اے مومنو ! جب بھی تمہیں اجتماعی کام کیلئے یوم الجمعہ کی ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور ہر قسم کی مصروفیت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ھے اگر تم علم رکھتے ہو (62/9)
*يَّوۡمِ الۡجُمُعَة مرکب اضافی ھے۔ یہاں يَّوۡمِ کے معنی وقت، دورانیہ اور پیریڈ کے
ھیں اور الۡجُمُعَة کے معنی جمع ھونے کے ھیں۔ يَّوۡمِ الۡجُمُعَة سے پہلے "اذا" ہنگامی بلاوے کا قرینہ ھے ۔جب کبھی بھی نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ ھو تو ایمان والو !سب کام چھوڑ کر مرکز میں آ جاؤ.
سورة 24 آیت 62 میں اسی الصلوة کو امر جامع کہا ھے۔ ثابت ھوا کہ سورۃ جمع آیت 9 میں بھی
لِلصَّلٰوةِ کے معنی امر جامع ھے۔ مرکز میں جب کبھی بھی کسی اجتماعی کام کے لئے بلایا جائے تو سب کام چھوڑ کر مرکز میں پہنچ جاؤ۔
"اذا" سے مراد ایمرجنسی کال ، ہنگامی بلاوا ھے۔ یہ کسی وقت بھی ھو سکتی ھے۔ یہاں جمعہ کا دن مراد نہیں ھے۔ عربی میں جمعہ کے دن کا کوئی تصور نہیں ۔
یہ گنتی کے حساب سے دنوں کے نام ھیں یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن اتوار ھے اسی طرح یوم کے ساتھ اثنین، الثلاثہ الاربعاء الخمیس السدس اور السبعہ لگانے سے ہفتے کےباقی چھ دنوں کے نام ھیں۔ سورة 42 آیت 7 اور سورة 64 آیت 9 میں يَّوۡمِ الۡجُمُع کے کلمات قیامت کے دور، وقت اور دن
کے لئے آئے ھیں اسی طرح 62/9 آیت میں يَّوۡمِ الۡجُمُعَة سے مراد جمع ھونے کا دورانیہ اور وقت مراد ھے۔ ہفتے کے دنوں میں سے کوئی جمعہ کا دن مراد نہیں ھے۔ لہذا اجتماع کے وقت اور دورانیہ کو يَّوۡمِ الۡجُمُعَة سے تعبیر کیا گیا ھے اس کا مروجہ کفریہ نماز جمعہ سے کوئی تعلق نہیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
پہلا رخ
7 نبوی، عمر بن خطاب نے اسلام قبول کیا۔ پہلی بار سرعام آذان بھی دلوائی اور نماز بھی پڑھی۔
دوسرا رخ
بقول مودودی 12 نبوی کو واقعہ معراج پیش آیا جہاں 50 نمازوں کا تحفہ ملا جو موسی رسول اللہ کے کہنے پر گھٹتے گھٹتے 5 رہ گئیں
بالو بتیاں وے ماھی سانوں مارو سنگلاں نال 😜😜
ایک اور رخ
جب مسجد نبوی بنائی گئی تو ایک مجلس شوری بلائی گئی کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے بلایا جائے؟
مخلف آراء سامنے آئیں، جن میں نقارہ بجانا آگ جلانا وغیرہ شامل تھیں۔ پھر ایک صحابی نے کہا کہ مجھے کچھ الفاظ خواب میں سکھائے گئے ہیں۔
جب وہ سنے گئے تو فائنل ہوا کہ یہی آذان دی جائے
دوسرا رخ
معراج کے موقع پر یروشلم میں آذان بھی ہوئی۔ تکبیر بھی کہی گئی اور محمد رسول اللہ نے مرحوم انبیاء کرام کو باجماعت نماز بھی پڑھائی جبکہ نماز نامی عذاب تو ابھی ملا ھی نہیں
جب آپ غیرمسلموں کو دین کی دعوت دیتے وقت اپنی روایات کی کتابوں کے مطابق یہ کہیں گے کہ:
ہمارے نبی نے 52 برس کی عمر میں 6 سالہ عائشہ سے نکاح کیا۔
ہمارے نبی نے اونٹ کے پیشاب میں شفا بیان فرمائی ہے۔
ہمارے نبی سلام رات کو سوتے وقت اپنی چارپائی کے نیچے ایک برتن رکھتے تھے اور
اس میں پیشاب اور فضلہ کرتے تھے جسے آپ کے صحابہ بڑے شوق سے کھاتے تھے۔
ہمارے نبی کی دو آنکھیں پیچھے بھی تھیں لیکن جب عائشہ پر زنا کا الزام لگا تو نبی نے عائشہ سے بول چال بند کردی۔
پھر اس کے بعد اگر آپ غیرمسلم سے یہ کہیں کہ دین اسلام قبول کرلو اور ہاں اگر قبولیت کے بعد تم نے
دین چھوڑا تو تمہیں بطور مرتد قتل کردیا جائے گا تو کیا آپ کے خیال میں وہ غیرمسلم آپ کی دعوت سے متاثر ہو کر دین اسلام قبول کرلے گا ؟
آپ نے اسے یہ کہا کہ دین اسلام میں ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے اور اگر اس نے پوچھ لیا کہ دنیا میں کسی ایک مسلم ملک کی مثال دکھاؤ جہاں
انبیاء کرام کی معاشی و معاشرتی اصلاحات کا استحصالی طبقے پر بڑا منفی اثر پڑتا ھے جو کہ جابر حکمران، حریص سرمایہ دار اور وحشی مذہبی پیشوائیت پہ مشتمل ہوتا ھے۔ وہ ان کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔اس مخالفت میں مذہبی پیشوائیت پیش پیش ہوتی ھے ۔اللہ شاہد ھے کہ
انبیاۓ کرام کو جتنے دکھ انہوں نے دیٸے اور جتنی اذیتیں انہوں نے پہنچاٸیں اتنی کسی نے نہیں پہنچاٸیں ۔مذہبی پیشوائیت کا رویہ ھر دور میں جاہلانا اور متشدد رہا ھے ۔عقل دشمنی،
تقلید اور اسلاف پرستی ان کا شعار ہوتا ھے ۔جو بھی ان کے خود ساختہ آئین و شریعت کا انکار کرتا ھے
اسے بدترین تشدد کا نشانا بنایا جاتاھے ۔انہوں نے اپنے مخالفین کی کھالیں کھنچواٸیں، زبان کو گدی سے نکالا، ہجرت پہ مجبور کیا اور انسانوں کو زندہ جلایا ۔ایسے بھیانک اور بدترین سلوگ کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا جو مذہبی پیشوائیت نے انجام دئیے ۔انبیإ کرام کی پرامن اور حیات أفرین دعوت کا
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب اختیار (قرآنی حکومت کے افسران) ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں تنازعہ ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر
یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے
آپ خود سوچیں جب علماء ایک واؤ پر صرف اپنی دوکانداری کےلئے اڑے ہیں وہاں روشنی کیسے طلوع ہو ؟
جبکہ آسان سی بات ہے کہ رسول کریم سینکڑوں سال پہلے وفات پا گئے تو اتھارٹی وھی رہے گی جس کو
"اے نبی [قیادت کا بلند منصب رکھنے والے]، جب تم اپنی عوام کے ایک حصے کو الحاق کے معاہدے یا ماتحتی سے آزاد کرتے ہو [طلقتُم النساء] تو یہ ضروری ہے کہ تم اس ضمن میں ان کی تیاری کے لیے ایک مقررہ مدت کا تعین کردیا کرو [لعدّتِھِنّ] اور
پھر اس مدت کے شمار کا خاص خیال رکھا کرو اور اس تمام کاروائی کے دوران اپنے پروردگار کے احکامات کی پرہیز گاری کرتے رہو۔ اس دوران اُن کے مراکز اور اداروں سے [من بیوتِھنّ] ان کا اخراج نہ کرو اور نہ ہی وہ خود ایسا کریں صرف اس صورت میں کہ وہ مرکز کے خلاف کسی
کھلی حدود فراموشی کے مرتکب ہو جائیں [بفاحشۃ مبینۃ] کیونکہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں تو جو بھی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو گویا اس نے اپنی ذات کے ساتھ ظلم کیا۔ تمہیں کیا علم کہ بعد ازاں اللہ تعالی اپنی مشیت سے کوئی نئی صورتِ حال سامنے لے آئے [یحدِثُ] [1]۔ فلھٰذا جب معینہ