.... Elon Musk's solar business and straddled with "production hell" for the #Model X, things looked dicey. Till the book ings for the Model 3 kicked in. With nearly half a million bookings at $1,000 apiece, #Tesla's books saw an influx of $500 million (1/8)
and it has never had to look back since.
The opening of bookings is a crucial milestone in the launch of a new #car .... bookings have formed the cornerstone of the success of many #auto companies here, including the biggest of them all. It all started with #Maruti 800, (2/8)
which got over a lakh bookings when it was first launched, raising over half the investment needed to set up the plant to make the car. And then it got about one and a half lakh bookings when it underwent a generation change from the SS80 to the SB308.
That bookings (3/8)
record was obliterated with the nearly 3 lakh bookings for the #Fiat Uno. The joint venture between PAL and Fiat failed despite raising over Rs 500 crore from the bookings for its first car launch. Then came the #Tata Nano which also garnered over 2 lakh bookings, but (4/8)
could not translate the great interest into success.
1.15 lakh bookings for one of the big gest successes in the Indian automotive industry, the #Creta.
Now there is the #Mahindra Scorpio N that has garnered over a lakh bookings within the first 30 minutes of the window (5/8)
opening over 25,000 cars were booked within the first minute! Buyers were no doubt spurred by the long waiting period of nearly two years for the XUV 700 and one year for the #Thar. Also motivating them would have been the fact that introductory prices were offered to only (6/8)
the first 25,000 bookings.
Introductory prices have helped in getting record numbers of bookings. A fantastic introductory price of Rs 4.99 lakh from #Nissan saw the Magnite rake up the numbers, with the car attracting over 30,000 bookings within a month. The figure rose, (7/8)
crossing 70,000 in two months. Impressive for a company that was struggling to survive in the country.
میں نے رائیونڈ کے چار اجتماعات میں شرکت کی ہے، 2004 سے 2008 تک، اس زمانے میں پورے پاکستان کا ایک ہی اجتماع ہوتا تھا دو دو صوبے الگ نہیں ہوئے تھے. چار سال کے دوران میں نے کیا دیکھا، آپ بھی دیکھیے.
تبلیغی جماعت لوگوں کو اسلام کی طرف بلا تو رہی ہے لیکن خود تبلیغی جماعت (1/11)
کے پاس بھی اسلام نہیں ہے.
اجتماع کے تیسرے روز آپ کو ہر طرف افراتفری اور لوٹ کھسوٹ نظر آئے گی، پنڈال نسوار اور پان کی پیک سے بھرا ہو گا، آس پاس کے کھیتوں کو اگلے چھے مہینے کی کھاد مل چکی ہو گی، ہر طرف بدبو اور تعفن دھول اور مٹی، ایسے میں ہر کوئی گاڑی میں پہلے سوار ہو کر (2/11)
زیادہ سے زیادہ جگہ گھیرنا چاہتا ہے، لائن بنانے کا اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا تصور ہی نہیں ہے، بس کی گنجائش سے زیادہ لوگ چھت پر چڑھ جاتے ہیں.
موٹر وے پاکستان کی بہترین سڑک ہے لیکن اس روز موٹروے پولیس بھی کچھ نہیں کر سکتی، یہ اوور لوڈ بسیں موٹروے کا ٹریفک نظام درہم (3/11)
تبلیغی مذہبی قیادت ان میں سے کسی مسئلے پر زیادہ تفصیل سے اظہار خیال نہیں کرتی ۔ تبلیغی اجتماعات میں مسائل کا ذکر ایک اجمالی انداز سے اس طرح آتا ہے (1/20)
کہ معاشرہ کی حالت اچھی نہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ ہمارے عوام کی تکلیفیں دور کرے اور مسلمانوں کو دنیا میں سرفراز فرمائے ۔
تاہم عملی طور پر صرف ایک مسئلے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے لئے جیش اور لشکر تشکیل دیئے جاتے ہیں: یعنی تبلیغ دین اور دینی عقائد کی اصلاح ۔ (2/20)
اس کام کے لئے ملک بھر میں اور ساری دنیا میں سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ان جماعتوں کے مخلص پیروکار سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سے چھٹیاں لے کر، اپنے کام کاج ، خاندانی مسائل سے بے نیاز ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لانے کے لئے نکلتے ہیں۔
علماء نے اسلامی ریاست کو جمہوری شکل دینے کے لئے اس بات کی کوشش کی کہ جدید اصطلاحات کا استعمال کیا جائے، مثلاً پارلیمینٹ یا اسمبلی کو شوری کہا گیا، امیر آج کل کا صدر بن گیا ارباب حل و عقد مشیر ہو گئے اور اجماع کو عوامی رائے کا نام دے دیا گیا یہ سب اس لئے کیا گیا تا کہ (1/15)
یہ ثابت کیا جائے کہ ان کی نظروں میں جو اسلامی ریاست کا خاکہ ہے اس کا جدید سیاسی روایات سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ آج کل کی جدید قومی ریاست میں ایک قوم کی تشکیل زبان تاریخ اور جغرافیائی حدود میں رہنے پر ہوتی ہے، اور اس میں ہر شہری کو برابر کے حقوق ملتے ہیں، اور یہ اس کا حق (2/15)
ہوتا ہے کہ وہ ریاست اور معاشرہ کے امور میں مکمل طور پر حصہ لے۔ اس کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں برتا جاتا۔ اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے جسٹس منیر نے علماء سے اس سوال کو پوچھا کہ وہ اسلامی ریاست میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اور ان کا سیاسی و (3/15)
آج 22 اکتوبر ہے، جب قبائلیوں کو استعمال کر کے کشمیر پر یلغار کے ذریعے کشمیر کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔۔
میرا دادا بھی اس جیہاد نامی یلغار کا حصہ تھا بلکہ پانچ سو نوجوانوں کی سربراہی کر رہا تھا جو وہ پاکستان و افغانستان کے قبائل سے اکٹھے کر کے ساتھ لایا تھا۔۔
دادا (1/12)
جی کو کشمیر سے لوٹ مار کے علاوہ پاکستانی فوج کی طرف سے بھی مراعات ملی تھیں جن میں سیالکوٹ میں کچھ سو کنال زمین اور پاکستانی ڈومیسائل یعنی پاکستانی شہریت شامل تھے۔۔
جب کشمیر کے جیہاد کا اعلان ہوا تو میرا دادا اس وقت ضلع اٹک کے حسن ابدال شہر میں موجود تھا اور علماء، فوج (2/12)
اور حکومت کی طرف سے اعلانات اور پروپیگنڈہ سن کر پاکستانی اور افغان قبائل کی جانب نکل کھڑا ہوا، وہاں سے نوجوان اکٹھے کر کے پنڈی گیا اور وہاں سے پاکستانی فوج سے اسلحہ، بندوقیں وغیرہ، وصول کیں اور کشمیر کو نکل پڑے۔۔
دادا جی بتاتے تھے کہ ان کا جتھا اگلی صفوں میں تھا اور وہ (3/12)
ہم نے دولے شاہ کے چوہوں کی جو نسل تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور جس طرح بنیاد پرستی کی پنیری ہر سطح پر لگائی، اب اُس کی خالص ترین پیداواروں اور ثمرات سے سامنا ہے۔ آج سے بیس سال پہلے تک پھر بھی کچھ توازن تھا، اب تو سارا عمرانی
1/6
ڈھانچہ ہی عمرانی بن گیا ہے۔
ایک mob سائیکالوجی بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے کہ جو ہم سے مختلف ہے وہ غلط ہے، اور اُسے ہر طرح کی سزا دینا ہمارا فرض ہے۔ چونکہ ساری دنیا ہم سے مختلف ہے، لہٰذا اُسے ’’راہِ راست‘‘ پر لانا
2/6
ہمارا کام ہے۔ ہمیں غصہ آتا ہے کہ ہم جیسے نیک اور پاک اور سچے لوگ پیدا ہو چکے ہیں اور لوگوں کو اُس کی خبر تک نہیں! زیادہ تر لوگ اپنے اپنے آئین اور قانون لیے بیٹھے ہیں، جس پر وہ بات کرنے کو صرف تبھی تیار ہوتے ہیں جب اُنھیں درست مان لیا گیا ہے۔
اگر کوئی اختلافی یا تھوڑا بدلا
3/6
لیاقت بلوچ کے نام خط بیٹے کی کینیڈا سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد
بلوچ صاحب سلام
گذشتہ روز آپ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کے بارے میں خوشی کے مارے تین ٹویٹ کئے۔ آپ کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادی احمد جبران بلوچ صاحب نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔
1/12
ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ مبارک ہو۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھی بہت مبارک ہو۔ مغرب کی ایک اچھی جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنا ایک اعزاز کی بات ہے گو یہ اعزاز پاکستان کے صرف مراعات یافتہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کے لوگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے)۔
آپ کے بیٹے بارے
2/12
معلوم ہوا تو قاضی حسین احمد بھی یاد آئے۔ ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے عین اس وقت ڈگری لی جب جہاد کشمیر عروج پر تھا۔ لاہور میں جگہ جگہ جماعت اسلامی کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں نوجوانوں کو سری نگر شہادت کے لئے روانہ کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔