پنجاب پہ انگریزوں کا قبضہ ۔
انیسویں صدی کے آغاز میں پنجاب پہ سکھوں کا قبضہ تھا موجودہ صوبہ خیبرپختونخواہ کا بیشتر بندوبستی علاقہ اسوقت اس سلطنت کا حصہ تھا 1846 میں پہلی انگریز سکھ جنگ ہوئی جسکے نتیجے میں انگریز جالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع پہ
قابض ہو گئے 1849 میں دوسری سکھ انگریز جنگ ہوئی جسکا سبب انگریز کی پیادہ فوج کی دو رجمنٹس کی بغاوت بنی اس بغاوت کو کچلتے کچلتے پورا پنجاب انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا اس قبضے کے بعد سکھوں کے مستقبل کے بارے انگریز فوج کے اعلیٰ افسران میں بحث کا آغاز ہوا کہ آیا انکو انگریز فوج
میں شامل کیا جائے یا ان سے اسلحہ واپس لیکر انکو منتشر کر دیا جائے سکھوں کی تربیت فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے ہاتھوں ہوئی تھی لہٰذا یہ اچھے تربیت یافتہ تھے اور انگریزوں کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے تھے لیکن دوسری طرف ان میں مذہبی جذبہ بہت زیادہ تھا جسکی وجہ سے انکی طرف
سے بار بار بغاوت کا خدشہ بھی اپنی جگہ موجود تھا فیصلہ یہ ہوا کہ سکھوں سے اسلحہ لیکر انہیں منتشر کر دیا جائے سکھوں سے مختلف قسم کے ایک لاکھ بیس ہزار ہتھیار واپس لیے گئے اور پچاس ہزار سکھ سپاہیوں کو لہور میں جمع کر کے کچھ معاوضہ دینے کے بعد منتشر کر دیا گیا انگریزوں نے سکھوں کے
خلاف یہ ساری جنگ اپنی بنگال آرمی کے ذریعے لڑی تھی واضح رہے کہ برطانیہ نے برصغیر میں گھسنے کے بعد ابتداء میں وفاق کے تحت تین صدارتی افواج (presidential armies) قائم کی تھیں یعنی بنگال آرمی بمبئی آرمی اور مدراس آرمی ۔ پنجاب پر قبضے میں پیش پیش رہنے والی بنگال آرمی میں موجود مقامی
فوجیوں کا تعلق زیادہ تر بنگال بہار اور اڑیسہ کے علاقوں سے تھا اور بنگال آرمی کے انگریز فوجیوں کو شامل کیا جائے تو پنجاب میں بنگال آرمی کی کل افرادی قوت پچاس ہزار بنتی تھی
انگریز کے تحت پنجاب کے پہلے فوجی دستے کا قیام ۔
پنجاب اور سرحد پہ قبضے کے بعد انگریزوں کی توجہ
قبائلی علاقوں کیجانب مبذول ہوئی کیونکہ اس سے پہلے سکھوں کو بھی قبائل کی طرف سے حملوں کا سامنا رہتا تھا انگریز نے پنجاب کو قبائل کے حملوں سے محفوظ کرنے کے لیے "پنجاب کی بے قاعدہ سرحدی فوج" قائم کی آغاز میں اس بے قاعدہ دستے میں چار یورپی افسر 16 مقامی افسر اور نو سو سپاہی بھرتی
کیے گئے مقامی سپاہیوں میں 50 فیصد پنجابی مسلمان 20فیصد سکھ اور 25 فیصد باقی قوموں کے ہندوستانی شامل تھے اس دستے کا قیام "پاکستان فوج" کا نقطہءآغاز ھے
بے قاعدہ فوج میں بھرتی ہونے والے پنجاب کے سپاہیوں کی کارکردگی سے مطمئن ہونے پر 1851 میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو
بنگال آرمی میں باقاعدہ طور پہ بھرتی کرنے کی اجازت دے دی گئی تاہم یہ اجازت اس شرط پہ تھی کہ ہر رجمنٹ میں دو سو سے زیادہ سکھ نہ ہوں کیونکہ سکھوں سے انگریزوں کو بغاوت کا خطرہ بدستور باقی تھا البتہ عملاً ایک رجمنٹ میں بمشکل بیس سکھ ملتے تھے اور باقی زیادہ تر مسلمان اور پھر ہندو
ہوتے تھے نتیجتاً بنگال فوج کی کل 47 رجمنٹس میں سکھوں کی کل تعداد تین ہزار سے تجاوز نہ کی
1857 کی جنگ آزادی میں پنجاب کا کردار ۔
10 مئی 1857 کو بنگال آرمی کی میرٹھ میں تعینات دو رجمنٹوں "بیسویں بنگال مقامی پیادہ رجمنٹ" اور "تیسری ہلکی گھڑسوار رجمنٹ" نے بغاوت کر دی آہستہ آہستہ
باغیوں کے ساتھ آبادی کے دیگر طبقات بھی شامل ہو گئے انگریز کے لیے یہ سخت پریشانی کی بات تھی کیونکہ پنجاب پہ قبضہ برقرار رکھنے کی ضامن بنگال آرمی ہی میں بغاوت ہو گئی تھی بنگال آرمی میں اسوقت تئیس ہزار گورے افسر تھے جنکی زیادہ تعداد پنجاب میں تعینات تھی بغاوت کو پنجاب تک پھیلنے
سے روکنے کے لیے انگریز نے پنجاب میں تعینات بنگال آرمی کے مقامی سپاہیوں سے بھاری اسلحہ واپس لینے کا فیصلہ کیا بنگال آرمی میں اسوقت مقامی فوجیوں کی کل تعداد ایک لاکھ پینتیس ہزار تھی پنجاب میں تعینات دس ہزار تین سو چھبیس گورے افسروں نے پنجاب کی بے قاعدہ سرحدی فوج (PIFFers) کے
ساتھ ملکر جسکی افرادی قوت اسوقت تک تیرہ ہزار چار سو تیس تک پہنچ چکی تھی امرتسر لہور ملتان اور جہلم میں بنگال آرمی کے مقامی فوجیوں سے ہر قسم کے ہتھیار واپس لے لیے یوں پنجاب میں تعینات فوج میں بغاوت کا خطرہ ختم ہو گیا پنجاب سے فارغ ہونے کے بعد دہلی کی طرف توجہ کی گئی دہلی میں
موجود افسران جنکی قیادت جنرل آرتھر ولسن کر رہا تھا مسلسل پیغام بھیج رہے تھے کہ اگر جلدی کمک نا پہنچی تو انہیں مزید پیچھے ہٹنا پڑے گا چنانچہ انکی مدد کے لیے پنجاب سے مزید رجمنٹس بھیجی گئیں جن میں درج ذیل رجمنٹس شامل تھیں 1- بارہ مختلف یورپی رجمنٹس 2- چوتھی سکھ رجمنٹ
3- پہلی پنجاب پیادہ رجمنٹ 4- پہلی پنجاب گھڑسوار رجمنٹ 5- پنجاب گھڑسوار فوجیوں کا دوسرا اسکواڈرن 6- پنجاب گھڑسوار فوجیوں کا پانچواں اسکواڈرن
لیکن اس کمک سے بھی ضرورت پوری نہیں ہوئی
جاری ھے
سرائیکی نہ زبان ھے نہ پنجابی زبان کا لہجہ ھے
پنجابی زبان کا معیاری لہجہ ماجھی ھے۔ ماجھی بولنے والوں کا علاقہ "پنجاب کے درمیان کا علاقہ" ھے۔ جبکہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجے؛ مالوی ’ دوآبی ’ ڈوگری ’ پہاڑی ' پوٹھو ھاری ’ ھندکو ' شاھپوری ’ جھنگوچی بولنے والوں کے علاقے "پنجاب کے
ماجھی بولنے والوں اور پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے بولنے والوں کے "سرے کے علاقوں" کے "درمیان والے علاقے" ھیں۔
پنجاب کے "سرے کے علاقوں" میں پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے ذیلی لہجے
01۔ پوادھی
02۔ بانوالی
03۔ بھٹیانی
04۔ باگڑی
05۔ لبانکی
06۔ کانگڑی
07۔ چمبیالی
ایک صاحب نے مجھے کہا ھے کہ میں زہری کے بیان پہ بات کر کے پنجابی قومیتی تعصب پھیلا رہا ہوں اکثر یہ بات کرنے والے خود بھی پنجابی ہی ہوتے ہیں جو سب سے پہلے مسلم اور سب سے پہلے پاکستانی بننے کے دعویدار ہوتے ہیں ان صاحب اور ان جیسے ہر "پاکستانی" اور 47 کے بعد جنمے نئے "مسلم" کے لیے
میرا جواب کل بھی یہی تھا اور آئندہ بھی یہی ہو گا 👇
ہر شخص کی قوم ہوتی ھے اور وہ قومپرست بھی ہوتا ھے آپ کیا ہیں ؟ پاکستانی ؟
تو آپ پاکستانی قومپرست ہیں میں پاکستانی قومپرستی کو مذہبی زہر سمجھتا ہوں جو مسلم قومیت پہ بنی جھوٹی تاریخ مطالعہءپاکستان پہ بیس کرتی ھے اسلیے اسے نہیں مانتا میں پنجابی پشتون بلوچ سندھی قومی تاریخ کو مانتا
پانی کہاں مرتا ھے
پاکستان کے مذہبی ملک ہونے کو جب پسماندگی کیوجہ بتایا جاتا ھے تو کچھ دوست اس پہ یہ کہہ کر اعتراض کرتے ہیں کہ "اسرائیل بھی تو مذہب کی بنیاد پہ قائم ہوا ھے وہ کیوں ترقی کیجانب گامزن ھے اسلیے ہمیں پاکستان کی مذہبی شکل ہوتے ہوئے ترقی کی امید رکھنی چاہیے"
لیکن
حقیقت یہ نہیں ھے اسرائیل یہودیت کے نفاذ کے لیے قائم نہیں ہوا یہودی نسل کے بچاو کے لیے یا انہیں وطن دینے کے لیے قائم ہوا ھے جبکہ اسکے برعکس پاکستان مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے لیے قائم کیا گیا اور اسے جناح صاحب نے اسلام کی تجربہ گاہ کہا اسلیے اسکے آئین میں مذہب داخل ھے جو
اسکی پسماندگی کیوجہ ھے اس بات کو ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں
یووال نوح ہراری اسرائیلی ھے یہودی بھی ھے اسکی انسانی ارتقاء پہ لکھی کتاب کو عالمی شہرت نصیب ہوئی یووال یہودی ہوتے ہوئے اس کتاب میں آدم و حوا کے رواجی مذہبی عقیدے کے خلاف جا کر ارتقائی علم کے سائنسدانوں کی
برصغیر میں تین ہی فرقے ہیں اُتر پردیشوی الگ پٹھانوی الگ اور پنجابوی، یہ تین الگ الگ مسلک ہیں، پنجاب کا وہابی سرحد اور اترپردیش کے وہابی سے مختلف المزاج ہوگا، پنجاب کا دیوبندی، بریلوی، شیعہ بھی سرحد و اترپردیش کے
دیوبندی،بریلوی، شیعہ سے مختلف مزاج رکھتا ہوگا، عقائد بدلنے سے مزاج نہیں بدلتے عرب چودہ صدیاں قبل بھی لونڈیاں غلام رکھنا پسند کرتے تھے آج بھی کرتے ہیں عقیدہ انکا کچھ نہیں بگاڑ سکا، پختون صدیوں پہلے بھی امرد پرست، سطحی العقل تھے آج بھی ویسے ہی ہیں عقیدہ انکا کچھ نہیں بگاڑا سکا،
اسی طرح اُترپردیش کا مزاج پنجابیوں کے مزاج سے بہت مختلف ہے
چلیں کچھ کھول کر بیان کردیتے ہیں بریلویت اور دیوبندیت کا مسئلہ یہ ہے کہ انکے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک صرف دو ایم بی کی ہے اب اتنی چھوٹی سپیس میں چیدہ چیدہ چیزیں ہی سیو ہوپاتی ہے اُترپردیش کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اس خطے نے
آٹھ پنجابی مزدور ہی اغواء ہوئے ہیں کونسا طوفان آگیا؟ چند دنوں میں انکی لاشوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر بھی نشر ہو جائیں گی، اچھا البتہ اگر ان آٹھ پنجابی مزدوروں کی جگہ آٹھ امریکی ٹورسٹ اغواء ہوئے ہوتے تو ریاست میں وزیراعظم سے لے کر محافظِ اعظم تک سب انکی بازیابی کے لیے تن من دھن
کی بازی لگا دیتے یہ بھی نہیں تو اگر آٹھ پخ پخے یا بلوچ پنجاب میں اغواء ہوجاتے تو پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے چوبیس گھنٹے میں انکو پنجاب کی ساتویں تہہ سے بھی برآمد کرلیا جاتا، اور پریشان نا ہوں اختر مینگل کہ جس کا بھائی بلوچ ملیٹنٹ تنظیم چلاتا ہے وہی اختر مینگل ملتان میں
کئی مرتبہ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کو بلوچستان میں شامل کرنے کے لیے جلوس کرچکا ہے، یہ پنجاب ہے اسے ریاست پاکستان نے تین روٹھے ہوئے بھائیوں کو راضی رکھنے کے لیے گدھے کے کردار کے طور پر رکھا ہوا ہے ملک بنانا ہے پنجاب توڑ دو ملک بچانا ہے پنجاب توڑ دو دوسرے صوبے راضی کرنے ہیں
لال مسجد میں کوئی ظلم نہیں ہوا تھا لال مسجد کے دیوبندیوں نے حاکم کے خلاف خروج کیا تھا دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستان کے دارلحکومت میں اکٹھا کیے تھے تا کہ اس ملک پر سعودیہ کے غلاموں کی حکومت آجائے لیکن جب آپ لال مسجد کے حامیوں سے یہی بات کریں گے تو وہ عجیب و غریب دنیا جہان کی
تاویلیں اور دلیلیں لائیں گے کہ وہ مظلوم تھے ان پر ظلم ہوا دوسری طرف اسی لال مسجد گروپ اور اس قبیل کے سبھی چمونوں کی کھُلی رائے واقعہ کربلا کے بارے میں یہ ہے
کہ آقا حسینؑ نعوذباللہ باغی تھے کیونکہ انہوں نے حاکم کے خلاف خروج کیا تھا اس لیے واقعہ کربلا سے یزید پر کوئی بار نہیں
یزید آج بھی جنت کے تمام پیکجز کا اتنا ہی حقدار ہے جتنا کوئی دوسرا مسلمان، حالانکہ حقیقت میں اگر حسینؑ باغی تھے تو حضرت امیر معاویہ بھی باغی تھے کیونکہ انہوں نے خلیفہ کے ساتھ جنگ کی لیکن یہ بات کرنے سے زبان تھتھلانے لگتی ہے اور اموی فوجوں سے آج کے دن بھی ڈر لگنے لگتا ہے