1960 کی دہائی سے موجود پاک بھارت معاہدوں کے تحت پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کے پکڑے جانے والے جاسوسوں کے فیصلے کرنے کا اختیار اور حق صرف اپنےہی پاس رکھا ہوا تھا اور اس میں عالمی عدالت انصاف سمیت کسی کی بھی مداخلت کا اختیار
1/10
یا حق کبھی تسلیم نہیں کیا تھامگر کلبھوشن کی سزائےموت کا فیصلہ آنے سے صرف 12 روز پہلے #نوازشریف نے اچانک بیٹھے بٹھائے اور یک طرفہ طور پر ہی پاکستان میں پکڑے جانے والے بھارتی جاسوسوں اور ان کے خلاف پاکستانی عدالتی کاروائیوں اور فیصلوں میں عالمی عدالت انصاف کی مداخلت کا اختیار،
2/10
کسی بھی جانب سے پاکستان کو موصول ہونے والے کسی ایک بھی با ضابطہ مطالبے کے بغیر آگے بڑھ کے خود ہی تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو احکامات صادر کر دیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کو "عالم پناہ" کے اس فیصلے سے آگاہ کر دے، جس پر @LodhiMaleeha نے اپنے ایک خط کے ذریعے
3/10
29 مارچ 2017 کو سرکاری طور پر عالمی عدالت انصاف کو پاکستان کے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا جس سے بھارت کے لیے اپنے جاسوسوں کو پاکستان میں سنائے جانے والے عدالتی فیصلوں کے خلاف عالمی عدالت انصاف پہنچنے کا وہ راستہ چوپٹ کھل گیا جو 1960 کی دہائی سے بند پڑا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ جب
4/10
10 اپریل 2017 کو پاکستانی فوجی عدالت نے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تو بھارت وہ فیصلہ اٹھا کے 8 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کھڑا ہوا تھا
اس کے بعد سے آج تک پاکستان کلبھوشن کے معاملے میں انصاف کے صرف وہی تقاضے پورے کر رہا ہے جنہیں عالمی عدالت اپنے انصاف کے تقاضوں کے
5/10
مطابق پورا کرنا اور کروانا درست اور ضروری سمجھتے ہوئے پاکستان کو احکامات دے رہی ہے اور پاکستان کے پاس بھی ان احکامات پر من و عن عملدرامد کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ یا چارہ نہیں ہے
عالمی عدالت انصاف کا مطالبہ تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو پاکستانی فوجی عدالت کے فیصلے کے
6/10
خلاف پاکستانی سول عدالتوں میں اپیل کا حق دیا جائے جبکہ پاکستانی قوانین میں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ کسی بھارتی جاسوسوں کو سول عدالتوں میں اپیل کا حق دیا جاتا اس لیے بجائے اس کے کہ ہم قانون موجود نہ ہونے کی بنیاد پر عالمی عدالت انصاف کا مطالبہ پورا کرنے سے انکار کر کے
7/10
عالمی عدالت انصاف کو کلبھوشن کے معاملے میں خود ہی اپنا کوئی فیصلہ سنا دینے کا موقع اور اختیار دیتے، یہی بہتر تھا کہ ہم عالمی عدالت کے انصاف کا یہ تقاضا بھی پورا کرتے ہوئے اپنا قانون تبدیل کر کے کلبھوشن کی اپیل پاکستانی سول عدالتوں میں تو سن لیتے مگر کلبھوشن کے فیصلے کا
8/10
اختیار اپنے ہاتھ سے ہرگز ہرگز نہ جانے دیتے اور الحمدللہ ہم نے یہی کیا
اس تمام صورت حال کے باوجود اگر اب بھی کوئی بدبخت یہ کہتا یا سمجھتا ہے کہ کلبھوشن کو حق دلانے کا کیس عمران خان لڑ رہا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ایسا کوئی شخص اگر آپ کے سامنے بھی آئے تو
9/10
اس سے صرف یہی کہیں کہ کلبھوشن کو پاکستانی ریاست اور پاکستانی قوانین سے بچانے کا جس نے بھی جتن کیا اور جس نے بھی راستہ کھولا وہ اس پر لعنت بھیجے، ہم بھی اس پر دل کی گہرائیوں سے اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں 🙏
10/10
پتھر پر لکیر تھا کہ نوازشریف کو اپنے ہی دور میں کلبھوشن کی سزا پر عمل کروانا پڑتا جو وہ نہیں "کرنا چاہتا/کر سکتا" تھا اور اسہی لیے اس نے عالمی عدالت انصاف کی مداخلت کا اختیار تسلیم کیا تاکہ کلبھوشن کی پھانسی بھی ٹل جائے اور اگر بھارت کو #ICJ سے کچھ مل سکتا ہو تو اسےوہ بھی مل جائے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
نوازشریف اور آصف زرداری کے دس سالہ دورِ اقتدار میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کبھی 14 ارب ڈالر تک بھی نہیں پہنچی تھیں لیکن آج 2021 میں ٹیکسٹائل کی وہی برآمدات 15.4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور اس میں الحمد للہ روز بروز اضافہ ہو رہا ہے
انفرمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں 2018 تک ہماری برآمدات صرف 1.06 ارب ڈالر تھیں جو آج 2021 میں الحمد للہ 2.12 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور ان میں بھی مسلسل اضافے کا رحجان ہے
#کابل دھماکوں کے بعد #امریکہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کے #پاکستان سے انخلا میں مدد مانگتے ہوئے تقریباً 4000 افغانیوں کو 3 ہفتوں کے لیے پاکستان میں رکھنے کی بھیک مانگی ہے جس کے بعد امریکہ انہیں یہاں سے لے جانے کا پابند ہے، جہاں بھی لے جائے یہ اس کا اپنا سر درد ہے
پاکستان نے انہیں صرف 30 دن کے ویزے پر کراچی، لاھور اور راولپنڈی اسلام آباد کے کچھ ہاسٹلوں اور ہوٹلوں کی حدود میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، انہیں ماضی کی طرح پاکستان میں آزاد نہیں چھوڑا جائے گا
یہ امریکہ پر پاکستان کا ایک اور احسان ہے اور وقت کی مناسبت سے یہی بہترین اقدام ہے
2/2
اگر امریکہ نے لے جانے سے انکار کر دیا تو ویزا کی مدت ختم ہوتے ہی انہیں طورخم بارڈر سے افغانستان میں واپس دھکا دینے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی
کیا گیا تھا جس کا پاکستان میں کوئی کانسیپٹ نہیں تھا اور میں اُس پروگرام میں اس وقت شامل ہوا تھا جب اس کے صرف آئیڈیا پر کام ہو رہا تھا
آئیڈیا کو فائنل کرنے کے بعد ہم نے انتھک محنت کر کے لاھور کے ہر ایک کلومیٹر کی حدود میں تقریباً ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی ہر اچھی دکان کو
2/10
منتخب کیا اور ان سے بارگیننگ کی کہ اگر ہم آپ کی بلامعاوضہ مشہوری کریں اور ہمارے لاھور میں موجود کم سے کم ایک لاکھ ممبران آپ کے علاقے میں باقی تمام دکانوں کو چھوڑ کے صرف آپ کے پاس آئیں تو آپ انہیں (بغیر بارگیننگ کیے) تیار بل میں کیا رعایت دیں گے؟ آپ حیران ہوں گےکہ پیٹرول پمپ
پنجاب کے %70 خاندانوں کو 725,000 روپے سالانہ مالیت کا ہیلتھ کارڈ جاری کیا جا چکا ہے جس کے طفیل وہ کسی بھی سرکاری یا نجی ہسپتال میں علاج معالجے کی سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں
مزید ایک سال میں یہ کارڈ پنجاب کے %100 خاندانوں تک پہنچ چکا ہو گا
تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے پہلے ہی تین سالوں میں راجن پور، لیّہ، اٹک، بہاولنگر اور سیالکوٹ میں پانچ نئے مدر اینڈ چائلڈ کیئر ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا، لاھور کے 5 بڑے ہسپتالوں کی upgradation اور توسیع سمیت renovation پر بھی کام جاری ہے
#قاضی_فائز_عیسیٰ کو امید تھی کہ وہ اپنی حامی بار کونسلوں کی مدد سے دباؤ ڈال کے سپریم کورٹ کی 17 میں سے خالی 3 اسامیوں پر اپنے حمایت یافتہ جج صاحبان لانے میں کامیاب ہو جائے گا جس کے بعد اس کے اثاثوں کی بابت حکومتی درخواست پر اگر سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مشتمل
بنچ بھی بنا تو وہاں اسہی کا پلڑا بھاری رہے گا اور اکثریتی فیصلے سے حکومتی ریویو پٹیشن خارج ہو جائے گی، مگر جب قاضی فائز عیسیٰ اپنے تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود اپنے حامی جج صاحبان کی تقرریاں کروانے میں ناکام رہا تو اسے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں اپنی برطرفی دیوار پر
2/4
لکھی نظر آنے لگی اور اس کے چیف جسٹس بننے کے خواب بھی چکناچور ہوگئے جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف ہونے کی بجائے سیاسی شہید بننے کے لیے پوری پلاننگ کے ساتھ اسد طور اور قیوم صدیقی وغیرہ سے پٹیشن منگوائی اور اس پر ازخود نوٹس
3/4