#Baloch #literary #History
بلوچی ادب کے ادوار
بلوچی ادب ہر کھٹن اور رنگین زندگی کے ہر موڑ اور ہر موسم کا عکاس ھے۔
بلوچی ادب راست بازی، راست گفتاری، غیرت و محبت، حمیت، سخاوت، مہمان نوازی، حقوق، قول و قرار کی پابندی، عزم و استقلال، اخلاصِ عمل کا ترجمان ھے۔
آغاز میں شاعری کےموضوع یا
تو جنگی ھوتے تھےیا بارش اور فطرتی یاپھر عشقیہ۔ بلوچ قدیم ادب میں قصیدہ سرائی نہیں ملتی۔ ڈائریکٹ، سچی اوررواں شاعری ھوتی تھی۔ غزل کاوجود نہ تھا۔
طویل نظمیں ھوتی تھیں جن میں صرف بحرکاخیال رکھاجاتاتھا۔ بلوچی ادب کوچار ادوارمیں تقسیم کیاجاتاھے؛
پہلا دور__یہ دورسولہویں صدی کاshivalrey
دور تھا۔ اس دور کےشعراء رندولاشار کے مابین لڑی جانےوالی تیس سالہ تاریخی جنگ کی مفصل تاریخ پر مبنی شاعری پیش کرتا ھے۔
اس دورکی شاعری کاموضوع انسانوں کابےدریغ قتل، بہادروں کےکارنامے، بزدلوں اورمیدان جنگ کےبھگوڑوں پرلعن طعن، نفرتوں وحشتوں اور رونگٹے کھڑی کردینےوالےواقعات، قحط وبھوک،
زمین کی تڑپ کا عکاس ھے۔
دوسرا دور__بالاچ اور جام ورک اس دور کی شاعری کے درخشاں ستارے ہیں۔ بلوچی کلاسیک عید اس دور کےبغیر نان بےنمک ھے۔ محترمہ سیمک کو بھی اس دور میں شامل کیا جانا چاہئے۔
تیسرا دور__یہ دورطنزومزاح کا دور تھا۔ اس عہدمیں مزاحمتی اور رزمیہ شاعری بھی عروج پرنظر اتی ھے۔
انگریزی تسلط کے اس دورمیں ہمیں ایک طرف مولوی حضوربخش جتوئی بےپناہ ادبی تخلیقات میں محو نظر آتے ہیں تو دوسری طرف کلی مست، رحم علی، محمد خان گشکوری، ملا فاضل، بہرام، میر یوسف عزیز مگسی جیسے نام آفاقی شاعری کے گگن پر محو پرواز دکھائی دیتے ہیں۔
چوتھا دور__یہ سرمایہ داری عہد کا ادب ھے
جو 1917 کے سوویت انقلاب سے لے کر اج تک کے صنعتی، ٹیکنالوجیکل اور پوسٹ ٹیکنالوجیکل انقلابات کو بھگت رہا ھے۔ اسی دور سے نثری ادب نے بھی جڑیں پکڑیں۔ @threadreaderapp pls Unroll. #Balochi #Literature #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کا نام دیا گیا کیونکہ اودھم سنگھ نے اس بدلے کیلئے 20 سال انتظار کیا۔
اودھم سنگھ نے 2000 لوگوں کے قاتل لیفٹیننٹ گورنرآف پنجاب Michael O'Dwyer کو Caxton Hall لندن (برطانیہ) میں قتل کیا۔
تقریباً20سال اودھم سنگھ نےاس قتل کی منصوبہ بندی کی، برطانیہ ہجرت کی، اپناحلیہ بدلا، شناخت چھپائی
سالہا سال وھاں گزارے اور 13 مارچ 1940ء میں یہ "کارنامہ" لندن Caxton Hall مل یں انجام دیا۔
یہ "سانحہ جلیانوالہ باغ" (1919ء) ہی تھا جس نے "سردار شہید بھگت سنگھ سندھو"، "سردار شہید اودھم سنگھ" جیسی انقلابی بغاوتوں سےنئی تاریخ کو بھی جنم دیا۔
آج اس سانحے کےقاتل اور مقتول دونوں کے فعل
#Occulist #France #History
Helena Petrovna Blavatsky
ہیلینا بلاوٹسکی (روس)
Founder of Theosophical Society 1831-1891
پچھلی صدی کی چند حیرت انگیز خواتین میں سے ایک روسی نژاد یوکرینی میڈم ہیلینا جو ہمیشہ سے تاریخ کی متنازع شخصیت رہیں۔
میڈم ہیلینا "Theosophical Society" کی بانی تھیں
اور ماورائے علوم کی گرو تصور کی جاتی تھیں.
میڈم ہیلینا کا دعویٰ تھا کہ انہیں "Master of Wisdom" کی رہنمائی حاصل ھے۔
خود کو جادوگر اور ساحرہ کہنے والی ہیلینا کی زیادہ تر پیش گوئیاں درست ثابت ھوئیں۔
ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والے ہیلینا کی قابل فخرتصنیف "The Secret of Doctrine"
سے ضرور واقف ھوں گے۔
میڈم ہیلینا نے دس برس کی عمر سے اپنے ماورائی آقاؤں سے باتیں شروع کر دیں تھیں اور وہ ہر وقت اسکے اردگرد موجود ھوتے۔
ہیلینا پیٹرونیوون ہان کی17برس کی عمرمیں بلاوٹسکی سے شادی ھوئی۔
ہیلینا کا ہنی مون بھی پراسرار اور خوفناک تھا۔ ہیلینا کےعلم کاناقابل یقین واقعی جب
#Lakkundi #StepWellArt #Architecture
Lakkundi Temples (Karnataka)___1100 CE
لکنڈی مندر (ریاست کرناٹک)
ریاست کرناٹک (بھارت)میں 20زیرزمیں مندروں، 80 کتبات (Inscriptions) اور قدیم کنووءں کی بھولی ھوئی سرزمین جنہیں شہرکےجنرلز نے اپنی بیوائوں کےنام سے بنایاتھا۔
لکنڈی کلیانہ کی چالوکیہ
سلطنت (Chalukiya Dynasty) کا ایک اہم شہر تھا۔ اس وقت یہ قصبہ 'لوکی گنڈی' کے نام سے جانا جاتا تھا. اس سے قبل یہ جگہ اگرہارا کے نام سے مشہور تھی یعنی "اعلیٰ تعلیم کی جگہ".
زیر زمین آرٹ کاحیران کردینے والا ایسا شاہکار جہاں پیچیدہ دروازے، کھڑکیوں پر دیدہ زیب جالی، ہموار خمیدہ دیواریں
مقبرے کی دیواروں پر آرائشی مجسمے سب ہاتھ سے بنائے گئے ہیں۔ گویا لکنڈی چالوکیوں کی سجاوٹ اور تعمیراتی پہلوؤں کا منہ بولتا ثبوت ھے۔
ہر دیوار پر موجود تفصیلات یقینی طور پر آپ کو حیران کر دیتی ہیں۔ تقریباً ہر دیوار پر ایسے مجسمے ہیں جن میں رقاصوں، موسیقاروں، کروبیوں، جانوروں وغیرہ کی
#ancient #Egyptology #Mummification
5000 سال قبل مسیح #مصر میں اپنے مردوں کو حنوط کرنے (Mummification) کاصرف رواج ہی نہیں تھابلکہ یہ لافانی مذہبی عقیدہ(Immortal Cult) اورباقاعدہ ایک منظم کاروبارتھا جس سےمنسلک ھونامقدس ترین خدمت تصورکی جاتی تھی۔
یہ کاروبار
"حنوط کاری کا کاروبار" (Business of Ambalment) کہلاتا تھا۔
امیروں کے مردے حنوط کرنےکے الگ طریقے اور چارجز تھے اور غریبوں کے الگ۔
اس حنوط کاری کا بنیادی مقصد مردے کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک دوام بخشا ھوتا تھا۔
یہ حنوط کاری ایک جھٹ پٹ کی بجائے مکمل تخلیقی اور جسمانی عمل تھاجسے مخصوص
مخصوص، تجربہ کار اور ماہر لوگ ہی ادا کرتے تھے۔
مصریوں کی دیکھا دیکھی ہی یہ رواج دیگر
قدیم ممالک میں بھی فروغ پانے لگا جس کا ثبوت مختلف ممالک سے ملنے والی حنوط شدہ لاشیں (Mummies) ہیں۔
یہ طریقہ 30 ق م سے 374 عیسوی تک روم میں رائج العمل تھا اور تقریباً 2000 سال تک اپنےمکمل عروج پر
#Temple #Archaeology #India
پالیتنہ مندر (گجرات، بھارت)___1120 CE
سطح سمندر سے
2000 فٹ کی بلندی پر واقع دنیا کا واحد پہاڑ جس پر 900 سے زائد مندر تعمیر کیے گئے۔
کیایہ حیران کن انسانی انجینئرنگ اور "Rock-Cut Art" نہیں؟
سیاحوں کے لیے گجرات کے بھاؤنگر ضلع میں واقع پالیتنہ حیرتوں کا
شہر ھے جہاں پہاڑی کی چوٹی پر بنے یہ ہزاروں مندروں کے حیرت انگیز نظارے ہمیں زمانہ قدیم میں واپس لے جاتے ہیں۔
پالیتنہ شویتمبرا (Shwethambara) کے لئے ایک زیارت گاہ ھے جو جین مت کی دو شاخوں میں سے ایک ھے، دوسری دگمبرا (Digambara) ھے۔
اس پہاڑی کا نام بھی مہاتما شترنجایا کے نام سے
منسوب ھے۔ یہ پہاڑ اسی وقت مقدس بن گیا تھا جب مہاتما کے سب سے پہلے عقیدت مند رشبھ (Rishabha) نے اس پر مقدس خطبہ دیا۔
پالیتنہ کی شترنجایا پہاڑیوں پر 1300 سے زیادہ سنگ مرمر کے یہ مندر جو زیادہ تر عقیدت مندوں کے عطیہ کردہ سونے اور چاندی سے مزین ہیں۔
#ancient #Punjab
Shri Katas Raj (Jehlum,Pakistan)
شری کٹاس راج مندر___7th CE
پنجاب (پاکستان) میں جہلم (Salt Range) کے مقام پر واقع شری کٹاس راج دراصل ایک "ست گڑھ کمپلیکس" ھے۔
سنسکرت لفظ "کٹاس" (Kataksha) کا مطلب ہی "آنسوؤں کی بہار" (Spring of Tearful Eyes) ھے۔
یہ کمپلیکس پنجاب کی
1500 سال قبل کی عظیم الشان تاریخ کی گواہی دیتا ھے۔
کمپلیکس کے متعدد مندر ایک دوسرے سے ملحقہ ہیں۔ ہماچل پردیش (بھارت) میں جوالہ مکھی (Jwalamukhi, Himachal Pradesh) کے مندر کے بعد تاریخی پنجاب کےخطہ پوٹھوارمیں واقع کٹاس مندر ہندوؤں کا دوسرا معتبر اور مقدس مقام ھے۔
اس کمپلیکس کا نام
اسکے اردگرد دو کنال پر واقع "کٹاس" نامی حوض سے منسوب ھے جس کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ یہ تالاب مہاراجہ کی بیوہ "دیوی شیوا" (Deity Shiva) کے ستی ھونے کے بعد وجود میں آیا۔
کمپلیکس کے مندر چوکور ہیں جو "Cornices" طرزتعمیر پر مشتمل ہیں۔
اسٹوپا اور ساتوں مندر کشمیری مندروں کی طرح