The opening of a new big- name #Bollywood film was once a national event across #India , greeted by weeks of fanfare, long queues outside cinemas and halls packed to the rafters with audiences cheering and singing along.
But this year, with 77% of releases flopping at (1/16)
the box office, #cinema halls have been left earily quiet and Bollywood’s once unshakeable domination of the Indian film industry has begun to look uncertain.
“This year has been extremely poor for the Hindi film industry as far as the box office is concerned,” ..... – (2/16)
a disaster for an industry that relies on at least 10 big box office smashes a year for survival.
The blame for Bollywood’s recent failures has been attributed partly to Covid, ...As India’s usually committed cinema-going crowds were confined to their homes, there was (3/16)
a rise in the popularity of platforms such as #Netflix , #Amazon Prime and #Hotstar , which are used by a quarter of India’s 1.4 billion people.
It resulted in a diversif i cation of tastes. Bollywood has long enjoyed the privilege of being India’s “national cinema”, (4/16)
due in part to the prevalence of Hindi speakers and the political weight commanded by Hindi- speaking states. India’s other fi lm industries were relegated to being “regional”, with a reputation for lacking the spectacle and star presence of Bollywood films. But as (5/16)
growing audiences began to avidly consume #Tamil (Kollywood), #Telugu (Tollywood), #Malayalam , #Kannada (Sandalwood) and #Marathi - language films in their homes , “this made them aware of the staleness pervading Hindi fi lms, ” said Anna M M Vetticad , a film (6/16)
journalist and author. Meanwhile, she added , “blinkered by their privilege, Hindi fi lm-makers failed to notice that their traditional audience had gradu-ally begun evolving”.
As a result, this year dozens of multimillion-dollar Bollywood films found themselves facing (7/16)
criticism for formulaic storylines and were shunned by audiences.
“Films are not working – it’s our fault, it’s my fault,” Bollywood actor Akshay Kumar said after yet another of his films fell flat at the box office.
Instead, the biggest hits have been films made by (8/16)
so-called regional cinema, mainly from south India. RRR, a Telugu epic film about two revolutionaries fighting the British Raj, broke the record for the highest opening-day earnings for any Indian fi lm and is the third highest grossing Indian fi lm of all time, taking (9/16)
about $160m worldwide.
Overall, for the first six months of the year, fi lms from south India took in 50% of the share of box office profits .
There have been some exceptions , such as The Kashmir Files, a Hindi- language film that centres on a fictional retelling of (10/16)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
تبلیغی مذہبی قیادت ان میں سے کسی مسئلے پر زیادہ تفصیل سے اظہار خیال نہیں کرتی ۔ تبلیغی اجتماعات میں مسائل کا ذکر ایک اجمالی انداز سے اس طرح آتا ہے (1/20)
کہ معاشرہ کی حالت اچھی نہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ ہمارے عوام کی تکلیفیں دور کرے اور مسلمانوں کو دنیا میں سرفراز فرمائے ۔
تاہم عملی طور پر صرف ایک مسئلے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے لئے جیش اور لشکر تشکیل دیئے جاتے ہیں: یعنی تبلیغ دین اور دینی عقائد کی اصلاح ۔ (2/20)
اس کام کے لئے ملک بھر میں اور ساری دنیا میں سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ان جماعتوں کے مخلص پیروکار سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سے چھٹیاں لے کر، اپنے کام کاج ، خاندانی مسائل سے بے نیاز ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لانے کے لئے نکلتے ہیں۔
علماء نے اسلامی ریاست کو جمہوری شکل دینے کے لئے اس بات کی کوشش کی کہ جدید اصطلاحات کا استعمال کیا جائے، مثلاً پارلیمینٹ یا اسمبلی کو شوری کہا گیا، امیر آج کل کا صدر بن گیا ارباب حل و عقد مشیر ہو گئے اور اجماع کو عوامی رائے کا نام دے دیا گیا یہ سب اس لئے کیا گیا تا کہ (1/15)
یہ ثابت کیا جائے کہ ان کی نظروں میں جو اسلامی ریاست کا خاکہ ہے اس کا جدید سیاسی روایات سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ آج کل کی جدید قومی ریاست میں ایک قوم کی تشکیل زبان تاریخ اور جغرافیائی حدود میں رہنے پر ہوتی ہے، اور اس میں ہر شہری کو برابر کے حقوق ملتے ہیں، اور یہ اس کا حق (2/15)
ہوتا ہے کہ وہ ریاست اور معاشرہ کے امور میں مکمل طور پر حصہ لے۔ اس کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں برتا جاتا۔ اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے جسٹس منیر نے علماء سے اس سوال کو پوچھا کہ وہ اسلامی ریاست میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اور ان کا سیاسی و (3/15)
آج 22 اکتوبر ہے، جب قبائلیوں کو استعمال کر کے کشمیر پر یلغار کے ذریعے کشمیر کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔۔
میرا دادا بھی اس جیہاد نامی یلغار کا حصہ تھا بلکہ پانچ سو نوجوانوں کی سربراہی کر رہا تھا جو وہ پاکستان و افغانستان کے قبائل سے اکٹھے کر کے ساتھ لایا تھا۔۔
دادا (1/12)
جی کو کشمیر سے لوٹ مار کے علاوہ پاکستانی فوج کی طرف سے بھی مراعات ملی تھیں جن میں سیالکوٹ میں کچھ سو کنال زمین اور پاکستانی ڈومیسائل یعنی پاکستانی شہریت شامل تھے۔۔
جب کشمیر کے جیہاد کا اعلان ہوا تو میرا دادا اس وقت ضلع اٹک کے حسن ابدال شہر میں موجود تھا اور علماء، فوج (2/12)
اور حکومت کی طرف سے اعلانات اور پروپیگنڈہ سن کر پاکستانی اور افغان قبائل کی جانب نکل کھڑا ہوا، وہاں سے نوجوان اکٹھے کر کے پنڈی گیا اور وہاں سے پاکستانی فوج سے اسلحہ، بندوقیں وغیرہ، وصول کیں اور کشمیر کو نکل پڑے۔۔
دادا جی بتاتے تھے کہ ان کا جتھا اگلی صفوں میں تھا اور وہ (3/12)
ہم نے دولے شاہ کے چوہوں کی جو نسل تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور جس طرح بنیاد پرستی کی پنیری ہر سطح پر لگائی، اب اُس کی خالص ترین پیداواروں اور ثمرات سے سامنا ہے۔ آج سے بیس سال پہلے تک پھر بھی کچھ توازن تھا، اب تو سارا عمرانی
1/6
ڈھانچہ ہی عمرانی بن گیا ہے۔
ایک mob سائیکالوجی بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے کہ جو ہم سے مختلف ہے وہ غلط ہے، اور اُسے ہر طرح کی سزا دینا ہمارا فرض ہے۔ چونکہ ساری دنیا ہم سے مختلف ہے، لہٰذا اُسے ’’راہِ راست‘‘ پر لانا
2/6
ہمارا کام ہے۔ ہمیں غصہ آتا ہے کہ ہم جیسے نیک اور پاک اور سچے لوگ پیدا ہو چکے ہیں اور لوگوں کو اُس کی خبر تک نہیں! زیادہ تر لوگ اپنے اپنے آئین اور قانون لیے بیٹھے ہیں، جس پر وہ بات کرنے کو صرف تبھی تیار ہوتے ہیں جب اُنھیں درست مان لیا گیا ہے۔
اگر کوئی اختلافی یا تھوڑا بدلا
3/6
لیاقت بلوچ کے نام خط بیٹے کی کینیڈا سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد
بلوچ صاحب سلام
گذشتہ روز آپ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کے بارے میں خوشی کے مارے تین ٹویٹ کئے۔ آپ کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادی احمد جبران بلوچ صاحب نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔
1/12
ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ مبارک ہو۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھی بہت مبارک ہو۔ مغرب کی ایک اچھی جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنا ایک اعزاز کی بات ہے گو یہ اعزاز پاکستان کے صرف مراعات یافتہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کے لوگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے)۔
آپ کے بیٹے بارے
2/12
معلوم ہوا تو قاضی حسین احمد بھی یاد آئے۔ ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے عین اس وقت ڈگری لی جب جہاد کشمیر عروج پر تھا۔ لاہور میں جگہ جگہ جماعت اسلامی کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں نوجوانوں کو سری نگر شہادت کے لئے روانہ کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔
انگریز خواتین کی اکثریت ہمارے لوگوں کے ساتھ وفا دار رہیں۔
جب یہ لوگ اس ملک میں آباد ہوئے تو گوریوں نے ان کی ہر طرح سے رہنمائی کی۔
جب لوگوں کے بیوی بچوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ان عورتوں نے خود اسپانسر شپ فارم تیار کر کے اپنی سوکنوں کو پاکستان سے ولایت بلوایا۔ 1/4
لیکن جونہی ہماری عورتیں اپنے خاوندوں کے پاس پہنچیں ان کے اندر کے سوکن پن نے آنکھ کھولی اور انہوں نے ان انگریز عورتوں کو گھر سے نکالنے کے مطالبے شرع کر دیئے۔
چنانچہ جن انگریز خواتین نے لوگوں کو ایک نئے ملک میں آباد ہونے میں بھرپور مدد کی، اپنی جوانی ان کے ساتھ بسر
2/4
کی، آخری عمر میں انہیں زبردستی گھروں سے نکال دیا گیا۔
ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ " میں گوری کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ بہت اچھی اور ہمدرد تھی، اس نے اس وقت میری مدد کی جب کوئی اور میری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن اپنی پاکستانی بیوی اور رشتے داروں کے دباؤ میں آکر میں
3/4