"مرزا قادیانی اور دجال"

دجال کا فتنہ اتنا سخت اور خطرناک فتنہ ہے کہ ہر نبیؑ نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے۔حضورﷺ نے بھی اپنی امت کو اس فتنے سے ڈرایا ہے۔بلکہ امت کو اپنی دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے۔

حضورﷺ کی احادیث کے مطابق مطابق دجال
انسانوں کی طرح ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔ اور وہ قرب قیامت سیدنا عیسیؑ کے زمین پر نزول سے کچھ عرصہ پہلے ظاہر ہوگا۔دجال سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں قتل ہوگا۔

درج ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں جن سے دجال کے انسانوں کی طرح مستقل وجود اور قرب قیامت سیدنا عیسیؑ کے زمین پر نزول سے کچھ عرصہ پہلے
ظہور کا پتہ چلتا ہے۔

حدیث نمبر 1

أَنَّ عَائِشَةَ ؓ،قَالَتْ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِﷺ يَسْتَعِيذُ فِي صَلَاتِهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے میں نے رسول اللہﷺ کو اپنی نماز میں،دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے سنا۔

(مسلم:حدیث نمبر 1323 ٬ باب استحباب التعوذ
من عذاب القبر و عذاب جہنم)

حدیث نمبر 2

عَنْ أَبَا هُرَيْرَةَ ؓ،يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهُّدِ الْآخِرِ، فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ أَرْبَعٍ:مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ،وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ،وَمِنْ
شَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی آخر ی تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے:جہنم کے عذاب سے،قبر کے عذاب سے زندگی اور موت کی آزمائش سے اور مسیح دجال کے شر سے۔"
(مسلم:حدیث نمبر 1324 ٬باب استحباب التعوذ من عذاب القبر و عذاب جہنم)

حدیث نمبر 3

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ؓ أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْف عُصِمَ مِنْ الدَّجَّالِ۔

حضرت ابو درداء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
"جس (مسلمان) نے سورہ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کرلیں،اسے دجال کے فتنے سے محفوظ کرلیا گیا۔"

(مسلم:حدیث نمبر 1883 ٬باب فضل سورة الكهف و آیة الکرسی)

حدیث نمبر 4

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ‌،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ
آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا:طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَالدَّجَّالُ، وَدَابَّةُ الْأَرْضِ.

حضرت ابوہریرہ ؓ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"تین چیزیں ہیں جب ان کا ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی شخص کو،جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا
تھا یا اپنے ایمان کے دوران میں کوئی نیکی نہ کی تھی،اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا:سورج کا مغرب سے طلوع ہونا،دجال اور دابۃ الارض(زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا نکلنا)"

(مسلم:حدیث نمبر 398 ٬باب بیان الزمن الذی لا یضل فیه الایمان)
حدیث نمبر 5

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ؓ، أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ قَالَ: أَرَانِي لَيْلَةً عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ،لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ،قَدْ رَجَّلَهَا فَهِيَ
قْطُرُ مَاءً، مُتَّكِئًا عَلَى رَجُلَيْنِ-أَوْ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ-يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ،ثُمَّ إِذَا أَنَا بِرَجُلٍ جَعْدٍ قَطَطٍ،أَعْوَرِ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ،فَسَأَلْتُ مَنْ
هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
"میں نے ایک رات اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا تو میں نے ایک گندم گوں شخص دیکھا، گندم گوں لوگوں میں سے سب سے خوبصورت تھا جنہیں تم دیکھتے ہو،ان کی لمبی لمبی لٹیں تھیں جو ان
لٹوں میں سے سب سے خوبصورت تھیں جنہیں تم دیکھتے ہو،ان کو کنگھی کی ہوئی تھی اور ان میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے،دو آدمیوں کا (یا دو آدمیوں کے کندھوں کا) سہارا لیا ہوا تھا۔وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔میں نے پوچھا:یہ کون ہیں ؟ کہا گیا:یہ مسیح ابن مریمؑ ‌ہیں۔پھر اچانک میں نے ایک
یک آدمی دیکھا،الجھے ہوئے گھنگریالے بالوں والا،دائیں آنکھ کانی تھی،جیسے انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو،میں نے پوچھا:یہ کون ہے؟تو کہاگیا:یہ مسیح دجال (جھوٹا یا مصنوعی مسیح) ہے۔"

(مسلم:حدیث نمبر 425 ٬ باب الاسراء برسول اللہﷺ الی السماوات و فرض الصلوات)

حدیث نمبر 6

َّ
عَن عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ؓ،قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:"بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعَرِ بَيْنَ رَجُلَيْنِ يَنْطُفُ رَأْسُهُ مَاءً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟،قَالُوا:
بْنُ مَرْيَمَ، فَذَهَبْتُ أَلْتَفِتُ فَإِذَا رَجُلٌ أَحْمَرُ جَسِيمٌ جَعْدُ الرَّأْسِ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا الدَّجَّالُ أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ
شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ، وَابْنُ قَطَنٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ مِنْ خُزَاعَةَ".

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔اچانک ایک صاحب نظر آئے، گندم گوں بال لٹکے ہوئے تھے
اور دو آدمیوں کے درمیان (سہارا لیے ہوئے تھے) ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟کہا کہ عیسیٰ ابن مریمؑ،پھر میں مڑا تو ایک دوسرا شخص سرخ، بھاری جسم والا، گھنگریالے بال والا اور ایک آنکھ سے کانا جیسے اس کی آنکھ پر خشک انگور ہو نظر آیا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟کہا
کہ یہ دجال ہے۔ اس کی صورت عبدالعزیٰ بن قطن سے بہت ملتی تھی۔یہ عبدالعزیٰ بن قطن مطلق میں تھا جو قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ ہے۔

(بخاری:حدیث نمبر 7026 ٬باب الطواف بالکعبة فی المنام)

حدیث نمبر 7

عَن فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ؓ سَمِعْتُ نِدَاءَ الْمُنَادِي مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِﷺ
يُنَادِي الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِﷺ فَكُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَاءِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِﷺ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ
مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي
حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمْ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّى مَغْرِبِ
الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا وَمَا الْجَسَّاسَةُ
قَالَتْ أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ
إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ قُلْنَا وَيْلَكَ مَا أَنْتَ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ أُنَاسٌ مِنْ الْعَرَبِ
فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ
دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قُلْنَا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ
نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لَا تُثْمِرَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ
الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِيهَا مَاءٌ قَالُوا هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ قَالَ أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ وَهَلْ
يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ قَالَ أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ
كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنْ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ قَالَ لَهُمْ قَدْ كَانَ ذَلِكَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ
يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي
مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ أَلَا هَلْ كُنْتُ
حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنْ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ
الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ۔

حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہﷺ کا منادی تھا،وہ پکار رہا تھا کہ نماز
کے لئے جمع ہو جاؤ۔میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔جب آپﷺ نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپﷺ ہنس رہے تھے۔آپﷺ نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو
کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟صحابہ ؓ بولے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا،بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا،وہآیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور
مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے،پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔پھر وہ لوگ سمندر میں
ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم،بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟اس
نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے،کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔تمیم ؓنے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی سے) دیر میں داخل ہوئے۔
دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو
(یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا)،تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے،لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی،پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں
بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے، پس ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا،ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو
دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال پوچھتا ہے؟اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟
ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کون سا حال پوچھتا ہے؟وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم
ختم ہو جائے گا۔پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ہم نے اس سے کہا کہ ہاں!اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے
ہیں۔اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے؟لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ہم نے کہا کہ ہاں۔اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئ
ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ہم نے کہا کہ ہاں۔اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی
پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں،سوائے مکہ اور طیبہ کے،کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی,
وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔سیدہ فاطمہ ؓ نے کہا کہ پھر نبی کریمﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے،طیبہ یہی ہے،طیبہ یہی ہے۔یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔خبردار رہو!بھلا میں تم کو اس حال
کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟تو اصحاب نے کہا کہ ہاں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمیم ؓ کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے،وہ مشرق کی طرف ہے،
وہ مشرق کی طرف ہے،وہ مشرق کی طرف ہے (مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو) اور آپﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس ؓ کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہﷺ سے یاد رکھی ہے۔

(مسلم:حدیث نمبر 7386 ٬باب قصة الجساسة)
حدیث نمبر 8

عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِﷺ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ
الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي
عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ
شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌكَشَهْرٍ وَيَوْمٌكَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ
أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ
فَتُمْطِرُ وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ
أَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضثُمَّ يَدْعُوهُ
فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ
وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ
اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ
يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ
الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ
إِلَى الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ
يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا
وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ
بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ۔
حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک صبح دجال
کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اس (کے ذکر کے دوران) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی۔یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔جب شام کو ہم آپ کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ نے ہم میں اس (شدید تاثر) کو بھانپ لیا۔آپ نے ہم سے پوچھا "تم لوگوں کو کیا ہواہے؟" ہم نے عرض کی
اللہ کےرسول اللہﷺ!صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایا تو آپ کی آواز میں (ایسا) اتار چڑھاؤ تھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

"مجھے تم لوگوں (حاضرین) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں) کا زیادہ خوف ہےاگر وہ نکلتا ہے اور
میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لئے) دلائل دینے والا میں ہوں گااور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والاخود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان) ہوگا۔وہ گچھے دار بالوں والاایک جوان شخص ہے
اس کی ایک آنکھ بے نور ہے۔میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا۔وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہو گا اور بائیں طرف بھی۔اے اللہ کے بندو!تم
ثابت قدم رہنا۔ "ہم نے عرض اللہ کے رسول اللہﷺ! زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپ نے فرمایا:
"بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۔وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ تو وہ آسمان (کے بادل) کو حکم دے گا۔وہ بارش برسائے گا اور
وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۔شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں (بھی) دعوت دے گا۔وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے۔وہ
انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی۔وہ (دجال) بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس (بنجر زمین) کے خزانے اس طرح (نکل کر) اس کے پیچھےلگ جائیں گے۔جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں
پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار۔مار کر (یکبارگی) دوحصوں میں تقسیم کر دے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف (یکدم ٹکڑے ہوگیا) ہو۔پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ (زندہ) ہو کر دیکھتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔وہ (دجال) اسی عالم میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ مسیح بن
مریمؑ کو معبوث فرمادے گا۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے۔اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی
خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔اس کی سانس (کی خوشبو) وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔آپؑ اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد ( Lyudia ) کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔پھر عیسیٰ بن مریمؑ کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں اللہ نے اس (دجال کےدام میں آنے) سے
محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے۔اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے۔وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰؑ کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے) بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میںنہیں۔آپ میری بندگی کرنے والوں کو
اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا،وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے۔ان کے پہلے لوگ (میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل) بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو (پانی) ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے۔کبھی اس (بحیرہ) میں (بھی) پانی
ہوگا۔اللہ کے نبی حضرت عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی محصور ہو کر رہ جائیں گے۔حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لئے بیل کا سر اس سے بہتر (قیمتی) ہوگا جتنے آج تمھارے لئے سو دینار ہیں۔اللہ کے نبی عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی گڑ گڑا کر دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (یاجوج ماجوج) پر ان کی گردنوں میں
کپڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح (یکبارگی) اس کا شکار ہوجائیں گے۔پھر اللہ کے نبی عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی اتر کر (میدانی) زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی۔جو ان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو۔اس پرحضرت عیسیٰؑ اور ان کے
ساتھی اللہ کے سامنے گڑگڑائیں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے) پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کو ئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ) اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا۔
وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح (صاف) کر چھوڑےگی۔پھر زمین سے کہاجائے گا۔اپنے پھل اگاؤ اور اپنی برکت لوٹا لاؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی) برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی
ہو گا اور گائے کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہوگا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا۔وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے۔کہ اللہ تعالیٰ ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی۔اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی
اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی طرح (برسرعام) آپس میں اختلاط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔"

(مسلم:حدیث نمبر 7373 ٬ باب ذکر الدجال)

حدیث نمبر 9

عَنْ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ؓ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِﷺ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنْ الدَّجَّالِ
فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا قَالَ يَأْتِي وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْتَهِي إِلَى بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ
أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِﷺ حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ قَطُّ
أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ قَالَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ۔

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے ہمارے ساتھ دجال کے بارے میں لمبی گفتگو فرمائی۔اس میں آپ نے ہمارے سامنے جو بیان کیا اس میں (یہ بھی) تھا کہ آپ نے فرمایا:
"وہ آئے گا اس پرمدینہ کے راستے حرام کر دیئے گئے ہوں گے۔وہ مدینہ سے متصل ایک نرم شوریلی زمین تک پہنچے گا اس کے پاس ایک آدمی (مدینہ سے) نکل کر جائے گا۔جو لوگوں میں سے بہترین یا بہترین لوگوں میں سے ایک ہو گا اور اس سے کہے گا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں
رسول اللہﷺ نے اپنی گفتگو میں ہمیں بتایا تھا ۔ تو دجال (اپنے ساتھ موجود لوگوں سے) کہے گا تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اس شخص کو قتل کردوں اور پھر اسے زندہ کردوں تو کیا اس معاملے میں تمھیں کوئی شک (باقی) رہے گا؟وہ کہیں گے نہیں۔وہ اس شخص کو قتل کرے گا اور دوبارہ زندہ کردے گا۔
جب وہ اس شخص کو زندہ کرے گاتو وہ اس سے کہے گا۔اللہ کی قسم!تمھارے بارے میں مجھے اب سے پہلے اس سے زیادہ بصیرت کبھی حاصل نہیں تھی۔فرمایا:دجال اسے قتل کرنا چاہے گا لیکن اسے اس شخص پر تسلط حاصل نہیں ہو سکے گا۔

(مسلم:حدیث نمبر 7375 ٬باب ذکر الدجال)

حدیث نمبر 10
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ،أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ قَالَ:يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ،هِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ،حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ،ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ،وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"مشرق کی جانب سے مسیح دجال آئےگا،اس کا ارادہ مدینہ (میں داخلے کا) ہوگا یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کے پیچھے اترے گا،پھر فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں وہ ہلاک ہوجائے گا۔"

(مسلم:حدیث نمبر 3351 ٬باب صیانة المدینة من دخول الطاعون والدجال الیھا)

"دجال کا حلیہ"
ہمیں احادیث مبارکہ سے دجال کا جو حلیہ اور چند دوسری معلومات معلوم ہوتی ہیں ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1) دجال جوان ہوگا اور عبدالعزی بن قطن کے مشابہ ہوگا۔
(مسلم:حدیث نمبر 426)

2) دجال کا رنگ گندمی اور بال پیچدار ہوں گے۔
(مسلم:حدیث نمبر 426)

3) دونوں آنکھیں عیب دار ہوں گی۔
(بخاری:حدیث نمبر 3337)
(مسلم:حدیث نمبر 7366)

4) ایک (دایئں) آنکھ سے کانا ہوگا۔
(بخاری:حدیث نمبر 3337)

5) دجال کی بائیں آنکھ بھی عیب دار ہوگی۔
(مسلم:حدیث نمبر 7366)

6) پیشانی پر کافر لکھا ہوگا۔یعنی ک۔ف۔ر
(بخاری:حدیث نمبر 3355)
7) پیشانی پر لکھے گئے کافر کو ہر مومن پڑھ سکے گا۔خواہ وہ پڑھنا لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
(مسلم:حدیث نمبر 7367)

8) وہ ایک گدھے پر سواری کرے گا۔ جس کے دونوں کانوں کے درمیان 40 ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔
(مسند احمد:حدیث نمبر 15017)

9) دجال کی رفتار بادل اور ہوا کی طرح تیز ہوگی۔
(مسلم:حدیث نمبر 7373)

10) تیزی سے پوری دنیا میں پھر جائے گا (جیسے زمین اس کے واسطے لپیٹ دی گئی ہو۔)
(مسلم:حدیث نمبر 7373)

11) ہر طرف فساد پھیلائے گا۔
(مسلم:حدیث نمبر 7373)

12) مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہوپائے گا۔
(بخاری:حدیث نمبر 1881)
13) مکہ معظمہ ،مدینہ طیبہ کے ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرہ ہوگا جو اس کو اندر گھسنے نہیں دیں گے۔
(بخاری:حدیث نمبر 1881)

14) دجال مدینہ طیبہ کے باہر ٹھرے گا۔
(مسلم:حدیث نمبر 7375)

15) سب منافقین دجال سے مل جائیں گے۔
(مسلم:حدیث نمبر 7391)

16) دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور
اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔
(ابن ماجہ حدیث نمبر 4077)

17) اس کے ساتھ غذا کا بہت بڑا ذخیرہ ہوگا۔
(مسلم:حدیث نمبر 5624)

18) زمین کے خزانے اس کے تابع ہوں گے۔
(مسلم:حدیث نمبر 7373)

19) دجال کو مارنے اور زندہ کرنے کی طاقت دی جائے گی۔
(مسلم:حدیث نمبر 7373)
اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوگی۔
(بخاری:حدیث نمبر 3338، مسلم حدیث نمبر 7366)

"خلاصہ کلام"

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ دجال کا وجود انسانوں کی طرح ہوگا۔جتنے بھی انبیاء کرامؑ دنیا میں تشریف لائے انہوں نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے ڈرایا اسی طرح حضورﷺ
نے بھی اپنی امت کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے۔اور اپنی امت کو اپنہ دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی فرمائی ہے۔
دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔
دجال کی موت سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں ہوگی۔
(اگلے سبق میں ہم مرزا قادیانی کا دجال کے بارے میں نظریئے کا جائزہ لیں گے)

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with بنتِ غازی

بنتِ غازی Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @BinteGhazi18

10 Oct
"مرزا صاحب اور دجال"

(حصہ دوم)

جس طرح مرزا صاحب کے اکثر عقائد میں خطرناک حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔اسی طرح دجال کے بارے میں مرزا صاحب کی تحریرات میں بھی اختلاف ہے۔آیئے ایک دفعہ دجال کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ دیکھتے ہیں اور پھر مرزا صاحب کے نظریئے کا تحقیقی جائزہ لیتے
ہیں۔

"دجال کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ"

احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دجال کا وجود انسانوں کی طرح ہوگا۔جتنے بھی انبیاء کرامؑ دنیا میں تشریف لائے انہوں نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے ڈرایا اسی طرح حضورﷺ نے بھی اپنی امت کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے۔اور اپنی امت کو اپنی
دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی فرمائی ہے۔دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔
دجال کی موت سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں ہوگی۔

"دجال کا حلیہ"

ہمیں احادیث مبارکہ سے دجال کا جو حلیہ اور چند دوسری معلومات معلوم ہوتی ہیں ان پر ایک نظر
Read 75 tweets
7 Oct
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"

(حصہ سوم)

روایت نمبر 3

"چاند اور سورج گرہن کا مشہورِ زمانہ مرزائی دھوکہ"

قادیانی دارقطنی کی درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس روایت میں حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جب امام مہدی آئے گا تو
اس کے وقت میں چاند کی 13 کو چاند گرہن اور 27 تاریخ کو سورج گرہن لگے گا پس جب مرزا صاحب نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اسی سال چاند اور سورج کو گرہن لگا تھا۔لہذا یہ اس بات کی نشانی ہے کہ مرزا صاحب ہی سچے امام مہدی ہیں۔

آیئے پہلے روایت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر اس کا علمی
رد کرتے ہیں۔

"عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ،عَنْ جَابِرٍ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ،قَالَ:إِنَّ لَمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ،يَنْخَسِفُ الْقَمَرُ لَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ،وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ
Read 98 tweets
6 Oct
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"

(حصہ دوم)

روایت نمبر 2

قادیانی ابن ماجہ میں موجود درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس امام مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے کہ ان کا نام محمد ہوگا، ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا،وہ
سادات میں سے ہوں گے،اور ان سے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں بیعت کی جائے گی انہوں نے نہیں آنا بلکہ حضرت عیسیؑ ہی امام مہدی ہوں گے۔

آیئے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر اس کا علمی،تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؓ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ،قَالَ:لَا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا،وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُحًّا،وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ،وَلَا
Read 52 tweets
4 Oct
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"

(حصہ اول)

روایت نمبر 1

مرزا صاحب درج ذیل روایت پر باطل استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس روایت میں ذکر ہے کہ امام مہدی جس گاؤں میں ظاہر ہوں گے اس کا نام "کدعہ" ہے۔اور "کدعہ" قادیان کا ہی
پرانا نام ہے۔لہذا مرزا صاحب سچے امام مہدی ہیں۔

اس روایت کو مرزا صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہوا ہے۔آیئے سب سے پہلے مرزا صاحب کی تحریر کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس کا علمی رد کرتے ہیں۔

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

"شیخ حمزہ ملک الطوسی اپنی کتاب جواہرالاسرار میں جو سنہ 840ھ
میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ زیل عبارت لکھتے ہیں۔درابعین آمدہ است کہ خروج مہدی از قریہ کدعہ باشد۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج المھدی من قریۃ یقال لھا کدعہ ویصدقہ اللہ تعالیٰ ویجمع اصحابہ من اقصی البلاد علی عدۃ اھل بدر بثلاث مائۃ وثلاثہ عشر رجلاََ ومعہ
Read 48 tweets
3 Oct
"امام مہدی اور مرزا قادیانی کا تقابلی جائزہ"
(حصہ دوم)

جائزہ نمبر 3

مرزا صاحب کی کچھ تحریرات کے مطابق امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب جھوٹی،ضعیف ہیں۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

حوالہ نمبر 1

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ "میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے
جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح و مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔اور جسقدر افتراء اُن حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا۔"

(ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)

حوالہ نمبر 2

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے۔"

(حاشیہ حقیقتہ الوحی، روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 217)

حوالہ نمبر 3

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
Read 32 tweets
29 Sep
"امام مہدی اور مرزا قادیانی کا تقابلی جائزہ"

جائزہ نمبر 1

امام مہدی کے بارے میں درج ذیل باتیں ہمیں احادیث سے معلوم ہویئں۔اب اسی کے اوپر مرزا صاحب کو پرکھ لیتے ہیں۔

1) امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا۔
2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
جبکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا۔
2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کے والد کا نام غلام مرتضی تھا۔
3) امام مہدی سادات میں سے ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب کا خاندان "مغل" تھا۔
4) امام مہدی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے جب ان کو پہچان کر ان کی بیعت کی جائے
گی۔جبکہ مرزا صاحب ساری زندگی مکہ مکرمہ نہیں جاسکے۔
5) امام مہدی حاکم(بادشاہ) ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب غلام تھے۔
6) امام مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
7) امام مہدی کی حکومت 7 یا 9 سال ہوگی۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب
Read 19 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!