#Hyderabad #History
چار مینار (حیدرآباد، بھارت)____1591
An Indo-Saranenic Style/ #Architectural Composition
یہ چوبرجی (لاھور)نہیں بلکہ تلنگہ (ریاست حیدرآباد) میں دریائے موسی (Musi) کی مشرقی جانب واقع تاریخی یادگار چار مینار ھے۔
یہ یادگار 1591 میں قطب شاہی خاندان کے پانچویں بادشاہ
محمد قلی قطب شاہ نے تعمیر کروائی تھی۔
یہ عمارت دراصل طاعون وبا کے خاتمے کی یاد میں منائی جانےوالی ایک مسجد ھے۔
اسے قطب شاہی دور کی اعلیٰ ترین تعمیراتی کامیابیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ھے۔ چارمینار ہند-ساراسینک انداز میں ایک عظیم تعمیراتی شاہکارھے۔ یہ سٹوکو آرائش کیساتھ گرینائٹ اور
چونے کے مارٹر سے بنایا گیا ھے۔
مربع ڈھانچہ ایک طرف 66 فٹ (20 میٹر)، محراب 36 فٹ (11 میٹر), اور زمین سے کل 160 فٹ (49 میٹر) ھے۔
محراب کے اوپر دو منازل بھی ہیں۔ پہلے پہل یہ قطب شاہی دور میں ایک مدرسہ (اسلامی کالج) کے طور پر استعمال ھوتا تھا اور دوسرے میں ایک چھوٹی مسجد تھی.
بلاشبہ
چارمینار لوگوں کی چوبرجی سےکافی مشابہت ھےشاید اسلیےبھی کہ ان دونوں کےعہد میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔
چار مینار مختلف ادوار میں مختلف اتارچڑھاؤ کا شکاررہامگرآج بھی اپنےتاریخی قد اورکشش کا نمونہ ھے۔
چوبرجی کہیں یاچارمیناربات توایک ہی ھے۔
#Gujrat #History
گجرات نام کی وجہ تسمیہ
زمانہ قدیم سے آباد گجرات (پاکستان) کی مختلف زمانوں کی تاریخ بہت لمبی ھے۔
ھندوراجہ جے دھرت پہلا تھا جس نے گجرات پر حکومت کی بعد ازاں ایک ہندو راجہ بچن لال کی رانی گجراں (Queen Gojran) کی حکومت سےاس کا نام "گجر نگر" پڑ گیا۔
تاریخ بتاتی
ھے کہ گجرات کے اولین عہد کو گجراٹھ یعنی "گوجروں کی گدی" کہا جاتا تھا۔
اسکندر اعظم کے حملوں،محمود غزنوی کے حملوں سے بگڑا ھوا گجرات 1580 میں شہنشاہ اکبرکی دلچسپی کا مرکز بنا تو نکھرنا شروع ھوا۔
جب گجر قوم ھندوستان میں فاتح کی حیثیت سےداخل گوئی تو اس نے جنوبی مقبوضات کے تین حصے کیے۔
سب سے بڑے حصے کا نام "مہاراٹھ", دوسرے حصے کا "گجراٹھ" اور تیسرے حصے کا نام"سوراٹھ" رکھا گیا لیکن ھندوستان کے ترک فاتحین (Slave Dynasty) نے اسے "گجراٹھ" سے گجرات بنا دیا کیونکہ انکی زبان سے ادا ھونا مشکل تھا۔
برصغیر میں آج متعدد شہر، دیہات و قصبات موجودہیں جن کے نام گجر قوم کے دور
#Baloch #History
بزدار قبیلہ (Buzdar Tribe)
بزدار قبیلہ بلوچوں کا ایک بڑا قبیلہ ھے جس کا لغوی مطلب ھے "بکریاں پالنے والا" لیکن درحقیقت بزداربکریاں نہیں بھیڑیں پالنےوالا قبیلہ ھے۔
یہ قبیلہ پندرہویں صدی تک رندولاشار کےزمانے تک باقائدہ کوئی منظم قبیلہ نہ تھا۔ دراصل اسکی موجودہ تشکیل
بہت بعد میں ھوئی۔
کوہ سلیمان میں سنگھڑ درے کا مالک یہ رند قبیلہ کیسرانڑیوں کی طرح موسیٰ خیل اور جعفر قبیلوں کے آس پڑوس میں آباد ھے۔
کوہ سلیمان اور راجن پور کے علاؤہ بزدار لوگ ملتان، لیہ، تونسہ، دادو، ٹنڈواللہ یار، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو غلام علی، سکھر، خیرپور، گھوٹکی، سیہون،کھپرو،
حیدرآباد اور میرپور ماتھیلو میں آباد ہیں۔
درگ کھور،بزدار اور کیسانڑی کے بیچ حد بندی کرتا ھے۔ بزدار کا علاقہ سارے کا سارا کوہستانی بلند گھاٹیوں پر مشتمل ھے۔
کھترانڑ اور بگٹی بھی بزدار کے پڑوسی ہیں۔ اس کی ذیلی شاخوں میں دولانڑیں، لدوانڑیں، غلامانڑیب، چاکراڑیں، سیھانڑیں، شاہوانڑیں،
#Bahawalpur #History
صادق گڑھ پیلس (بہاولپور)_____1882ء
تقریباً 175 سال قبل بہاولپور کے پانچویں نواب صادق محمد خان نے 1500,000 روپے کی لاگت سے 1500 مزدوروں کی مدد سے 126 ایکڑ رقبے پر پھیلا صادق محل اطالوی ماہرین (Italian Professionals) کی مدد سے تعمیر کروایا۔
سفید سنگ مرمر سے بنا
ھوا یہ تین منزلہ محل ڈیرہ نواب خان میں واقع ھے دراصل نواب صاحب کا دربار تھا۔
اس تاریخی حویلی میں پاکستان اور ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، قائد اعظم محمد علی جناح، ایران کے شہنشاہ محمد رضا پہلوی اور دیگر عالمی رہنما نواب صاحب کے مہمانوں کے طور پر ٹھہرے ہیں۔
ہر سربراہ
مملکت کا محل میں ایک باقاعدہ کمرہ ھوتا ھے جس کا نام اس کے نام پر رکھا جاتا ھے جیسے ترک کمرہ، برطانوی کمرہ، چائنا روم وغیرہ۔ 52 قوموں کے رہنما ایک ہی وقت میں اس میں رہ سکتے تھے۔
محل میں نواب صاحب کا بیلجیئم سے لایا گیا سونے کا تخت اسکی خاص پہچان تھا۔ یہ تاریخی سفید محل ڈیڑھ
صیہونیت (Zionism)
یہودیوں کی ایک نیشنلسٹ تحریک
جس کا مقصد فلسطین میں مسلمانوں کو ختم کر کے صرف ایک یہودی قومی ریاست کی تشکیل ھے۔
یروشلم کےایک پہاڑی علاقے کو صیون کہاجاتا تھا۔ یہ لفظ وہیں سے اخذ شدہ ھے۔
اس تحریک کی ابتداء وسطی یورپ میں انیسویں صدی کے #Palestine #Jerusalem #Zionism
اواخر میں ھوئی۔
آسٹریا کے ایک صحافی تھیوڈور ہرزل (1860-1904) نے صیہونیت کو ایک سیاسی موڑ دیا اور اس تحریک کا بانی کہلایا۔
1897 میں ہرزل نے باسل (سوئٹزرلینڈ) میں پہلی صہیونی کانگریس بلائی جس نے تحریک کا باسل پروگرام تیار کیا.
جس میں کہا گیا کہ "صیہونیت یہود کے لیے فلسطین میں ایک
ایسا گھر بنانے کی کوشش کرتی ھے جو عوامی قانون کے ذریعے محفوظ ھو۔"
برطانیہ نے اس خیال کی بہت پذیرائی کی۔ جنگ عظیم اول کے دوران یہودیوں نے اپنے آپ کو منظم کیا اور برطانیہ نے 1922 میں اسے "League of Nations Mandate" میں شامل کیا۔
1925 میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کا سرکاری طور
وکٹوریہ میموریل(کلکتہ,بھارت)1906-1921
مغل اور مغربی فن تعمیر کا انوکھا انداز
زمین ہماری مگر یادگار کسی اور کی
اگر اسے تاج محل (آگرہ) سے مشابہ کہاجائے تو غلط نہہں۔
1901میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات کے بعد جنرل لارڈ کرزن نے اسکی منظوری دی۔ پرنس آف ویلز نے 4 جنوری 1906 #archives #History
میں اس کا سنگ بنیاد (Foundation Stone) رکھا۔
سفید دودھیا مکرانہ سنگ مرمر سے بنا ھوا بلند قامت میموریل، جو کلکتہ کی زمین پر رعب سے کھڑا ھے، 1906 سے 1921 کے عرصے میں تعمیر کیا گیا۔ تعمیر معروف فرم میسرز مارٹن اینڈ کمپنی کی تھی۔ ولیم ایمرسن چیف آرکیٹیکٹ تھے۔
عمارت 338×228 فٹ یا
103×69 میٹر تک جاتی ھے اور اونچائی 184 فٹ ھے جبکہ یادگار کا ڈوم 16 فٹ ھے
اس کی درست قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ھے۔اس یادگار کو بہت سے ہندوستانی افراد اور برطانوی افسران نے بڑے پیمانے پر مالی اعانت فراہم کی تھی لیکن اندازاً کل تعمیراتی لاگت تقریباً ایک کروڑ، پانچ لاکھ روپے تھی اور
#Magnificent #Bahawalpur #History
صادق مسجد (بہاولپور، پاکستان)___1860ء
(Al-Sadiq Mosque)
1748ء میں جنوبی دریائے ستلج پر سردار محمد بہاول خان (1715-1749) نےاپنے نام پر آباد کیا۔
ھندوؤں کی معتبر ترین کتاب "رگ وید" (Rig Veda) میں اس خطے کا نام "ہری روپہ" درج ھے۔
اس خاندان نے ریاست
بہاولپور پر تقریباً
200 سال (1748-1954ء) تک حکومت کی۔ ریاست بہاولپور کا سب سے مشہور قبیلہ (ذات) "آرائیں" مانا جاتا ھے۔
صادق مسجد 162 سال پرانا اسی عباسی دور حکومت میں تعمیر کردہ شاہکار ھے جس کی تزئین و آرائش کا کام 1935ء میں آخری نواب سر صادق محمد خان عباسی (1904-1966) نے مکمل
کروایا۔
24 کنال رقبے پر مشتمل سفید سنگ مرمر سے بنی مسجد، جس میں 15,000 نمازیوں کی گنجائش ھے، اس کے بڑے مینار، مسجد کی دیواروں پر قابل دید پینٹنگز نایاب فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اس کی دلکشی اور خوبصورتی ڈیڑھ صدی گزرنے کے بعد بھی ماند نہیں پڑ سکی۔