کراچی کی سیاسی ترکیب میں الطاف حسین وہ مسلمہ حقیقت ہے جس سے ضرب کھا کر مٹی سیاستدان بھی کندن بن جاتا ہے۔ میں آج تک اس گتھی کو سلجھانے میں ناکام رہا ہوں کے کیونکر ایک سیاستدان مٹی میں ضائع ہوتے نوجوانوں کو ملک کے بڑے ایوانوں میں پہنچا دیتا ہے لیکن خود ان ایوانوں میں حصہ لینے سے
اجتناب کرتا ہے۔ میری تیس سال کی الطاف حسین کی ذات پر مشاہدہ سے اب تک جو میں سمجھ پایا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کے وہ غلط ہو اور میرا صرف قیاس ہو کے الطاف حسین اپنی اوائل عمری سے ہی پاکستان کی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور اثر و رسوخ کا اندازا لگا چکے تھے اور ملکی ایوانوں کو
حاصل شدہ اختیارات کی محدودیت کو جان چکے تھے اور اب انکے سامنے صرف دو راستے تھے کے یا تو وہ اس نیم اختیار آتی نظام کی سیاست کے ایوانوں میں جا کر نواز شریف، زرداری اور عمران خان کی طرح اپنی جگ ہنسائی کرواتے یا پھر موجودہ طریق سیاست اختیار کرتے ہوے اپنے حمایت یافتہ نمائندوں کو ان
ان ایوانوں میں بھیج کر اس نیم اختیار اتی نظام سے عوام کی سہولت کے چند پیکیجز فوجی اسٹبلشمنٹ کے دانتوں میں سے نکلوا کر لاتے سو انہوں نے اس راستے کواختیار کرتے ہوے اپنے حمایت یافتہ نمائندے ایوانوں میں بھیجے ان نمائندوں کی اہلیت اور قابلیت پر سوالات ہیں لیکن وہ ایک علیحدہ موضوع ہے
ان نمائندوں کو بھیج کر الطاف حسین نے حتی المقدور کوشش کی ملک کی بالادست سیاسی قوتیں جن سے مل کر ملک کی نیم اختیارات رکھنے والی حکومتیں تشکیل دی گئیں کے ساتھ ایک ورکنگ ریلیشن شپ بنایا جائے اور ملک کو صحیح ڈگر پر ڈالا جائے اسی مقصد کے تحت دو ہزار تیراہ کا الیکشن اسی نعرے کی بنیاد
پر لڑا گیا کے اختیار سب کے لئے۔ لیکن اس غاصب طاقت جس کے پاس سب غصب شدہ اختیارات موجود ہیں اس نے کراچی کی مسلمہ سیاسی قوت کے عزائم کو بھانپتے ہوے کریک ڈاؤن شروع کیا اور الطاف حسین اور اس کے پیروکاروں کا دو ہزار سولہ کے بعد سے کراچی میں مکمل سیاسی پابندی لگا دی گئی اس طرزعمل پر
ملکی سیاستدانوں کی جانب سے مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی اور دوسری جانب عدلیہ نے بھی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے ہوے غاصب قوت کے اقدامات کو اپنے فیصلوں میں محفوظ کیا۔ کہتے ہیں وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا وہی عمل جو دو ہزار تیراہ کے بعد سے نواز شریف کی حکومت کے دوران الطاف حسین کے ساتھ
شروع کیا گیا تھا آج وہی نواز شریف اور ان کی دختر کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس مشکل وقت میں جب نواز شریف کے بھائی شہباز شریف جو کے وکٹ کے دونوں طرف سے کھیلنے کے ماہر ہیں بھی ان کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر جیل یاترا کے نام پر غاصب قوت کے مہمان بنے ہوے ہیں اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی قوت
جو کے نواز شریف کے بنائے گئے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم میں غاصب طاقت کے ایما پر اس لئے شامل کی گئی تھی کے کسی نا کسی طریقے سے پنجاب میں جو سیاسی شعور بیدار ہوا ہے اس کو نواز شریف اور ان کی دختر مریم نواز شریف کی سربراہی میں مجتمع ہونے اور اس کی بنیاد پر کسی بھی عوامی سیاسی احتجاج کو
مختلف حیلوں بہانوں سے موخر کروایا جائے جس میں پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے کامیاب رہی اور مختلف مواقع پر پی ڈی ایم کی رسوائی، شکست اور سبکی کا سبب بنتی رہی ہے۔ آج جبکے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی جن کا دعوی ہے کے وہ اس وقت اپنے نہیں بلکے ملک کی عام عوام کے حق اور اختیار کی جنگ لڑ رہے
ہیں اور اپنی اس تحریک کو “ ووٹ کو عزت دو” کا نام دیتے ہیں ۔ جب پیپلز پارٹی ، اے این پی جیسی سیاسی قوتیں عین وقت پر دھوکہ دے گئی ہیں اس کڑے وقت میں الطاف حسین کی جانب سے ماضی کی تمام تلخیوں، سازشوں اور غلط فہمیوں کو ایک جانب رکھ کر دست تعاون کی پیشکش ملکی سیاست میں ایک اہم پیش رفت
سمجھی جا رہی ہے۔ اب اس کڑی صورتحال میں نواز شریف جو کے اسی غاصب قوت کی محلاتی سازشوں کا شکار ہیں جن کے الطاف حسین رہے ہیں کو اس تعاون کی پیشکش کو سراہتے ہوے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کا مشترکہ سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ستر سال بیت چکے ہیں ہمارے ساتھ آزاد ہوے ممالک ترقی
کی راہ پر بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں اور بد قسمتی سے ہم ترقی کی راہ میں الٹے قدموں پر ہیں۔ اس ترقی کے سفر کو نئے سرے سے شروع کیا جائے اور ان غاصب قوتوں اور نام نہاد اداروں کو ان کی حدود میں لیجا کر قید کیا جائے۔ ان کی رعونت اور تکبر کو خاک میں ملاتے ہوے ان اداروں اور محکموں کو ان کے
کرتے ہیں اور ایک مشترکہ سیاسی جدو جہد کا راستہ اختیار کرتے ہوے ایک عوامی سمندر تشکیل دیکر اس غاصب قوت کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لیجاتے ہیں۔ @threadreaderapp
Please compile
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ڈاکٹر عمران فاروق غازی بانوے آپریشن اور شہید انقلاب، آخری وقت تک قائد کے بازو رہے۔
ان کی شخصیت پاکستانی فوج کیلئے اکہتر کی ہار جیسی شرمندگی سے مماثلت رکھتی تھی۔ ان کی جنگ براہ راست آئی ایس آئی سے تھی۔ جس طرح سے وہ کئی سال کراچی میں جاری بد ترین آپریشن کے دوران کراچی میں روپوش
رہ کر تنظیمی نیٹورک کو چلاتے رہے جبکے پاکستان بھر کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں جوشکاری کتوں کی طرح ان کی بو سونگھتے پھر رہی تھیں ان کو زچ کئے رکھا۔ یاد رہے اس ریاست نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر سات لاکھ روپوں کا انعام بھی رکھا۔ اور کئی بار اس ملک کی نالائق ایجنسیوں
نے ان کے قتل کئے جانے کی خبریں چلو آئیں بلکے صولت مرزا کی اولین جے آئی ٹی میں اس سے یہ بھی کہلوایا گیا کے اس نے بلوچستان کے کسی دور افتادہ علاقے میں عمران فاروق بھائی کی جان بھی لے لی ہے۔ ان سخت حالات اور پاکستانی فوج کی کیلئے ایک ڈراؤنے خواب بنے رہنے کے بعد اس وقت آپ کراچی سے
کبھی آپ لوگوں نے یہ سوچا ہے کہ یہ پنجابی فوج مہاجروں کے اتنا خلاف کیوں ہے ؟
جبکے مہاجر قوم نے ہمیشہ دامے درمے قدمے پاکستان کی سالمیت کیلئے اس فوج کا ہمیشہ ساتھ دیا اور صلے میں ہمیشہ پیٹھ میں خنجر پایا۔
نوزائدہ سلطنت کا نظام اور افسر شاہی کس نے بنائی لیاقت علی خان کی قیادت
میں کھڑی کی اور صلے میں لیاقت علی کی لاش ملی۔
بنگلہ دیش میں جب چننا پڑا تو اس فوج کو چنا ان کی حفاظت کی اور صلے میں پایا کیمپ میں کئی نسلوں کی زندگی۔
الطاف حسین نے بارہا ملکی سالمیت کیلئے خدمات پیش کیں اور ملک دشمن جماعتوں کا راستہ عرصہ دراز تک کراچی کی سیاست میں روکے رکھا
اور صلے میں پائے کئی ریاستی آپریشن، ماورائے عدالت قتل، لاپتہ نوجوان مسخ شدہ لاشیں سیاسی دفاتر کی مسماری، اور ملک شکنی کے الزامات۔
اس تمہید کے بعد آتے ہیں اصل مدعے کی طرف جو اس تھریڈ کے شروع میں لکھا گیا یعنی مہاجر قوم سے اس پنجابی فوج کی نفرت کی وجہ کیا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے
پیپلز پارٹی اور فوج کے مابین انیس سو اٹھاسی کی بینظیر جو حکومت ملنے سے پہلے معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ طے ہوا تھا کے کراچی کو چھوڑ کر پورے سندہ پر پیپلز پارٹی کی عملداری ہو گی اور کراچی کور کمانڈر کی عملداری میں ہو گا
اس معاہدے پر آج تک عمل ہوتا رہا لیکن اب اسٹیل ملز کی کھربوں روپوں کی زمین جو کے اتفاق سے اندرون سندھ اور کراچی کے بارڈر پر واقع ہے اس کی ملکیت پر دونوں دعویدار ہیں دونوں پارٹیوں کے پاس بہترین ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے ادارے موجود ہیں یعنی ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن
زرداری کی دورس نگاہوں نے عرصہ دراز پہلے فوج کی ڈی ایچ اے سٹی بنانے کے قدم سے اندازا لگا لیا تھا کے ان فوج اگلا قدم اسٹیل ملز کی زمینوں کیلئے اٹھائے گی سو اس نے ادارے کے مقابل بحریہ ٹاؤن کی پیٹھ تھپک کر اس کو میدان میں اتار دیا تھا اب ان دو ہاتھیوں کی جنگ میں سب سے بڑا نقصان
لونڈے بازی پنجاب میں ایک عام مشغلہ سمجھا جاتا رہا ہے اس لئے اکثر اس قبیح جرم کی سزا و جزا جا تعین علاقے کے معززین کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کا عموماً فیصلہ توبہ کرانے اور دو چار چھتر سے لیکر منہ کالا اور گنجا کر کے گدھے پر چکر دلانے تک ہوتا ہے۔ اب اس ہومیوپیتھک سزا
کے بعد لونڈے باز اور شیر ہو جاتا ہے اور پھر جب اس پر دوبارہ ہیجان چڑھتا ہے تو وہ پھر اپنے آپ کو اس علت سے روک نہیں پاتا اور پھر سے کسی معصوم شکار کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ عموماً معصوم بچے بچیاں خاص کر کے غریب گھروں والے ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں
سے آٹھ بچوں کیساتھ پنجاب میں کبھی نا کبھی زیادتی ہوتی ہے یا کوشش ہوتی ہے۔ سو اس معاشرے میں جیسے کے مذکورہ خبر میں ہے کے اس علت کا شکار نوجوان اس سے پیشتر دو بار اس قبیح جرم کا ارتکاب کر چکا تھا اور ہر بار علاقہ معززین جو کہ عموما وہی حرام زادے بزرگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ بچپن میں
عسکری نگرانی میں بننے والی پارٹی عموماً بانجھ ہوتی ہیں ان کی کوکھ سے لیڈر شپ نہیں نکلتی اسی بنا پر عسکری اداروں کو ہمہ وقت مختلف جہتوں پر کام کرنا پڑتا ہے جیسے اس وقت عسکری نگرانی میں تین مختلف پراجیکٹوں پر دن رات کام ہو رہا ہے۔
۱) شاہد خان آفریدی
۲) عالمگیر محسود
۳) اقرارالحسن
گو کے مندرجہ بالا لوگوں کو سیاست کا کوئی تجربہ نہیں لیکن جس فیکٹری میں ان کی اوور ہالنگ ہو رہی ہے اس میں سیاسی سوجھ بوجھ کو ایک ثانوی حیثیت دی جاتی ہے
جن خصوصیات کو وہاں اہمیت حاصل ہے اس میں سرفہرست بدتمیزی، بدزبانی، چرب زبانی، حماقتوں سے بھرا ماضی، گدھے کی طرح اثبات میں سر ہلانا
کسی بھی فیصلے کے وقت اپنے ہینڈلرز کی ہدایات کا انتظار کرنا۔
میری معلومات کے مطابق اس وقت دفاعی محکمہ یہ سمجھتا ہے کے مذکورہ گدھے مطلوبہ وزن (کار سرکار) اٹھانے کے قابل نہیں ہیں لیکن اب انکی فوری ضرورت آن پڑی ہے کیونکہ ایک دوسرا ذریعہ جو کے عدلیہ سے تعلق رکھتا ہے اس کے مطابق کسی
کرکٹر کے ذریعے ملک کے صورتحال ٹھیک کروانے کا عسکری منصوبہ جعلی نیازی کی صورت میں اب تک جاری ہے ہدایتکار کی نظر میں فیل ہو چکا ہے اسی لئے دوسرے گھوڑے میں ہوا بھری جا رہی ہے اس موقع پر میں دست بستہ ایک صلاح دوں گا گر مزاج پر گراں نا ہو تو نیازی کا فیکئر اس وجہ سے نہیں کے وہ ۱/۲
باصلاحیت نہیں ٹیلنٹ تو نیازی میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے لیکن نیازی کے پاس وہ طاقت نہیں جو اس انقلاب کیلئے ضروری ہے۔
اس کئے اب اگر آفریدی اخروٹئیے کو ہی آزمانا ہے تو بطور چیف آف آرمی اسٹاف آزمایا جائے سینئر جرنیل اور باجوہ صاحب رضاکارانہ طور پر یہ عہدہ چھوڑ دیں
تاکے آفریدی صاحب جب مکمل اختیار کے ساتھ بطور مارشل لاایڈمنسٹریٹر خود ہی عدلیہ خود ہی جج اور خود ہی قانون بنُکر کرپٹ افسران سیاستدان اور عوام سب کا تیس پانچہ کر ڈالیں اور آنیوالی نسلوں کیلئے نیازی کے دور سے بھی زیادہ بدحال پاکستان بنا سکیں