قدیم وادئ پشاور____تاریخ سے چند اوراق
وادئ پشاور__ ایسی وادی جسےاولین آریہ بزرگوں نےآباد کیا۔
وادئ پشاور__ قدیم ھندوؤں کی گندھاراوادئ تھی۔
وادئ پشاور__ وشنو پران کی پشکالاوتی کہلاتی تھی۔
وادئ پشاور__ یونانی اسکندر اعظم کےحملے کےوقت ایک گنجان شہرکی حامل تھی اور #Peshawar #History
اس کے جانشینوں کے تحت ایک اہم یونانی باختری سلطنت کا مرکز بنی جس کا ذکر سنسکرت، چینی اور عربی ادب میں ھو چکا ھے۔
وادئ پشاور__ جس کے بدھ اسٹوپ (Stupas) پانچویں صدی میں چینی بدھ سیاح فاہیان (Faxian, 337-422), چھٹی صدی عیسوی میں سوانگ یون اور ساتویں صدی میں ہیونگ سانگ کی تحریروں کا
عنوان رہی۔
وادئ پشاور__ دسویں اور گیارہویں صدی میں عرب جغرافیہ نگاروں السعودی اور ابوالریحان کاموضوع قلم رھی۔
وادئ پشاور__ سولہویں صدی میں سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیرالدین بابر کی توجہ کا مرکز رہی جہاں چندر بنسی کے ورثاء اسکندر اعظم کےخلاف صف آراء ھوئے جس کو اس نے "اساکینی" سےپکارا۔
وادئ پشاور__ جہاں کی عظیم چٹانوں پر بدھ بادشاہ اشوک نے دو ہزار سال سے بھی زیادہ اپنے کتبے کھودے جو آج بھی معمہ بنے ھوئے ہیں جنہیں ہنوز نہیں پڑھا جاسکا۔
وادئ پشاور__ وہ تاریخ بےمثال ھے جس پر یکے بعد دیگرے خاندان زیر اقتدار آئے جن میں پشپامترا جیسے برہمن، یوکرےٹائیڈز
(Eucratides, 204-145 BC) جیسے یونانی باختری، کیڈفائسس (Vima Cadefises) جیسے سیتھی۔ کبھی بدھ کبھی ھندو کبھی سکھ کبھی مسلمان حتی کہ یہ سلسلہ برطانوی ڈپٹی کمشنروں تک بھی پہنچا۔ #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
مجسمہ اتحاد (Statue of Unity)
(Vadodara, Gujrat India)
182 میٹر (app. 600 feet) بلند دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ
رام ونجی ستر (Ram Vanji Sutra) کا شاہکار "Statue of Unity" جو پانچ سال (2013-2018) کے درمیان تعمیر کیا گیا۔
"اسٹیچو آف یونیٹی" کو ’آئرن مین آف انڈیا‘ سردار ولبھ #History
بھائی پٹیل (1875-1950) کو خراج عقیدت پیش کرنےکے لیے بنایا گیا۔
مجسمہ اتحاد کو سردار ولبھ بھائی پٹیل سے اس لیے منسوب کیا گیا کہ آپ کے سر "بٹوارے" کے بعد جمہوریہ ہند کی تعمیرکے لیے ملک کی تمام 562 شاہی ریاستوں کومتحد کرنے کاسہرا تھا۔
مجسمےکو بڑے پیمانے پر 5 زونز میں تقسیم کیا گیاھے
جن میں سے 3 عام لوگوں کےلیے قابل رسائی ہیں۔ ان میں ایک یادگاری باغ اور میوزیم، ایک نمائش کا علاقہ، اور وزٹنگ گیلری بھی شامل ھےجو ایک وقت میں 200 زائرین کیلئے کافی ھے۔
153 میٹر کی بلندی پرواقع یہ گیلری سردار سروور ڈیم (Sardar Sarovar Dam)، ست پورہ اور وندھیا پہاڑی سلسلوں کا شاندار
خوش حال خان خٹک (1613-1689/اکوڑہ خٹک، پاکستان)
ایک ہمہ گیر شخصیت
پشتو ادب کا تیسرا دور "زریں دور" کہلاتا ھے جو900 ھجری سے شروع ھوتا ھے۔ یہ دور عظیم شاعرخوشحال خان خٹک سے شروع ھوتا ھے۔
خوشحال خان بیک وقت شاعربھی تھے، نثر نگار بھی، سردار بھی، منصب دار بھی، فلسفی #Pashto #Literature
بھی، صوفی بھی، جنگجو بھی، باغی بھی، حکیم بھی، طبیب بھی، سیاستدان بھی اور حکمران بھی۔
خوشحال خان مغلیہ سلطنت کےمنصب دار تھےلیکن بعدمیں اسےچھوڑ کر افغان کی جنگ میں اور مغلوں کیخلاف تلوار تان لی تھی۔
انکی شاعری پرحماسہ رنگ بہت غالب تھا۔ خوشحال خان وہ پہلےپشتو شاعرتھےجس نے ننگ وغیرت،
رزم وبزم، مردانگی، قوم پرستی، تصوف،سیاسیات، فلسفہ، طب، جنسیات، تاریخ، عشق و جمالیات جیسےہزاروں ان گنت موضوع پشتوشاعری کی جھولی میں ڈال دیئے۔
انکی بےباکانہ شاعری پر آج400سال بعد بھی ہمارامعاشرہ بحث کی اجازت نہیں دیتا۔
علامہ اقبال آپکےبارے میں"عظیم خوشحال شناس" میں بہ الفاظ واشگاف
جشن مفنگ (اسکردو/گلگت-بلتستان, پاکستان)
(Jashn-i-MaYfang)
بلتی گلگتی سب سےمقبول مگرایک گم گشتہ روایت
مفنگ/مےفنگ بلتستان کاصدیوں پراناایک خالصتاعلاقائی اور روایتی تہوار ھےجو ہر سال یخ بستہ موسم میں 21 دسمبرکو منایاجاتاھے۔
بلتی لوگ سال کی طویل ترین رات کےاختتام #festival #Baltistan
پر تین روزہ تہوار مناتے ہیں۔
یہ تہوار قبل از اسلام کا تہوار ھے۔ موءرخین اس کے منائے جانے کے بارے میں کئی روایات بتاتے ہیں۔
پہلی یہ کہ موسم سرماکی طویل ترین رات کے اختتام کو منانا اور نئے سال کا استقبال کرنا ھے۔دسمبر دراصل تبتی جنتری کےحساب سے (لوسار) نئے سال کا پہلا دن ھے۔
دوسری
یہ کہ مقامی لوگ اس تہوار کو کسی دیوتا کو خوش کرنے کی کوششوں کا حصّہ گردانتے ہیں۔
تیسری یہ کہ یہ تہوار ایک ظالم بادشاہ کی موت کا جشن منانے کے لیے منایا جاتا ھے۔
جبکہ چوتھی یہ ھے کہ اس تقریب سے مقامی لوگوں کو بدقسمتی سے بچنے میں مدد ملی۔
بعض مورخین اسے بودھ مذہب یا زرتشت پرستی کی
ایلیفنٹاغار (ممبئی، بھارت)
(Elephanta Caves, 600 BC)
ممبئی میں ہاتھی کےجزیرہ پر واقع پتھر سے کٹا ھوا مندر ھے جسے ایلیفنٹا کےنام سے جاناجاتا ھے۔
اسی "ایلیفنٹاغار" کیوجہ سےممبئی ہاربر ایلیفنٹاجزیرہ کہلاتی ھےورنہ مقامی مراٹھی زبان میں اسے "گھراپوری" (Gharapuri) #ancient #Archaeology
کیاجاتا تھا۔
چھٹی صدی کا یہ مندر ہندو دیوتا شیو (Shiva) کیلیے وقف ھے۔ اس دور میں یہ طرز تعمیر قابل حیرت ھے۔
خیال یہ کیا جاتا ھے کہ ایلیفنٹا غاروں کو پانڈووں نے تعمیر کیا تھا، تاہم، کچھ اس کا سہرا شیو کے چیلے بھکت بناسورا کو بھی دیتے ہیں۔ مقامی روایت یہ بتاتی ھے کہ غاروں کی تعمیر
مردوں کے ہاتھوں سے نہیں ہوئی تھی۔
ایلیفنٹا غار میں شیو لنگا کے کم از کم دس الگ الگ نمائندگان ہیں۔ اس غار کی سرپرستی کرشنا راجا اول (550 - 575ء) ایک مشہور شیو عقیدت مند اور کالچوری سلطنت کے حکمران نے کی۔
غار کا اندرونی حصہ تقریباً 130×130 فٹ ھے۔ مندر کے چاروں اطراف سیڑھیوں کا ایک
میر چاکر رند (1465-1568)
میر چاکر رند ہمارا قومی ہیرو ھے اور بلوچوں کا گویا "کنگ آرتھر". وہ بےشمار کہانیوں کا عنوان رھا۔
یوں سمجھ لیں کہ وہ اپنی منشاءسے قبائلی بھینسوں کو پتھروں میں بدل سکتاھے اور یوں اپنےدشمنوں کےخلاف گھاٹیوں میں ناکہ بندی کر سکتاھے۔
میر چاکر کا #Baloch #History
نام اب بھی "چاکر کی ماڑی" یعنی چاکر کی تنگ (گھاٹی)" اور سیوستان کی بہت سی چوٹیوں اور دروں میں زندہ ھے۔ اسے پندرھویں صدی کے حاکم خراسان کا اتحادی بتایا جاتا ھے۔
تاریخ کی کتب میں حاکم خراسان اور میر چاکر رند دونوں مغل بادشاہ ھمایوں (1508-1556, کابل) کے دیرینہ مددگار رقم ہیں۔
آپ نے
مکران میں رندوں کی قیادت کی اور سبی کا قلعہ تعمیر کروایا جو مرکز سلطنت بنا۔
لیکن بعد میں میر چاکر رند پنجاب چلا آیا اور لاھور میں انتقال کر گیا۔ پاکستانی قوم ہی نہیں تاریخ بھی میر چاکر رند کو "عظیم " لکھتی ھے۔
فیض صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ
”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان
نسوار کی تاریخ
(#History of Snuff)
نسوار کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں پٹھان آتاھے کہ یہ پٹھانوں یاپختونوں کی ایجاد ھے جو کہ سراسر غلط ھے۔
نسوار درحقیقت گہرےسبز رنگ کی ایک طرح سے بغیر دھوئیں کے ہلکی نشہ آور چیز ھے۔
پشاور کےاطراف میں نسوار اس تمباکو کی بنتی ھے جو موضع پرگنہ یوسفزئی
میں پیدا ھوتا ھے۔ نسوار کی تاریخ کا نکتہ آغاز ہمیں پندرھویں صدی سےجڑتا نظر آتا ھے۔
نسوار کےاستعمال کا باقائدہ آغاز امریکہ اور کینیڈا سے ھوا۔ پندرھویں صدی کی یورپی کتب میں نسوار کا ذکر ملتا ھے کہ اسے 1493 سے96 کےدوران "ریمن پین" نامی راہب نے کولمبس کےسفر کے دوران ایجاد کیا اور یہی
سفر نسوار کو امریکہ لےآیا کیونکہ وہ امریکہ کی دریافت کےایام تھے۔
اسوقت یہ دواءوں میں استعمال ھوتی تھی اور طبقہ اشرافیہ میں مقبول تھی پھراسکے نشہ آور ھونےکی وجہ سےمغرب یں اسکے خلاف تحریک اٹھی اور اس پرپابندیاں بھی عائدکیں۔ اٹھارویں صدی میں اسےکینسر اورمہلک سردرد کاموجب ٹھہرایاگیا۔