اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں اشرافیہ نے ریاست کی ز مین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور اگر عدالت کے اس فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ
کوئی اصول طے کر نے کی ہمت کر لے تو کیا کچھ تبدیل ہو سکتا ہے.
اسلام آباد میں ایک شفاء ہسپتال ہے جسے قومی اسمبلی کی دستاویزات کے مطابق نوے کی دہائی میں ڈھائی ایکڑ سرکاری زمین محض ایک سو روپے مربع فٹ کے حساب سے عنایت فرمائی گئی۔یہ اسلام آباد کا مہنگا ترین ہسپتال ہے ۔حالت یہ ہے کہ
ڈھائی ایکڑ زمین لے کر بھی یہاں ڈھنگ کی پارکنگ نہیں ہے۔یہ ہسپتال اس علاقے میں واقع ہے جہاں ایک مرلہ زمین کی قیمت کروڑ روپے تک ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی زمین مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری ہسپتالوں پر لگائی جاتی تو کیا پولی کلینک اور پمز کی
قسمت ہی نہ بدل جاتی؟یہی نہیں اس رقم سے اسلام آباد میں دو چار مزید اچھے ہسپتال بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔
ویر اعظم ہائوس اور پارلیمان کے پڑوس میں ہی اشرافیہ کے لیے ایک عدد کلب ہے۔ اس کا نام اسلام آباد کلب ہے۔ اس کلب کے پاس 244 ایکڑ سرکاری زمین ہے۔ آپ یہ جان کر سر پیٹ لیں گے کہ
یہ زمین اس کلب کو مبلغ ایک روپیہ فی ایکڑ سالانہ پر عطا کی گئی تھی۔
2018 میں اس ریٹ پر نظر ثانی کی گئی اور یہ رقم بڑھا کر گیارہ روپے کر دی گئی۔مبینہ اشرافیہ سرِ شام یہاں تشریف لاتی ہے اور مزے کرتی ہے ۔ آج تک کسی نے پارلیمان میں حکومت سے یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ د نیا کے
پانچ براعظموں میں ہم قرض کے حصول کے لیے گھوڑے دوڑاتے پھر رہے ہیں لیکن اپنی شاہ خرچیوں پر توجہ دینے کی فرصت نہیںکہ ہم نے جیسے کیسے سفید اور سفاک ہاتھی پال رکھے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے سرینا ہوٹل سے چند قدم کے فاصلے پر واقع یہ 244 ایکڑزمین اگر مارکیٹ ریٹ پر کسی کو دی جائے تو قومی
خزانے میں کتنی بھاری رقم جمع ہو سکتی ہے۔
آپ بیوروکریسی کے کمالات دیکھیے۔مال مفت حکومت سے لیا۔ زمین سرکاری ہے جو قوم کی امانت ہے۔ لیکن زمین پر بنائے گئے کلب کو لمیٹڈ کمپنی قرار دے دیا ۔ بعد میں صدر پاکستان کے حکم سے اسے حکومتی تحویل میں لے لیا گیا اوراب اسے وزارت کیڈ دیکھ رہی ہے۔
لیکن یہ بندوبست بھی صرف کاغذوں میں ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ پڑھیے نہ صرف ہوش ٹھکانے آ جائیں گے بلکہ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ ریاست کے اندر ریاست کیا ہوتی ہے اور وزیر اعظم ہائوس کے پہلو میں بیٹھ کر بھی کیسے کامیابی سے چلائی جا سکتی ہے۔
ملین سے ز یادہ اس کی ممبر شپ فیس ہے۔ اشرافیہ
کا یہ کلب ہے اور وہ بھی کمرشل۔سوال یہ ہے کہ اس اشرافیہ کا بوجھ ریاستی وسائل کیوں اٹھائیں؟ نہ یہ حکومتی ضابطے کو خاطر میں لاتاہے نہ اسے پیپرا رولزکی کوئی پرواہ ہے۔بے زبان عوام کسی سوسائٹی یا ٹاور میں زندگی بھر کی جمع پونجی سے فلیٹ خرید لیں تو اسے گرا دیا جاتا ہے لیکن اشرافیہ
پورے 244 ایکڑ ہضم کر کے بیٹھی ہو تو قانون اس کی جانب نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا
آگے چلیے اسلام آباد کلب کے ساتھ ہی آگے ایک اور کلب ہے۔ اسے گنز کلب کہتے ہیں۔ اس کو 72ایکڑ زمین لیز پر دی گئی اور سپریم کورٹ نے چند سال پہلے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا تو معلوم ہوا بالکل مفت دی ہوئی ہے
حکومت نے کلب سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔سپریم کورٹ کے اس نوٹس پر مزید انکشافات اس وقت ہوئے جب سی ڈی اے نے عدالت کے حکم پر رپورٹ جمع کروائی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت پاکستان نے پاکستان سپورٹس بورڈ کو جوز مین لیز پر دے رکھی تھی اس نے اس زمین میں سے 44ایکڑ ایک کلب کو عطافرمادیےہیں
سی ڈی اے نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ اسے حکم دیا گیا کہ گنز کلب کو مزید 28ایکڑ زمین دی جائے اور اس کا کوئی کرایہ نہ لیاجائے
اسلام آباد کلب کے ساتھ ہی صرف 150 ایکڑ زمین پاکستان گالف فیڈریشن کو عطا فرمائی گئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی اور مسرت ہو گی کہ یہ زمین صرف 2اعشاریہ 41 روپے
فی مربع فٹ سالانہ پر لیز کی گئی ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک سنگ میل ہے۔اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے خصوصی سیکٹرز میں جج بیوروکریٹس اورافسران کیلئے پلاٹ مختص کرنے کی سکیم نہ صرف غیرآئینی اور غیرقانونی ہے بلکہ اس سے قومی خزانے کو 10 کھرب کا نقصان پہنچاہے
اب اگر چند مرلوں اور کنالوں کی اس طرح کی تقسیم سے قومی خزانے کو دس کھرب کا نقصان پہنچ سکتا ہے تو اندازہ لگائیے کہ جنہیں ایکڑوں کے ایکڑ انتہائی معمولی اور علامتی قیمت پر لیز پر دیے جا چکے ہیں وہاں قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ کیا ہو گا۔
اسلام آباد دارالحکومت ہے مگر
عوام کیلئے مناسب قیمت پر کوئی ایک ہائوسنگ سیکٹر نہیں بنایا جاسکا۔ وزارتوں اور اشرافیہ نے اسے مال غنیمت کی طرح تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ آئی بی کی سوسائٹی ہے ، وہ سینیٹ کی، یہ وزارت صنعت کی سوسائٹی ہے، وہ ایوان صدر کی، یہ سپریم کورٹ کے ملازمین کا سیکٹر ہے اور وہ سپریم کورٹ کے وکیلوں کا
یہ اوور سیز کی وزارت کا سیکٹر ہے وہوہ منسٹری آف کامرس والوں کا۔ یوں لگتا ہے اسلام آباد کو انہوں نے چنگیز خان سے لڑ کر فتح کیا تھا اور اب یہ ان کا مالِ غنیمت ہے۔
ساری عمر مراعات کے مزے اٹھانے والے بیوروکریٹ آخر میں چند لاکھ کا پلاٹ ہتھیاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد کروڑوں
میں بیچ کر منافع سے اسلام آباد کلب کی دھوپ میں چائے پیتے ہیں اور رات کو ٹی وی ٹاک شوز پر اس قوم کی رہنمائی فرما تے ہیں کہ احتساب کیسے ہونا چاہیے اور قومی وسائل کو برباد ہونے سے بچانے کے رہنما اصول کیا ہیں۔
یہ تحریر چونکہ اسلام آباد سے متعلق تھی اس لیے لاہور کی طرف رخ کرنے کی
ہمت نہیں ہوئی۔ لاہور کے رہنے والے اگر چاہیں تو خود حساب کتاب کر لیں کہ یہ جو اشرافیہ کے لیے جم خانہ کلب قائم ہے کیا یہ اشرافیہ کے آبائو اجداد میں سے کسی نے خرید کر ان کے لیے مختص کیا تھا یا یہ بھی اصل میں ریاست کی زمین ہے جو اشرافیہ کے حوالے کر دی گئی ہے تا کہ انکی تفریح کا بوجھ
بھی اس نیم خواندہ قوم پر ڈالا جائے جس کے شعور کی مبلغ سطح ابھی تک بس اتنی ہی ہے کہ اشرافیہ میں سے کوئی اٹھ کر قومی خزانے سے ایک گلی اور چار گٹر بنوا دے تو یہ مبارک سلامت کے بینروں سے پورا محلہ یوں بھر دیتی ہے جیسے
اشرافیہ نے ابا حضور کے مربعے اور فیکٹریاں بیچ کر غریب رعایا کے لیے یہ گلی اور گٹر بنوائے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے صوابی میں ایک جلسے میں منظور پشتین نے سامنے کھڑے پشتونوں سے کہا کہ جلسوں میں اپنی ماؤوں بہنوں کو بھی لائیں۔ ایسا مطالبہ پاکستان کے کسی لیڈر نے آج تک اپنے سامعین سے نہیں کیا۔
اس پر ساتھ بیٹھے محسن داؤڑ نے فوراً ٹوکہ اور کہا کہ
'خپلہ دے ھم راؤلہ کنہ' یعنی اپنی بیوی بھی لے کرآؤ۔ تب منظور نے خجالت سے کہا ضرور لاؤنگا۔
لیکن سچ یہ ہے کہ پشتونوں کی ماؤوں بہنوں کو اپنے جلسوں کی زینت بنانے والے منظور پشتین کی بیوی یا بہن کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا
نہ ہی محسن داؤڑ کبھی بھی اپنی بیوی یا بہن کو جلسے میں لایا ہے
لے دے کر ایک علی وزیر کی بڈھی ماں کو لے آتے ہیں جس کی اب ویسے بھی پردہ کرنے کی عمر نہیں ہے۔
کراچی دھرنے میں حاضرین کی مایوس کن تعداد دیکھ کر منظور پشتین نے ایک بار پھر پشتونوں سے اپیل کی ہے کہ اپنی ماؤوں بہنوں کو ہمارے جلسے میں لائیں۔ جس کا جواب وہی بنتا ہے جو
آپ گوگل سے کوئی سوال کرتے ہیں.
وہ سوال کے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے سوال کے دو کروڑ پانچ لاکھ بیس ہزار جواب صفر اعشاریہ چھ پانچ سیکنڈز میں حاضر ہیں.
اس وقت کو جو گوگل جواب کی تلاش میں استعمال کرتا ہے سرور رسپانس ٹائم کہتے ہیں.
گوگل دنیا کے جدید ترین زی اون سرور
اور جدید ترین لینکس ویب سرور آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہے.
اس سسٹم نے صرف موجود معلومات کو جواب کی مناسبت سے میچ کر کے آپ کے لیے لائن اپ کرنا ہوتا ہے.
اور وہ اس کام کے لیے آدھے سیکنڈ سے ایک سیکنڈ کا وقت استعمال کرتا ہے اور بڑے فخر سے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے لیے
میں نے یہ جواب چھ سو پچاس ملی سیکنڈز میں تلاش کیا ہے.
اب ہم کمپیوٹر کی سکرین سے کرکٹ کے میدان میں چلتے ہیں.
شعیب اختر یا بریٹ لی باؤلنگ کرا رہے ہیں.
گیند ایک سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی گئی ہے.
وکٹ کی لمبائی بیس اعشاریہ ایک دو میٹر ہے.
ایک اینڈ سے دوسرے
ریاستیں بے غیرتوں کی غداری سے نہیں ، شیروں کے لہو سے چلتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
میں نے کرنل سہیل کے باپ کو دیکھا جو آنسو بہانے کی بجائے بیٹے کی لاش کو سلیوٹ کر رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ جس چہرے پر بے بسی کا ماتم ہونا چاہیے تھا۔ وہ چہرہ فخر سے جھوم رہا تھا۔
میں نے کیپٹن روح الله کا جنازہ دیکھا ۔ کیپٹن روح الله کی دو مہینے بعد شادی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے جنازے پر پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگتے دیکھے۔ یہ قبائلی علاقے کا انوکھا ترین جنازہ تھا جہاں لوگوں نے کلمہ شہادت کے ساتھ پاکستان کے نعرے لگائے تھے۔
میں نے کیپٹن بلال شہید کی ماں کو دیکھا ۔ کیپٹن بلال کو سینے پر راکٹ لانچر کا گولہ لگا تھا ۔ بیٹے کی کٹی ہوئی لاش دیکھ کر بھی اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے ۔ وہ لوگوں کو کہہ رھی تھی ، بیٹے چاہے ہزار ہوتے قربان تو اس دھرتی پر ہی ہونے تھے ۔
*کل اسلام آباد میں چین کے ایک منہ پھٹ ماہر معاشیات نے ہمارے وزیر خزانہ کی بولتی بند کر دی،* ایک سوال کہ جواب میں اس نے کہا امریکہ اور مغرب کو الزام دینا بند کر دو۔ تم خود اپنی معاشی بربادی کے ذمہ دار ہو۔ اور پھر جاپان ذمہ دار ھے۔ تمھارا سارا فارن ایکسچینج ہنڈا،
سوزوکی اور ٹیوٹا لے اڑتا ھے۔ اور تم اب بھی زیادہ تر پرزے جاپان سے منگا کر یہاں جوڑتے ہو اور ان گاڑیوں کو باہر بیچ بھی نہیں سکتے۔۔ تم اس زر مبادلہ کے لئے پھر بھیک مانگتے ہو، ان گاڑیوں کا تیل بھی باہر سے آتا ھے پھر اس کے لئے بھیک مانگتے ہو۔ بند کرو یہ پلانٹ، اپنی گاڑیاں بناکر بیچو
ہر قسم کی پرتعیش گاڑیاں مکمل بند کر دو۔انتہائی مہنگی کرو دو۔۔
تم زراعت کو ماڈرن کرو۔ تم صنعت کو ماڈرن کرو۔ ایکسپورٹ بڑھاو۔۔ چین کو کاپی مت کرو۔ کیوں کہ تم چین کبھی نہیں بن سکتے۔ اس کے لئے بڑی قربانی اور سخت ڈسپلن کی ضرورت ھے۔ تمھارا ماڈل مراکش ھے۔ جس نے برقرفتاری سے ترقی کی ھے
السلام علیکم پیاری بہنو،
آج کی بات خاص طور پر غیر شادی شدہ بچیوں اور نئی شادی شدہ بچیوں کے لئے
(جن کی شادی کو ابھی 10 سال نہیں ہوئے)۔
یہ جو ہم جیسے کپلز ہوتے ہیں نا جو زندگی کا ایک لمبا حصہ ساتھ گزار کر اب بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں ان کی موجودہ زندگی کو دیکھ کر آپ لوگوں کو
بڑا اچھا لگتا ہے کہ کتنا اچھا کپل ہے،کتنی دوستی ہے،کتنا خیال رکھتے ہیں ایک دوسرے کا،تو میری جند جان بچیو ان کو دیکھ کر خوش بھی ہوا کریں،ان کو آئیڈیالائیز بھی کریں کیونکہ ایسا ہی ہے،
لیکن ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہوتی ہے،
اونچ نیچ کی،
برداشت کی،
تلخیوں کی،
رشتوں میں دراڑ کی،
اپنا آپ ختم کر دینے کی،
اس لئے
ان سے ضرور پوچھا کریں کہ اس مقام تک پہنچتے پہنچتے راستے سے کتنے پتھر چنتے آئے ہیں، کیا کیا حالات دیکھے اور گزارے ہیں،
جب میری بیٹیاں یہ کہتی ہیں نا کہ بابا جیسا شوہر ہو اور بیٹے کا دل کرتا ہے ماما جیسی بیوی ہو