جامشورو میں ایک میڈیکل کالج کا نام بلاول بھٹو زرداری میڈیکل کالج ہے۔
ایک شہر نواب شاہ ہوا کرتا تھا ۔ پرانے وقتوں میں سید نواب شاہ نے 200 ایکڑ زمین اس شہر کو دی تھی جس پر انگریز نے اس کا نام نواب شاہ رکھ دیا ۔
زرداری صاحب نے ایک مرلہ زمین دیئے بغیر اس کا نام بدل کر بے
نظیر آباد رکھ دیا ۔
اس بے نظیر آباد میں ایک کیڈٹ کالج ہے اس کا نام بختاور بھٹو کیڈٹ کالج ہے۔
اسی بے نظیر آباد میں ایک یونیورسٹی کا نام بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی رکھ دیا گیا ہے ۔
بے نظیر آباد ہی میں ایک ڈسٹرکٹ سکول کا نام بھی بے نظیر بھٹو سکول ہے
اور اس کا افتتاح بھی
بختاور بھٹو زرداری نے کیا تھا۔
اپر دیر میں بھی ایک شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی قائم ہے۔
ایک شہید بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور میں ہے۔
لاڑکانہ میں ایک یونیورسٹی کا نام شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی ہے۔
لاڑکانہ میں ایک شہید بے نظیر گرلز کالج ہے۔
ایک بےنظیر بھٹو ڈگری کالج کراچی میں ہے ۔
کراچی میں ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کی ایک یونیورسٹی قائم کی گئی۔ حد تو یہ ہوئی کہ اس کا نام بھی شہید بے نظیر یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔
کراچی میں ایک یونیورسٹی کو شہید بے نظیر بھٹو سٹی یونیورسٹی
اور دوسری کو شہید بے نظیر بھٹو دیوان یونیورسٹی کا نام دیا گیا۔
راولپنڈی جنرل ہسپتال کا نیا نام بے نظیر بھٹو ہسپتال ہے ۔
لیاری میں قائم میڈیکل کالج کو شہید بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج کہتے ہیں۔
کراچی میں قائم اے این ایف ہسپتال کو بے نظیر بھٹو شہید اے این ایف ہسپتال کہا جاتا ہے۔
بے نظیر بھٹو شہید ہیں اور قابل احترام ہیں لیکن کیا اس ملک میں وہی واحد شہید ہیں اور واحد قابل احترام ؟؟؟
کبھی حساب لگا لیجیے اس ملک میں قائد اعظم ، اقبال اور مادر ملت کے نام سے کتنے ادارے ہیں
اور شریفوں
ور بھٹوؤں کے نام سے کتنے ادارے ہیں ؟
یہ ملک ایک امانت ہے
یا ان دو خاندانوں کی چراگاہ ؟؟؟
ہم مہذب دنیا کی ریاست کے باشندے ہیں
یا ان دو خاندانوں کی جاگیر کے مویشی ؟ ؟؟
انہیں اپنے قائدین سے اتنی ہی محبت ہے تو قومی خزانے کے ساتھ واردات کرنے کی بجائے
اپنی جیب سے ان کے نام سے ادارے کیوں نہیں بناتے؟
انہیں یہ غلط فہمی کب سے ہو گئی
کہ ہم انہیں مال غنیمت میں ملے ہیں ۔
کچھ عرصہ پہلے صوابی میں ایک جلسے میں منظور پشتین نے سامنے کھڑے پشتونوں سے کہا کہ جلسوں میں اپنی ماؤوں بہنوں کو بھی لائیں۔ ایسا مطالبہ پاکستان کے کسی لیڈر نے آج تک اپنے سامعین سے نہیں کیا۔
اس پر ساتھ بیٹھے محسن داؤڑ نے فوراً ٹوکہ اور کہا کہ
'خپلہ دے ھم راؤلہ کنہ' یعنی اپنی بیوی بھی لے کرآؤ۔ تب منظور نے خجالت سے کہا ضرور لاؤنگا۔
لیکن سچ یہ ہے کہ پشتونوں کی ماؤوں بہنوں کو اپنے جلسوں کی زینت بنانے والے منظور پشتین کی بیوی یا بہن کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا
نہ ہی محسن داؤڑ کبھی بھی اپنی بیوی یا بہن کو جلسے میں لایا ہے
لے دے کر ایک علی وزیر کی بڈھی ماں کو لے آتے ہیں جس کی اب ویسے بھی پردہ کرنے کی عمر نہیں ہے۔
کراچی دھرنے میں حاضرین کی مایوس کن تعداد دیکھ کر منظور پشتین نے ایک بار پھر پشتونوں سے اپیل کی ہے کہ اپنی ماؤوں بہنوں کو ہمارے جلسے میں لائیں۔ جس کا جواب وہی بنتا ہے جو
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں اشرافیہ نے ریاست کی ز مین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور اگر عدالت کے اس فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ
کوئی اصول طے کر نے کی ہمت کر لے تو کیا کچھ تبدیل ہو سکتا ہے.
اسلام آباد میں ایک شفاء ہسپتال ہے جسے قومی اسمبلی کی دستاویزات کے مطابق نوے کی دہائی میں ڈھائی ایکڑ سرکاری زمین محض ایک سو روپے مربع فٹ کے حساب سے عنایت فرمائی گئی۔یہ اسلام آباد کا مہنگا ترین ہسپتال ہے ۔حالت یہ ہے کہ
ڈھائی ایکڑ زمین لے کر بھی یہاں ڈھنگ کی پارکنگ نہیں ہے۔یہ ہسپتال اس علاقے میں واقع ہے جہاں ایک مرلہ زمین کی قیمت کروڑ روپے تک ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی زمین مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری ہسپتالوں پر لگائی جاتی تو کیا پولی کلینک اور پمز کی
آپ گوگل سے کوئی سوال کرتے ہیں.
وہ سوال کے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے سوال کے دو کروڑ پانچ لاکھ بیس ہزار جواب صفر اعشاریہ چھ پانچ سیکنڈز میں حاضر ہیں.
اس وقت کو جو گوگل جواب کی تلاش میں استعمال کرتا ہے سرور رسپانس ٹائم کہتے ہیں.
گوگل دنیا کے جدید ترین زی اون سرور
اور جدید ترین لینکس ویب سرور آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہے.
اس سسٹم نے صرف موجود معلومات کو جواب کی مناسبت سے میچ کر کے آپ کے لیے لائن اپ کرنا ہوتا ہے.
اور وہ اس کام کے لیے آدھے سیکنڈ سے ایک سیکنڈ کا وقت استعمال کرتا ہے اور بڑے فخر سے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے لیے
میں نے یہ جواب چھ سو پچاس ملی سیکنڈز میں تلاش کیا ہے.
اب ہم کمپیوٹر کی سکرین سے کرکٹ کے میدان میں چلتے ہیں.
شعیب اختر یا بریٹ لی باؤلنگ کرا رہے ہیں.
گیند ایک سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی گئی ہے.
وکٹ کی لمبائی بیس اعشاریہ ایک دو میٹر ہے.
ایک اینڈ سے دوسرے
ریاستیں بے غیرتوں کی غداری سے نہیں ، شیروں کے لہو سے چلتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
میں نے کرنل سہیل کے باپ کو دیکھا جو آنسو بہانے کی بجائے بیٹے کی لاش کو سلیوٹ کر رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ جس چہرے پر بے بسی کا ماتم ہونا چاہیے تھا۔ وہ چہرہ فخر سے جھوم رہا تھا۔
میں نے کیپٹن روح الله کا جنازہ دیکھا ۔ کیپٹن روح الله کی دو مہینے بعد شادی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے جنازے پر پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگتے دیکھے۔ یہ قبائلی علاقے کا انوکھا ترین جنازہ تھا جہاں لوگوں نے کلمہ شہادت کے ساتھ پاکستان کے نعرے لگائے تھے۔
میں نے کیپٹن بلال شہید کی ماں کو دیکھا ۔ کیپٹن بلال کو سینے پر راکٹ لانچر کا گولہ لگا تھا ۔ بیٹے کی کٹی ہوئی لاش دیکھ کر بھی اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے ۔ وہ لوگوں کو کہہ رھی تھی ، بیٹے چاہے ہزار ہوتے قربان تو اس دھرتی پر ہی ہونے تھے ۔
*کل اسلام آباد میں چین کے ایک منہ پھٹ ماہر معاشیات نے ہمارے وزیر خزانہ کی بولتی بند کر دی،* ایک سوال کہ جواب میں اس نے کہا امریکہ اور مغرب کو الزام دینا بند کر دو۔ تم خود اپنی معاشی بربادی کے ذمہ دار ہو۔ اور پھر جاپان ذمہ دار ھے۔ تمھارا سارا فارن ایکسچینج ہنڈا،
سوزوکی اور ٹیوٹا لے اڑتا ھے۔ اور تم اب بھی زیادہ تر پرزے جاپان سے منگا کر یہاں جوڑتے ہو اور ان گاڑیوں کو باہر بیچ بھی نہیں سکتے۔۔ تم اس زر مبادلہ کے لئے پھر بھیک مانگتے ہو، ان گاڑیوں کا تیل بھی باہر سے آتا ھے پھر اس کے لئے بھیک مانگتے ہو۔ بند کرو یہ پلانٹ، اپنی گاڑیاں بناکر بیچو
ہر قسم کی پرتعیش گاڑیاں مکمل بند کر دو۔انتہائی مہنگی کرو دو۔۔
تم زراعت کو ماڈرن کرو۔ تم صنعت کو ماڈرن کرو۔ ایکسپورٹ بڑھاو۔۔ چین کو کاپی مت کرو۔ کیوں کہ تم چین کبھی نہیں بن سکتے۔ اس کے لئے بڑی قربانی اور سخت ڈسپلن کی ضرورت ھے۔ تمھارا ماڈل مراکش ھے۔ جس نے برقرفتاری سے ترقی کی ھے
السلام علیکم پیاری بہنو،
آج کی بات خاص طور پر غیر شادی شدہ بچیوں اور نئی شادی شدہ بچیوں کے لئے
(جن کی شادی کو ابھی 10 سال نہیں ہوئے)۔
یہ جو ہم جیسے کپلز ہوتے ہیں نا جو زندگی کا ایک لمبا حصہ ساتھ گزار کر اب بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں ان کی موجودہ زندگی کو دیکھ کر آپ لوگوں کو
بڑا اچھا لگتا ہے کہ کتنا اچھا کپل ہے،کتنی دوستی ہے،کتنا خیال رکھتے ہیں ایک دوسرے کا،تو میری جند جان بچیو ان کو دیکھ کر خوش بھی ہوا کریں،ان کو آئیڈیالائیز بھی کریں کیونکہ ایسا ہی ہے،
لیکن ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہوتی ہے،
اونچ نیچ کی،
برداشت کی،
تلخیوں کی،
رشتوں میں دراڑ کی،
اپنا آپ ختم کر دینے کی،
اس لئے
ان سے ضرور پوچھا کریں کہ اس مقام تک پہنچتے پہنچتے راستے سے کتنے پتھر چنتے آئے ہیں، کیا کیا حالات دیکھے اور گزارے ہیں،
جب میری بیٹیاں یہ کہتی ہیں نا کہ بابا جیسا شوہر ہو اور بیٹے کا دل کرتا ہے ماما جیسی بیوی ہو