ابنِ انشاء۔۔۔۔۔

اگرچہ آج ابنِ انشاء کی سالگرہ ہے مگر میں آپ سے اپنی پسندیدہ انکی ایک نظم پیش کرنا چاہوں گا جو کہ انکی موت سے متعلق ہے۔ اس کے لئے معذرت۔

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی۔۔۔۔۔

نظم سنانے سے پہلے اس سے جڑا ایک واقعہ بزبانِ جمیل الدین عالی اور یہی واقعہ اس نظم کی بنیاد ہے
انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے سی۔ایم۔ایچ گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا گیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات ہی رہ گئی ہے

شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے
کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ میں اُسے کمرے میں لے آیا۔

محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاء جی میں آپ کی فین ہوں
اور آپ میرے آئیڈیل ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کا کینسر پھیل گیا ہے اور آخری اسٹیج پر ہے۔ میں اللّٰہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپ کو دے دے، میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں، میں اپنی ساری زندگی آپ کو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں
جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال آپ کو دے رہی ہوں۔

انشاء جی اُس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں۔

خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد انشاء جی رونے لگے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اس کو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ میرا تو وقت آ گیا ہے، اللّٰہ اسے اپنے بچوں میں خوش و خرم رکھے۔
دو روز بعد دوبارہ ملنے آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم ۔۔'اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے " رو رو کر سنائی جس میں اُس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا تھا"۔

کہتے ہیں انشاء غالبا اس نظم کے چند روز بعد انتقال کر گئے تھے۔

اللہ انکی مغفرت فرمائے۔
غالباً اس نظم کو صرف وہاب خان نے ۹۰ کی دہائی میں پی ٹی وی کے کسی ڈرامے کے لئے گایا تھا اس کے علاوہ میں نے کسی اور کو نہیں سنا۔

… ابن انشاء …

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

ہے کوئی جو ساہو کار بنے؟

کچھ سال ،مہینے، دن لوگو

ہاں اپنی جاں کے خزانے سے

کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟

جب نام ادھار کا آیا ہے

کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں

کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزار برس

ہاں! سود بیاج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے

تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے؟

کیوں اس مجمع میں آئی ہو؟

یہ کاروبار کی باتیں ہیں

ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے

گر شعر کے رشتے آئی ہو

اب گیت گیا سنگیت گیا

اب پت جھڑ آئی پات گریں

یہ اپنے یار پرانے ہیں

ان سب کے پاس ہے مال بہت

ان سب کو ہم نے بلایا ہے
تم جاؤ! ان سے بات کریں

کیا پانچ برس؟

تم جان کی تھیلی لائی ہو؟

جب عمر کا آخر آتا ہے

جینے کی ہوس نرالی ہے

کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟

پھر تم ہو ہماری کون بھلا؟

کیا سود بیاج کا لالچ ہے؟

تم سوہنی ہو، من موہنی ہو

یہ پانچ برس، یہ چار برس

سب دوست گئے سب یار گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے

ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے

جب مانگیں جیون کی گھڑیاں

ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے

جو ساعت و ماہ و سال نہیں

"لو ا پنے جی میں اُتار لیا

اب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے

ہے کوئی جو دیون ہار بنے؟

پر سود بیاج کے بن لوگو

ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟

کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے؟

جنہیں جاننے والے جانے ہیں

کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

دس پانچ برس، دو چار برس

ہاں! اور خراج بھی دے لیں گے

پر کوئی تو دیون ہار بنے

کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے؟

کچھ مانگتی ہو؟ کچھ لائی ہو؟

یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
سب عمر کی نقدی ختم کیے

تب سمجھو جلد جدائی ہو

ہاں شعر کا موسم بیت گیا

کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں

اک عمر سے ہم کو جانے ہیں

ہاں عمر کے ماہ و سال بہت

اور جھولی کو پھیلایا ہے

ہم تم سے نا ملاقات کریں

کیا عمر اپنی کے پانچ برس؟

کیا پاگل ہو؟ سودائی ہو؟

ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے؟

تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے

ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟

کسی اور خراج کا لالچ ہے؟

تم جا کر پوری عمر جیو

چھن جائیں تو لگیں ہزار برس

تھے جتنے ساہوکار، گئے

یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کیسی ہے؟

ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے

گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے

وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں

"لو ہم نے تم سے اُدھار لیا"

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

20 May
نظر کا دھوکہ

جیسے جیسے میلے کا دن قریب آ رہا تھا اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔ کبھی بکری، کبھی کتا ، کبھی سانپ ، آدھی لڑکی آدھا جانور۔۔۔ وہ یہ سب بن بن کر وہ آدھی لڑکی بھی کہا ں رہی تھی۔ گھنٹوں ایک ہی جگہ اکڑوں بیٹھے رہنا قبر میں زندہ لیٹے رہنے سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔
1
بچے اسے دیکھ کر خوش ہوتے۔ مگر وہاں صرف بچے تو نہیں ہوتے ہیں۔ جوان اوباش لڑکے بڑی عمر کے ہوس زدہ بھوکے مرد بھی ہوتے ہیں۔ لڑکے آوازیں کستے اشارے کرتے مرد للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ میلے میں اور بھی کئی کھیل تماشے ہوتے ہیں۔ یہ سب مرد وہاں بھی جاتے ہیں
2
مگر وہاں حرکت تو ہے۔ کم از کم انسان ہل تو سکتا ہے کسی سے بات تو کر سکتا ہے مسکرا تو سکتا ہے محض قبر میں بیٹھےیہ سب عذاب تو نہیں سہنا پڑتا۔ گھنٹوں بیٹھے رہنے کی ذہنی اذیت سے بچنے کے لئے وہ کبھی کبھی ارد گرد سے لا تعلق ہو کر جاگتے جاگتےسپنے دیکھنے لگ جاتی۔
3
Read 25 tweets
8 May
لاہور کے میوزک سینٹر: بکھری سنہری ، مد بھری یادیں

میں اس نسل سے ہوں جو ستر کی دہائی میں پیدا ہوئی جس نے زمانے کے بہت سے اتار چڑھاو بہت ہی کم عرصے میں دیکھے ۔ جس نےاپنے بہت سے دل و جاں سے جمع شدہ اثاثے کاڑ کباڑ بنتے دیکھے ہیں۔ انہیں میں ایک اثاثہ میوزک کیسٹس کاتھا۔
کیسٹس دو طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ عمومی طور پر بہت سے کمپنیاں تھیں جو کیسٹس ریلیز کرتیں۔ 20 روپے کی پری ریکاڈیڈ کیسٹ مل جاتی تھی۔ سونک ، ایگل ، ہیرا اور ایسی کئی میوزک کمپنیاں بینکا گیت مالا، جھنکار والیم اور ایسے لا تعداد نمبر انڈین اور پاکستانی فلموں کے ریلیز ہوتے۔
شالیمار EMI, MHV اور لوک ورثا غزل گائیگی اور کلاسیکل میوزک کے لئے مشہور تھے۔

لیکن صاحب ذوق حضرات پری ریکارڈیڈ کی بجائے اپنی کلیکشن خود تیار کرواتے یا ان میوزک سینٹرز کا رخ کرتے جن کا میں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں۔ یقیناً آپ میں سے بہت سے حضرات کے لیے یہ تھریڈ یادوں کو تازہ کر دے گا
Read 14 tweets
10 Apr
سینگ اور سرگم

عجیب وغریب بچے پیدا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ مگر ریاست کے کسی دور دراز مقام پر بغیر کانوں کے ایک بچے کی پیدائش پر بادشاہ کا پریشان ہونا نہ قابلِ فہم بات تھی۔

اگلے ہی روز وزیر نے ایک اور ایسے ہی بغیر کانوں کے بچے کی پیدائش کی اطلاع دی تو بادشاہ ٹھٹھکا۔
1
کیا یہ محض اتفاق تھا؟
بادشاہ کو کسی غریب کے گھر ایسے بچے کی پیدائش سے کیا لینا مگر پریشانی یہ تھی کہ مدتوں اور بہت سی دعاوں منتوں کے بعد ملکہ کی گود ہری ہوئی تھی اور بادشاہ کو ولی عہد ملنے والا تھا۔ اگر وہ بھی ایسا ہی پیدا ہوا تو۔۔۔ پھر؟ بادشاہ کو سوچ کر جھرجھری آگئی۔
2
پھر ایسی خبریں روز کا معمول بننا شروع ہوگئی تو بادشا ہ نے اجلاس طلب کر لیا۔ کوئی وزیر مشیر پیر فقیر ان واقعات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ شاہی طبیب نے ملکہ کے لئے کچھ ادویات اور پرہیز بتائے مگر وجہ بتانے سے وہ بھی قاصر رہا۔ بادشاہ کا آرام و سکون غارت ہو گیا۔
3
Read 20 tweets
27 Mar
اگر آپ ایک حساس دل و روح کے مالک ہیں تو یہ کہانی آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی منشا یاد کا ایک شاہکار۔۔۔آپ کے لئے اختصار کے ساتھ۔

راستے بند ہیں!

مجھے سمجھ نہیں آتی وہ میلے پر لینے کیا آ یا جب اسکی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔
اس سے سوال پوچھوں تو وہ عجیب سا جواب دیتا ہے
1
"میں میلے میں نہیں آیا۔۔ میلہ خود میرے چاروں طرف لگ گیا ہے۔ اور میں اس میں کھو گیا ہوں واپسی کا راستہ ڈھونڈوں تو بھی نہیں ملتا"

مجھے اس کی بات پر یقین ہے۔ ویسے بھی میں اس کی نگہداشت پرمعمور ہوں اس کی حفاظت میرا ذمہ ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں اس کی حفاظت پر کس نے معمور کیا ہے
2
بس مجھے اس کے ساتھ رہنا ہے اور بھٹکنے سے بچانا ہے۔

وہ انتہائی ندیدہ آدمی ہے۔کسی کھانے کی دکان پراس کے قدم زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔ گھنٹوں کھڑا رہے گا۔ صبح پوڑیوں والے کی کڑاہی کے سر پر کتنی دیر کھڑا جھلستا رہا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیب میں کچھ نہیں ہے
3
Read 16 tweets
24 Mar
شکوہ جواب ِ شکوہ

پنجابی زبان میں اپنی طرز کی ایک الگ چیز!

سید قاسم شاہ

#پنجابی_ماں_بولی
Read 4 tweets
20 Mar
سارنگی

میرے اندر ایک کھلبلی سی مچ گئی۔
میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں لطیف جذبات سرد پڑ جاتے ہیں ۔ آدمی کے اندر کا بیل تھک کر تھان پر بیٹھا جگالی کر رہا ہوتا ہے۔ اسے صرف ٹھوکروں سے نہیں اٹھا یا جا سکتا ، تابڑ توڑ ڈنڈے برسانے پڑتے ہیں۔

یہی کچھ میرا حال ہے۔

1
اس کی موت کی خبر مجھ پر تابڑ توڑ ڈنڈوں کی طرح برس رہی تھی

سر پر رکھا دھرتی بوجھ اتار کر پیچھے دیکھو تو سوائے تیز مٹی کے جھکڑوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر اس میں بھی کچھ چہرے ایسے ہیں جو ابھی دھندلائے نہیں۔کچھ کانوں میں رس گھولتی آوازیں ہیں انہیں میں ایک آواز اسکی ہے۔

2
میں شہر میں رہتا تھا زیادہ عرصہ وہیں پلا پڑھا۔ ہاں گرمیوں کی چھٹیوں میں گاوں دو تین مہینے ماں کے پاس گزار آتا۔ایسی ہی گرمیاں تھیں جب گاوں میں ہمسائیوں میں شادی تھی۔ ساری رات گیت گائے جاتے۔ خوشی کے گیت ۔ گانے والی تھک جاتیں تو سب بے سرا ہو جاتا۔
3
Read 23 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(