#thread
اسلام کا گولڈن دور (8 - 13 صدی) جسے انسانی تاریخ کا سب سے روشن ترین دور کہا جاتا ہے اس کی بتی گل کرنے والے صاحب کا نام ہے - امام غزالی۔
امام غزالی نے منطق، فلسفہ، سائینس، علم الاعداد اور سب سے بڑھ کر تجسس کو حرام قرار دیا اور یوں مسلم دنیا اندھیروں میں ڈوب گئی۔
آئیے ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ تجسس کے ذریعے مغرب نے کیسے بجلی کو جنگلی بھینسے سے پلی ہوئی بھینس بنا لیا۔
1705 میں انگلش سائینس دان Francis Hauksbee نے بوتل میں سے ہوا نکال کر اس کو تیزی سے گھمایا تو بوتل کے اندر اسے عجیب طرح کی روشی نظر آنے لگی۔ تجسس ہوا کیوں؟
1729 میں Stephen Gray نے ایک جھولا بنایا، ایک چھوٹے لڑکے کو اس پر بیٹھایا اور اس کے بالکل نیچے سونے کے ورق بکھر دئیے۔ہاتھ سے چلنے والی سادہ مشین میں Static Electricity بنائی جس نے بچے کے جسم کو چارج کر دیا۔ بچے نے نیچے پڑے سونے کی پتیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو پتیاں اڑ کر
بچے کے ہاتھ سے چپک گئیں۔ ثابت کیا کہ یہ انجانی قوت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ تجسس کیا کیسے؟
دیکھا کہ بجلی کو بعد میں استعمال کرنے کیلیے اسٹور نہیں کر پا رہا۔ تجسس کیا کیوں؟
18 صدی میں ہالینڈ کے Pieter van Musschenbroek بجلی کو اسٹور کرنے کے تجسس میں Electrical Charge بنانے والی مشین سے بجلی پانی کی بوتل میں بھرنے کی لاتعداد ناکام کوشش کیں۔ پھر ایک دن غلطی سے بوتل کو ہاتھ میں پکڑ کر بوتل میں بجلی بھر دی۔ انجانے میں بوتل کے منہ کو چھوا اور زبردست
بجلی کا جھٹکا کھایا۔ چوٹ لگی لیکن اس نے بجلی کو اسٹور کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا۔ اس شاندار تجربے کے اعزاز میں شہر کا نام رکھ دیا گیا Leiden Jar. وہ برتن جس میں بجلی بھر دی گئی تھی۔
کامیابی کی وجہ تھی - تجسس کی آگ
آسمان پر کڑکتی روشی بھی بجلی ہے۔ یہ بات 1750 میں Benjamin Franklin نے دنیا کو بتائی۔ اس بجلی کو قابو کرنے کیلیے بنجمن نے بجلی کے تار سے بندھی پتنگ کا آئیڈیا دیا جو بعد میں درست ثابت ہوا۔
وجہ - منطق، تجسس، سائینس
مچھیرے ایک مچھلی Torpedo Fish سے زوردار جھٹکا لگنے کی شکایت کرتے تھے۔ 1782 میں Henry Cavendish نے نے اپنی تجربہ گاہ میں ثابت کیا کہ تارپیڈو فش میں بجلی کا جھٹکا لگتا ہے۔ تب ثابت ہوا کہ بجلی زندہ جسم میں بھی ہوتی ہے۔ وولٹیج کا تصور یہیں سے شروع ہوا۔
تجسس کے کمالات
1790 میں اٹلی کے سائینس دان Alessandro Volta نے تارپیڈو فش کے جسم پر مزید تحقیق کر کے اپنی لیبارٹری میں دنیا کی پہلی بیٹری بنا ڈالی۔
تجسس کے کمالات۔
1808 میں Humphrey Davy نے دنیا کی سب سے بڑی بیٹری بنا ڈالی۔ پھر Davy نے حیران حاظرین کے سامنے اس بیٹری سے جڑے دو تاروں کو قریب لا کر طاقتور بجلی کا وہ نظارہ کروایا جو انسان نے پہلے کبھی نا دیکھا تھا۔ ثابت ہو گیا کہ لگاتار بہتی ہوئی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔
وجہ تھی تجسس
1812 میں Michael Faraday نے Sir Humphrey Davy کا لیکچر سنا اور خود کچھ کر ڈالنے کی ٹھان لی۔ Faraday نے بجلی اور magnet کا تعلق ثابت کیا، پہلی موٹر اور Dynamo ایجاد کیے اور Industrial Revolution کی بنیاد رکھ دی۔
وجہ تھی تجسس
فیراڈے نے تامبے کی تار میں بجلی گزاری اور اور پنڈولم نما تار کو مرکری کے محلول میں لٹکا دیا. جیسے ہی بجلی کا سرکٹ مکمّل ہوا، وہ پینڈلم مرکری کے محلول میں گول گول گھومنے لگا. فیراڈے نے ثابت کر دیا کہ بجلی کی قوّت سے کام کروایا جا سکتا ہے. دنیا کی پہلی موٹر ایسی تھی.
تجسّس کے پھل
فیراڈے نے سوچا کہ اگر تامبے کی تاروں کے گچھے میں مقناطیس کو گھمایا جائے تو شاید کچھ ہو. جب ایسا کیا تو اسے نئی بجلی بنتی مل گئی. یہ تھا دنیا کا پہلا جنریٹر
تجسّس کے پھل
جمعہ 27 جولائی، 1876 کو اٹلانٹک سمندر میں ڈوبی بجلی کی تاروں کے ذریعے یورپ سے امریکہ پہلا ٹیلی گرام پیغام یہ پہنچا۔
"A treaty of peace has been signed between Austria and Prussia".
بجلی نے دنیا کو سکیڑ کر چھوٹا کر دیا۔ انسان قریب آگئے۔ خبر کی رفتار بڑھ گئی۔
تجسس کے پھل
19 صدی تک غروب آفتاب کے بعد روشنی کا ماخذ موم بتی تھی۔ 20 صدی میں برطانیہ میں پائپ کے ذریعے گیس لیمپ سے روشنی کی جاتی تھی جو پھر بھی بھدی روشی ہی دیتے تھے۔
تب Humphrey Davy کے تجربے کی بنیاد پر بجلی کی پہلی Electric Arc Light بنائی گئی جن کو گلیوں کو روشن کرنے کیلے لگا دیا گیا۔
آرک لائیٹ بہت تیز تھی اور گھروں کے اندر استعمال نہیں ہو سکتی تھی۔ تو 1879 میں Thomas Edison نے وہ مشہور زمانہ بلب بنا لیا جو آج بھی ہمارے گھروں کو روشن کرتا ہے۔
تجسس، سائینس، منطق، فلسفہ، علم الاعداد کے کمالات
اگلا چیلنج تھا کہ کیسے بجلی گھروں تک پہنچائی جائے۔ Edison نے DC بجلی کے جنریٹر سوکٹ سسٹم، تاریں اور میٹرز بنائے۔
تجسس نے دنیا کی راتوں کو روشن کر دیا۔
4 سستمبر، 1882 دوپہر کے 3 بجے نیو یارک کی JP Morgan بلڈنگ میں دنیا کا پہلا DC پاور جنریٹر چل پڑا اور آس پاس کے علاقے بجلی سے منور ہو گئے۔
تھامس ایڈیسن صحافیوں کی طرف مڑے اور بولے "I have accomplished what I had promised".
تجسس کرتی قومیں کامیاب ہوتی ہیں، آنکھ بند کرنے والے مسلم
ایڈیسن کے جنریٹر DC بجلی بنا رہے تھے جن سے دور افتادہ علاقوں کو بجلی نہیں دی جا سکتی تھی۔ شہروں میں لاتعداد پاور اسٹیشن کی ضرورت پڑ رہی تھی۔ تو اس کا حل پیش کیا Nikola Tesla نے AC کرنٹ کا آئیڈیا دے کر۔ Tesla نے Transformer اور alternating current motor بنا لی۔
نکولا ٹیسلا نے Westinghouse سے معاہدہ کر لیا اور اپنے AC کرنٹ کا آئیڈیا کی بنیاد پر نئے Electrical System کو بنانے کی بنیاد ڈال دی۔ ایڈیسن DC کرنٹ اور ٹیسلا AC کرنٹ کے وکیل بن کر بجلی گھروں کے بڑے بڑے کنٹریکٹ کرنے لگے۔
It was known as "War of Currents".
علم، تجسس، منطق کے کمالات
اس جھگڑے میں یہ ثابت کرنے کیلیے کہ DC کرنٹ محفوظ اور AC کرنٹ خطرناک ہوتا ہے، Harold P. Brown نے AC کرنٹ سے آوارہ کتے، بچھڑا اور گھوڑا AC بجلی کے جھٹکے سے مار کر ثابت کیا کہ ٹیسلا کا AC کرنٹ خطرناک ہے اور ایڈیسن کا DC کرنٹ محفوظ ہے۔
سوال، تجربے، تحقیق، سائینس، تجسس کے کمالات
براؤن کے اس تجربے سے امریکہ میں بلا تکلیف سزائے موت کیلیے AC بجلی کا پہلا استعمال 6 اگست 1890 کو 45 سالہ آدمی William Kemmler کو بجلی کی کرسی پر بیٹھا کر سزائے موت دے دی گئی۔
ٹیسلا کو معلوم تھا کہ اس جنگ میں AC کرنٹ سے دنیا کو ڈرایا جا رہا ہے۔ 21 مئی، 1891 کے دن لاتعداد الیکٹریکل انجینیرز کے سامنے اس نے ایک مخصوص لبادہ پہن کر اپنے جسم سے لاکھوں وولٹ بجلی گزاری اور محفوظ رہا۔
ٹیسلا نے جنگ جیت لی تھی۔ ایڈیسن کا DC کرنٹ یار گیا۔
علم، سائینس، آگہی کا سفر جاری ہے لیکن مسلمان امام غزالی کی تلقین پر عمل کرتے ہوئے آج بھی تجسس، علم الاعداد، سائینس، منطق کو ایمان کا دشمن سمجھتے ہیں۔
بظاہر انہیں معلوم ہے کہ ان کا ایمان منطقی سوچ کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکتا تو سوچا کہ سوچا ہی نا جائے۔ امام غزالی نے ۔۔۔
مسلم دنیا کو دو Choices دیں۔ یا تو وہ علم، عقل، سائینس، علم الاعداد، منطق، فلسفہ اور تجسس کو چن لیں اور کافر ہو کر جہنم کا ایندھن بنیں یا پھر امام کے سبق کو آنکھ بند کر کے ایمان بنا لیں اور اپنی جنت پکی کر لیں۔
مسلم دنیا نے دنیا سے آنکھیں بند کیں، اور جنت کا ٹکٹ کٹوا لیا۔
اس تھریڈ کا تمام مواد مندرجہ ذیل YouTube ویڈیو سے اخذ کیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو مزید جاننے کا شوق ہے، وہ اس ویڈیو کو دیکھیں اور اپنے مستقبل کے ارادوں پر دوبارہ غور کریں۔
#thread
Science and the Muslim World
بقیہ دنیا کے مقابلے میں آج کا مسلمان سائنس سے سینکڑوں برس پیچھے نظر آتا ہے. اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ مسلمان کو اس بات کا زرہ برابر دکھ نہیں ہے. یوم اول سے مسلمان دنیا کی سوچ اس فکر کے گرد گھومتی نظر آتی ہے کہ میں کتنا اچھا مسلمان ہوں، ...
میرا الله مجھ سے راضی ہے کہ نہیں اور کیا بعد از موت مجھے جنّت مل جائے گی. کسی پریشانی کے حل کے لیے مسلمان کی ترجیح عمل سے زیادہ دعا پر ہوتی ہے. خوشی ملی تو الله کا شکر. غم ملا تو الله سے رحم کی بھیک. کسی انسان نے ظلم کیا تو الله سے اس کی شکایات اور روز قیامت اس کو رگڑا دینے ...
... والی بد دعائیں دے کر مسلمان دل کو سکون مل جاتا ہے. مسلمان اپنے ارد گرد کی دنیا سے زیادہ بعد از موت کی ازلی زندگی اور دنیا میں دلچسپی رکھتے ہیں.
مسلمان زندگی کی اس سادہ سی ترکیب میں سائنس، منطق، تجسّس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا.
#thread
میں خود اردو بولنے والے مہاجر ماں باپ کا سندھ میں پیدا بیٹا ہوں۔ میں آپ کی بات سے %100 متفق ہوں اور میری نظر میں مہاجروں کے اس ناکامی کی طرف گامزن رویے کی کچھ وجوہات یہ ہیں۔ 1. مہاجروں کا Universe کراچی، حیدرآباد ہے۔ یہ اس سے باہر نکل کر نا دیکھنا چاہتے ہیں نا سوچنا
چاہتے ہیں۔ 2. مہاجروں نے دوسری قوموں کے ساتھ ملنے جلنے، رشتے بنانے کی ارادی کوشش نہیں کی۔ دوسری قوموں میں شادیاں نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نا تو دوسری اقوام سے یاری دوستی کی اور نا ان کے تمدن اور مسائل کو سمجھ پائے۔ 3. کسی حد تک تمدنی بالا دستی کا خمار بھی اس رویے کا باعث ہے۔
4. میں جب پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرتا ہوں تو کئی دوست بہت حیران ہوتے ہیں۔ 5. مہاجروں کی ذیادہ تر سوچ فیڈریشن کے جھکاؤ میں نظر آتی ہے کجا یہ کہ ان کو فوج سے مار نا پڑ رہی ہو۔ دوسری قوموں پر فوج کے مظالم کی صورت میں مہاجر فوری طور پر فوج کی حمایت میں گنگناتے نظر آتے ہیں۔
#thread
ہماری تاریخ کا مختصر جائزہ:
1947: قائداعظم نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔
1948: خراب ایمبولنس میں وفات پاگئے۔
1947: امیرالدین قدوائی نے قومی پرچم ڈیزائن کیا۔
2019: بےقصور پوتے نے 20 ماہ NAB ٹارچر سیل میں کاٹے۔
1906: نواب محسن الملک نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔
ا1960: نواسے کو جنرل ایوب نے ازیتیں دے کر ماردیا۔(حسن ناصر)
1921: حسرت موہانی مسلم لیگ کے 13 ویں صدر بنے۔
1995: پوتے کو دہشتگرد قرار دیکر مار دیا گیا۔
1948: فاطمہ جناح نے آزادی کشمیر کیلئے پیسے دیئے۔
1964: مس جناح کو غدار قرار دیا گیا۔
1949: احمد چھاگلہ نے قومی ترانے کی دھن مرتب کی۔
1979: خاندان کو ضیاء دور میں ملک چھوڑنا پڑا۔
1949: بیگم رعنا لیاقت نے "ویمن نیشنل گارڈ" کی بنیاد رکھی۔
1951: رعنا لیاقت کوطوائف قرار دیا گیا۔
1940: فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی ۔
1954: فضل الحق غدار قرار پائے۔
#thread
پختون نیشن تین حصوں میں بٹا ہوا ہے، اس ہی لیے نقصان اٹھا رہا ہے۔
پہلا گروپ
یہ نیشنلسٹ گروپ ہے جس کی آج راہنمائی منظور پشتین کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ آئینی حقوق اور وزیرستان سے طالبان کو نکالنا اور امن و امان کا ہے۔ فوج ان کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے اور انہیں
ملک دشمن، غدار، انڈین ایجنٹ اور افغان NDS ایجنٹ ہونے کی گالی دیتی ہے۔
دوسرا گروپ
یہ پختون غریب، غیر تعلیم یافتہ، مذہبی ہیں اور طرح طرح کی مذہبی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ آئین نہیں، شریعت ہے۔ یہ طالبان کیلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہ خود کو عظیم تر مسلم امہ کا حصہ
پہلے سمجھتے ہیں اور بہت بعد میں پشتون سمجھتے ہیں۔ ان کی شناخت اسلام ہے، پشتون نیشن نہیں۔ چنانچہ یہ گروہ بھی نیشنلسٹ PTM سے عداوت رکھتا ہے اور ان کی جدوجہد یا مصیبت میں ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا۔ یہ لوگ نیشنلسٹ موومنٹ کو شریعت کی مومنٹ سے متصادم سمجھتے ہیں۔
I HAVE A DREAM
47 years ago, a great #Pakistan leader, in whose symbolic shadow, the parliament signed the Emancipation Proclamation. This momentous decree came as a great beacon light of hope to 70 million civilian slaves who had been seared in the flames of withering injustice.
It came as a joyous daybreak to end the long night of their captivity.
But 47 years later, the Civilian still is not free. 47 years later, the life of the Civilian is still sadly crippled by the manacles of segregation and the chains of discrimination.
47 years later, the Civilian lives on a lonely island of poverty in the midst of a vast ocean of Military’s material prosperity. 47 years later, the Civilian is still languished in the corners of Pakistan’s economic slums and finds himself an exile injustice, and opportunities.