دودھ‼️
پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پرشمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے اوپر دودھ کی پیداوار والے ممالک میں بالترتیب ہندوستان، چین اور امریکہ شامل ہیں۔ ملک میں مویشیوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ سے زائد ہےجن سے سالانہ پنتالیس بلین لیٹرسے زائد دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں دودھ کی زیادہ پیداوار دینے والی گائیں اور بھینسوں میں ساہیوال کی گائیں اورنیلی راوی بھینسیں مشہور ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر بھینس کے دودھ کوترجیح دی جاتی ہے اور اس کی وجہ بھینس کے دودھ کا گائے کے دودھ سے گاڑھا ہونا ہے۔
بھینس کے دودھ میں چکنائی کا تناسب پانچ فی صد کے لگ بھگ ہوتا ہے جب کہ گائے کے دودھ میں یہ مقدار ساڑھے تین فی صد ہے۔ طبی ماہرین گائے کے دودھ کو انسانی صحت کے لیےزیادہ بہتر قراردیتے ہیں۔چند ملکوں کے سوا دنیا بھر میں ڈیری کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گائے کا دودھ ہی استعمال کیا جاتاہے
ملک میں استعمال کردہ دودھ میں سے ستانوے فیصد دودھ چھوٹے گھرانوں سے حاصل کیا جاتا ہے جن کے پاس زیادہ سے زیادہ چھ سے آٹھ جانور ہیں، اسی وجہ سے یہ دودھ جراثیم سے پاک کرنے کے لئے مختلف مراحل سے نہیں گزارا جاتا جو کہ لوگوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
کچھ چھوٹی موٹی کمپنیاں ہیں جو دودھ کو اکھٹا کر کے ان کو مختلف مراحل سے گزار کر ڈبوں میں پیک کرتی ہیں اور بہت سی دودھ کی نئی اقسام کو پیش کرتی ہیں،ان میں پیسچرائزڈ۔یو ایچ ٹی،کنڈنسڈ،پاﺅڈر اور مختلف اقسام شامل ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈیری فارمزکی تعداد تقریباً30ہزارہے۔
دودھ کی زندگی اﷲ تعالیٰ نے 4 گھنٹے رکھی ہے۔ اس کے بعد دودھ پھٹ جاتا ہے۔ اس کو مزید دیرپا بنانے کے لیے فریج، برف اور چلر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چلر دودھ کو 4 سینٹی گریڈ پر ٹھنڈا کرتا ہے، جس کی وجہ سے دودھ کی زندگی 4 گھنٹے سے بڑھ کر 16 گھنٹے تک ہو جاتی ہے،
جبکہ برف اور فریج میں 44 سینٹی گریڈ پر رکھا جاتا ہے، جس کے بعد دودھ کی زندگی 8 سے 10 گھنٹے بڑھ جاتی ہے اور کیمیکل مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ٹائمنگ بھی جدا جدا دیتے ہیں، لیکن کیمیکل جتنے زیادہ استعمال کیے جائیں گے دودھ اتنا ہی گاڑھا اور مضر ہوگا
خالص تازہ، قدرتی دودھ میں اتنی بچت نہیں ہے کہ اس سے 4 ارب سالانہ ایڈورٹائزنگ کا بجٹ نکالا جاسکے۔ تازہ دودھ تو نسل در نسل سے چلتا آرہا ہے اور ہمارے آباؤ اجداد زیادہ صحت مند تھے یا آج کی نسل؟ کون ڈبے کا دودھ پیتا تھا اور کون تازہ؟ یہ بات سب کے سامنے ہے۔
سوال یہ ہے گوالے اگر احتیاط نہیں کرتے تو دودھ پیک کرنے والی کمپنیاں دودھ لیتی کہاں سے ہیں؟ ہمارے قریب میں ''ایک مشہور کمپنی'' والے روزانہ سوا لاکھ لیٹر دودھ کی پیکنگ کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنی ایک بکری بھی نہیں ہے،
جبکہ انہوں نے انڈسٹری لگانے سے پہلے یہ حلف اٹھایا تھا کہ ہم دودھ کی پیداوار کے لیے اپنا انتظام کریں گے، مگر آج تک ان کے پاس کچھ نہیں۔ دودھ پیک کرنے والی تمام کمپنیاں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ اگر ہم اپنے جانور خود پالیں تو کتنی مشکلات اٹھانی پڑے گی؟
دودھ دوہے جانے کے بعد جب کمپنیاں تازہ دودھ اکٹھا کرنا شروع کرتی ہیں تو دودھ کی زندگی تو وہیں پوری ہوجاتی ہے، کیونکہ 6سے 8 گھنٹے کے سفر کے بعد دودھ پیکنگ سینٹرز تک پہنچتا ہے اور دودھ کی اپنی زندگی صرف 4 گھنٹے ہوتی ہے۔
پھر کمپنیوں والے اس کو دیرپا بنانےکےلیے اس میں کیمیکل ڈالتے ہیں
جس کے باعث دودھ سینٹر میں پہنچتے پہنچتے زہر بن چکا ہوتا ہے۔ مزید ظلم یہ کہ کمپنیوں میں دودھ پہنچ جانے کے بعد ''دودھ غذائیت سے بھرپور نہیں ہوتا'' بلکہ غذائیت کو کریم کے نام پر نکال لیا جاتا ہے۔
یہ کریم باہر کے ممالک میں بٹر مِلک (Butter Milk) کے نام سے ایکسپورٹ ہو جاتی ہے
باقی رہ جاتا ہے پھوک، جس میں پاؤڈر اور 6 ،7قسم کے کیمیکل مکس کر کے گاڑھا کیاجاتا ہے۔ یہ ہے ہائی جینک ملک کی کہانی!جس میں دودھ نہیں بلکہ ہے پانی اورہم اسے White Milk نہیں بلکہWhite Metirl کہتے ہیں
اس کو ہائی جینک مِلک کے نام سے متعارف کروایاجاتاہے،جبکہ اس کے اندرتوکچھ رہا ہی نہیں
پوری دنیا میں Milk UHT (الٹرا ہیٹڈ ٹریٹڈ مِلک) کو کیمپنگ مِلک کا نام دیا گیا ہے۔ UHT Milk کو دنیا میں اس لیے متعارف کروایا گیا کہ یہ لوگ اس کو صرف مجبوری کی حالت میں ایک فیصد کی حد تک استعمال کرسکتے ہیں
کبھی کسی علاقے میں آسمانی آفت آجائے یا علاقے میں دودھ کا قحط پڑ جائے تو
دور دراز کے علاقوں میں دودھ پہنچانے کے لیے اس طریقے کو اختیار کیا جاتا ہے۔ دودھ کا نام کیمپنگ ملک بھی اس لیے رکھا گیا کہ کسی مقام پر لوگ ایمرجنسی کی صورت
میں کیمپوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ حکومت یا فلاحی اداروں کے پاس ایسے وسائل نہیں ہےں کہ دودھ کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔
آپ اگر کسی بھی ڈبے والے دودھ کی پیکنگ دیکھیں تو اس کی اندرونی ساخت سلور رنگ میں ایلومینیم فوائل سے کی جاتی ہے۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ ایلومینیم فوائل پیکنگ میں کینسر کے اثرات ہوتے ہیں، جو لوگ پیکنگ والا دودھ،چائےکا بلا ناغہ اہتمام کرتے ہیں وہ جلد کینسر مبتلا ہوجاتے ہیں
دودھ کو ایک خاص طریقہ کار کے ذریعے مختصر عرصے کے لیے ایک سو پنتالیس سے ایک سو پچاس فورن ہیٹ درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ جراثیم کو ختم کردیا جائے اور پھر اسے ٹھنڈا کرکے بوتلوں میں بھرا جائے، اور اس کے بعد اسے بازار میں لایا جائے۔ اس طریقہ کار کو پیسچرائزیشن‼️ کہا جاتا ہے
پیسچرائزیشن کے ذریعے دودھ کو ایکولائے اور بیکٹریا سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں سے پاک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بائیس فیصد دودھ پیسچر ائزڈ کیا جاتا ہے اور باقی گوالے فروخت کرتے ہیں۔ عام طور پر لوگ پیسچرآئزڈ دودھ کی بجائےگوالوں کےمہیا کردہ دودھ کااستعمال کرتے جو پیٹ جگر بیماری باعث
گوالے دودھ کی مقدار کو زیادہ کرنے کے لئے دودھ میں پانی یا کیمیکل ملاتے ہیں جس سے دودھ آلودہ ہوجاتا ہے اور اس کی غذائیت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگ گوالوں کی اصلیت سے واقف ہیں مگر پھر بھی وہ یہی جراثیم زدہ اور غیر پیسچر آئزڈ دودھ استعمال کرتے ہیں۔
گوالوں کا مہیا کردہ دودھ استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پیسچرائزیشن کا عمل جراثیم کے ساتھ ساتھ دودھ میں سے مفید اجزاءکو بھی ختم کردیتا ہے اسلئے وہ خالص دودھ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے
اکثر لوگ دودھ کو ابال کرپینے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ دودھ میں موجود انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والے جراثیم مرجائیں جبکہ ایسا کرنے سے جراثیم کے ساتھ ساتھ دودھ کے فائدے مند اجزاءبھی ضائع ہو جاتے ہیں۔
اس کی نسبت پیسچرائزیشن کے طریقے سے دودھ کی غذائیت بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور جراثیم کو بھی مار دیا جاتا ہے۔ پیسچرائزیشن کے ذریعے دودھ کو ٹھنڈا کر کے ڈبوں اور بوتلوں میں مشینوں کے ذریعے بھر دیا جاتا ہے۔
ڈبوں میں بند خوراک میں BPAیا بیسفنول اے نامی کیمیکل کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔BpAیا بیسفنول اے نامی یہ کیمیکل کینز اورڈبوں میں لگی حفاطتی کوٹنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیٹرا پیک پیکنگ بھی ہمارے لئے کوئی خاص مفید نہیں ہے۔
پاکستان میں متعدد کمپنیاں ٹیٹراپیک یا ڈبوں میں بند فروخت کئے جانے والے دودھ کو صحت بخش دودھ کہہ کر فروخت کر رہی ہیں جو کہ غلط ہے۔ اس کی نسبت پیسچر ائزڈ یعنی بوتلوں میں فروخت کیے جانے والے دودھ میں غذائیت زیادہ ہوتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اولا ڈبہ بند دودھ، خشک دودھ اور ٹی وائٹنرز کا استعمال فورا بند کر دیں۔ کھلے دودھ کی حوصلہ افزائی کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گوالوں کا اخلاقی معیار بھی بلند کرنا ہوگا۔ دودھ دینے والے جانوروں کو انجکشن نہ لگائیں۔ لالچ ، اخلاق ، صحت اور معیشت تینوں کی دشمن ہے۔
لہذا لالچ سے بچنے کی کوشش کریں۔ اس بارے میں آگاہی مہم چلائیں۔ گھر اور باہر ہر جگہ خود بھی ملاوٹ سے نفرت کا اظہار کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ ملکی مصنوعات کو رواج
دیں اور غیر ملکی و ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔ اپنی صحت کا بھرپور خیال رکھیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#BellPepper🫑
گھر پر گھنٹی مرچ کیسے اگائیں؟
گھنٹی مرچ اُگانا مشکل نہیں ہے، لیکن درجہ حرارت ایک اہم عنصر ہے۔ اگرچہ ان کی نشوونما کافی آسان ہے، لیکن ابتدائی مراحل میں پودوں کی دیکھ بھال انتہائی اہم ہے۔ہمیشہ گھر کےاندر گھنٹی مرچ کے پودے کی پنیری شروع کریں #kitchengardening
پنیری کاشت کرنے کا طریقہ ‼️
ایک گھنٹی مرچ لیں اس کو ایک سائیڈ سے کاٹ کر بیجوں میں انگلی سے خلا بنا کر کمپوسٹ،soilبھریں گملے میں دبائیں۔ 14 دن بعد پودے نکلنے لگیں گے۔ پنیری پختہ ہونے پہ گملوں ،گرو بیگز،برتنوں،میں منتقل کرسکتے ہیں
گملہ سائز
14"×22"
مزید رہنمائی کیلئے 📷 دیکھیں
گھنٹی مرچ کے بیج نکالیں 1 کپ پانی میں 3گھنٹے بھگوئیں تیرنے والے بیج ہٹا دیں تہہ میں بیٹھنے والے بیج گملے میں بوئیں۔ یا ٹشو پیپر میں لپیٹ کر پلاسٹک بیگ میں بند کر الماری ،دراز میں رکھیں، 7 دن بعد نکالیں جڑیں نکلی ہوں گی انہیں مٹی میں دبائیں۔ 2,3 دن بعد پنیری نمودار ہوجائے گی
#ginger ‼️ادرک
تصدیق شدہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں صرف 9 ایکڑ رقبے پرادرک کاشت کی جارہی ہے۔
ادرک کو جنس کے گروپ نمبر 0910میں شامل کیاگیا ہے۔ پاکستان نے سال 2020 اور 2021 میں اس گروپ میں شامل اجناس جیسا کہ ادرک، زعفران، ہلدی اور کچھ دیگر اجناس
کی سالانہ امپورٹ پر 82ملین امریکی ڈالر خرچ کئے ہیں، جس میں بڑا حصہ ادرک کا ہے، جس پر کم و بیش 60 ملین امریکی ڈالر خرچ کئے گئے۔
2018 میں ادرک کی مارکیٹ 2.16 ارب امریکی ڈالر تک کی تھی جو سال 2023 تک 3.42 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ جانے کی امید کی جارہی ہے۔
بیج کا انتخاب اور شرح بیج:۔‼️ بیج خریدتے وقت یہ خیال رکھیں کہ ادرک تازہ ہو، اس کی آنکھیں صحیح و سالم ہوں اور چھلکا اترا ہوا نہ ہو۔ کچے ادرک کا چھلکا آسانی سے اتر جاتا ہے جو بیج کیلئے اچھا نہیں ہوتا اس لئے پوری طرح پکا ہوا ادرک بیج کیلئے استعمال کریں۔
2018 میں دنیا بھر کے کارخانوں میں اکیس کروڑ ٹن یوریا تیار کی گئی. جس کی تیاری میں فضا سے لگ بھگ نوکروڑ ٹن نائٹروجن لیکر استعمال کی گئی۔
اب سنیں. جب بادلوں میں بجلی چمکتی ہے تو ایک بار چمکنے سے سینکڑوں کلوگرام نائٹروجن ایٹمی شکل میں تبدیل ہوکر آکسیجن کے ساتھ
اور پھر بادلوں میں موجود پانی کے ساتھ تعامل کرکے حیات کیلئے قابل استعمال جڑی نائٹروجن یعنی نائٹریٹس بناتی ہے.
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سال بھر میں بادلوں کے چمکنے سے بننے والے نائٹریٹس کی مقدار باسٹھ کروڑ ٹن ہے. جس کیلئے دس کروڑ ٹن نائٹروجن استعمال ہوتی ہے
آسان لفظوں میں بادلوں کے محض ایک عمل یعنی بجلی چمکنے سے دنیا بھر کی ساری یوریا کمپنیوں سے زیادہ نائٹروجنی کھاد دنیا کو مہیا ہوتی ہے.. اور وہ بھی بالکل مفت…۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔😮😮
#آرگینک N.P.K بنانے کا طریقہ 1- دس 10 لیٹر پانی 2- ایک کلو گُڑ
3-ایک کلو گوبر
4-ایک کلو مٹی
5-آدھا کلو بیسن
گوبر جتنا تازہ ہوگا اتنا اچھا ہے ۔اور گُڑ جتنا پرانا ہو ، انسان کے استعمال کا نہ ہو وہ سب سے صحیح ہے گُڑ کو پہلے سے پانی میں بھگو کر بھی رکھ سکتے ہیں
سب سے پہلے پانی میں بیسن ڈالیں اسے اچھی طرح ہلائیں پھرگُڑ ڈالیں اس کوبھی صحیح مکس کریں،اس کے بعد گوبر ڈالیں اور اسے 2 منٹ تک ہلائیں ہر چیز صحیح مکس ہو تب مٹی تھوڑی تھوڑی کرتے ہوئے ڈالیں اور ہلاتے جائیں اور پھر اسے سایہ دار جگہ میں رکھیں اور اوپرکوئی کپڑا ڈالیں جس سے ہواگزرتی ہو ۔
چار دن تک اسے دن میں کئی بار ہلاتے رہیں.. #نوٹ ۔ ہلانا ہمیشہ کلاک وائز ہے ، شروع سے چار دن تک ۔ #استعمال_کرنے_کا_طریقہ۔۔
پانچ لیٹر پانی میں ایک کپ ڈال کر ہر 15 سے 20 دن بعد استعمال کریں ۔
CSDaV‼️ سٹرس پودوں کا اچانک مرنا
Citrus Sudden Death associated (Virus)
یہ سٹرس کی ایسی بیماری ہے جو پودے کو تو مارتی ہی مارتی ہے لیکن اگر بروقت تدارک نا کیا جائے تو کسان کی بھی محنت دنوں کے اندرمٹی میں ملا دیتی ہے جوان پودے 3-4 دن میں بالکل مرجھا جاتے ہیں
اس کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نا ہوا ہے ،لیکن چند کام کر لینے سے کافی حد تک اس پر قابو پایا جا سکتا ہے جیسا کہ سال میں ایک مرتبہ جنوری،فروری یا اگست ،ستمبر میں میٹالکسل + مینکوزیب 1.5 کلو گرام اور کلورپیری فاس 1.5 لیٹر فلڈ کرنا ۔۔۔
اس سے نا صرف پودے آہستہ مرجھاؤ(Slow Decline) ,اچانک موت ( Sudden Death) سے بچ جائیں گے بلکہ گوند نکلنا ( Gummious) سے بھی محفوظ رہیں گے ۔۔۔
2,3 مرتبہ سال میں فوسٹیال ایلومنیم / ایلیٹ کی سپرے اور تنوں پر بورڈوپیسٹ بھی اس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں موثر ثابت ہوتے ہیں
#DormancyPeriodofcitrus
نومبر سے جنوری کے آخر تک 'سڑس "پودے خوابیدگی حالت میں ہوتے ہیں اس حالت میں نہ پودا گروتھ کرتا ہے اور نہ ہی پھل گروتھ کرتا ہے نومبر سے جنوری خوابیدگی حالت میں پودوں کا پانی بند رکھیں
کسی کھاد کا استعمال نہ کریں
خوابیدگی کے دوران آبپاشی جاری رکھی جائے گی تو پودا نئی منزلیں بنانا جاری رکھے گا جس سے پودا پھل کی طرف نہیں بلکے گروتھ کی طرف جائے گی
اگر پودوں سے پھل اتار لیا ہے اگلے سال کے لئے اچھا پھل حاصل کرنے کے لئے کانٹ چھانٹ کا کام پودوں پر شروع کروائیں
پودوں کو پانی کا سٹرکچر تبدیل کریں جس سے آپ کے پودے80پرسنٹ بیماریوں سے صاف ہو جائیں گے پودوں کی جہاں کینوپی ختم ہو رہی ہواس کے نیچے پودے کے پانی کا دور بنائے اور پودے کی کنوپی کے نیچے والے حصے پر پانی نہ جائے بورڈو پیسٹ اور بورڈو مکسچرکے سپرے کریں یاکاپر بیس زہر سپرے کریں