ملابار/مالابار (جنوبی ہندکی گھاٹیاں)
ملابار، معجزہ شق القمر، راجہ زمورن میں تعلق
ملابارھندوستان میں اسلام کاپہلا مرکز ھے۔
برصغیر میں سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ھے جبکہ #تاریخ یوں ھے کہ عمادالدین بن قاسم (712) کےحملے سے بہت پہلےاسلام داخل ھو چکا تھا۔
سرور کائناتﷺ کی #History
بعثت کے زمانے میں جنوبی ہند کے علاقے ملابار جہاں بودھ، برہمن، یہودی، عیسائی پائے جاتے تھے مگر ان میں باہمی مذہبی تعصب ہرگز نہ تھا۔
ملابار چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ یہ ریاستیں حجاز، یمن اور مسقط کے تاجروں سے تعلقات رکھتی تھیں اور یمن و حجاز کے تاجر یہاں آتے تھے۔
اسی لئے
آپﷺ کے مبعوث ھونے کا احوال ملابار کے باسیوں کے علم میں تھا۔
ملابار کے راجہ زمورن یا سامری جس نے شق القمر (چاند کے دو ٹکڑے ھونا) کا معجزہ ملابار میں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور *منجموں سے اسکا زائچہ بھی بنوایا تھا۔
پھر راجہ زنورن کو عربیوں سے رسول عربیﷺ کا علم بھی ھو چکا تھا۔
لہذا وہ مشرف بہ اسلام ھوا اور اپنا تخت سلطنت اپنے ولیعہد کےسپرد کر کے کشتی میں آپﷺ کی زیارت کیلئے ملک عرب روانہ بھی ھوا۔
لیکن اس کی راستےمیں ہی فوت ھو گیا۔
اسلیےاسے یمن کے ساحل پر (اسلامی طریقے کیمطابق) مدفون کر دیا گیا۔
لہذا برصغیرمیں اسلام 712ء سے پہلے بھی موجودتھا لیکن حکمران
غیر مسلم تھے اور عوام الناس کے پاس اسلام کی مختصر معلومات تھیں۔
اسلام نہ تو محمد بن قاسم کی تلوار سے پھیلا نہ محمود غزنوی کی یلغار سے ھاں البتہ اتنا ضرور ھے کہ سترہ سالہ مسلم عربی جرنیل عماد الدین کے حملے سے اسلام کا راستہ ہموار ھوا۔ لیکن درست تاریخی حقائق اور کم علمی کےباعث راجہ
زمورن تاریخی اوراق میں دب کر رہ گیا۔ معجزہ شق القمر کو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
موت کی سیڑھیاں (Peru)
1438___Stairs of Death
پیرو میں واقع افسانوی اور تاریخی علاقے ماچو پچو (Machu Picchu) کے پشت پر Huayan Picchu نامی دلکش پہاڑھے جسے دیکھنے کیلئے ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔
تقریبا 500سال قبل یہ سیڑھیاں*انکا سلطنت کےدور میں بنائی گئی تھیں۔ #archeology #History
اسی پہاڑ پر چڑھنے کیلئے "Stairs of Death" بنائی گئی ہیں وہ بےحد خطرناک ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول اور مشکل حصہ ھونے کی وجہ سے ہی انہیں 'موت کی سیڑھیاں' کہا جاتا ھے۔
یہ سطح سمندر سے 2,720 میٹر (8923 فیٹ) بلند ھے. یہ پہاڑ Huayna Picchu چٹان کے کنارے پر ان سیڑھیوں کے لیے عالمگیر شہرت
یافتہ ھے۔
ان سیڑھیوں سے چڑھنے کیلئے سیاحوں کو ایک نم دیوار ملے گی اور دوسری طرف دریائے اروبامبا کی طرف سیکڑوں میٹر گرتا ھوا نظر آئے گا۔
اس کے علاوہ یہ سیڑھیاں Inca کی ایک پراسرار تعمیر ھے اور اسے "Temple of the Moon" بھی کہا جاتا ھے۔
دراصل یہ سیڑھیاں الگ سے نہیں بلکہ پتھر کا ہی
طولون خاندان (Tulunid Dynasty)
(ء835 - 884ء)
طولون عباسی خلیفہ مامون الرشیدکا ایک ترکی سنی راسخ العقیدہ غلام تھا اور خلیفہ کی معمولی ملازمت پر معمورتھا۔
اسکابیٹا ابوالعباس احمدبن طولون 20 سال کی عمرمیں فوج میں شامل ھوا اوربڑا عالم، سپہ سالار اورسیاسی امور میں ماہر ھو کر #History
865ء میں خلیفہ کی جانب سے مصر کا صوبیدار یعنی والئی مقرر ھوا۔
868ء میں خلیفہ نے احمد کو گورنر بنا کر مصر بھیجا تھا۔ چار سال کے اندر اندر اس نے خلیفہ مالیاتی ایجنٹ ابن المدبیر کو بے دخل کر کے مصر کے مالیات کا کنٹرول سنبھال لیا۔
اس نے سارے مصر کی حکمرانی گویا ایک بادشاہ کی طرح تمام
اختیارات کیساتھ کی۔
رعایا کو سہولیات بہم پہنچائیں، علماء کی سرپرستی کی، ٹیکس سسٹم میں اصلاحات کیں، بےشمار شاہی محل سرائے بنوائے، ملک شام فتح کیا اور پورے تپاک سے حکمرانی کی۔
لیکن 30 سال حکومت کرنے کے بعد اسکے خاندان کے افراد کمزور ھونے لگے۔
مصر حملوں کی زد میں آیا تو تسخیر ھونے
سفر ملتان____ 5000 قبل مسیح
ہندؤ پجاریوں کےگڑھ سے اولیاء اللہ کی سرزمین تک کا شہر
قدیم زمانے کا راجہ کاشی کےنام پر بنایا جانے والا شہر کاشی پور جو اسکے بیٹےراجہ پرہیلاد کے نام پر پرہیلاد پور بن گیا۔
مالی قوم کے یہاں آباد ھونےسےنالی استھان کہلایاسنسکرت میں استھان آباد ھونے #Multan
کو کہتے ہیں، جو بگڑتے بگڑتے مول استھان پھر آج ملتان کے نام سے جانا جاتا ھے۔
قدیم شہر ملتان جو 5000 ق م سورج پجاریوں اور آدیتیہ مندر کا مرکز مانا جاتا تھا۔ مہابھارت کے مطابق کرک شترہ جنگوں کے دوران ہندوؤں کا گڑھ رھا۔
یہی وہ شہر تھا جہاں اسکندر اعظم حملے کے دوران زہر آلود تیر سے
گھائل ھوکر واپس پلٹا۔
712ءمیں محمد عمادالدین بن قاسم کے برصغیر میں داخلے کاراستہ بنا۔
گیارھویں بارھویں صدی میں برگزیدہ ہستیوں کی یہاں قدم بوسی سے اس شہر بےمثال کو "اولیاء کی سرزمین" جیساعظیم خطاب ملا۔
عباسیوں، اسماعیلیوں، غزنی،مملوک، تیمورلنگ، سوری خاندان، مغل، مراٹھوں، سکھ یلغار
لارنس کالج گھوڑا گلی (مری، پاکستان)
اسکی تاریخ خاصی الجھادینے والی ھےکیونکہ اس کاایک الگ پس منظرھے۔
1860ءبنگال آرمی ایڈمنسٹریٹر اور برگیڈئیر جنرل ہینری مونٹگمری لارنس(Henry Montgomery Lawrence،سری لنکن پیدائش) نے150 ایکڑ پر "لارنس میموریل اسائلم" کےنام سےاسکی بنیاد رکھی۔ #History
سرلارنس عہدبرطانیہ میں ریونیو سسٹم، کینال سسٹم اور سڑکوں کے معاملات دیکھتے تھےاس لیے وہ برٹش سپاہیوں کے یتیم بچوں کے بارے میں بہت فکرمند رھتے۔ یہی فکر اس کالج کے بنیاد کا سبب ٹھہری۔
1910 میں اسے اسکول بنا دیا گیا جبکہ اسے کالج کا درجہ1927 میں گرانٹ ھوا۔
انگریزوں کے پنجاب پر قبضے
کے بعد اسی طرز کے تعلیمی ادارے ہماچل پردیش،تامل ناڈو، اور راجھستان میں بھی قائم کئے گئے جس کا مقصد مستقبل کی انگریز فوج کیلئے فوجی ٹرینڈ کرنا تھا۔
1860 میں مری بیوری فیکٹری قائم کی گئی جس کا اولین مقصد فوجیوں کی ضروریات پوری کرنا تھا۔
47 کے ہنگاموں میں یہ فیکٹری تباہ ھو گئی۔
Research and Analysis Wing (RAW، September 1968)
شایدہی کوئی "را" کے نام سے ناواقف ھو!
جی وہی مشہور زمانہ "را" جس کا کام صرف پاکستان پر نظر رکھنا، پڑوسیوں کے معاملات میں بےجا مداخلت کرنا غرض الزامات کا ایک طویل سلسلہ ھے۔
1968 میں قائم اس بیرونی انٹیلیجنس ونگ کے بانی #RAW #History
اندرا گاندھی اور رامیشور ناتھ کاءو تھےاور رامیشور ناتھ کاءو ہی را کےپہلےچیف بھی منتخب ھوئے جو 1977 میں ریٹائرھوئے۔
1962 کی انڈو-سویت جنگ، پاکستان سےخراب تعلقات اور چین کےساتھ 1962 کی سرحدی جنگ میں بھارت کی ناقص کارکردگی کےبعد اس ایجنسی کاقیام عمل میں لایا گیا۔ابتداء میں را کامقصد
غیر ملکی انٹیلیجنس معلومات جمع کرنا، انسداد دہشت گردی، پالیسیز بنانے والوں کو مشورے دینا، بھارت کے غیر ملکی مفادات کو آگے بڑھانا اور چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اسکے مقاصد کا دائرہ اختیار بھی بڑھتا گیا۔ جیسے آج بھارتی ایٹمی پروگرام کی حفاظت کا ذمہ،
قدیم مصری حقوق نسواں اور ازدواج کے حیران کن رواج
(Surprising Customs of Women's Right and Marital Affairs of Ancient #Egypt)
مصر شاید نام ہی حیران کردینے والےسلسلوں کا ھے۔
زمانہ قدیم میں بادشاہت اور غیرمنقولہ جائیدادکی وراثت عورتوں سےہی منسوب تھی۔ بہ نسبت مردعورتیں زیادہ #History
جائیداد کی مالک ھوا کرتی تھیں۔
جائیداد اور بادشاہت ہمیشہ بڑی بیٹی کو ملا کرتی۔ آسان الفاظ میں مصر کی بادشاہت
ایک عورت کی تھی جو بھی اس سے شادی کر لیتا فرعون بن جاتا اور اپنی بیوی کےساتھ تخت نشین ھوتا۔
بادشاہت بڑے بیٹے کو ہرگز نہیں ملتی تھی بلکہ بیٹا اپنی بہن سے شادی کرکے فرعون بن
جاتا تھا۔
قدیم مصر میں بھائی کا بہن سے شادی کا رواج سورج بنسی کے ماننے والے شاہی خاندانوں میں اس لئے بھی برقرار رکھا گیا تھا کہ انکے خون میں کسی اور خون کی آمیزش نہ ھو۔
اسکا واضح اور ٹھوس ثبوت دیوتا اوسی رس (Osiris) کی اپنی بہن دیوی آئی سس (Isis) کیساتھ رشتہ ازدواج ھے۔ آٹھویں شاہ