوا کہ سورۃ جمع آیت 9 میں بھی
لِلصَّلٰوةِ کے معنی امر جامع ھے۔ مرکز میں جب کبھی بھی کسی اجتماعی کام کے لئے بلایا جائے تو سب کام چھوڑ کر مرکز میں پہنچ جاؤ۔
"اذا" سے مراد ایمرجنسی کال ، ہنگامی بلاوا ھے۔ یہ کسی وقت بھی ھو سکتی ھے۔ یہاں جمعہ کا دن مراد نہیں ھے۔ عربی میں جمعہ کے دن کا کوئی تصور نہیں ۔
انبیاء کرام کی معاشی و معاشرتی اصلاحات کا استحصالی طبقے پر بڑا منفی اثر پڑتا ھے جو کہ جابر حکمران، حریص سرمایہ دار اور وحشی مذہبی پیشوائیت پہ مشتمل ہوتا ھے۔ وہ ان کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔اس مخالفت میں مذہبی پیشوائیت پیش پیش ہوتی ھے ۔اللہ شاہد ھے کہ
انبیاۓ کرام کو جتنے دکھ انہوں نے دیٸے اور جتنی اذیتیں انہوں نے پہنچاٸیں اتنی کسی نے نہیں پہنچاٸیں ۔مذہبی پیشوائیت کا رویہ ھر دور میں جاہلانا اور متشدد رہا ھے ۔عقل دشمنی،
تقلید اور اسلاف پرستی ان کا شعار ہوتا ھے ۔جو بھی ان کے خود ساختہ آئین و شریعت کا انکار کرتا ھے
اسے بدترین تشدد کا نشانا بنایا جاتاھے ۔انہوں نے اپنے مخالفین کی کھالیں کھنچواٸیں، زبان کو گدی سے نکالا، ہجرت پہ مجبور کیا اور انسانوں کو زندہ جلایا ۔ایسے بھیانک اور بدترین سلوگ کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا جو مذہبی پیشوائیت نے انجام دئیے ۔انبیإ کرام کی پرامن اور حیات أفرین دعوت کا