"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"

(حصہ دوم)

روایت نمبر 2

قادیانی ابن ماجہ میں موجود درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس امام مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے کہ ان کا نام محمد ہوگا، ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا،وہ
سادات میں سے ہوں گے،اور ان سے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں بیعت کی جائے گی انہوں نے نہیں آنا بلکہ حضرت عیسیؑ ہی امام مہدی ہوں گے۔

آیئے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر اس کا علمی،تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؓ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ،قَالَ:لَا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا،وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُحًّا،وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ،وَلَا
وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ۔

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"دن بہ دن معاملہ سخت ہوتا چلا جائے گا،اور دنیا تباہی کی طرف بڑھتی جائے گی،اور لوگ بخیل ہوتے جائیں گے،اور قیامت بدترین لوگوں پر ہی قائم ہو گی،اور مہدی عیسیٰ بن مریمؑ
کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔"

(ابن ماجہ حدیث نمبر 4039 ٬ باب شدة الزمان)

قادیانیوں کے اس اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔

جواب نمبر 1

مرزا صاحب نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے:

"ابن ماجہ اور اس کے علاوہ دوسری کتب میں ایک حدیث آئی ہے کہ"لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ
مَرْيَمَ" یعنی عیسی ابن مریمؑ ہی مہدی ہوگا۔ پس کس طرح ان جیسی احادیث پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جن میں شدت سے باہم اختلافات،تناقض اور ضعف پایا جاتا ہے اور ان کے راویوں پر بہت جرح ہوئی ہے جیسا کہ محدثین پر یہ بات مخفی نہیں حاصل کلام یہ کہ یہ ساری احادیث اختلافات اور تناقضات سے خالی
نہیں۔"

(حمامة البشری اردو ترجمہ صفحہ 331) (حمامة البشری عربی صفحہ 89،90 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 314،315)

لیجئے جب مرزا صاحب خود اس حدیث کو ضعیف کہ رہے ہیں اور اس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تواس کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں؟

جواب نمبر 2
اس بارے میں اب آئمہ حدیث کی رائے دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔

1) ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:

ثم اعلم ان حدیث لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ضعیف باتفاق المحدثین۔

"جان لو کہ لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ والی حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام
محدثین کا اتفاق ہے۔"

(مرقاة المفاتيح شرح مشکوة المصابيح جلد 10 صفحہ 101 طبع بیروت)

2) امام شمس الدين ذہبیؒ لکھتے ہیں:

لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وهو خبر منکر اخرجه ابن ماجة۔

لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ والی روایت منکر ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر
کیا ہے۔

(میزان الاعتدال جلد 4 صفحہ 107)

3) شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:

والحدیث الذی فیہ لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رواہ ابن ماجة وهو حديث ضعيف۔

وہ حدیث جس میں ہے کہ نہیں کوئی مہدی مگر عیسی ابن مریمؑ،جو ابن ماجہ نے روایت کی ہے وہ ضعیف ہے۔
(منھاج السنة النبوية جلد 4 صفحہ 101،102)

یہ تو چند آئمہ حدیث کے نام اور حوالہ جات لکھے ہیں جو اس کو ضعیف کہتے ہیں ورنہ تقریبا تمام آئمہ حدیث اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔

جواب نمبر 3

اب اس حدیث کی سند کو دیکھتے ہیں۔

اس روایت میں ایک راوی "محمد بن خالد الجندى الصنعانی" ہے
اس کے بارے میں امام ذہبیؒ نے لکھا ہے۔

قال أبو الفتح الازدی:منکر الحدیث،وقال الحاکم:مجہول،قلت:ھو صاحب الحدیث المنکر:لامہدی الا عیسی بن مریم۔

ابو فاتح ازدی کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
(یعنی منکر حدیثیں روایت کیا کرتا تھا)
امام حاکمؒ کہتے ہیں کہ یہ مجہول ہے۔

یں کہتا ہوں
(یعنی امام ذہبیؒ کہتے ہیں)کہ اسی راوی نے یہ منکر حدیث روایت کی ہے لامھدی الاعیسی بن مریم۔

(تاریخ الاسلام للذھبی، جلد 4, صفحات 1194, 1193دارالغرب الاسلامی)

امام جرح وتعدیل حافظ جمال الدین مزیؒ لکھتے ہیں

"وقال الحافظ البیھقی:ھذا حدیث تفردبہ محمد ابن خالد الجندی،قال ابو عبداللہ
الحافظ:محمد بن خالد رجل مجھول،واختلفو فی اسنادہ۔۔۔۔"

امام بہیقیؒ نے فرمایا کہ یہ حدیث(یعنی لا مھدی الا عیسی)صرف محمدبن خالد جندی نے روایت کی ہے۔

ابو عبداللہ الحافظ(یعنی امام حاکم)نے فرمایا ہے کہ:محمد بن خالد ایک مجھول شخص ہے،نیز اس روایت کی سند میں اختلاف بھی ہے۔
(جس راوی سے محمد بن خالد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اس کا نام ابان بن صالح ہے اور کہیں ابان بن ابھی ایاش ہے۔ناقل)

(تھذیب الکمال،جلد 25، صفحہ 149طبع مٶسسة الرسالة)

پھر آگے لکھتے ہیں

”قال البیھقی:فرجع الحدیث الی روایة محمد الجندی،وھو مجھول،عن ابان بن ابی عیاش وھو متروک۔۔۔۔۔۔
والحدیث فی التنصیص علی خروج المھدی اصح اسنادا وفیھا بیان کونہ من عترة النبیﷺ"

"امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن خالد جندی کی طرف لوٹتی ہے اور وہ مجھول راوی ہے،اور (ایک روایت میں)وہ ابان بن ابی عیاش سے روایت کرتا ہے جو کہ متروک راوی ہے(آگے لکھتے ہیں)وہ حدیث جس کے اندر
خروج مہدی کا ذکر ہے ان کی سندیں زیادہ صحیح ہیں اور ان (صحیح روایات) میں یہ بیان ہوا ہے کہ مہدی آنحضرتﷺ کی عترت سے ہوں گے۔"

(تہذیب الکمال جلد 25، صفحہ 150)

حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
"قال ابوالحسین محمد بن الحسین الآبری فی کتاب مناقب الشافعی:محمد بن خالد ھذا غیر معروف عند اھل الصناعة من اھل العلم والنقل۔وقد تواترت الآخبار واستفاضت عن رسول اللہﷺ بذکر المھدی،
وانہ من من اھل بیتہ،وانہ یملک سبع سنین،وانہ یملآ الارض عدلا،وان عیسی یخرج فیساعدہ علی قتل الدجال،وانہ یوم ھذہ الآمة،ویصلی عیسی خلقہ،وقال البیھقی:تفرد بہ محمد بن خالد ھذا،وقد قال الحاکم ابو عبداللہ:ھو مجھول۔"
محمد بن حسن آبریؒ نے مناقب الشافعیہ میں فرمایا ہے کہ یہ محمد بن خالد(الجندی)اہل علم اوراہل نقل کے نزدیک غیر معروف ہے( یعنی مجھول ہے)جبکہ مہدی کا ذکر تو آنحضرتﷺ کی متواتر احادیث میں وارد ہوا ہے۔

جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ مہدی آپؐ کے اہل بیت میں سے ہوں گے،وہ سات سال تک حکومت بھی
کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور یہ بھی بیان ہے کہ عیسیؑ کے خروج کے بعد دجال کو قتل کرنے میں وہ ان کی مدد کریں گے،اور وہ (مہدی علیہ الرضوان) اس امت کی امامت بھی فرمائیں گے اور عیسیؑ بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے،اور امام بیہقیؒ نے فرمایا ہے کہ یہ روایت صرف محمد بن
خالد نے روایت کی ہے اور امام حاکمؒ نے فرمایا ہے کہ وہ مجہول ہے۔

(المنار المنیف فی الصحیح والضعیف،صفحہ 142)

اس کے بعد حافظ ابن قیمؒ نے وہ احادیث ذکر فرمائی ہیں جن کے اندر "حضرت مہدی علیہ الرضوان" کا ذکر ہے اور پھر ان لوگوں کا رد کرتے ہوۓ جو "لا مھدی الا عیسی" والی روایت سے
استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ ہی مہدی ہیں۔لکھتے ہیں:

"واحتج اصحاب هذا بحديث محمد بن خالد الجندي المتقدم،و قد بينا حاله،و انه لا يصح و لو صح لم يكن فيه حجة،لان عيسى أعظم مهدي بين يدي رسول اللهﷺ و بين الساعة،و قد دلت السنة الصحيحة عن نبيﷺ على نزوله على المنارة
البيضاء شرقي دمشق و حكمه بكتاب الله،و قتله اليهود والنصارى،ووضع الجزية،واهلاك اهل الملل فى زمانه۔۔۔۔۔۔الخ"

یہ نکتہ نظر رکھنے والے خالد بن محمد الجندی کی اس حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں جو پہلے گزری (یعنی لا مہدی الا عیسیؑ) اور (خالد بن محمد الجندی) کا حال ہم پہلے بیان کر چکے ، اور یہ
حدیث بھی صحیح نہیں ہے اور اگر (بالفرض ) صحیح بھی ہو تو اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں (کہ حضرت عیسیؑ ہی مہدی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) آنحضرتﷺ اور قیامت کے درمیان سب سے بڑے مہدی حضرت عیسیؑ ہی تشریف لائیں گے۔

(یہ توجیہ اس لیے ضروری ہے کہ) نبی کریمﷺ کی صحیح احادیث میں
بتایا گیا ہے کہ (حضرت عیسیؑ) دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید منارہ پر نازل ہونگے،اور آپ نازل ہو کر اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلے فرمایں گے،اور یہود و نصارٰی کو قتل کریں گے (اگر وہ ایمان نہ لائیں گے) اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔اور ان کے زمانے میں تمام (باطل) ملتوں والے ہلاک کر
کر دیئے جائینگے۔

(المنار المنیف صفحہ 148)

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

محمد بن خالد الجندي،بفتح الجيم و النون،المؤذن،المجهول۔

محمد بن خالد جیم اور نون پر زبر کے ساتھ جنہیں مؤذن کہا جاتا ہے،یہ مجہول ہیں۔

(تقریب التہذیب صفحہ 840،طبع دار العاصمة)
امام ابن الجوزی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:

قال ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب النسائي: هذا حديث منكر،وقال البيهقي:تفرد بهذا الحديث محمد بن خالد الجندي قال ابو عبد الله الحاكم:محمد بن خالد رجل مجهول۔

امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے، امام بیہقی نے فرمایا کہ یہ حدیث صرف
محمد بن خالد جندی نے بیان کی ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ محمد بن خالد ایک مجہول شخص ہے۔

(العلل المتناهية في الاحاديث الواهية،جلد 1 صفحات 862، 863،طبع دار الكتب العلمية)

قادیانی اس کے جواب میں ایک کمزور سا اعتراض کرتے ہوئے ابن کثیر اور امام ذہبی کی درج ذیل روایات پیش کرتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ ابن کثیر اور امام ذہبی نے محمد بن خالد الجندى کو ثقہ کہا ہے۔آیئے پہلے دونوں روایات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس کا علمی رد کرتے ہیں۔

ابن کثیر نے لکھا ہے:

"وليس هو بمجهول كما زعمه بالحاكم قد روى عن ابن معين انه وثقه۔"

(محمد بن خالد الجندي) مجہول
نہیں ہے جیسا کہ امام حاکم نے گمان کیا ہے بلکہ امام (یحیی) بن معین سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسے ثقہ کہا ہے۔

(البداية والنهاية جلد 17 صفحہ 46 دار ابن کثیر)

اسی طرح امام ذہبی کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے:

"ذكره ابن الصلاح في اماليه ثم قال محمد بن خالد شیخ مجهول قلت و قد
وثقه يحيى بن معين والله أعلم۔"

ابن صلاح نے اپنی امالی میں کہا ہے کہ محمد بن خالد مجہول ہے میں (یعنی امام ذہبی) کہتا ہوں کہ یحیی بن معین نے اسکی توثیق کی ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

(ميزان الاعتدال:جلد 4 صفحہ 107،طبع دار الرسالة العالمية)

حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ ابن معین
سے یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے محمد بن خالد جندی کی توثیق کی ہے اور امام ذہبی بھی فرماتے ہیں کہ یحیی بن معین نے اسکی توثیق کی ہے اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ امام یحیی بن معین کی طرف سے یہ توثیق کہاں بیان ہوئی ہے۔

اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔

اصل میں حافظ جمال الدین مزی نے
اپنی کتاب تہذیب الکمال میں امام آبری کی مناقب شافعی کے حوالے سے ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ امام یحیی بن معین نے محمد بن خالد جندی کو ثقہ کہا ہے آیئے پہلے وہ روایت پوری پڑھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ آیا اس کے بل بوتے پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام یحیی بن
معین نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے؟

"قال ابو الحسن محمد بن الحسن الابري الحافظ في المناقب الشافعي اخبر نى محمد بن عبد الرحمن المهمذانى ببغداد قال حدثنا محمد ين مخلد و هو العطار قال حدثنا احمد بن محمد بن مؤمل العدوى قال لي يونس بن عبد الاعلي
جاءني رجل و قد و خطه الشيب سنة ثلاثة عشر يعني ما ءتين عليه مبتنة ازير يسألني عن هذا الحديث فقال لي من محمد بن خالد الجندي فقلت لا أدري فقال لي هذا مؤذن الجند و هو ثقه فقلت له انت يحيي بن معين؟ فقال نعم۔۔۔۔۔الخ"

یونس بن عبد الاعلی کا بیان ہے کہ میرے پاس ایک آدمی آیا جس پر
بڑھاپے کے آثار نمایاں ہو چکے تھے اور اس نے کمبل اوڑھا ہوا تھا یہ سنہ 213 ہجری کی بات ہے اس آدمی نے مجھ سے اس حدیث (یعنی لا مہدی الا عیسی) کے بارے میں پوچھا اور کہا یہ محمد بن خالد جندی کون ہے؟
میں نے کہا میں نہیں جانتا،تو اس آنے والے نے کہا یہ جند کا مؤذن ہے اور ثقہ ہے میں نے
پوچھا کیا آپ یحیی بن معین ہیں؟تو اس نے جواب دیا،ہاں۔

(تهذيب الكمال جلد 25 صفحات 148، 149 طبع مؤسسة الرسالة)

تو یہ ہے وہ حکایت جس کی بناء پر یہ کہا جاتا ہے کہ امام یحیی بن معین نے محمد بن خالد جندی کو ثقہ کہا ہے لیکن یہ استدلال دو وجوہات سے غلط ہے:

پہلی وجہ:
پہلی وجہ یہ ہے کہ اس حکایت کی سند میں ایک صاحب ہیں احمد بن محمد بن مؤمل العدوی یہ مجہول الحال ہیں۔

اور ہمیں اسماء الرجال کی کسی کتاب میں ان کے بارے میں نہیں ملا کہ ثقہ تھے یا نہیں، خطیب بغدادی نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے بارے میں نہ کوئی تعدیل ذکر کی نہ جرح۔
( تاریخ بغداد جلد 6 صفحہ 184 طبع دار الغرب الاسلامی)

حافظ ابن عساكر نے بھی انکا ذکر کیا ہے اور وہاں بھی یہ بیان نہیں کیا کہ یہ صاحب ثقہ تھے یا نہیں۔

(تاریخ دمشق المعروف بہ تاریخ ابن عساکر: جلد 3 صفحات 457 ،458 طبع دار الفکر بیروت)

لہذا یہ حکایت قابل اعتماد نہیں ہے۔

دوسری وجہ
دوسری وجہ کہ اس عبارت کے اندر یونس بن عبد الاعلی کا بیان ہے جو اجنبی میرے پاس آۓ تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ"کیا تم محمد بن خالد الجندی کو جانتے ہو؟"

تو میں نے کہا کہ "نہیں میں نہیں جانتا"

(یاد رہے کہ لا مھدی الا عیسی والی روایت کے ایک راوی خود یہی یونس بن عبدالاعلی بھی ہیں
اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں محمد بن خالد جندی کو نہیں جانتا)

پھر اس اجنبی نے مجھ سے کہا کہ"وہ جند کے مٶذن ہیں اور ثقہ ہیں" تو میں نے اس اجنبی سے پوچھا کہ "کیا آپ یحیی بن معین ہیں؟" اور اجنبی نے جواب دیا کہ "ہاں میں یحیی بن معین ہوں۔"

یعنی اس حکايت سے ثابت ہوتا ہے کہ یونس بن
بن عبدالاعلی اس سے پہلے یحیی بن معین کو نہیں جانتے تھے اور نہ انہیں کبھی دیکھا تھا بلکہ اس آنے والے اجنبی نے انہیں بتایا کہ "میں یحیی بن معین ہوں۔"

لہذا اس حکايت کی بناء پر ہم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص واقعی امام یحیی بن معینؒ تھے یا کوئی اور تھا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ خود
امام آبریؒ نے یہ حکايت ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ:

"ومحمد بن خالد الجندی وان کان یذکر عن یحیی بن معین ما ذکرتہ فاتہ غیر معروف عند اھل الصناعة من اھل العلم والعقل۔"
"اگرچہ محمد بن خالد الجندی کے بارے میں امام یحیی بن معینؒ کے حوالے سے یہ بات ذکر کی جاتی ہے مگر اس کے باجود یہ
یہ حقیقت ہے کہ یہ راوی علم ونقل والے اہل فن(علماء حدیث واسماءالرجال)کے ہاں غیر معروف ہے۔"

(تھذیب الکمال،جلد 25، صفحہ 149)

امام ابو سعید عبدالکریم بن منصور السمعانی ؒ (وفات:562 ھ) نے بھی یحیی بن معینؒ کی اس بات کا ذکر یوں کیا ہے کہ

"قال یحیی بن معین امام اھل الجند وھو ثقة۔
یعنی یحیی بن معینؒ نے کہا ہے کہ محمد بن خالد اہل جند کا امام اور ثقہ ہے، لیکن امام سمعانیؒ نےاس کے بعد اپنا تبصرہ یوں فرمایا ہے کہ "قلت وقدتکلموا فیہ" میں(یعنی امام سمعانی)کہتا ہوں کہ اس راوی میں کلام کیا گیا ہے۔

نیز امام سمعانیؒ نے جو یحیی بن معینؒ سے اس کا ثقہ ہونا نقل کیا ہے۔
اس پر کتاب کے محقق شیخ علامہ عبدالرحمن بن یحیی المعلی الیمانیؒ نے لکھا ہے کہ "لم یثبت ھذا عن ابن معین"یہ بات یحیی بن معینؒ سے ثابت ہی نہیں۔

(الانساب للسمعانی بتحقیق المعانی:جلد3 صفحہ 320،مکتبہ ابن تیمیہ، قاھرہ)

یہ ہے کہ اس روایت کا حال جسے مرزا قادیانی نے حضرت مہدی
علیہ الرضوان سے متعلقہ احادیث میں سے "سب سے زیادہ صحیح" یا "بہت صحیح" لکھا ہے،جب کہ یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ان دوسری صحیح اور (بعض کے نزدیک) متواتر احادیث کے بظاہر مخالف بھی ہے جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان اور حضرت عیسیؑ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔
اگر اس روایت کو صحیح بھی فرض کر لیا جاۓ تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے صرف "شرار" یعنی برے لوگ باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت قائم ہو گی اور اس وقت مہدی یعنی ہدایت یافتہ صرف حضرت عیسی بن مریمؑ ہی ہوں گے کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان تو فوت ہو چکے ہوں گے،یہ بات
اسی حدیث میں "لا المھدی الاعیسی بن مریم" سے پہلے کے الفاظ "لاتقوم الساعة الا علی شرار الناس" سے سمجھ آتی ہے،لہذا اس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا کہ چراغ بی بی کا بیٹا غلام احمد قادیانی مہدی ہے۔

"خلاصہ کلام"

یہ روایت ضعیف ہے اس سے دلیل پکڑنا کہ امام مہدی تشریف نہیں لائیں گے
بلکہ سیدنا عیسیؑ ہی امام مہدی ہیں یہ بات بہت سی صحیح اور متواتر ان احادیث کے خلاف ہے جن میں امام مہدی کو علیحدہ شخصیت بتایا گیا ہے۔

اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس روایت کو تقریبا تمام آئمہ احادیث نے ضعیف لکھا ہے۔ اور خود مرزا صاحب نے بھی اس کو ضعیف لکھا ہے۔
لہذا یہ جھوٹی روایت قادیانیوں کے لئے ذرہ برابر بھی فائدہ مند نہیں ہے۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with بنتِ غازی

بنتِ غازی Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @BinteGhazi18

7 Oct
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"

(حصہ سوم)

روایت نمبر 3

"چاند اور سورج گرہن کا مشہورِ زمانہ مرزائی دھوکہ"

قادیانی دارقطنی کی درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس روایت میں حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جب امام مہدی آئے گا تو
اس کے وقت میں چاند کی 13 کو چاند گرہن اور 27 تاریخ کو سورج گرہن لگے گا پس جب مرزا صاحب نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اسی سال چاند اور سورج کو گرہن لگا تھا۔لہذا یہ اس بات کی نشانی ہے کہ مرزا صاحب ہی سچے امام مہدی ہیں۔

آیئے پہلے روایت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر اس کا علمی
رد کرتے ہیں۔

"عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ،عَنْ جَابِرٍ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ،قَالَ:إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ،يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ،وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ
Read 98 tweets
4 Oct
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"

(حصہ اول)

روایت نمبر 1

مرزا صاحب درج ذیل روایت پر باطل استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس روایت میں ذکر ہے کہ امام مہدی جس گاؤں میں ظاہر ہوں گے اس کا نام "کدعہ" ہے۔اور "کدعہ" قادیان کا ہی
پرانا نام ہے۔لہذا مرزا صاحب سچے امام مہدی ہیں۔

اس روایت کو مرزا صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہوا ہے۔آیئے سب سے پہلے مرزا صاحب کی تحریر کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس کا علمی رد کرتے ہیں۔

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

"شیخ حمزہ ملک الطوسی اپنی کتاب جواہرالاسرار میں جو سنہ 840ھ
میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ زیل عبارت لکھتے ہیں۔درابعین آمدہ است کہ خروج مہدی از قریہ کدعہ باشد۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج المھدی من قریۃ یقال لھا کدعہ ویصدقہ اللہ تعالیٰ ویجمع اصحابہ من اقصی البلاد علی عدۃ اھل بدر بثلاث مائۃ وثلاثہ عشر رجلاََ ومعہ
Read 48 tweets
3 Oct
"امام مہدی اور مرزا قادیانی کا تقابلی جائزہ"
(حصہ دوم)

جائزہ نمبر 3

مرزا صاحب کی کچھ تحریرات کے مطابق امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب جھوٹی،ضعیف ہیں۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

حوالہ نمبر 1

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ "میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے
جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح و مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔اور جسقدر افتراء اُن حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا۔"

(ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)

حوالہ نمبر 2

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے۔"

(حاشیہ حقیقتہ الوحی، روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 217)

حوالہ نمبر 3

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
Read 32 tweets
29 Sep
"امام مہدی اور مرزا قادیانی کا تقابلی جائزہ"

جائزہ نمبر 1

امام مہدی کے بارے میں درج ذیل باتیں ہمیں احادیث سے معلوم ہویئں۔اب اسی کے اوپر مرزا صاحب کو پرکھ لیتے ہیں۔

1) امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا۔
2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
جبکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا۔
2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کے والد کا نام غلام مرتضی تھا۔
3) امام مہدی سادات میں سے ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب کا خاندان "مغل" تھا۔
4) امام مہدی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے جب ان کو پہچان کر ان کی بیعت کی جائے
گی۔جبکہ مرزا صاحب ساری زندگی مکہ مکرمہ نہیں جاسکے۔
5) امام مہدی حاکم(بادشاہ) ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب غلام تھے۔
6) امام مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
7) امام مہدی کی حکومت 7 یا 9 سال ہوگی۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب
Read 19 tweets
28 Sep
"امام مہدی کا تعارف"

اہل سنت والجماعت کے مطابق "مہدی" نبی کریمﷺ کے متبع ہوں گے اور خلفاء راشدین میں سے ایک خلیفہ راشد ہوں گے۔آپ نہ ہی نبوت کے مدعی ہوں گے اور نہ ہی انبیاء کی طرح معصوم٬احادیث میں انکے اوصاف بیان ہوئے ہیں نیز ہماری معلومات کے مطابق کسی صحیح حدیث میں آپکے لئے
امام مہدی کے الفاظ نہیں ملتے بلکہ صرف "المہدی" کہا گیا ہے انہیں "امام مہدی" صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے مسلمانوں کے امام بمعنی پیشوا 'امیر اور حاکم ہوں گے۔

نیز کسی حدیث میں یہ نہیں ملتا کہ وہ شخصیت لوگوں کو اپنی "مہدویت" پر ایمان لانے کی دعوت دے گی اور نہ ہی کہیں
یہ آیا ہے کہ لوگوں کے لئے کسی خاص معین شخصیت کی مہدیت پر ایمان لانا واجب ہے۔ جیسے انبیاء کی نبوت پہ ایمان لانا لازم ہے اسکی مثال ایسے ہے جیسے حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر سو سال کے سر پر ایسے لوگ ظاہر فرماتے رہیں گے جو تجدید دین کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے یعنی دین میں جو غلط
Read 45 tweets
25 Sep
*"رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر اجماع امت اور 14 صدیوں کے ان بزرگان امت کے نام جن کا عقیدہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کتابوں میں موجود ہے"*

*"رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر اجماع امت"*

پوری امت محمدیہﷺ کا اس بات پر اجماع ہے۔ یعنی پوری امت محمدیہﷺ 1400 سال سے اس بات پر متفق ہےکہ سیدنا
عیسیؑ کو یہود نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب چڑھا سکے۔ بلکہ اللہ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اب سیدنا عیسیؑ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے اور دجال کا خاتمہ کریں گے۔

ذیل میں 10 حوالے پیش خدمت ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ پوری امت مسلمہ رفع و نزول عیسیؑ کے مسئلے پر متفق ہے
اور اس پر امت کا اجماع ہے۔

1)علامہ ابو حیان اندلسی اپنی تفسیر بحر المحیط میں لکھتے ہیں:

"واجمعت الامته علی ما تضمنه الحدیث المتواتر من ان عیسی فی السماء حی وانه ینزل فی آخر الزمان."
Read 51 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!