#Indology #Archaeology #architecture
Rock-Cut
قلعہ گوالیار (مدھیہ پردیش، بھارت)
Gwalior Fort (MadhiyaPardesh)__3 AD
پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک ناقابلِ تسخیرقلعہ جوتیسری صدی میں مقامی بادشاہ سورج سین (Suraj Sen) کاتعمیرکردہ ھے، چٹانی طرزتعمیر کاشاندارماڈل ھے۔
قلعہ گوالیار اوراس میں
واقع اندرونی تالاب, جسے "سورج کنڈ" کہا جاتا ھے، مقدس و بابرکت خیال کیا جاتا ھے۔
سورج سین کے 83 جانشینوں نے قلعے کو کنٹرول کیا۔ لیکن 84 ویں بادشاہ تیج کرن نے یہ قلعہ کھو دیا.
قلعے کے اندر یادگاروں اور نوشتہ جات بھی موجود ہیں۔ ایک شہنشاہ جس کا نام میہیرکولا (Mihirakula) تھا اس وقت
کے دوران قلعے پر حکمرانی کی۔ بعد میں نویں صدی میں ، گورجارا پرتیہارس (Gorjara Pratiharas) نےقلعے پر قبضہ کیا اور ٹیلی کا مندر (Teli ka Mandir) بھی تعمیر کیا۔
1398 تک، تین صدیوں تک ایک دومسلمان خاندانوں نے بھی اس قلعے پرحکمرانی کی۔ مان سنگھ آخری اورسب سےممتازحکمران تھا۔ اس نے فورٹ
کمپلیکس کے اندر متعدد یادگاریں تعمیر کیں۔ خوبصورت فیروزی نیلے رنگ کے ٹائلڈ
جسے مندر سرس کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اور اس کے پاس اپنی اہلیہ میرگانی (Mrignayani) کے لئے ایک الگ محل بھی بنایا گیا جسے اب گجاری محل کہا جاتا ھے۔ آج کل یہ ایک ریاستی آثارقدیمہ میوزیم ھے۔
جب 1516 میں
ابراہیم لودی نے قلعے پر حملہ کیا تو اس نے مرنے والے مان سنگھ کو شکست دی۔
قلعہ کے احاطے میں کئی مندر، محلات اور پانی کے ٹینک شامل ہیں۔ یہاں کے محلات میں مان مندر محل، گجری محل، جہانگیر محل، شاہ جہاں محل اور کرن محل شامل ہیں۔ یہ قلعہ3مربع کلومیٹر (1.1 مربع میل) کےرقبے پرواقع ھے اور
اس کے دو داخلی دروازے ہیں: مرکزی دروازہ ہاتھی گیٹ (ہاتھی پل) شمال مشرق کی طرف ایک لمبا ریمپ کے ساتھ ھے اور دوسرا بدل گڑھ گیٹ کہلاتا ھے۔
ایک اور مقدس جگہ ہے جو قلعے کے احاطے کے اندر تعمیر کی گئی تھی، اور یہ وہ جگہ تھی جہاں سکھ گرو ہرگوبند صاحب کو مغل بادشاہ جہانگیر نے
اسیر کے طور پر رکھا تھا۔
قلعہ گوالیار آج بھی بہت بہتر حالت میں موجود ھے اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ھے۔ اگر قلعے کو سورج سین کا کمال کہا جائے تو یہ غلط نہ ھو گا۔
#HistoryBuff
#Abandoned
#Islands
گن کنجیماجزیرہ (جاپان)
Gunkanjima Island (#Japan)
جزیرہ بھی، کوئلے کاذخیرہ بھی اور بحری جنگی میدان (Battleship Ground) بھی
ناگاساکی بندرگاہ سے تقریبا 20کلومیٹر کے فاصلے پر 3.6 ہیکٹر پر پھیلا 480 میٹر لمبا اور 150میٹرچوڑاجزیرہ گن کنجیمادراصل 1974تک
ایک کوئلے کی کان کے طور پر کام کرتاتھا جس پر 5000 باشندوں کے رھنے کی گنجاش تھی۔
اتنی چھوٹی سی جگہ پر اتنے افرادکی رہائش؟؟
دراصل جزیرے کو اتنےچھوٹےسے علاقےمیں اتنے زیادہ لوگوں کے رہنے کے لیے زمین کے ہر ٹکڑے کو اس طرح بنایا گیا کہ یہ جزیرہ ایک بڑے جنگی جہاز سےمشابہت اختیار کرنےلگا۔
درحقیقت، "گن کنجیما" ایک عرفی نام ھے جس کا مطلب جاپانی زبان میں "بیٹل شپ آئی لینڈ" ھے۔ اس جزیرے کا باقاعدہ نام ہاشمہ ھے۔
جزیعے پر کوئلہ سب سے پہلے 1810 میں ساگا کے جاگیردار نے دریافت کیا تھا۔
صنعتی کان کنی 1800 کی دہائی کے آخر میں شروع ھوئی، اور اسکے فورا بعد، اس جزیرے کو مٹسوبشی
#IRAN
#archaeology
اردشیر خورے (فیروزآباد، ایران)
Khurrah of Ardashir (Firuzabad, Iran)
224-240 ء
کھرہ یعنی قصر
قصراردشیرجسے "عطش کدہ" اور "Fire Temple" بھی کہاجاتاھے، ایک پہاڑکی ڈھلوان پر واقع، ساسانی سلطنت کےبانی شہنشاہ اردشیر کا محل ھےجو ایران کےجدیدشہر فیروزآباد (قدیم شہرغور)
میں دریائے تنگب کے مغربی کنارے (Western Bank of Tangab River) پر ایک دلکش تالاب کے ساتھ بنایا گیا تھا۔
اردشیرخورے سےاسکا نام تبدیل کرکے "پیروز" رکھ دیا گیا تھا۔ وہی پیروز جسےعربوں نے فتح کے بعد فیروز کہنا شروع کیا۔
گویا اس شہر نےبھی محل کی طرح اپنےکئی نام بدلے۔ زمانہ قدیم کےغورسے
پیروزشاہ، پھر فیروز اور آج کا فیروزآباد۔
پورا کمپلیکس سو میٹر سے زیادہ لمبا اور پچپن میٹر چوڑا تھا۔ یہ محل ایران کے قدیم ترین طرزتعمیر میں شمار کیا جاتا ھے۔
محل جو آج ڈھانچے پر مشتمل ھے، کبھی کئی حصوں پر مشتمل تھا جو ایک تالاب کے ساتھ باغ میں کھلتا تھا جس میں تین گنبد تھے جن کا
#Indology
#Fort
#architecture
جےگڑھ قلعہ (جےپور، راجھستان)
Jaigarh Fort (Jaipur, Rajhastan)
ھندوستان میں قلعوں کامرکزجانےوالاخطہ "راجھستان" لیکن تاریخ کامیدان جنگ بھی۔
جب ایک خطہ جنگ وجدل اورخون ریزی کی طویل تاریخ رکھتاھو وھاں شاندارقلعوں، محلوں اورحویلیوں کا بچ جاناایک کمال ھے۔
ایسا ہی ایک کمال جےپور قلعہ ھےجو ماضی اور حال دونوں کی اذیتوں کی گواہی دیتا ھے۔ اگر اس کے عروج کے زمانےمیں اس کا بھرپور استحصال کیا گیا لیکن آج ایک بار جب اس قلعے میں آ جاتے ہیں تو یہ 21ویں صدی میں بھی مکمل محسوس ھوتاھے۔
پندرھویں صدی میں تعمیر کیےگئے اس قلعے کو "Victory Fort" کے
نام سے بھی جانا جاتا ھے۔
کبھی یہ قلعہ مرکزھوا کرتاتھا، جہاں شاہی خزانہ رکھاجاتاتھا۔ پھر یہ دفاعی نظام کےطور پر کام کرتا رھا۔ اسے 1726 عیسوی میں ساون جئے سنگھ دوم نے تعمیرکیا تھا اور سطح سمندر سے کئی سو فٹ پر بیٹھا ھے۔ تقریباً برقرار قلعہ بڑی بڑی ریت کی دیواروں سے گھراھوا ھے جو 3
#HistoryMatters
#ZionistTerorism
#palestinenakba76
ناکبہ کیا ھے؟
What is Nakba?
کوئی لبرل، گدھ،اسلام دشمن،تنظیم انسانی حقوق، یااسرائیل کاحامی آپ کوکبھی یہ نہیں بتائےگاکہ "ناکبہ" کیاھے؟ نہ ہی "ناکبہ" کی کھل کرحمایت کرےگا۔
عربی الماخذاس لفظ کےاردومعانی ہیں"تباہی" یعنی"Catastrophy"۔
ناکبہ دراصل 1948 میں "اسرائیلی ریاست" کا راستہ ہموار کرنے کیلئے صیہونی فوجی دہشت گردوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ان کی سرزمین سے مٹائے جانے کی مہم کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
دراصل اسرائیلی ریاست کےقیام کا منصوبہ بہت پہلے 1945میں برطانیہ کی یہودیوں کی پشت پناہی کے نتیجے میں وجودمیں آ
چکا تھا۔
برطانیہ اور امریکہ نے ملی بھگت سے55 فصد فلسطینی علاقہ اسرائیل کو اورباقی کا اصل فلسطینیوں کودینے کامنصوبہ بنایا۔
اس منصوبے کو عملہ جامہ پہنانے کیلئے14 مئی 1948 کو "اسرائیلی ریاست" تخلیق کی گئی اوراسرائیلی فورسز نےزبردستی 80% فلسطینیوں کو انکی سرزمین سےبےدخل کرناشروع کیا۔
#Indology
#architecture
#Maharashter
بی بی کا مقبرہ (اورنگ آباد، ریاست مہاراشٹر)
Bibi Ka Maqbara (Aurangabad, Maharashter)
سنگ مرمر سے تراشہ ھوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
تاج محل کی ہوبہو نقل__وہی سنگ مرمری حسن و دلکشی اورجاذبیت
اورنگ آبادمیں (1651-1661) دس سال کے
طویل عرصے میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کےبیٹے شہزادہ اعظم شاہ کی اپنی والدہ دلراس بانو بیگم سے وابستگی کی نشانی کے طور پر تعمیر کردہ "بی بی کا مقبرہ" سے زیادہ حسین یادگار اور کیا ھو سکتی ھے!
یہ مقبرہ آخری یادگاری مقبرہ ھے جو صرف ایک شاہکار ہی نہیں تحقیق کا موضوع بھی ھے۔ اس کا
بارہا موازنہ تاج محل سے کیا جاتا ھے۔ اورنگزیب کی والدہ ممتاز محل کای آخری آرام گاہ یہ مقبرہ "تاج آف دکن" یا "منی تاج محل" کہلاتا ھے۔
تاج محل ھو یابی بی کا مقبرہ دونوں مقبرے اپنے اپنے ادوار کے حکمرانوں کی پسندیدہ بیویوں کیلئے بنائے گئے تھے۔
تعمیر کےمرکزی دروازے کے اوپر موجود نوشتہ
#Pakistan
#Punjab
#Tourism
مری (پنجاب، پاکستان)
ملکہ کوہسار (Queen of Hills)
مری اسلام آباد-کوہالہ ہائی وےN75 کےساتھ، اسلام آبادسےتقریباً30کلومیٹرشمال مشرق میں واقع اصل میں افغان سرحدپر تعینات برطانوی فوجیوں کیلئےایک سینیٹوریم کےطور پرقائم کیاگیاتھا۔
مری کانام 'مڑھی'، "اونچی جگہ"
سےماخوذ ھے. مری کےبارےمیں ایک مشہور روایت یہ بھی ھےکہ اسکانام کنواری مریم کےنام پر رکھاگیا۔
مری ہل سٹیشن میجرجیمزایبٹ(Major Jnes Abbot) نے1847میں دریافت کیا۔اسکی خوبصورتی اوراھمیت جان کر اسکادیوانہ ھونےکےبعد 1850میں پنجاب کےایڈمنسٹریٹر سرہنری لارنس(Sir Henery Montgomery Lawrence)
نے اس کی بنیاد رکھی اور اسی کے دور میں یہاں ترقیاتی کام شروع ھوا۔
جدید مری کی تاریخ تقریبا ساڑھےچار سوسال پر مشتمل ھے۔
انگریز جب 1849 میں ان پہاڑوں کی خوبصورتی کے دیوانے ھوئے اور اسے اپنے قبضے میں کرنے لے خواب دیکھنے لگے لیکن ان کیلئے یہ ایک آسان حدف نا تھا کیونکہ انہیں یہاں شدید