اُستاد دامن اور ان کی بیٹھک۔۔۔۔۔۔
لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں ، فیض احمد فیض کے جنازے پر رکشے سے ایک نحیف سا شخص اترا تو لوگ اسے دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ یہ دھاڑیں مار مار کہ اپنے یار کی میت پر رو رہا تھا۔ ماضی میں پہلوانی جسامت کا حامل یہ شخص اب بہت بیمار نظر آ رہا تھا اور وہ
بار بار یہ کہے جا رہا تھا کہ اگلی باری میری ہے۔ اور یہ بات سچ ہو گئی۔ صرف تیرہ دن بعد وہ بھی دنیا سے چلا گیا۔
یہ تھے استاد دامن ، پنجابی کے مشہور شاعر۔

مسجد مندر تیرے لئی اے
باہر اندر تیرے لئی اے
دل اے قلندر تیرے لئی اے
سکّھ اک اندر تیرے لئی اے
میرے کول تے دل ای دل اے
اوہدے وچ سما او یار
گُھنڈ مکھڑے تو لاہ او یار
مُکدی گلّ مُکا او یار #ستاد_دامن جن کا اصل نام چراغ دین تھا 4 ستمبر 1911 کو اندرون لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد میراں بخش ایک ماہر درزی تھے۔ دامن تو خاندانی پیشے سے کوئی لگاؤ نہ تھا وہ سکول جانا چاہتے تھے، پڑھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے
اپنی یہ خواہش تو پوری کر لی لیکن نوکری نہ ملنے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو کر باغبانپورہ میں اپنی درزی کی دوکان کھول لی۔
بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے اور دوکان کھولنے کے بعد بھی ان کا دل کہیں شاعری میں اٹکا رہتا تھا۔ وہ دوکان چھوڑ کہ اکثر مشاعرے سننے چلے جاتے تھے
۔ اپنے استاد سے متاثر ہو کہ آپ نے اپنا تخلص دامن رکھ لیا۔ آپ کے ایک انٹرویو کے مطابق لوگوں نے دامن کو دمدم سمجھ کہ انہیں وہی پکارنا شروع کر دیا۔
شروع شروع میں تو آپ نے محبت اور محبوب پر شعر کہے لیکن جیسے ہی برصغیر کی آزادی قریب ہوتی گئی آپ کی شاعری میں ہندوستان کی سیاست ،
سامراجی مخالفت اور آزادی سے محبت بڑھتی گئی۔
1930 میں اس وقت کے مشہور کانگریسی سیاستدان #میاں_افتخار_الدین جو اکثر آپ سے کپڑے سلوانے آیا کرتے تھے، نے جب آپ کی دوکان پر آپ کا کلام سنا تو دنگ رہ گئے اور جھٹ آپ کو کانگریس کے ایک عوامی اجتماع میں اپنا کلام پڑھنے کی دعوت دے ڈالی۔
موچی دروازے کے اس اجتماع سے جہاں آپ کو بھرپور عوامی پزیرائی ملی وہیں آپ کی سامراج مخالف نظموں پر #پنڈت_جواہر_لعل_نہرو نے آپ کو ''آزادی کے شاعر'' کا لقب دے ڈالا۔ یہ وہ دن تھے جب بہت سی سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں اور عوامی اجتماعات میں شعرا کو عوام کا لہو گرمانے کے لیئے
مدعو کیا کرتی تھیں۔
آپ کی شاعری میں بہت ورائٹی تھی۔ جہاں ایک طرف دامن نے پنجابی ثقافت، معاشرتی برائیوں اور لوک داستانوں کو موضوع بنایا وہیں تصوف، روایتی موضوعات اور سیاست بھی آپ کے کلام کا اہم جزو رہی۔ فیض نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ ''میں پنجابی میں صرف اس لیے شاعری نہیں کرتا
کہ پنجابی میں شاہ حسین وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں۔''
بلاشبہ استاد دامن پنجابی ادب کا انمول خزانہ ہیں۔

تھک دیئو کوڑا مونہہ کرو مِٹھا
گَلاں مِٹھیاں کرو جہان اندر
ایہہ وستیاں امن امان دسن
پیدا کرو مِٹھاس، انسان اندر
برصغیر کی تقسیم نے آپ کو اندر تک کاٹ کہ رکھ دیا تھا۔ #کانگریس سے منسلک ہونے کیوجہ سے لاہورمیں ہونے والے ہنگاموں میں آپکا گھر جلا دیا گیا اور دوکان بھی لوٹ لی گئی وہیں دوسری طرف آپکی زوجہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ دامن کے بہت سے ہندو و سکھ قریبی دوست اور شاگرد بھی ہندوستان چلےگئے
لیکن اس کے باوجود آپ نے لاہور کو چھوڑنا پسند نہ کیا۔ اپنا دیس کون چھوڑتا ہے بھلا۔
ان حادثات سے جب آپ پر مالی دباؤ بڑھا تو آپ بہت بُجھے بُجھے رہنے لگے اور اندرون ٹکسالی دروازے کے ایک حجرے میں منتقل ہو گئے جہاں مادھو لال حسینؒ بھی مقیم رہ چکے تھے۔ یہاں آپ پوری عمر کتابوں کے بیچ رہے
یہی حجرہ #دامن_کی_بیٹھک کہلایا۔
استاد دامن مزدوروں، مظلوموں، غریبوں اور کسانوں کے شاعرتھے۔ انہوں نے ہمیشہ استحصالی طبقوں کی مذمت کی اور پسے ہوئے طبقے کا ساتھ دیا۔
آپکو جب دلی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں بلایا گیا تو آپ کا کلام سن کہ لوگ رو پڑے تھے۔ #پنڈت_نہرو بھی وہاں موجودتھے
حب الوطنی کا یہ عالم تھا کہ نہرو نے جب آپ سے ہندوستان منتقل ہو جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو دامن نے جواب دیا؛
''اب میرا وطن پاکستان ہے میں لاہور ہی میں رہوں گا بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔''
لیکن اس حب الوطنی کا آپ کو کچھ اچھا صلہ نہیں ملا۔۔۔۔۔
استاد دامن نے ایوب، بھٹو اور
ضیاء دور کی سختیاں اور پابندیاں دیکھی تھیں اور ان تینوں ادوار میں آپ نے سیاسی جبر کے خلاف بھرپور مزاحمت کی تھی جس کا ایک اہم ذریعہ آپ کا کلام تھا۔ آپ کا غم اور اندر کی بغاوت کاغذ پر نکلتی گئی جس سے لاجواب کلام تخلیق ہوا۔

میرے ملک دے دو خدا، لا اِلہٰ تے مارشل لاء
اِک رہندا اے عرشاں اُتے، دُوجا رہندا فرشاں اُتے
اوہدا ناں اے اللہ میاں، ایہدا ناں اے جنرل ضیاء
واہ بھئی واہ جنرل ضیاء، کون کہے تینوں ایتھوں جا
ایک طرف ایوبی دور میں آپ نے قید کاٹی تو دوسری طرف بھٹو دور میں آپ پر بم کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔
بات یہ ہوئی کہ
بھٹو دور میں استاد دامن نے حکومت کی پایسیوں پر کچھ نظمیں لکھیں جن میں خاص طور پہ بھٹو کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی گئی تھی کہ ایک طرف وہ بھارت سے ایک ہزار سال تک بھی لڑنے کو تیار تھے جبکہ دوسری جانب وہ اندرا گاندھی سے شملہ معاہدہ کرنے کو بے چین تھے۔
بھٹو کی واپسی پر دامن نے
یہ نظم لکھی ؛

ایہہ کی کری جانا
ایہہ کی کری جانا
کدی چین جانا
کدی روس جانا
بن کے توں امریکی جاسوس جانا
کدی شملے جانا
کدی مری جانا
ایہہ کی کری جانا
ایہہ کی کری جانا
جدھر جانا ایں ، بن کے جلوس جانا
دھسا دھس جانا
دھسا دھوس جانا
ایہہ کی کری جانا
ایہہ کی کری جانا
یہ نظم جب عوام میں پھیل گئی تو استاد دامن پر بم کا جھوٹا کیس بنا کہ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ انکو عدالت میں پیش گیا۔ جب مجسٹریٹ نے آپ سے پوچھا کہ آپ سے پستول اور بم برآمد ہوئے ہیں تو کہا کہ میری کوٹھڑی کا ابھی دروازہ چھوٹا تھا، ورنہ وہاں سے ٹینک نکلنا چاہیئے تھا۔
اس روز
کمرہ عدالت میں زبردست ہجوم تھا دانشوروں کا، وکلاء کا، ادیبوں کا، شاعروں کا، استاد کے مداحوں کا۔
مجسٹریٹ پریشان بار بار ریٹائرنگ روم میں جاتا اور صورت حال گورنر کو بتاتا جبکہ گورنر کی ایک ہی رٹ تھی
''ضمانت نہیں ہو گی''۔
اس نے صاحب بہادر کی شان میں گستاخ شعر کہے ہیں
بھلا یہ شاعری ہے۔۔۔؟؟؟
وکیل کہہ رہے تھے می لارڈ استاد دامن جس حجرے میں رہتے ہیں وہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس پر بم کیس ہی نہیں بنایا جا سکتا تھا- عدالت میں اکبر لاہوری مرحوم نے کہا تھا ''تاریخ میں یہ محفوظ ہو جانا ہے کس وقت کس حکومت نے کس بندے کے ساتھ کس عدالت نے کیا فیصلہ کیا۔''
مجسٹریٹ نے استاد دامن سے پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں
استاد دامن نے کہا؛
جس نے کٹہرے میں آج مجھے ملزم بنا کر کھڑا کیا ہے کل وہ مجرم بن کر اسی کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔
اور دنیا نے دیکھا کہ جہاں استاد دامن کھڑے تھے وہیں پھر #ذوالفقار_علی_بھٹو کھڑے نظر آئے۔

فیض احمد فیض نے دامن کی
اسی شجاعت و دلیری کی بناء پر آپ کو ''#پنجابی_شاعری_کا_حبیب_جالب'' کہا تھا جو بالکل ٹھیک تھا کہ آپ نے اپنی شاعری میں ڈکٹیٹروں اور سامراجی قوتوں کو ببانگ دہل للکارا تھا اور ان کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی تھی۔
چاندی سونے تے ہیرے دی کان تے ٹیکس
بیٹھک ، ڈیوڑھی ، چوبارے ، ڈھلان تے ٹیکس
بیٹھے تھڑے تے نالے پہلوان تے ٹیکس
عقل مند تے نالے نادان تے ٹیکس
پانی پین تے روٹی کھان تے ٹیکس
انسان تے ٹیکس حیوان تے ٹیکس
آئے گئے مسافر مہمان تے ٹیکس
انجیل تے ٹیکس قران تے ٹیکس
لگ جائے نہ دین ایمان تے ٹیکس
ایس واسطے بولدا نئیں دامنؔ
متاں لگ جائے میری زبان تے ٹیکس

ان اشعار کو پڑھیں تو آپ محسوس کریں گے جیسے یہ آج ہی کے لیئے لکھے گئے ہیں۔
کیس سے چھٹکارہ پانے کے بعد استاد نے لکھنے کی بجائے پڑھنے پر توجہ مرکوز کی اور ادبی تقاریب میں جانا ختم کر دیا۔
آپ کا زیادہ وقت اکیلے اپنی بیٹھک میں گزرتا۔ اس دوران آپ کی طبیعت اوپر نیچے ہوتی رہتی تھی ۔ اداکار #علاؤ_الدین (جنہیں دامن اپنا منہ بولا بیٹا مانتے تھے) کی موت نے انہیں توڑ کہ رکھ دیا تھا۔ پھر فیض کی وفات کے بعد ان کی حالت اور خراب ہو گئی ۔ آخر کار 3 دسمبر 1984 کو تہتر سال کی
عمر میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو حضرت شاہ حسینؒ کے مزار کے احاطے میں دفنایا گیا۔

#اندرون_ٹکسالی_دروازے جائیں تو ایک مسجد کے نیچے چھوٹا سا کمرہ اپنے پرانے ساز و سامان سمیت نظر آتا ہے یہ استاد دامن کی بیٹھک اور اب دامن اکیڈمی کا دفتر ہے۔
ڈاکٹر_کیول_دھیر اپنی کتاب ''میں لاہور ہوں'' میں لکھتے ہیں؛

''استاد دامن ہمارے پیر شاعر ہیں ان کی شاعری کے دیوانے دونوں پنجابوں میں ہیں۔ پنجابی ناول نگار فرزند علی کا ناول ''پُبھل'' انہی کی زندگی پر ہے۔
ان سے ملاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہم ان کی بیٹھک پہ گئے تو مقبول نے ان
سے ہمارا تعارف کروایا، استاد دامن ایک دم جزباتی ہو گئے اور اندر لے جا کر اپنی چارپائی پر اپنے ساتھ بٹھایا، گلے لگا کر کہنے لگے دنیا میں ہزاروں پیر پیغمبر آئے ہیں۔ سب نے انسانوں کو انسانیت کا درس دیا ہے لیکن کیا بات ہے کہ انسان پھر بھی درندے کا درندہ ہے۔
استاد دامن کو خواجہ دامن
اور پیرمرشد بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی چارپائی کے نزدیک کتابوں سے بھری ایک میز تھی۔ میز پر رکھا ایک لیمپ روشن تھا۔ دو کرسیاں تھیں۔ اِدھر اُدھر پڑی سینکڑوں کتابیں تھیں۔
باتیں کرتے کرتے استاد نے سرہانے رکھے ایک بڑے لفافے سے کھاجا نکال کر میز پر پڑی پلیٹ میں الٹ دیا کہنے لگے ، کھاؤ اور
ہم سب دانے چنتے گئے اور استاد اپنی زندگی کی باتیں ، دیش بدیش کی باتیں کرتے رہے اور پھر اچانک کہنے لگے ؛
تم جانتے ہو میں نے گیتا پڑھنے کے لیئے سنسکرت سیکھی تھی۔ ''
ایک زمانے میں یہاں اپنے وقت کے مشہور و معروف شاعر و ادیب آیا کرتے تھے جن میں احمد فراز، فیض احمد فیض، اداکار
محمد علی، ملکہ ترنم نور جہاں اور حبیب جالب جیسے نام شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اس بیٹھک کے دروازے عام لوگوں کے لیئے بھی کھلے ہوتے تھے۔ استاد دامن اکثر خود سب کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ بہت سے لوگ یہاں اپنے تجربات اور مختلف خیالات ان کو سنانے آیا کرتے تھے۔ #پاک_ٹی_ہاؤس کے بعد استاد
دامن کی یہ بیٹھک لاہور میں علمی و ادبی مجلسوں کی دوسری بڑی میزبان تھی۔
یہ بیٹھک اس لیئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ مشہور صوفی بزرگ #حضرت_شاہ_حسینؒ کا حجرہ رہا ہے جہاں انہوں نے اپنا بہت سا کلام تخلیق کیا تھا۔

آج اس بیٹھک میں حسرت و یاس کا دور دورہ ہے۔ سامان کے نام پر ایک
میز، فریج، چند کرسیاں اور ڈھیر ساری کتابیں ہیں جو اس دور میں بھی ہوا کرتی تھیں۔ ایک محراب کے نیچے تخت رکھا ہے جس کے ساتھ بنے شیلف میں سے کتابیں اُمڈ رہی ہیں۔ سامنے کی دیوار پر استاد دامن کا ایک بڑا پورٹریٹ اپنی بہار دکھا رہا ہے جس سے آپ کی شخصیت کی سادگی ٹپک رہی ہے۔
دوکان و مکان کو آگ لگنے کے دوران استاد دامن کی کئی کتابیں اور تحریریں بھی نزرِ آتش ہو گئیں جن میں ہیر کا وہ مسودہ بھی تھا جس پر وہ ان دنوں کام کر رہے تھے۔ اس کے بعد آپ نے اپنی تخلیقات کو قرطاس پر اتارنا چھوڑ دیا تھا۔ جس کا نقصان ان کے پڑھنے والوں کو بھی ہوا۔ #استاد_دامن_اکیڈمی
کے پلیٹ فارم سے ان کے چاہنے والوں نے (سائیں اختر اور محمد اقبال جن میں سر فہرست ہیں) ادھر ادھر بکھرے کلام کو یکجا کیا اور ''دامن دے موتی'' نامی کتاب کی صورت پیش کیا۔ آپ کے دوستوں یونس ادیب مرحوم، کنول مشتاق اور ظہیر اختر نے بھی آپ کے بہت سے کلام کو محفوظ کیا۔
استاد دامن کے کریڈٹ پہ کچھ نغمے بھی ہیں جنہیں 1951 کی فلم #چن_وے کے لیئے نور جہاں نے گایا تھا۔ اس کے علاوہ آپ کے مشہور نغمے ''مینوں دھرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات'' کو حمیرا چنا نے گایا تھا۔

آج کل دامن اکیڈمی #محمد_اقبال_محمد_صاحب کے زیر انتظام ہے جو پیشے سے تو
ایک وکیل ہیں لیکن ساتھ ساتھ استاد دامن اکیڈمی کے صدر بھی ہیں۔ آپ سے بات چیت کے دوران استاد جی کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں جاننے کو ملیں۔ آپ ایک مہمان نواز اور قابل شخصیت ہیں۔
کاش کہ ہم اپنے گزرے ہوئے مشاہیر کی یادگاروں کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے قابل ہو جائیں اور ان کے کام کو
آگے بڑھا سکیں۔ امید ہے کہ حکومت یا والڈ سٹی لاہور اتھارٹی ایک کونے میں موجود اس بیٹھک کی مرمت و بحالی کے بارے میں بھی کبھی ناں کبھی ضرور سوچے گی۔
ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری
#شاہنامہ
حوالہ جات ؛
استاد دامن شاعری تے شخصیت (کنول مشتاق)
میں لاہور ہوں (ڈاکٹر کیول دھیر)
کہیہ کری جانا ایں ( کالم ؛ فضل حسین اعوان)

#قلمکار

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with آبی کوثر

آبی کوثر Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @NaikParveen22

31 Oct
*جادوئی گھر*
کہتے ہیں کہ: ایک ادیب کی بیوی نے اس سے کہا آپ بہت کتابیں لکھتےہیں، آج میرے لئے بھی کچھ لکھیں پھر مانوں گی کہ واقعی آپ ادیب ہیں.

اس نے لکھا *میرا جادوئی گھر*
میں، میری بیوی اور بچے ایک جادوئی گھر میں رھتے ہیں۔۔۔
وہ اپنے کپڑے میلے کچیلے اتارتے ہیں، جو اگلے ھی دن صاف ستھرے ھوجاتے ہیں
وہ اپنے جوتے سکول اور آفس سے آتے ھی ادھر ادھر اتار دیتے ہیں، پھر اگلے دن صبح وہ پالش شدہ صاف جوتے پہن کر جاتے ہیں۔
ھر روز رات کو کوڑے والی باسکٹ کچرے سے بھری ھوتی ھے اور اگلے دن صبح سویرے وہ خالی ھوتی ھے۔
میرے جادوئی گھر میں بچے کھیلتے ھوئے اودھم مچاتے ہیں ھر چیز اپنی جگہ سے دوسری جگہ اچھال دیتے ھیں، کھانے کی چیزیں بکھیر دیتے ھیں لیکن اگلے ھی لمحے ھر شے اپنی اصلی جگہ اور بکھری چیزیں ان دیکھے ہاتھوں سے سمٹ کر گھر پھر سے صاف ستھرا ھوجاتا ھے ۔۔۔
Read 7 tweets
30 Oct
اِس مُلک کو فوج چلا رہی ہے یا عدلیہ؟
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ

اب مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کن الفاظ میں اپنی عدلیہ کا شکریہ ادا کروں عزیر بلوچ کو 3 مقدمات میں بری کرنے پر خراج تحسین پیش کروں یا نعیم بخاری کو کام کرنے سے روکنے پر پھولوں کی مالا پہناؤں
مجھے یہ بھی سمجھ نہ آ رہی ہے کہ جس ملک میں ہائی کورٹ سپریم کورٹ اپنی مرضی سے ڈاکٹروں سے لیکر پولیس والوں اور دیگر محکموں کے افسران اور چپڑاسی تک کو کام کرنے سے روک دیں وہاں جب کوئی یہ کہتا ہے کہ اس ملک کو فوج چلاتی ہے تو ان کیلیئے دوا مانگوں یا دعا؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ ہر واقعہ پر ازخود نوٹس لیتے ہیں پھر ایک سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ رٹ آف گورنمنت کہاں ہے
کیا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہی سوال تھانہ مارگلہ اسلام آباد کو آگ لگانے کی دھمکی دینے ملزمان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھنے کی ہمت رکھتے ہیں ؟
Read 6 tweets
29 Oct
*نیک بہو کا سبق آموز واقعہ*

*جس نے اپنی بیٹی کو ایسے اعلٰی اخلاق سے مزین کیا۔*

*میں ایک جاننے والے کے گھر گیا تو وہاں ایک بڑا سبق آموز قصہ رونما ہوا جو آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔*
*میں ان کے ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھا تو کچن ڈرائینگ روم کے ساتھ اٹیچ تھا جس کی وجہ سے کچن
میں ہونے والی گفتگو کو تھوڑا غور کرنے سے سنا جا سکتا تھا۔*
*دو خواتین گفتگو کر رہی تھیں جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ دونوں اس گھر کی دلہنیں ہیں۔ ان دونوں کی گفتگو نے مجھے ایک بہت بڑا سبق سکھایا۔*
*ایک خاتون دوسری سے کہہ رہی تھی کہ ”تم پر کتنا ظلم ہوتا ہے سارا دن تم سے گھر کے
کام کرواتے رہتے ہیں، ہر کوئی تمھیں نوکر کی طرح سمجھتا ہے شائد اس لئے کہ تم مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہو اور مجھے دیکھو گھر میں سارا دن رانیوں کی طرح راج کرتی ہوں کوئی مجھے کچھ نہیں کہتا، جس کو کام ہوتا ہے وہ تمھیں کہتا ہے، تمھیں ان لوگوں نے گھر کی نوکرانی بنا رکھا ہے،
Read 7 tweets
27 Oct
*ایف بی آر کے سابق چیرمین شبر زیدی کے تہلکہ خیز اور چونکا دینے والے انکشافات*

*جب ہم خود بدلنا نہیں چاہتے تو چایے فوج آئے یا عمران ،چاہے صدارتی نظام ہو یا شریعت، کوئ مائ کا لعل ہمیں بدل نہیں سکتا.*

*جھوٹ، دھوکہ، چوری، ملک سے غداری اور خود غرضی، ہم بس ایسے ہی ہیں*
*میں سات انڈسٹریز پہ ٹریک اینڈ ٹریس لگانے کی کوشش میں تھا جیسے سیمنٹ، سیگریٹ وغیرہ، لیکن ہم ناکام ہو گئے، سیگریٹ پہ لگایا گیا تو عدالت سے سٹے آرڈر آ گیا، شبر زیدی*

*دوسری میری کوشش تھی ایف بی آر کو بینکنگ ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو، پاکستان میں بزنس اکاونٹ 4 کروڑ ہیں لیکن
ٹیکس میں 1 کروڑ ڈیکلئیر ہیں، ایک کروڑ روپے اکاونٹ میں ہونے پر NTN لگنا چاہیے، شبر زیدی*

*بجلی کے ساڑھے تین لاکھ انڈسٹرئیل کمرشل کنکشن ہیں لیکن سیلز ٹیکس میں 40 ہزار رجسٹرڈ ہیں، میں نے ہر ڈسکو کو ڈیٹا کے لئے خط لکھا، ڈیٹا نہیں دیا گیا، پھر لاہور چیمبر آف کامرس سے
Read 14 tweets
24 Oct
*حضرت جي مولانا یوسف صاحب رحمة الله* کے زمانے کا قصہ ھے کہ ان کے زمانے میں *مہنگائی* بہت بڑھ گئی۔ کچھ لوگ *مولانا* کے پاس آئے اور *مہنگائی* کی شکایت کی اور کہا کہ : کیا ہم *حکومت* کے سامنے مظاہرے کرکے اپنی بات پیش کریں؟
*حضرت* نے ان سے فرمایا : مظاہرے کرنا اھل باطل کا طریقہ ھے۔
پھر سمجھایا کہ دیکھو! انسان اور چیزیں دونوں *الله تعالیٰ* کے نزدیک ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ھیں ، جب انسان کی قیمت *الله تعالیٰ* کے یہاں ایمان اور *اعمال صالحہ* کی وجہ سے بڑھ جاتی ھے تو چیزوں کی قیمت والا پلڑا خودبخود ہلکا ھوکر اوپر اٹھ جاتا ھے اور *مہنگائی* میں کمی *آجاتی* ھے۔
اور جب *انسان* کی قیمت *الله تعالیٰ* کے یہاں اس کے گناہوں اور *معصیتوں* کی کثرت کی وجہ کم ھوجاتی ھے تو چیزوں والا پلڑا وزنی ھوجاتا ھے اور چیزوں کی *قیمتیں* بڑھ جاتی ھیں۔
لہٰذا تم پر ایمان اور *اعمال* صالحہ کی *محنت* ضروری ھے تاکہ *الله پاک* کے یہاں تمہاری قیمت بڑھ جائے اور
Read 5 tweets
23 Oct
#قلمکار

مولانا رومؒ نے لکھا ہے ایک دفعہ ایک شخص نے اللہ کی عبادت کرنا شروع کر دی اور پروردگار کی عبادت میں اتنا مشغول ھوا کہ دنیا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سب کچھ بھلا دیا اور سچے دل سے اللہ کی رضا میں راضی رھنے کے لئے انسانیت کے رستے پر چل پڑا.
مولانا روم ؒ کہتے ہیں ایک وقت وہ آیا کہ اس کے گھر میں کچھ کھانے کو بھی نہ بچا اور ھوتے ھوتے وہ وقت بھی آیا کہ گھر باہر سب ختم ھو گیا اور وہ شخص چلتے ھوئے موت کے انتظار میں گلیاں گھومتا اب تو بچا کچھ نہیں تو انتظار ھی کر سکتا ھوں اللہ سنبھال لے۔
ایک دن بیٹھا ھوا تھا دیکھا اس کے قریب سے ایک لمبی قطار میں گھوڑے گزرے ان گھوڑوں کی سیٹ سونے اور چاندی سے بنی ہوئی تھی اور ان کی پیٹوں پر سونے کے کپڑے پہنے ھوئے تھے۔

ان گھوڑوں پر جو لوگ بیٹھے تھے وہ کسی شاھی گھرانے سے کم نہ لگتے تھے ان کے سروں پر سونے کی ٹوپیاں تھیں اور
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(