جس طرح مرزا صاحب کے اکثر عقائد میں خطرناک حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔اسی طرح دجال کے بارے میں مرزا صاحب کی تحریرات میں بھی اختلاف ہے۔آیئے ایک دفعہ دجال کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ دیکھتے ہیں اور پھر مرزا صاحب کے نظریئے کا تحقیقی جائزہ لیتے
ہیں۔
"دجال کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ"
احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دجال کا وجود انسانوں کی طرح ہوگا۔جتنے بھی انبیاء کرامؑ دنیا میں تشریف لائے انہوں نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے ڈرایا اسی طرح حضورﷺ نے بھی اپنی امت کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے۔اور اپنی امت کو اپنی
دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی فرمائی ہے۔دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔
دجال کی موت سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں ہوگی۔
"دجال کا حلیہ"
ہمیں احادیث مبارکہ سے دجال کا جو حلیہ اور چند دوسری معلومات معلوم ہوتی ہیں ان پر ایک نظر
ڈالتے ہیں۔
1) دجال جوان ہوگا اور عبدالعزی بن قطن کے مشابہ ہوگا۔
(مسلم:حدیث نمبر 426)
2) دجال کا رنگ گندمی اور بال پیچدار ہوں گے۔
(مسلم:حدیث نمبر 426)
3) دونوں آنکھیں عیب دار ہوں گی۔
(بخاری:حدیث نمبر 3337)
(مسلم:حدیث نمبر 7366)
4) ایک (دایئں) آنکھ سے کانا ہوگا۔
(بخاری:حدیث نمبر 3337)
5) دجال کی بائیں آنکھ بھی عیب دار ہوگی۔
(مسلم حدیث نمبر 7366)
6) پیشانی پر کافر لکھا ہوگا۔ یعنی ک۔ف۔ر
(بخاری:حدیث نمبر 3355)
7) پیشانی پر لکھے گئے کافر کو ہر مومن پڑھ سکے گا۔خواہ وہ پڑھنا لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
(مسلم:حدیث نمبر 7367)
8) وہ ایک گدھے پر سواری کرے گا۔ جس کے دونوں کانوں کے درمیان 40 ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔
(مسند احمد:حدیث نمبر 15017)
9) دجال کی رفتار بادل اور ہوا کی طرح تیز ہوگی۔
(مسلم:حدیث نمبر 7373)
10) تیزی سے پوری دنیا میں پھر جائے گا (جیسے زمین اس کے واسطے لپیٹ دی گئی ہو۔)
(مسلم:حدیث نمبر 7373)
12) مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہوپائے گا۔
(بخاری:حدیث نمبر 1881)
13) مکہ معظمہ ،مدینہ طیبہ کے ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرہ ہوگا جو اس کو اندر گھسنے نہیں دیں گے۔
(بخاری:حدیث نمبر 1881)
14) دجال مدینہ طیبہ کے باہر ٹھرے گا۔
(مسلم:حدیث نمبر 7375)
15) سب منافقین دجال سے مل جائیں گے۔
(مسلم:حدیث نمبر 7391)
16) دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔
(ابن ماجہ:حدیث نمبر 4077)
17) اس کے ساتھ غذا کا بہت بڑا ذخیرہ ہوگا۔
(مسلم:حدیث نمبر 5624)
18)زمین کے خزانے اس کے تابع ہوں گے۔
(مسلم:حدیث نمبر 7373)
19) دجال کو مارنے اور زندہ کرنے کی طاقت دی جائے گی ۔
(مسلم:حدیث نمبر 7373)
20) اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوگی۔
(بخاری:حدیث نمبر 3338)
(مسلم:حدیث نمبر 7366)
"مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں پہلا نظریہ"
مرزا صاحب کی بعض تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال انسان کی طرح کسی وجود کا نام نہیں ہے بلکہ عیسائی پادریوں کا گروہ "دجال" ہے۔
تحریر نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"دجال معہود یہی پادریوں اور عیسائی متکلموں کا گروہ ہے جس نے زمین کو اپنے ساحرانہ کاموں سے تہہ بالا کر دیا ہے۔"
"دجال کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکہ دینے والا اور گمراہ کرنے والا اور خدا کے کلام کی تحریف کرنے والا ہو اس کو دجال کہتے ہیں۔ سو ظاہر ہےکہ پادری لوگ اس کا کام میں سب سے بڑھ کر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس اسی وجہ سے وہ دجال اکبر ہیں اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق
دوسرے کسی دجال کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ دجال گرجا سے نکلے گا اور جس قوم میں سے ہوگا وہ قوم تمام دنیا میں سلطنت کرےگی۔"
مرزا صاحب کا یہ نظریہ اس لحاظ سے باطل ہے کہ حدیث مبارکہ میں جس دجال کے آنے کی
خبر دی گئی ہے اور تمام انبیاء کرامؑ نے ان سے ڈرایا ہے وہ دجال انسانوں کی طرح ایک وجود رکھتا ہے۔وہ پہلے نبوت کا دعوی کرے گا پھر خدائی کا دعوی کرے گا۔جیسا کہ مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"دجال کا بھی حدیثوں میں ذکر پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں
ظاہر ہوگا اور پہلے دعوی نبوت کرے گا اور پھر خدائی کا دعویدار بن جائے گا۔"
لیجئے مرزا صاحب نے بااقبال قوموں کو بھی بلادلیل ہی دجال تسلیم کر لیا۔ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ وہ کون سی حدیث ہے جہاں بااقبال قوموں کو دجال کہا گیا ہے؟؟؟
ایسی کوئی حدیث قیامت تک بھی نہیں ملے
گی۔
"مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں تیسرا نظریہ"
مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں تیسرا نظریہ یہ تھا کہ جھوٹوں کے گروہ کو دجال کہتے ہیں۔جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"لغت میں دجال جھوٹوں کے گروہ کو کہتے ہیں جو باطل کو حق کے ساتھ مخلوط کر دیتے ہیں اور خلق اللہ کے گمراہ کرنے
مرزا صاحب یہ جھوٹوں کے گروہ تو حضورﷺ کے دور میں بھی موجود تھے لیکن حضورﷺ نے تو نہیں بتایا کہ جھوٹوں کا گروہ ہی دجال ہے۔تو مرزا صاحب کو کیسے پتہ چل گیا؟ ؟؟
"مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں چوتھا نظریہ"
مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ شیطان کا نام ہی دجال ہے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
"واضح ہو کہ دجال کےلفظ کی دو تعبیریں کی گئی ہیں۔ایک یہ کہ دجال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور فریب سے کام
چلاوے۔دوسرے یہ کہ دجال شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور فساد کا باپ ہے۔"
شیطان بھی حضورﷺ کے دور میں موجود تھا لیکن حضورﷺ نے کبھی نہیں فرمایا کہ شیطان ہی دجال ہے۔ثابت ہوا مرزا صاحب کا یہ نظریہ بھی جھوٹا ہے۔
"مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں پانچواں نظریہ"
مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ عیسائیت کے بھوت کا نام دجال ہے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"اس شیطان (دجال) کا نام دوسرے لفظوں میں عیسائیت کا بھوت ہے۔یہ بھوت آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عیسائی گرجا میں قید تھا اور صرف
جساسہ کے ذریعہ سے اسلامی اخبار معلوم کرتا تھا۔پھر قرون ثلاثہ کے بعد بموجب خبر انبیاءؑ کے اس بھوت نے رہائی پائی اور ہر روز اس کی طاقت بڑھتی گئی۔یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری میں بڑے زور سے اس نے خروج کیا۔اسی بھوت کا نام دجال ہے۔جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے اور اسی بھوت سے خدا تعالیٰ نے
سورتہ فاتحہ کے اخیر میں ولا الضالین کی دعا میں ڈرایا ہے۔"
ایک طرف تو مرزا صاحب عیسائیت کے بھوت کو دجال کہتے ہیں اور دوسری طرف لکھتے ہیں:
"یہ تحقیق شدہ امر ہے اور یہی ہمارا مذہب ہے کہ دراصل دجال شیطان کا اسم اعظم ہے۔ جو مقابل خدا کے اسم اعظم کے ہے۔جو اللہ الحی القیوم ہے۔اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ نہ حقیقی طور پر یہود کو دجال کہ سکتے ہیں۔نہ نصاری کے پادریوں کو اور نہ کسی اور قوم کو۔کیونکہ یہ سب خدا کے عاجز بندے ہیں۔
خدا نے اپنے مقابل پر ان کو کچھ اختیار نہیں دیا۔پس کسی طرح ان کا نام دجال نہیں ہوسکتا۔"
مرزا صاحب دہریوں کو بھی دجال کہ رہے ہیں۔ حالانکہ دہریوں کے دجال ہونے کا ذکر بھی کسی حدیث میں نہیں ہے۔
"دجال کی سواری"
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"ایک بڑی بھاری علامت دجال کی اس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ ستر باع کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ دخان کے زور پر چلتی ہیں ہیں جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے۔اس جگہ
ہمارے نبیﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام و مقتدا یہی دجالی گروہ ہے۔اس لئے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا"
بتایا گیا ہے۔جس کے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ 40 ہاتھ ہوگا۔اور وہ نہایت تیزی سے سفر بھی کرے گا۔مرزا صاحب ریل گاڑی کو دجال کی سواری کا نام دے رہے ہیں۔ باوجودیکہ ریل گاڑی میں حدیث میں بتائے گئے گدھے کی کوئی نشانی نہیں پائی جاتی خود مرزا صاحب نے اسی دجال کے گدھے پر کئی دفعہ سفر
بھی کئے ہیں۔اور مسیح موعود ہونے کا دعوی بھی کیا ہے۔کیا گدھا دجال کی سواری ہوگا یا مسیح موعود کی؟؟
خلاصہ یہ ہے کہ دجال نہ ہی مرزا صاحب کی تحریرات کے مطابق عیسائی پادریوں کا گروہ یا جھوٹوں کا گروہ ثابت ہوتا ہے،اور نہ شیطان اور بااقبال قومیں دجال ثابت ہوتی ہیں۔اور نہ ہی ریل گاڑی
دجال کی سواری ثابت ہوتی ہے۔
ہمارا قادیانیوں کو تاقیامت چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایسی حدیث دکھائیں جس میں حضورﷺ نے عیسائی پادریوں کے گروہ یا جھوٹوں کے گروہ کو دجال قرار دیا ہو یاشیطان اور بااقبال قوموں کو دجال قرار دیا گیا ہو۔ اور ساتھ ہی ریل گاڑی کو شیطان کی سواری بھی قرار دیا گیا
ہو۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ قادیانی تاقیامت ایسی کوئی حدیث پیش نہیں کرسکتے۔
"مرزا صاحب اور دجال میں تقابلی جائزہ"
اگر ہم مرزا صاحب کی تحریرات کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہی اپنی تحریرات کے مطابق دجال ہیں۔
نشانی نمبر 1
"مرزا صاحب اور دجال کی نسل ایک"
مسلم کی حدیث نمبر 7349 سے پتہ چلتا ہے کہ دجال یہودی یعنی اسرائیلی نسل سے ہوگا۔
مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو اسرائیلی لکھتے ہیں۔جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اُس حدیث کے جو کنز العمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی
لیجئے مرزا صاحب کی دجال کے بارے لکھی گئی تینوں نشانیاں مرزا صاحب میں ثابت ہوگئیں۔
1) دجال کے پیروکاروں کی تعداد بھی 70 ہزار اور مرزا صاحب کے مرید بھی 70 ہزار ہی نکلے۔
2) مرزاصاحب نے خود اقرار کیا کہ دجال کا ساتھ دینے والے مسلمان کہلانے والے ہوں گے جب کےمرزا کو ماننے والے پہلے مسلمان ہی تھے مگر مرزا (دجال) کو مان کر یہودی صفت ہو گئے۔
3) یہ تمام باتیں اس وقت ظہور پذیر ہوں گی جو مرزا صاحب کا وقت ہے یعنی مرزا کے دور میں یہ تمام باتیں پوری
ہوگیئں۔
نشانی نمبر 4
بخاری کی حدیث نمبر 1881 سے پتہ چلتا ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔جبکہ یہ نشانی مرزا صاحب میں بھی پوری ہوئی۔مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 842 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 557)
مرزا صاحب بھی ساری زندگی مکہ اور مدینہ نہ جاسکے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل تحریر سے ثابت ہے۔
مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:
"ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مسیح موعود(مرزا قادیانی) نے حج نہیں کیا۔اعتکاف نہیں کیا۔زکوۃ نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی۔"
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 623 روایت نمبر 672)
نشانی نمبر 5
مسند احمد کی حدیث نمبر 15017 میں لکھا ہے کہ دجال ایک گدھے پر سواری کرے گا جس کے دونوں کانوں کے درمیان 40 ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔مرزا صاحب نے
بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 841 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 556)
نیز مرزا صاحب ریل گاڑی کو دجال کی سواری لکھتے ہیں۔
جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"ایک بڑی بھاری علامت دجال کی اس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ ستر باع کیا گیا ہے اور
ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ دخان کے زور پر چلتی ہیں ہیں جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے۔اس جگہ ہمارے نبیﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام و مقتدا یہی
دجالی گروہ ہے۔اس لئے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا۔"
مرزا صاحب کے بیٹے اور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کے جنوری 1903ء کے جہلم کے سفر کی
رویئداد یوں لکھی ہے۔
"1902ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوا۔چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گو آپ
ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لئے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اُترے ہیں اُس وقت وہاں اس قدر انبوہِ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی۔"
(سیرت مسیح موعود صفحہ 48)
حوالہ نمبر 3
مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کے 2 نومبر 1904ء کے سیالکوٹ کے سفر کی رویئداد یوں لکھی ہے۔
"جب لیکچر ختم ہو کر گھر کو واپس آنے لگے تو پھر بعض لوگوں نے پتھر مارنے کا ارادہ کیا۔لیکن پولیس نے اس مفسدہ کو بھی روکا۔لیکچر کے بعد دوسرے دن آپ واپس تشریف لے آئے۔
ور اس موقع پر بھی پولیس کے انتظام کی وجہ سے کوئی شرارت نہ ہوسکی۔جب لوگوں نے دیکھا کہ ہمیں دکھ دینے کا کوئی موقع نہیں ملا تو بعض لوگ شہر سے کچھ دور
باہر جاکر ریل کی سڑک کے پاس کھڑے ہوگئے۔ اور چلتی ٹرین پر پتھر پھینکے۔لیکن اس کا نتیجہ سوائے کچھ شیشے ٹوٹ جانے کے اور کی
کیا ہوسکتا تھا۔"
(سیرت مسیح موعود صفحہ 54)
حوالہ نمبر 4
مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کی 1908ء میں وفات کے بارے میں یوں لکھا ہے:
"ساڑھے دس بجے آپ فوت ہوئے۔ اُسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ
آپ کی جماعت نعش لے کرروانہ ہوئی۔"
(سیرت مسیح موعود صفحہ 65)
یعنی مرزا صاحب جس سواری کو دجال کی سواری کہتے تھے زندگی بھر اسی پر سفر کرتے رہے اور موت کے بعد لاش بھی دجال کی سواری پر لے جانی پڑی۔
نشانی نمبر 6
مسلم کی حدیث نمبر 7373 سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال سیدنا عیسیؑ کا اتنا
بڑا مخالف ہوگا کہ ان کے ساتھ لڑائی کرے گا۔اگر ہم مرزا صاحب کو دیکھیں تو انہوں نے بھی سیدنا عیسیؑ کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
گستاخی نمبر 1
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں،مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ
نہیں ہوا ۔۔۔ آپ سے کوئی معجزہ ظاہر بھی ہوا تو وہ معجزہ آپ کا نہیں تالاب کا معجزہ ہے۔"
"آپ کی انہی حرکات کی وجہ سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے سخت ناراض رہتے تھے، اور ان کو یقین ہوگیا تھا کہ ضرور آپ کے دماغ میں کچھ خلل ہے اور وہ ہمیشہ چاہتے رہے کہ کسی شفاخانہ
میں آپ کا باقاعدہ علاج ہو،شاید خدا تعالٰی شفا بخشے۔"
دجال کا فتنہ اتنا سخت اور خطرناک فتنہ ہے کہ ہر نبیؑ نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے۔حضورﷺ نے بھی اپنی امت کو اس فتنے سے ڈرایا ہے۔بلکہ امت کو اپنی دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے۔
حضورﷺ کی احادیث کے مطابق مطابق دجال
انسانوں کی طرح ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔ اور وہ قرب قیامت سیدنا عیسیؑ کے زمین پر نزول سے کچھ عرصہ پہلے ظاہر ہوگا۔دجال سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں قتل ہوگا۔
درج ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں جن سے دجال کے انسانوں کی طرح مستقل وجود اور قرب قیامت سیدنا عیسیؑ کے زمین پر نزول سے کچھ عرصہ پہلے
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"
(حصہ سوم)
روایت نمبر 3
"چاند اور سورج گرہن کا مشہورِ زمانہ مرزائی دھوکہ"
قادیانی دارقطنی کی درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس روایت میں حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جب امام مہدی آئے گا تو
اس کے وقت میں چاند کی 13 کو چاند گرہن اور 27 تاریخ کو سورج گرہن لگے گا پس جب مرزا صاحب نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اسی سال چاند اور سورج کو گرہن لگا تھا۔لہذا یہ اس بات کی نشانی ہے کہ مرزا صاحب ہی سچے امام مہدی ہیں۔
آیئے پہلے روایت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر اس کا علمی
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"
(حصہ دوم)
روایت نمبر 2
قادیانی ابن ماجہ میں موجود درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس امام مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے کہ ان کا نام محمد ہوگا، ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا،وہ
سادات میں سے ہوں گے،اور ان سے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں بیعت کی جائے گی انہوں نے نہیں آنا بلکہ حضرت عیسیؑ ہی امام مہدی ہوں گے۔
آیئے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر اس کا علمی،تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"
(حصہ اول)
روایت نمبر 1
مرزا صاحب درج ذیل روایت پر باطل استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس روایت میں ذکر ہے کہ امام مہدی جس گاؤں میں ظاہر ہوں گے اس کا نام "کدعہ" ہے۔اور "کدعہ" قادیان کا ہی
پرانا نام ہے۔لہذا مرزا صاحب سچے امام مہدی ہیں۔
اس روایت کو مرزا صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہوا ہے۔آیئے سب سے پہلے مرزا صاحب کی تحریر کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس کا علمی رد کرتے ہیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"شیخ حمزہ ملک الطوسی اپنی کتاب جواہرالاسرار میں جو سنہ 840ھ
میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ زیل عبارت لکھتے ہیں۔درابعین آمدہ است کہ خروج مہدی از قریہ کدعہ باشد۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج المھدی من قریۃ یقال لھا کدعہ ویصدقہ اللہ تعالیٰ ویجمع اصحابہ من اقصی البلاد علی عدۃ اھل بدر بثلاث مائۃ وثلاثہ عشر رجلاََ ومعہ
امام مہدی کے بارے میں درج ذیل باتیں ہمیں احادیث سے معلوم ہویئں۔اب اسی کے اوپر مرزا صاحب کو پرکھ لیتے ہیں۔
1) امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا۔ 2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
جبکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا۔ 2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کے والد کا نام غلام مرتضی تھا۔ 3) امام مہدی سادات میں سے ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب کا خاندان "مغل" تھا۔ 4) امام مہدی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے جب ان کو پہچان کر ان کی بیعت کی جائے
گی۔جبکہ مرزا صاحب ساری زندگی مکہ مکرمہ نہیں جاسکے۔ 5) امام مہدی حاکم(بادشاہ) ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب غلام تھے۔ 6) امام مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔ 7) امام مہدی کی حکومت 7 یا 9 سال ہوگی۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب