Research and Analysis Wing (RAW، September 1968)
شایدہی کوئی "را" کے نام سے ناواقف ھو!
جی وہی مشہور زمانہ "را" جس کا کام صرف پاکستان پر نظر رکھنا، پڑوسیوں کے معاملات میں بےجا مداخلت کرنا غرض الزامات کا ایک طویل سلسلہ ھے۔
1968 میں قائم اس بیرونی انٹیلیجنس ونگ کے بانی #RAW #History
اندرا گاندھی اور رامیشور ناتھ کاءو تھےاور رامیشور ناتھ کاءو ہی را کےپہلےچیف بھی منتخب ھوئے جو 1977 میں ریٹائرھوئے۔
1962 کی انڈو-سویت جنگ، پاکستان سےخراب تعلقات اور چین کےساتھ 1962 کی سرحدی جنگ میں بھارت کی ناقص کارکردگی کےبعد اس ایجنسی کاقیام عمل میں لایا گیا۔ابتداء میں را کامقصد
غیر ملکی انٹیلیجنس معلومات جمع کرنا، انسداد دہشت گردی، پالیسیز بنانے والوں کو مشورے دینا، بھارت کے غیر ملکی مفادات کو آگے بڑھانا اور چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اسکے مقاصد کا دائرہ اختیار بھی بڑھتا گیا۔ جیسے آج بھارتی ایٹمی پروگرام کی حفاظت کا ذمہ،
1971 بنگلہ دیش کا بننا، افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا۔
یہ وہی راھے جس نے مکتی باہنی کے اسلحہ برداروں کو تربیت دی۔ وہی مکتی باہنی جو سقوط ڈھاکہ کاسبب بنی۔
ابتداء میں را کے 250 آفسر اور اسکا سالانہ بجٹ تقریبا 400٫000$ تھا۔
را میں ایئر فورس، پولیس، بھارتی ریوینیو سروس آفیسرز
اور یونیورسٹیز کے گریجوایٹس بھی بھرتی کئے جاتے ہیں اور انکو باقائدہ تربیت دی جاتی ھے۔
امریکی CIA اور برطانوی M16 کے برعکس RAW اپنی تحقیقات ڈیفینس منسٹری کی بجائے براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرتی ھے۔
را کاچیف سیکرٹری کیبنٹ سلیکٹ کرتا ھے جو PM آفس کا حصہ ھوتا ھے.
را شروع تو یہ ملکی
ذاتی مقاصد کیلئے ھوئی تھی مگر اسکی ساری توجہ ہمسایہ ممالک سے پنگوں خصوصا پاکستان کونقصان پہنچانے پر موقوف ھے۔دیگر ممالک کی بھی یہی رائےھے۔
Reference:
The Kaoboys of R&AW: Down Memory Lane by B. Rama [a former RAW official] (2007) @threadreaderapp pls Unroll. #India #RAW #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
لارنس کالج گھوڑا گلی (مری، پاکستان)
اسکی تاریخ خاصی الجھادینے والی ھےکیونکہ اس کاایک الگ پس منظرھے۔
1860ءبنگال آرمی ایڈمنسٹریٹر اور برگیڈئیر جنرل ہینری مونٹگمری لارنس(Henry Montgomery Lawrence،سری لنکن پیدائش) نے150 ایکڑ پر "لارنس میموریل اسائلم" کےنام سےاسکی بنیاد رکھی۔ #History
سرلارنس عہدبرطانیہ میں ریونیو سسٹم، کینال سسٹم اور سڑکوں کے معاملات دیکھتے تھےاس لیے وہ برٹش سپاہیوں کے یتیم بچوں کے بارے میں بہت فکرمند رھتے۔ یہی فکر اس کالج کے بنیاد کا سبب ٹھہری۔
1910 میں اسے اسکول بنا دیا گیا جبکہ اسے کالج کا درجہ1927 میں گرانٹ ھوا۔
انگریزوں کے پنجاب پر قبضے
کے بعد اسی طرز کے تعلیمی ادارے ہماچل پردیش،تامل ناڈو، اور راجھستان میں بھی قائم کئے گئے جس کا مقصد مستقبل کی انگریز فوج کیلئے فوجی ٹرینڈ کرنا تھا۔
1860 میں مری بیوری فیکٹری قائم کی گئی جس کا اولین مقصد فوجیوں کی ضروریات پوری کرنا تھا۔
47 کے ہنگاموں میں یہ فیکٹری تباہ ھو گئی۔
قدیم مصری حقوق نسواں اور ازدواج کے حیران کن رواج
(Surprising Customs of Women's Right and Marital Affairs of Ancient #Egypt)
مصر شاید نام ہی حیران کردینے والےسلسلوں کا ھے۔
زمانہ قدیم میں بادشاہت اور غیرمنقولہ جائیدادکی وراثت عورتوں سےہی منسوب تھی۔ بہ نسبت مردعورتیں زیادہ #History
جائیداد کی مالک ھوا کرتی تھیں۔
جائیداد اور بادشاہت ہمیشہ بڑی بیٹی کو ملا کرتی۔ آسان الفاظ میں مصر کی بادشاہت
ایک عورت کی تھی جو بھی اس سے شادی کر لیتا فرعون بن جاتا اور اپنی بیوی کےساتھ تخت نشین ھوتا۔
بادشاہت بڑے بیٹے کو ہرگز نہیں ملتی تھی بلکہ بیٹا اپنی بہن سے شادی کرکے فرعون بن
جاتا تھا۔
قدیم مصر میں بھائی کا بہن سے شادی کا رواج سورج بنسی کے ماننے والے شاہی خاندانوں میں اس لئے بھی برقرار رکھا گیا تھا کہ انکے خون میں کسی اور خون کی آمیزش نہ ھو۔
اسکا واضح اور ٹھوس ثبوت دیوتا اوسی رس (Osiris) کی اپنی بہن دیوی آئی سس (Isis) کیساتھ رشتہ ازدواج ھے۔ آٹھویں شاہ
نہر سوئیز (Suez Canal, #Egypt)
یہ نہریورپ کو ایشیاءسےملاتی ھےاسی لئے نہرسوئیز کی تاریخ بھی جھگڑوں، قبضوں اورحملوں سے پر ھے۔
چونکہ برطانیہ فرانس ایک دوسرےکے حریف تھے اس لیے یہ نہر انا کےجھگڑوں میں گھری رھی۔
نہرسوئیز کی کھدائی صدی پہلے کاقصہ نہیں بلکہ اسکی ابتداءزمانہ قدیم #History
میں پیوستہ ھے۔
اس نہر کو کھدوانے کا سب سے اولین منصوبہ 1890 ق م میں 12th فرعون کے دور میں شروع ھوا۔
بادشاہ دارا اول (Darius 1) اور بطلیموس (Ptolemy) نے بھی اسکی توثیق کی۔
مصری حکمران نخاوہ الثانی نے بھی اس کی توثیق کی۔
خلیفہ اسلام (ثانی) فاروق اعظم حضرت عمر نے بھی اسکی توثیق کی۔
جدید نہر سوئیز کا منصوبہ مصری خدیو سعید پاشا نے بھی کینال کو کھودنے کی منظوری دی۔
جدید نہر سوئیز کی کھدائی کاآغاز سعید پاشا کے ہاتھوں ھوا اور اسمعیل پاشا کے ہاتھوں مکمل ھوا۔
اس کی کھدائی کاسلسلہ دس سال جاری رھا۔
16 نومبر 1869 کو دخانی جہازوں کے گزرنے کیلئے کھول دیا گیا۔
نہر کو
تھیوڈوسئس اول (king Theodosius 1)
"محمود غزنوی نےسومنات کےبتوں کو توڑ کر وہاں کی دولت لوٹی"
یہ خاصامضحکہ خیز اور تاریخ سےنابلد لوگوں کا بیان ھےکیونکہ وہ *شہنشاہ تھیوڈوسئس اول سےسرے سےواقف ہی نہیں۔
تھیوڈوسئس رومن ایمپائر کاآخری بادشاہ بھی تھا اورعیسائی راسخ العقیدہ بھی جس #History
نے جبری عیسائیت قبول کرنے کا قانون نافذ کیا جسکی وجہ سے شہر اسکندریہ (Alexandria) اور شمالی مصر میں رعایا عیسائی ھو گئی۔
جنہوں نے اپنے باپ دادا کے مذہب کو ترک کرنے کی اس قانون کیخلاف مزاحمت کی انہیں سخت سزاءوں کاسامنا کرنا پڑا۔
سخت خون بہا،
فلسفی علماء کے گھروں پر دھاوا بولا گیا،
اسکندریہ کی مشہور پرستش گاہ سرپس کومسمارکردیا گیا،
بتوں کوتوڑ ڈالا گیا،
فن سنگ تراشہ کانمونہ پرستش گاہ فیوم کو گرا دیا گیا،
غیرعیسائی (Gothics) پجاریوں کو مقید کردیا گیا،
فلسفی کی مشہورعالمہ **ہپاشیا (Hypatia) جواسوقت عبادت گاہ میں موجودتھی اسے عیسائی مذہبی جتھےکھینچ کر باہر لائے
#History
سدھانتاس (Suddhantas)
425 قبل مسیح____
علم نجوم علم فلکیات کی اتفاقی پیداوار ھے۔ ابتدائی ھندوستانی فلکیاتی رسالہ "سدھانتاس" یونانی علوم پر مبنی تھا۔ اس رسالے میں عظیم ھندوستانی منجم اور ریاضی دان آریا بھرت نے شاعری کی شکل میں دو درجی مساوات ( Quadratic Equation)، علامت
اور درجات متعین کیئے۔
آریا بھرت نے سدھانتاس میں گرہن، نقطہء انقلاب، نقطہء اعتدال کی وضاحت کی۔
اس نے زمین کی سورج کے گرد گردش کے بارے میں نشاة ثانيه کی سائنس کا ادراک کرتے ھوئے جرآت کیساتھ پیشگوئی کی کہ "آسمان اور سبھی ستارے جامد ہیں۔ زمین کی گردش خود سورج کے طلوع وغروب کی
ذمہ دار ھے".
آریا بھرت کے برہما گپتا نے ہندسے کے علم نجوم کو منظم کیا۔ انہی دانشوروں نے سدھانتاس میں تیس گھنٹوں پر مشتمل ایک دن، تیس دنوں کا ایک مہینہ اور 12 مہینوں کا ایک سال متعین کیا۔ ہر پانچ سال بعد ایک زائد دن بتایا۔
سدھانتاس میں انہوں نے کشش ثقل کے باقائدہ قانون تو نہیں
کیلاش مندر ایلورا (مہاراشٹر)
(Kailasha Temple at Ellora, India)
یہ مندر وادی کیلاش (ڈسٹرکٹ چترال، پاکستان) میں نہیں بلکہ انڈیا کی ریاست مہاراشٹر میں واقع ھے۔ جنوبی ہند کے غار جو پہاڑوں کو چیر کر بنائے گئے دراصل یہ مندر ہیں۔
ان کا زمانہ پانچویں سے دسویں صدی عیسوی خیال کیا #History
جاتا ھے۔
کیلاش مندر کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ مندر ہندو بھگوان شیو کے نام منسوب کر کے بنایا گیا ھے۔
یہ کل 34 غار ہیں جن میں بدھ مت کے بارہ برہمنوں کے سترہ اور جینیوں کے پانچ ہیں۔
خشک پہاڑوں کی چٹانوں کو کاٹ کر دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتیں تیار کی گئیں ہیں۔
اور ان
عمارتوں کے چھت ،پیلپائے، دلان، حجرے، سیڑھیاں اور دیواروں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بت بنا کر اور ان غاروں کی ترتیب اور تراش کر معماروں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ھے۔
اس مندر کو بنانے کےلیے چٹان سے 2 لاکھ ٹن پتھر کاٹے گئے تھے۔ عمارتوں کے کمرے بھی اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں ایک ہزار سے