کل روسی صدر پوتن نے قوم سے خطاب کیا
اک گھنٹے کی مدلل تقریر میں یوکرین کی تاریخ اور وہاں کے حالات بیان کیے
مئی 2014 سے اعلان کردہ مشرقی یوکرین سے علیحدہ ہو کر بنائی گئیں لوہانسک/دونیتسک ریپبلکز (جنہیں اب تک روس ہی متنوع انسانی، مالی / پوشیدہ عسکری امداد دیتا رہا ہے ) #Worldwide
+
++
سرکاری طور پر تسلیم کر لی گیئں ہیں
روسی فوج کو حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ چند ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ان خودساختہ خودمختار ملکوں میں امن قائم رکھنے کا فریضہ سرانجام دیں یعنی ان مقامات پہ کیا جانے والا حملہ اب بالواسطہ روس پر حملہ تصور کیا جائے گا
اب چاہے نیٹو یوکرین میں در آئے
روس کے لیے دو "بفر سٹیٹس" قائم ہو گئیں
ممکنہ طور جنگ نہیں ہوگی
مگر روس کو مغرب یعنی امریکہ اور یورپ کی جانب سے مزید شدید اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا سامنا ہوگا
یہ ریچھ بہت صابر اور قوی ہے
ہمارے آکسفورڈین ہینڈسم کی مت ماری گئی ہے
ورنہ روس یوکرین تنازعے کے عروج پر کوئی احمق ہی ایسا دورہ کرنے کی سوچ سکتا ہے
اس وقت جب پورا مغربی /یورپی بلاک اک بار پھر سے کیمونسٹ بلاک کے سرخیل روس کے خلاف کمر کس چکا ہے
ہمارے ہینڈسم کا یہ کہنا کہ
امریکی بلاک کا حصہ بن کر #AnOtherLook
++
++
امریکی بلاک کا حصہ بن کر ہمیشہ ہم نے نقصان ہی اٹھایا
اک نہایت احمقانہ بیان ہے اور اس کے نتائج اس بگڑی معیشت والے ملک کو مزید بھگتنا پڑیں گے
کہ اینٹی کیمونسٹ بلاک والی قوتیں اس وقت بھی خاصی طاقتور اور اثرورسوخ والی ہیں
حیرت ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ میں بیٹھے
ہماری وزارتِ خارجہ میں بیٹھے بابوز یہ بات آکسفورڈین ہینڈسم کو بروقت سمجھا کیوں نہ سکے؟
روس کا اس منظرنامے میں دورہ کسی صورت بھی دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا ہے
لیکن ہینڈسم کو سمجھائے کون؟
میری بدخوئی کے بہانے ہیں
رنگ کچھ اور اُن کو لانے ہیں
رحم اے اضطراب رحم کہ آج
اُن کو زخمِ جگر دکھانے ہیں
میں کروں جستجو کہاں جا کر
اُن کے تو سو جگہ ٹھکانے ہیں
قافیے کو بدل کے اے مجروح
اور اشعار کچھ سُنانے ہیں
کیسی نیند اور پاسباں کس کا
یاں نہ آنے کے سب بہانے ہیں
کر کے ایفائے عہد کا مذکور
اپنے احساں اُنہیں جتانے ہیں
اُس کی شوخی کی ہے کوئی حد بھی
اک نہ آنے کے سَو بہانے ہیں
سر اُٹھانا وبال ہے اور یاں
ناز اُن کے ابھی اُٹھانے ہیں
میر مہدی مجروح
++
ظلم سے اُن کا پیٹ بھرنے تک
ہم کو تیغ و تیر ہی کھانے ہیں
ان بتوں ہی کو حُسن دینا تھا
کیا خدائی کے کارخانے ہیں
الم و درد و رنج و بیتابی
یار اپنے یہی پُرانے ہیں
کیا ہماری نماز، کیا روزہ
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
اک ارب سے کچھ زیادہ سال پیشتر ہم سے لاکھوں کہکشائیں دور
دو "بلیک ہول" آپس میں ٹکرائے تھے
وہ قرنوں سے اک دوسرے کے گرد چکر کاٹ رہے تھے جیسے رقص برائے مجامعت میں مگن ہوں اور اس طرح اک دوسرے کے مدار کے نزدیک آنے میں منہمک تھے
جب وہ اک دوسرے سے چند سو میل دور رہ گئے
تو ان کی اک دوجے کے گرد گردش کی رفتار تقریبا روشنی کی رفتار (اک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ) کو چھونے لگی تھی
اور ان سے کشش ثقل کی توانائی کی قوی ترین لرزشیں خارج ہو رہی تھیں
اک ڈولتے ہوئے برتن میں ابلتے پانی کی مانند زمان و مکان مسخ ہو کر رہ گئے تھے
پھر اک سیکنڈ کے اس مہین ترین حصے میں جو بالآخر ان دونوں "بلیک ہول" کو مدغم ہونے میں لگا تھا
انہوں نے کائنات کے تمام ستاروں کی مجموعی توانائی سے اک سو گنا توانائی بکھیری تھی
وصل ہے قُوّتِ پروازِ تخُیّل کہ
جب میں تُمہیں یاد کروں تو تُمہیں سُنائی دے
میری پُکار سماعت سے یُوں ٹکراتی ہُوں
کہ جیسے کان کی لَو کوئی جھونکا چُھو جائے
اور وِہم گُزرے کِسی نے پُکارا ہے شاید نہیں
وبا کے اوائل میں کووڈ کو سب سے پہلے نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر مصطفے کمال پاشا نے نزلہ کہا تھا
جب کورونا ہوا تو نجی ہسپتال میں داخلے کے دوران وڈیو بنا کے نشر کی کہ دیکھو میں سوپ پی رہا ہوں، مجھے کوئی آکسیجن نہیں لگی
پھر ہفتے بعد وینٹی لیٹر پر
++
+
دو ہفتوں ماہر ترین ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششیں دنیا میں خون صاف کرنے کی جدید ترین مشین کا استعمال بھی ان کی جان نہ بچاسکا تھا
اومیکران کو نزلہ کہنا ویسی ہی غلطی ہے
بہت زیادہ لوگوں میں پھیلنے کی وجہ سے شدت کم ہوتی ہے مگر مریضوں کی کثیر تعداد کے حساب سے زیادہ لوگ شدید مریض ہوتے ہیں
+
++
اور اموات بھی کم نہیں ہوتیں
کورونا سے اموات بڑھاپے، مددگار امراض جیسے ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس اور قوت مدافعت کم ہونے کے سبب ہوئیں
چنانچہ ابھی اسے نزلہ سمجھ کر آسان نہ لیں
احتیاط کریں