#Occulist #France #History
Helena Petrovna Blavatsky
ہیلینا بلاوٹسکی (روس)
Founder of Theosophical Society 1831-1891
پچھلی صدی کی چند حیرت انگیز خواتین میں سے ایک روسی نژاد یوکرینی میڈم ہیلینا جو ہمیشہ سے تاریخ کی متنازع شخصیت رہیں۔
میڈم ہیلینا "Theosophical Society" کی بانی تھیں
اور ماورائے علوم کی گرو تصور کی جاتی تھیں.
میڈم ہیلینا کا دعویٰ تھا کہ انہیں "Master of Wisdom" کی رہنمائی حاصل ھے۔
خود کو جادوگر اور ساحرہ کہنے والی ہیلینا کی زیادہ تر پیش گوئیاں درست ثابت ھوئیں۔
ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والے ہیلینا کی قابل فخرتصنیف "The Secret of Doctrine"
سے ضرور واقف ھوں گے۔
میڈم ہیلینا نے دس برس کی عمر سے اپنے ماورائی آقاؤں سے باتیں شروع کر دیں تھیں اور وہ ہر وقت اسکے اردگرد موجود ھوتے۔
ہیلینا پیٹرونیوون ہان کی17برس کی عمرمیں بلاوٹسکی سے شادی ھوئی۔
ہیلینا کا ہنی مون بھی پراسرار اور خوفناک تھا۔ ہیلینا کےعلم کاناقابل یقین واقعی جب
اس نے مصر کے "Queen's of Chamber" میں مرحومین کی ارواح سے ملاقات ھے۔
ہیلینا کی تصنیف، جو اسکی موت کے بعد 1891میں شائع ہوئی، میں تبت کےلاماءوں، زیر زمین غاروں، گپھوں، لائبریریز ، سرنگوں کا ذکر ھے۔
اس کتاب سےقبل ہیلینا کی کتاب "isis Unveiled" تھی جس میں مصر کے اہراموں، قدیم تہذیبوں
اور گیزا کی تعمیر میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
میڈم ہیلینا کی کتابوں کے بہت سے ابواب ابھی پراسرار ہیں۔ ان کتب کو لکھتے وقت بہت دفعہ ہیلینا بھٹک بھی گئی۔
لیکن ان سب کےباوجود یہ بھی سچ ھے کہ ہیلیناکی تصانیف اور پیش گوئیاں ابھی بھی موضوع بحث ہیں۔ @threadreaderapp Unroll it pls. #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Lakkundi #StepWellArt #Architecture
Lakkundi Temples (Karnataka)___1100 CE
لکنڈی مندر (ریاست کرناٹک)
ریاست کرناٹک (بھارت)میں 20زیرزمیں مندروں، 80 کتبات (Inscriptions) اور قدیم کنووءں کی بھولی ھوئی سرزمین جنہیں شہرکےجنرلز نے اپنی بیوائوں کےنام سے بنایاتھا۔
لکنڈی کلیانہ کی چالوکیہ
سلطنت (Chalukiya Dynasty) کا ایک اہم شہر تھا۔ اس وقت یہ قصبہ 'لوکی گنڈی' کے نام سے جانا جاتا تھا. اس سے قبل یہ جگہ اگرہارا کے نام سے مشہور تھی یعنی "اعلیٰ تعلیم کی جگہ".
زیر زمین آرٹ کاحیران کردینے والا ایسا شاہکار جہاں پیچیدہ دروازے، کھڑکیوں پر دیدہ زیب جالی، ہموار خمیدہ دیواریں
مقبرے کی دیواروں پر آرائشی مجسمے سب ہاتھ سے بنائے گئے ہیں۔ گویا لکنڈی چالوکیوں کی سجاوٹ اور تعمیراتی پہلوؤں کا منہ بولتا ثبوت ھے۔
ہر دیوار پر موجود تفصیلات یقینی طور پر آپ کو حیران کر دیتی ہیں۔ تقریباً ہر دیوار پر ایسے مجسمے ہیں جن میں رقاصوں، موسیقاروں، کروبیوں، جانوروں وغیرہ کی
#ancient #Egyptology #Mummification
5000 سال قبل مسیح #مصر میں اپنے مردوں کو حنوط کرنے (Mummification) کاصرف رواج ہی نہیں تھابلکہ یہ لافانی مذہبی عقیدہ(Immortal Cult) اورباقاعدہ ایک منظم کاروبارتھا جس سےمنسلک ھونامقدس ترین خدمت تصورکی جاتی تھی۔
یہ کاروبار
"حنوط کاری کا کاروبار" (Business of Ambalment) کہلاتا تھا۔
امیروں کے مردے حنوط کرنےکے الگ طریقے اور چارجز تھے اور غریبوں کے الگ۔
اس حنوط کاری کا بنیادی مقصد مردے کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک دوام بخشا ھوتا تھا۔
یہ حنوط کاری ایک جھٹ پٹ کی بجائے مکمل تخلیقی اور جسمانی عمل تھاجسے مخصوص
مخصوص، تجربہ کار اور ماہر لوگ ہی ادا کرتے تھے۔
مصریوں کی دیکھا دیکھی ہی یہ رواج دیگر
قدیم ممالک میں بھی فروغ پانے لگا جس کا ثبوت مختلف ممالک سے ملنے والی حنوط شدہ لاشیں (Mummies) ہیں۔
یہ طریقہ 30 ق م سے 374 عیسوی تک روم میں رائج العمل تھا اور تقریباً 2000 سال تک اپنےمکمل عروج پر
#Temple #Archaeology #India
پالیتنہ مندر (گجرات، بھارت)___1120 CE
سطح سمندر سے
2000 فٹ کی بلندی پر واقع دنیا کا واحد پہاڑ جس پر 900 سے زائد مندر تعمیر کیے گئے۔
کیایہ حیران کن انسانی انجینئرنگ اور "Rock-Cut Art" نہیں؟
سیاحوں کے لیے گجرات کے بھاؤنگر ضلع میں واقع پالیتنہ حیرتوں کا
شہر ھے جہاں پہاڑی کی چوٹی پر بنے یہ ہزاروں مندروں کے حیرت انگیز نظارے ہمیں زمانہ قدیم میں واپس لے جاتے ہیں۔
پالیتنہ شویتمبرا (Shwethambara) کے لئے ایک زیارت گاہ ھے جو جین مت کی دو شاخوں میں سے ایک ھے، دوسری دگمبرا (Digambara) ھے۔
اس پہاڑی کا نام بھی مہاتما شترنجایا کے نام سے
منسوب ھے۔ یہ پہاڑ اسی وقت مقدس بن گیا تھا جب مہاتما کے سب سے پہلے عقیدت مند رشبھ (Rishabha) نے اس پر مقدس خطبہ دیا۔
پالیتنہ کی شترنجایا پہاڑیوں پر 1300 سے زیادہ سنگ مرمر کے یہ مندر جو زیادہ تر عقیدت مندوں کے عطیہ کردہ سونے اور چاندی سے مزین ہیں۔
#ancient #Punjab
Shri Katas Raj (Jehlum,Pakistan)
شری کٹاس راج مندر___7th CE
پنجاب (پاکستان) میں جہلم (Salt Range) کے مقام پر واقع شری کٹاس راج دراصل ایک "ست گڑھ کمپلیکس" ھے۔
سنسکرت لفظ "کٹاس" (Kataksha) کا مطلب ہی "آنسوؤں کی بہار" (Spring of Tearful Eyes) ھے۔
یہ کمپلیکس پنجاب کی
1500 سال قبل کی عظیم الشان تاریخ کی گواہی دیتا ھے۔
کمپلیکس کے متعدد مندر ایک دوسرے سے ملحقہ ہیں۔ ہماچل پردیش (بھارت) میں جوالہ مکھی (Jwalamukhi, Himachal Pradesh) کے مندر کے بعد تاریخی پنجاب کےخطہ پوٹھوارمیں واقع کٹاس مندر ہندوؤں کا دوسرا معتبر اور مقدس مقام ھے۔
اس کمپلیکس کا نام
اسکے اردگرد دو کنال پر واقع "کٹاس" نامی حوض سے منسوب ھے جس کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ یہ تالاب مہاراجہ کی بیوہ "دیوی شیوا" (Deity Shiva) کے ستی ھونے کے بعد وجود میں آیا۔
کمپلیکس کے مندر چوکور ہیں جو "Cornices" طرزتعمیر پر مشتمل ہیں۔
اسٹوپا اور ساتوں مندر کشمیری مندروں کی طرح
#Pyramids #History
سفید اہرام (سلسلہ کوہ ہمالیہ)
اہرام صرف مصرمیں ہی نہیں بلکہ مصر کے علاؤہ بھی دیگرخطوں میں بھی اہرامی شکل کےپراسرار عجوبے موجود ہیں۔
ان ہی میں ایک پراسرار سفید اہرام جو کوہ ہمالیہ کے عظیم پہاڑی سلسلوں کے ایک دور دراز وادی میں چھپاھوا ھےجسے ایک امریکی ہواباز جیمز
گوسمین (James Gaussman) نے (جو اب انتقال کر چکے ہیں) دوسری جنگ عظیم کے دوران دریافت کیا۔
اس اہرام کادرست محل وقوع تومعلوم نہ ھو سکا مگر اسکی کہانیاں صدیوں سے داستان گویوں کی زبانوں پر ہیں۔
یہ عظیم الشان دیوہیکل اہرام سفید جھلملاتے دیواروں میں بند ھے جس کی چوٹی پر ہیروں کا جڑا تاج
جگمگا رہا ھے۔
جیمز گوسمین مزید بتاتے ہیں کہ اس نے کارگو جہاز اڑاتے ھوئے یہ اس عظیم پہاڑی سلسلہ کی وادی میں یہ حسین وجمیل عمارت دیکھی مگروہاں جہازلینڈ کرنےکی کوئی جگہ نہ تھی۔ اس وادی میں گمشدہ شہروں کےکھنڈرات بھی ہیں اورشکستہ عمارات بھی۔
گوسمین کےمطابق یہ خطہ انڈیااورچین کے درمیان
#Punjab #archives #History
پنجاب کا پہلا مارشل لاء
مارچ 1919ء میں ایک انگریز جج سر ڈزنی رولٹ (Disney Rowlatt) کے زیر صدارت "Indian Criminal Law Amendment Act" اور "Indian Criminal Law Emergency Power Act" ایک کمیٹی کی سفارشات کے مطابق منظور کیے گئے جس کا مقصد ھندوستانیوں پر تشدد
اور انقلابی کاروائیوں کا سد باب کرنا اور بدامنی کو کچلنا تھا جوپہلی جنگ عظیم کے دوران بنگال، پنجاب اور ھندوستان کے دوسرے علاقوں میں زور پکڑچکی تھیں۔
اس مارشل لاء کی نوبت کیوں ائی؟
کیونکہ
ھندو-مسلم نےایک گلاس میں پانی پی کراورایک پلیٹ میں حلوہ پوری کھاکر یگانگت کافقیدالمثال مظاہرہ
کیاتھا۔
سکھوں کی سان فرانسسکو میں تشکیل پانے والے انقلابی تحریک "غدر" (1916) فرنگیوں کی آنکھ کا کانٹا بن گئی تھی.
"لکھنؤ پیکٹ (1916)" جس میں ھندومسلم اتحاد انگریز راج کے گلے کی ہڈی بن چکا تھا۔
یہ تمام اتحاد، جلسے جلوس، پرزور کارروائیاں، 1917 کا روسی پرولتاریہ انقلاب، افغانستان کا