#thread
میں خود اردو بولنے والے مہاجر ماں باپ کا سندھ میں پیدا بیٹا ہوں۔ میں آپ کی بات سے %100 متفق ہوں اور میری نظر میں مہاجروں کے اس ناکامی کی طرف گامزن رویے کی کچھ وجوہات یہ ہیں۔ 1. مہاجروں کا Universe کراچی، حیدرآباد ہے۔ یہ اس سے باہر نکل کر نا دیکھنا چاہتے ہیں نا سوچنا
چاہتے ہیں۔ 2. مہاجروں نے دوسری قوموں کے ساتھ ملنے جلنے، رشتے بنانے کی ارادی کوشش نہیں کی۔ دوسری قوموں میں شادیاں نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نا تو دوسری اقوام سے یاری دوستی کی اور نا ان کے تمدن اور مسائل کو سمجھ پائے۔ 3. کسی حد تک تمدنی بالا دستی کا خمار بھی اس رویے کا باعث ہے۔
4. میں جب پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرتا ہوں تو کئی دوست بہت حیران ہوتے ہیں۔ 5. مہاجروں کی ذیادہ تر سوچ فیڈریشن کے جھکاؤ میں نظر آتی ہے کجا یہ کہ ان کو فوج سے مار نا پڑ رہی ہو۔ دوسری قوموں پر فوج کے مظالم کی صورت میں مہاجر فوری طور پر فوج کی حمایت میں گنگناتے نظر آتے ہیں۔
6. آج کی مہاجر جنریشن میں سیاسی سوجھ بوجھ، دور اندیشی کی شدید کمی نظر آتی ہے۔ ذیادہ تر مہاجر فوج کے بیانیے سے مطمئن نظر آتے ہیں بشرطیکہ فوج انہیں نا مار رہی ہو۔ 7. کراچی اور حیدرآباد کے مہاجروں کو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ان کی طویل مدتی بھلائی سندھی اور کراچی کے پختون سے
پکی دوستی کر لینے میں ہے۔ 8. آج ملک میں جمہوریت کیلیے ہوتی جدوجہد سے مہاجر نیشن لاتعلق نظر آتا ہے اور اس ادراک سے محروم نظر آتا ہے کہ اگر انہوں نے اس جدوجہد میں اپنا حصہ نا ڈالا تو مہاجر ایک بار پھر ترقی، وسائل اور اقتدار کی ریس میں ہار جائیں گے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#thread
اسلام کا گولڈن دور (8 - 13 صدی) جسے انسانی تاریخ کا سب سے روشن ترین دور کہا جاتا ہے اس کی بتی گل کرنے والے صاحب کا نام ہے - امام غزالی۔
امام غزالی نے منطق، فلسفہ، سائینس، علم الاعداد اور سب سے بڑھ کر تجسس کو حرام قرار دیا اور یوں مسلم دنیا اندھیروں میں ڈوب گئی۔
آئیے ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ تجسس کے ذریعے مغرب نے کیسے بجلی کو جنگلی بھینسے سے پلی ہوئی بھینس بنا لیا۔
1705 میں انگلش سائینس دان Francis Hauksbee نے بوتل میں سے ہوا نکال کر اس کو تیزی سے گھمایا تو بوتل کے اندر اسے عجیب طرح کی روشی نظر آنے لگی۔ تجسس ہوا کیوں؟
1729 میں Stephen Gray نے ایک جھولا بنایا، ایک چھوٹے لڑکے کو اس پر بیٹھایا اور اس کے بالکل نیچے سونے کے ورق بکھر دئیے۔ہاتھ سے چلنے والی سادہ مشین میں Static Electricity بنائی جس نے بچے کے جسم کو چارج کر دیا۔ بچے نے نیچے پڑے سونے کی پتیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو پتیاں اڑ کر
#thread
ہماری تاریخ کا مختصر جائزہ:
1947: قائداعظم نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔
1948: خراب ایمبولنس میں وفات پاگئے۔
1947: امیرالدین قدوائی نے قومی پرچم ڈیزائن کیا۔
2019: بےقصور پوتے نے 20 ماہ NAB ٹارچر سیل میں کاٹے۔
1906: نواب محسن الملک نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔
ا1960: نواسے کو جنرل ایوب نے ازیتیں دے کر ماردیا۔(حسن ناصر)
1921: حسرت موہانی مسلم لیگ کے 13 ویں صدر بنے۔
1995: پوتے کو دہشتگرد قرار دیکر مار دیا گیا۔
1948: فاطمہ جناح نے آزادی کشمیر کیلئے پیسے دیئے۔
1964: مس جناح کو غدار قرار دیا گیا۔
1949: احمد چھاگلہ نے قومی ترانے کی دھن مرتب کی۔
1979: خاندان کو ضیاء دور میں ملک چھوڑنا پڑا۔
1949: بیگم رعنا لیاقت نے "ویمن نیشنل گارڈ" کی بنیاد رکھی۔
1951: رعنا لیاقت کوطوائف قرار دیا گیا۔
1940: فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی ۔
1954: فضل الحق غدار قرار پائے۔
#thread
پختون نیشن تین حصوں میں بٹا ہوا ہے، اس ہی لیے نقصان اٹھا رہا ہے۔
پہلا گروپ
یہ نیشنلسٹ گروپ ہے جس کی آج راہنمائی منظور پشتین کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ آئینی حقوق اور وزیرستان سے طالبان کو نکالنا اور امن و امان کا ہے۔ فوج ان کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے اور انہیں
ملک دشمن، غدار، انڈین ایجنٹ اور افغان NDS ایجنٹ ہونے کی گالی دیتی ہے۔
دوسرا گروپ
یہ پختون غریب، غیر تعلیم یافتہ، مذہبی ہیں اور طرح طرح کی مذہبی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ آئین نہیں، شریعت ہے۔ یہ طالبان کیلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہ خود کو عظیم تر مسلم امہ کا حصہ
پہلے سمجھتے ہیں اور بہت بعد میں پشتون سمجھتے ہیں۔ ان کی شناخت اسلام ہے، پشتون نیشن نہیں۔ چنانچہ یہ گروہ بھی نیشنلسٹ PTM سے عداوت رکھتا ہے اور ان کی جدوجہد یا مصیبت میں ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا۔ یہ لوگ نیشنلسٹ موومنٹ کو شریعت کی مومنٹ سے متصادم سمجھتے ہیں۔
I HAVE A DREAM
47 years ago, a great #Pakistan leader, in whose symbolic shadow, the parliament signed the Emancipation Proclamation. This momentous decree came as a great beacon light of hope to 70 million civilian slaves who had been seared in the flames of withering injustice.
It came as a joyous daybreak to end the long night of their captivity.
But 47 years later, the Civilian still is not free. 47 years later, the life of the Civilian is still sadly crippled by the manacles of segregation and the chains of discrimination.
47 years later, the Civilian lives on a lonely island of poverty in the midst of a vast ocean of Military’s material prosperity. 47 years later, the Civilian is still languished in the corners of Pakistan’s economic slums and finds himself an exile injustice, and opportunities.