#قلمکار
اپنی تحریر کی آغاز میں ہی بتا دوں کہ میرا تعلق کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں۔ میں ایک ایسی محبِ وطن پاکستانی ہوں جسکو صرف اور صرف اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی سے غرض ہے۔ مجھے
یہ سن کر خوشی ہوئی کہ خان کی دعوت پر مائیکروسافٹ کے بانی #بِل_گیٹس نے پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا
وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے تو نشریات/اشاعت کے آؤٹ لیٹس سے لیکر سوشل میڈیا تک ہر جگہ انکے نام کی ہیڈ لائن دیکھنے کو ملی۔۔ بتایا گیا تھا کہ #بِل_گیٹس صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتیں کریں گے اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپرشنز سینٹر (این سی او سی)
ہیڈ کوارٹرز کا دورہ بھی کریں گے۔ انکی آمد کے روزذرائع کا بتانا تھا کہ #بِل_گیٹس کو #کورونا اور #پولیوکی روک تھام سے متعلق اقدامات پر بریفنگ دی جائے گی۔ لیکن کیا ہم نے اس دورے میں بس یہی سب کرنا تھا؟
سیلیکان ویلیز میں #بل_گیٹس کا بہت بڑا contribution ہے، کمپوٹر پروگرامز اور
سوشل میڈیا نیٹورکس پر ان کا بہت اثر و رسوخ ہے۔چونکہ میری عقل اور علم بہت سے معاملات میں نہایت ناقص ہے اس لیے امید کرتی ہوں کہ کوئی نہ کوئی میری رہنمائی ضرور کرے گا۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا اس دورہے کے دوران انکا پاکستان کی #انفارمیشن_ٹیکنالوجی کا دورہ ہوا؟ کیا بچوں کیلئے
ٹیکنیکل #سکالرشپ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی؟کیا یہاں کسی ادارے کے قیام کی بات ہوئی؟سب سے بڑی بات کہ سوشل میڈیا کے ہمارے پلٹ فارمز #انڈیا کنٹرول کر رہا ہے اور اسی وجہ سے #پاکستان میں سوشل میڈیا پر ملکی #دفاع کرنے والے صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔۔۔
کیا #بِل_گیٹس کا اثر و رسوخ استعمال کیا گیا کہ وہ ہمارے سوشل میڈیا کہ جو پلٹ فارمز فیسبک، ٹوئیٹر، یو ٹیوب وغیرہ جو کہ امریکن سرور ہیں اور انڈیاوالے اسے دبئی اور سنگاپور کے ذریعے آزادی کی تحریکین چلوانے کے امور سے متعلق ڈسکشن ہوئی؟ کیا کسی نے سوچا کہ اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے؟
کیا #پاکستان میں سوشل میڈیا کے دفاتر کھولنے کی بات چیت کی گئی؟ کیا گوگل کے #الگورتھم کی بات کی گئی جسکے ذریعے پاکستان کا مثبت پہلو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ہمیں مدد مل سکے اور جھوٹ پر مبنی انڈین مواد کو بلاک کرسکیں؟
چونکہ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے
اس لئے اثر و رسوخ کی بات کرنا پڑی۔ اگر ایسا سمجھ جاتا ہے کہ یہ "right man for the right job" نہیں ہے تو پھر جو "right man" ہے اسے کیوں مدعو نہیں کیا جا رہا؟ ان کاموں میں تاخیر کی کیا وجہ ہے؟ #پاکستان میں مسلسل #بھارت کی جانب سے ہر طرح کے منظم حملے کیے جا رہے ہیں،
ہماری پچھلی حکومتوں کی نااہلی اپنی جگہ لیکن ابھی تک موجودہ حکومت بھی ان معاملات پر پیش رفت کرتی نظر کیوں نہیں آئی؟ #بِل_گیٹس کو پولیو سے متعلق بریفنگ دی گئی، بہت اچھی بات ہے مگر
ہمیں اس سے کہیں بڑے حل طلب معاملات کیطرف بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے لیکن رفتار کچھوے جیسی ہو گئی تو منٹوں کا کام دنوں اور دنوں کا ہفتوں بعد بھی نہ ہو سکے گا
بنی اسرائیل میں دو دوست پہاڑ پر عبادت کرتے تھے ۔
ایک دن ایک دوست شہر سے کوئی چیز خریدنے آیا تو اس کی نظر ایک فاحشہ عورت پر پڑگئی ۔
وہ اس کے عشق میں ایسا مبتلا ہوا کہ اُسی کی محفل کا ہوکے رہ گیا ۔
جب کچھ دن گزر گئے ، وہ واپس نہ گیا تو دوسرا دوست اسے تلاش کرتا کرتا وہاں پہنچ گیا۔
اس نے جب اپنے دوست کو آتے دیکھا تو شرم کے مارے اسے پہچاننے سے ہی انکار کردیا اور کہنے لگا:
من خود ترا نمی دانم ۔ میں تو تجھے جانتاہی نہیں ، تو کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ !
نیک دوست نے ( اس کی بات سُنی اَن سُنی کر دی اور) آگے بڑھ کراسے گلے سے لگا لیا اور کہا:
اے میرے بھائی! میرے دل میں
تیرے لیے جتنی شفقت آج پیدا ہوئی ہے ، پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی ۔
اس نے جب اپنے دوست کی یہ شفقت و محبت دیکھی تو ( دل پسیج گیا اور ) توبہ کر کے اس کے ساتھ چل دیا ۔
امام غزالی رحمہ اللہ یہ واقعہ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں:
اگر تیرا دوست جرم کرکے ستر بار بھی عذر پیش کرے توتُو اس کا
کچھ عرصہ پہلے صوابی میں ایک جلسے میں منظور پشتین نے سامنے کھڑے پشتونوں سے کہا کہ جلسوں میں اپنی ماؤوں بہنوں کو بھی لائیں۔ ایسا مطالبہ پاکستان کے کسی لیڈر نے آج تک اپنے سامعین سے نہیں کیا۔
اس پر ساتھ بیٹھے محسن داؤڑ نے فوراً ٹوکہ اور کہا کہ
'خپلہ دے ھم راؤلہ کنہ' یعنی اپنی بیوی بھی لے کرآؤ۔ تب منظور نے خجالت سے کہا ضرور لاؤنگا۔
لیکن سچ یہ ہے کہ پشتونوں کی ماؤوں بہنوں کو اپنے جلسوں کی زینت بنانے والے منظور پشتین کی بیوی یا بہن کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا
نہ ہی محسن داؤڑ کبھی بھی اپنی بیوی یا بہن کو جلسے میں لایا ہے
لے دے کر ایک علی وزیر کی بڈھی ماں کو لے آتے ہیں جس کی اب ویسے بھی پردہ کرنے کی عمر نہیں ہے۔
کراچی دھرنے میں حاضرین کی مایوس کن تعداد دیکھ کر منظور پشتین نے ایک بار پھر پشتونوں سے اپیل کی ہے کہ اپنی ماؤوں بہنوں کو ہمارے جلسے میں لائیں۔ جس کا جواب وہی بنتا ہے جو
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں اشرافیہ نے ریاست کی ز مین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور اگر عدالت کے اس فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ
کوئی اصول طے کر نے کی ہمت کر لے تو کیا کچھ تبدیل ہو سکتا ہے.
اسلام آباد میں ایک شفاء ہسپتال ہے جسے قومی اسمبلی کی دستاویزات کے مطابق نوے کی دہائی میں ڈھائی ایکڑ سرکاری زمین محض ایک سو روپے مربع فٹ کے حساب سے عنایت فرمائی گئی۔یہ اسلام آباد کا مہنگا ترین ہسپتال ہے ۔حالت یہ ہے کہ
ڈھائی ایکڑ زمین لے کر بھی یہاں ڈھنگ کی پارکنگ نہیں ہے۔یہ ہسپتال اس علاقے میں واقع ہے جہاں ایک مرلہ زمین کی قیمت کروڑ روپے تک ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی زمین مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری ہسپتالوں پر لگائی جاتی تو کیا پولی کلینک اور پمز کی
آپ گوگل سے کوئی سوال کرتے ہیں.
وہ سوال کے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے سوال کے دو کروڑ پانچ لاکھ بیس ہزار جواب صفر اعشاریہ چھ پانچ سیکنڈز میں حاضر ہیں.
اس وقت کو جو گوگل جواب کی تلاش میں استعمال کرتا ہے سرور رسپانس ٹائم کہتے ہیں.
گوگل دنیا کے جدید ترین زی اون سرور
اور جدید ترین لینکس ویب سرور آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہے.
اس سسٹم نے صرف موجود معلومات کو جواب کی مناسبت سے میچ کر کے آپ کے لیے لائن اپ کرنا ہوتا ہے.
اور وہ اس کام کے لیے آدھے سیکنڈ سے ایک سیکنڈ کا وقت استعمال کرتا ہے اور بڑے فخر سے جواب سے پہلے آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے لیے
میں نے یہ جواب چھ سو پچاس ملی سیکنڈز میں تلاش کیا ہے.
اب ہم کمپیوٹر کی سکرین سے کرکٹ کے میدان میں چلتے ہیں.
شعیب اختر یا بریٹ لی باؤلنگ کرا رہے ہیں.
گیند ایک سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی گئی ہے.
وکٹ کی لمبائی بیس اعشاریہ ایک دو میٹر ہے.
ایک اینڈ سے دوسرے