#Archaeology #Mesopotamia #Turkiye
دارا مقبرے (قصبہ دارا، صوبہ ماردین)
Dara Necropolis (Village Dara, Province Mardin)__5th AD
قدیم میسوپوٹیمیا (قدیم عراق) کےمگر موجودہ ترکیہ کےحیران کن، ناقابل یقین، ناقابل فراموش مقبرہ جات
ماردین زمانہ قدیم میں میسوپوٹیمیا کےاہم تجارتی مراکز میں
میں سے ایک جو رومن دور کے زائرین کے لیے مواقع فراہم کرتا تھا۔
یہاں رومن دور میں مذہبی تقریبات منعقد ھوتی تھیں اور سینکڑوں لوگوں کو ایک ساتھ دفن کیا جاتا تھا۔
اب صوبہ ماردین کے قدیم قصبے دارا میں ایک بڑا مدفن گاہ تھا جسے مشرقی رومیوں نے تعمیر کیاجو 591ءمیں جلاوطنی سے واپس آئے تھے۔
پیگن اور میتھریک ثقافتوں (Pagan and Matherco Cutured) میں یہ خیال کیا جاتا ھے کہ دیوتا مترا (Mithra god) چٹان سے پیدا ھوا تھا۔
اسی وجہ سےمرنے والوں کودوبارہ جنم لینےکےعقیدے کیساتھ پتھروں میں دفن کیاجاتا ھے۔
عمارت کےدروازے پر مُردوں کوزندہ کرنےوالےحزقیل نبی کی قیامت اورجی اُٹھنےکی
تصویریں متحرک ہیں۔
خیال کیا جاتا ھے کہ عمارت کی نچلی منزل سے پائی جانے والی سینکڑوں انسانی ہڈیاں اس مقبرےمیں جمع کی گئیں۔
جیساکہ خیال کیاجاتاتھاکہ حزقیل کےمعجزے کی طرح ان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
ایک مقبرے کےاردگردمسلمانوں کے بہت سےقبرستان ہیں اوران لوگوں کی قبریں ہیں جو1870کی
روسی-چیچن جنگ سے بچ کر قدیم شہر دارا میں آباد ہوئے اور پھر ایک وبا کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
آج یہ شہر مشہور شاہراہ ریشم (Silk Road) کے ساتھ ایک اہم بستی ھے جس نے بڑی جنگیں بھی دیکھیں، برسوں جنوب مشرقی اناطولیہ میں بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) کے آخری گڑھ کے
طور پر کام کیا۔
ترکیہ، عراق کا ہر حصہ عظیم تاریخی خزانوں سے بھرا پڑا ھے۔ دارا میں آثار قدیمہ کی کھدائی 1986 میں شروع ھوئی تھی لیکن اب تک ایک قدیم گاؤں کے صرف 10 فیصد رقبے کا پتہ لگایا جا سکا ھے۔
#Indology #Rajhastan
تاج جھیل محل (اودے پور، ریاست راجھستان)
Taj Lake Palace ( Udaipur)__1746
منی تاج محل یعنی تاج محل (آگرہ) کی نقل
یہ نظر کا دھوکہ نہیں بلکہ وہی دودھیا، اجلے اور سنگ مرمر سے بنے جھروکے، محرابیں گویا تاج محل (آگرہ) سے قریبی مشابہت
تاج جھیل محل راجستھان کےشہر اودے
پور میں جھیل پچولا (Lake Pichola) پر 18ویں صدی کا ایک سابق شاہی گھر ھے۔
یہ محل مہارانا جگت سنگھ II کے لیے 1743 اور 1746 کے درمیان بنایا گیا تھا۔
محل کی تاریخ تھوڑی عجیب ھے کہ جگت سنگھ دوم کے والد مہارانا سنگرام سنگھ دوم نے اپنے بیٹے کو قریبی جزیرے کےکسی اور محل میں عورتوں کےساتھ
رہنے سے منع کیا تھا کہ وہ اس وقت تفریح کر رہا تھا، اس لیے اس کے بیٹے نے اس کی جگہ ایک نیا جھیل محل تعمیر کیا۔
محل نے مختلف مشہور مہمانوں کی میزبانی کی، جن میں جیکولین کینیڈی، لارڈ کرزن(1899-1905)، ملکہ الزبتھ اور برطانوی اداکار ویوین لی شامل ہیں۔
1988 میں
#ancient #Punjab #HistoryBuff
راجہ پورس___316قبل مسیح
تارخ میں وقت اورمذہب کےتذبذب کا شکار ہیرو
علاقہ پورو(Puru) سے تعلق رکھنے والاپورس جوقدیم ھندوستانی مقدس کتاب "رگ وید" کی تحریروں کاعنوان رہا، اسکااصل نام "Purushotama" تھا۔
راجہ پورس"جنگ جہلم"(پنجاب/older name Hydaspes) کا شیر
اور ایک انتہائی بہترین جنگجو اور فوجی رہنما تھا۔
جہلم کے مہاراجہ پورس نے ٹیکسلا کے مہاراجہ آمبھی کےبرعکس یونانی اسکندر (Greek Alexander) کے خلاف مزاحمت کا انتخاب کیا۔
سکندر نے اپنا ایلچی پورس کے پاس بھیجا کہ وہ اسکی خودمختاری کوتسلیم کرتےھوئے خراج دینےپر راضی ھوجائے۔
تاہم پورس نے
ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور ایلچی سے کہا کہ ”ہم میدانِ جنگ میں ملیں گے"۔ اگرچہ سکندر نےیہ جنگ جیت لی تاہم یہ اس کی زندگی کی آخری جنگ ثابت ھوئی۔
اسکندر اعظم کادنیا کوفتح کرنے کاخواب "جنگ جہلم" جیت جانے کےباوجود ادھورا رہا۔
پلوٹارک بتاتاھےکہ یونانیوں نےبادشاہ پورس کو”بڑی مشکل“ سے
#ancient #Religion #HistoryBuff
زرتشت___تاریخ سےچنداوراق
زرتشت__4000سال قبل قدیم ایرانی مذہب کاپیغمبر
زرتشت__جسےقدیم مقامی زبان میں "زتھورا" (Zarathustra) کہاجاتاتھا،
دنیاکےاولین توحیدی عقائد کےمذہب کابانی تھا۔
زرتشت__کےبارے میں تمام مواد"آوستا" سےمیسر آتاھےجوزرتشتی مذہبی صحیفوں
کاایک مجموعہ ھے۔
زرتشت__کی تاریخ پیدائش اور وفات سےآج مورخین قطعا لاعلم ہیں اور کچھ بھی مصدقہ نہیں۔
زرتشت__کےبارے میں کچھ محققین کاخیال ھے کہ وہ سائرس اعظم کاہم عصرتھاجوچھٹی صدی قبل مسیح میں سلطنتِ فارس کاایک بادشاہ تھا۔
زرتشت__کی پیدائش اب شمال مشرقی ایران یاجنوب مغربی افغانستان
میں ھوئی۔
زرتشت__ایک ایسے قبیلے میں رہتا تھا جو ایک قدیم مذہب کی پیروی کرتا تھا جس میں بہت سے دیوتاؤں (مشرک) تھے۔ یہ مذہب غالباً ہندو مت کی ابتدائی شکلوں سے ملتاجلتا تھا۔
زرتشت__نے 30سال کی عمر میں ایک پاکیزگی کی رسم میں حصہ لینےکے دوران ایک اعلیٰ ہستی کا الہی نظارہ کیااور آج یہ
#holland #History
ماتا ہری (شمالی ہالینڈ)
Dutch Dancer and Spy___1876_1917
مشہور زمانہ ڈچ رقاصہ
جس کاپیدائشی نام Margaretha Greetruida تھادرحقیقت خاتون جاسوس اورخوبصورت نامور رقاصہ تھی جسےپہلی جنگ عظیم کےدوران جرمنی کیلئےجاسوسی کےالزام میں ماردیاگیا۔
مارگریتھاایک خوشحال گھرانےمیں
پیدا ھوئی۔ 1891 میں نوعمر مارگریتھا کے والدین کی طلاق کے بعد 1895 میں اس نے ڈچ فوجی کیپٹن روڈولف میکلوڈ سےشادی کی، دو بچے ھوئے۔
بالآخر 1906 میں طلاق ھو گئی۔
زیادہ رقم کمانے کےلالچ میں مارگریتھا نے 1905 میں لیڈی میکلوڈ کے نام سےپیرس میں پیشہ ورانہ طور پر رقص سے شہرت پائی۔
اس نےجلد
ہی پورے یورپ کے دورے کیئے۔ ایک ھندوستانی پادری نے اسے قدیم رقص سکھایا جس نے اسے ماتا ہری کا نام دیا جو سورج کے لیے ایک مالائی اظہار ھے: لفظی طور پر، "دن کی آنکھ"۔ اس کام میں اسے بہت شہرت ملی۔ اس کاشو اس کےآہستہ آہستہ عریاں ھونےپر مشہور ھوا۔
وہ ایک مشہوردرباری بن گئی۔ اسی دوران اس
#Architecture #Bahawalpur #Punjab
قلعہ پھولڑہ_____تاریخ سے چند اوراق
کب اور کس نے تعمیر کیا؟
اس بارے میں کچھ علم نہیں لیکن روایات ان گنت ہیں۔
قلعہ پھولڑہ__ جس کا موجودہ نام قلعہ فورٹ عباس ھے ھندوستانی قلعوں کی تاریخ کا ایک اور بےمثال باب ھے۔
قلعہ پھولڑہ__کےبارے میں کہا جاتا ھے کہ
اسے بیکانیر ریاست (Bikaner State) کے بانی بیکانیر سے پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔
قلعہ پھولڑہ__کا نام ایسے مشہور ھوا کہ مہاراجہ بیکانیر کی اولاد میں دو بیٹے تھے: پھول را اور ولارا۔ اور یہی دونوں بگڑ رہی پھولڑہ اور ولہر بن گئے۔
قلعہ پھولڑہ__کےبارے میں یہ بھی کہاجاتا کہ اسے پھول سنگھ نے
تعمیر کروایا تھا کیونکہ قلعے کے کھنڈرات سے ملنے والے سکوں پر ہندی میں پھول سنگھ کی تحریر ملی ھے۔
قلعہ پھولڑہ__ کا موجودہ نام، نواب آف بہاولپور اکبر خان ربانی نے 1767 میں جب اس قلعے کو ازسر نو تعمیرکیا تو اپنے بیٹے عباس کے نام پر "فورٹ عباس" رکھ دیاتھا۔
قلعہ فورٹ عباس__کی عمارت کی
#ਪੰਜਾਬ #sikhism #Pakistan
ਸਤ੍ ਸ੍ਰੀ ਅਕਾਲ
کرتار پور (ڈسٹرکٹ نارووال)
Kartarpur (Near Ravi River)___1504
بھارت سرحد سے3 کلومیٹر کےفاصلے پر واقع سکھ مت کے بانی گرو نانک کے بڑھاپے کی آرام گاہ جہاں انہوں نےاپنی زندگی کے 18 سال کھیتی باڑی کرتے اور اللہ کی عبادت میں گزارے۔
کرتارکامطلب
خالص اور پور کا مطلب بستی، یعنی بلحاظ پنجابی معنوی کرتارپور "خالص بستی".
یہی وہ مقام مقدس ھے جہاں گرو نانک کی سمادھی یعنی چادر اور پھول کی بھی دفن گاہ ھے۔تاریخ کچھ یوں ھے کہ گرو نانک نے جو اصل گھر قائم کیا تھا وہ دریائے راوی کے سیلاب میں بہہ گیا تھا۔
موجودہ گوردوارہ مہاراجہ
رنجیت سنگھ نے قائم کیا۔
گوردوارہ پنجاب (پاکستان) میں دریائے راوی کے مغربی کنارے پر کوٹھے پنڈ (گاؤں) کے نام سے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ساتھ واقع ھے۔ اس علاقے کے گورنر دنیا چند (کلانور کا گورنر) نے گرو نانک سے پکھوکے میں ملاقات کی۔ کچھ مورخین نے کروڑی مال کا نام دنیا چند رکھا ھے