طبقاتی مسابقت میں یقیناً کچھ پیچھے رہ جایئں گے کچھ آگے نکل جایئں گے لیکن اگر پیچھے رہ جانے والوں کو انسان ہی نہ سمجھا جائے تو معاشرہ کسی قبرستان کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اسی موضوع پر ایک ماخوذ کوشش آپ کے مطالعے کی طلبگار۔

کچی پکی قبریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱
انسان کو اپنی جنم بھومی سے پیار ہوتا ہے وہ جگہ جائے اماں لگتی ہے پھر چاہے وہ قبرستان ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔

اس لئے قبرستان میں اکیلے اپنی آبائی جھونپڑی میں رہتے اسےکبھی ڈر نہیں لگا۔ اس کا بچپن یہی گزرا۔ کھیلنے کودنے کو اکثر وہ چھوٹی چھوٹی قبریں بنا کر گڈے گڑیا
۲
کو کفنایا دفنایا کرتا ڈر تب نہیں لگا تو اب کیا لگتا۔

اس کے لئے قبرستان کھنی چھاوں اور ٹھنڈے پانی کے کنواں سے آراستہ کسی جنت کے ٹکڑے سے کم نہ تھا۔ ہر طرف شیشم اور کیکر کے درخت تھے جن کی چھال حقے کی چلم تازہ کر دیتی۔ قبروں کے درمیان جا بجا بوٹی اگتی تھی جس کو پی کر اسے

۳
عرش کے کنگرے نظر آنے لگتے۔ کبھی کبھی اسکا دل کرتا ساری بوٹی کاٹ پیس کر کنواں میں ڈال کر اس میں کود جائے۔ روحیں اس پر رعب نہیں ڈالتی تھیں ، باز پرس نہیں کرتیں اور مردے اس سے بیگار نہیں لیتے ۔ سو زندگی بے فکری میں تھی۔

اسے کالو اور ڈبوُ سے بہت محبت تھی ۔

۴
اسے فخر تھا کہ اس نے ان کے نام نہایت مناسب رکھے تھے لیکن اپنی ماں سے گلہ تھا جس نے بچپن اس کے ٹخنوں سے کوڈیاں باندھ دی تھیں اور سب اسکا اصل نام بھول گئے اور اسے کوڈو کہنے لگے جو اس کو ہرگز پسند نہ تھا۔ اسکا اصل نام کیا تھا یہ اسے خود بھی یاد نہیں تھا۔
۵
اسکا باپ بہت سخت تھا مگر اسے اپنے باپ سے بھی محبت تھی۔ وہ جب بوٹی کے نشے میں ہوتا تو باپ کو بہت یاد کرتا اور بھنگ کے دو پیالے اس کی قبر پر بھی انڈیل آتا کہ اس کے باپ کی روح تو آسودگی حاصل رہے۔

ہر جمعرات چودھری بخشے کے ہاں گڑ والے چاول پکتے

۶
جن کی خوشبو حویلی سے نکل سارے قبرستان پھیل جاتی۔ وہ روز صبح ڈبو اور کالو کے ساتھ بھیک مانگنے گاوں جاتا مگر جمعرات کو تیسرے پہر ہی چلا جاتا تاکہ وقت پر گڑ والے چاول کھا سکے۔

وہ آواز لگاتا:

"جمعرات ہے مومنو! تمھارے پیاروں کی روحیں ثواب کی آس لئے تمھارے دروازے پر کھڑیں ہیں

۷
انکو مایوس نہ کرنا۔ صدقہ خیرات کرنا۔ قبرستان سے کوڈو بھی تمھارے دروازے آیا ہے ۔۔۔۔ دھن بھاگ ہوں، آل اولاد کا صدقہ۔۔ اونچے میناروں کی خیر۔۔۔ کوڈو کا بھی خیال کرنا"

شام سے پہلے تمام روحیں واپس قبرستان آجاتیں اور وہ ان سے پہلے آجاتا

۸
کہ اس کی جھونپڑی کے دروازے ماں باپ بھی آئے ہونگے۔دیر ہو گئی تو ماں کو گڑ والے چاولوں سے منا لے گا ابا تو بوٹی کے پیالے بھی نہیں مانے گا اور اس کی طرح اسکی روح بھی غصے میں گالیاں دے گی جیسے زندگی میں پڑتی تھیں۔

جمعرات کو قبرستان میں میلے کا سا سماں ہوتا۔
۹
ہر طرف اگر بتیوں کی خوشبو اور سرسوں کے دیئے روشن ہوجاتے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے مرد عورتیں آتیں قرآن پڑھا جاتا جاتے جاتے کوڈو کو حفاظت اور صفائی کی تاکید کی جاتی۔ یہ سب دیکھ کوڈو کے اندر ایک آگ سلگنے لگتی ہے۔ چھوٹی بڑی قبریں اور ان کے درمیاں ٹیڑھے میڑھے راستے

۱۰
گاوں کی پر پیچ گلیاں اور کچے پکے مکان لگنے لگتے ہیں۔ غریبوں کی قبریں کچی بے نشان جیسے انکے کچے گھر جو ہر سلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ امیروں چودھریوں اور ملکوں کی قبریں پکی اور انچی جگہوں پر ہیں دور سے ہی پہچانی جاتیں ہیں جیسے انکے بڑے پکے گھر گاوں کی فصیل سےبھی نظر آتے ہیں ۔

۱۱
بارش آئے سیلاب آئے انکو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کمی کمینوں اور مزارعوں سب کی قبریں نشیب میں ہیں۔ وہ غریب سال میں صرف محرم میں آتے ہیں اور کوڈو کی نشاندہی پر اپنے بزرگوں کی قبروں تک پہنچ پاتے ہیں اور مٹی روڑا ڈال جاتے ہیں کہ سال گزر ہی جائے گا۔ ورنہ باقی کا سارا سال زندگی کا بوجھ
۱۲
ہی اٹھاتے گزر جاتا ہے۔

شروع شروع میں کسی سنگِ مرمر کی قبر پر جلتا چراغ دیکھ کر اس کو اپنے ماں باپ کی مفلسی اور غربت پر دکھ ہوتا مگر اب وہ رات پڑتے ہیں چراغ اٹھا کر اپنے والدین کی قبر پر رکھ آتا۔ اس سے اسکو سکون ملتا اور وہ اپنی سعادت مندی پر دل ہی دل میں خوش ہوتا۔

۱۳
کئی بار اسکا دل چاہا کہ کسی پختہ قبر سے اینٹیں نکال کر ہی اپنی ماں باپ کی قبر کو پکا کر دےمگر اسکو ڈر تھا کہ مار بہت پڑے گئی اور اسکو قبرستان سے نکال باہر کر دیا جائے گا۔ وہ اپنی اس چھوٹی سی جنت کے لئے صبر کر جاتا۔ایک بار وہ ایک شیشم کا پودا اپنی ماں کی قبر کے سرہانے لگا آیا
۱۴
تو چودھر ی فضل کے بڑ ے لڑکے نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا تھا کہ یہ اس کی ماں کی قبر سے اکھاڑا گیا ہے حالانکہ وہ پودا اس نے گاموں ترکھان کی قبر کے پاس سے نکالا تھا۔

نوراں جب سے جوان ہوئی تھی گاوں کے لڑکوں کا کام کاج میں من ہی نہیں لگتا تھا۔ نوراں ۔چودھری بخشے کی لڑکی۔
۱۵
رب نے دل کھول کر حسن دیا تھا کہ بارہ گاوں میں اسکے چرچے تھے۔ کئی عاشق اور نجانے کتنے رشتے آ چکے تھے۔ مگر وہ گھر سے بہت کم نکلتی اس لئے نوجوان دیدار کی حسرت لئے پھرتے آہیں بھرتے ہرتے۔ کوڈو بھی اسکا گمنام عاشق تھا اور سب سے زیادہ خوش نصیب بھی کہ روز بھیک مانگنے
۱۶
اس کے دروازے جاتا اور دیدار ہوجاتا۔ اس کی ماں کے مرنے کے بعد وہی گھر کا سارا نظام چلاتی۔کوڈو اپنے ذہن میں حساب رکھ کر اس کی گلی میں جاتا کہ اب وہ برتن دھو رہی ہوگی اب وہ دودھ بلو رہی ہوگئی۔ اس وقت جانا ٹھیک ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ

چودھری کی حویلی میں کوئی پر نہیں مار سکتا تھا
۱۷
اس لئے کوڈو اپنی خوش قسمتی پر ناز میں کرتا لیکن گلی میں جاتے ہوئے خوف بھی کھاتا اور اپنے آپ سے کہتا۔۔" باز آجا کوڈو باز آجا نہ جا اس گلی میں۔۔۔۔ اس گلی کے لوگ بڑے ظالم ہیں تجھے پھا ہی پھندا پا لیں گے"۔

دھیری راتوں میں قبرستان میں خاموشی چھائی رہتی
۱۸
اس بھی لگتا جیسے وہ خود بھی مر چکا ہے اور ایک کچی پکی قبر میں لیٹا ہوا ہے۔

دن کو وہ بوٹی پیئے نہر کے کنارے جا بیٹھتا اور ساری نہر اسے سبز نظر آتی ۔۔۔ اس کا دل کرتا کسی بڑے راجباہ کی طرح ایک ہی ڈیک میں ساری نہر پی جائے۔ کبھی کبھی اسے نوراں بھی نہر میں نہاتی نظر آتی
۱۹
اور اسے نہر کے کنارے بیٹھا دیکھ کر شرما کر پانی میں چھپ جاتی اور کئی کئی دن باہر نہ نکلتی۔

ایک روز چودھری کی حویلی میں خوب ہنگاما برپا تھا۔ شہنائیاں بگیاں ڈھول دھماکے جاری تھا۔ بیرے اور مزارے اِ دھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔
۲۰
اتنے میں کسی نے اس سے بھی کہہ دیا چولہوں کے نیچے بالن ڈال۔ وہ آگے بڑھا تو اسے لگتا ہے دیگوں کے نیچے اس کے اپنے جسم کے حصے جل رہے ہیں۔ کسی کے نیچے ٹانگیں ہیں تو کہیں بازو۔ سامنے بیٹھا قصائی اسی کی بوٹیا ں بنا رہا ہے جس سے قورمہ اور بریانی پکے گی۔

۲۱
ڈولکی کی آواز یوں تکلیف دیتی اور دل پر جا لگتی جیسے اس کی اپنی کھال سے بنائی گئی ہے۔ دل میں سے آواز آتی ہے کہ : کہا تھا نہ کوڈو باز آ جا۔۔۔۔ اس گلی کے لوگ بڑے ظالم ہیں تجھے پھا ہی پھندا پا لیں گے"۔

دولہا کے باپ نوٹوں اور سکوں کی برسات کر رہا ہے۔
۲۲
سکے کسی بچھو کی طرح کوڈو کے بدن پر لگتے ہیں مگر کوڈو حقارت سے سب چھوڑ چھاڑ کا قبرستان واپس آ جاتا ہے اور کدال پکڑ کر چودھری بخشو کے باپ اور ماں کی قبروں کی طرف نکل پڑتا ہے۔

صبح اٹھتا ہے تو بدن درد سے چور چور ہو رہا ہوتا ہے۔ بدبو دار جسم ، سر بال سب مٹی سے اٹے پڑے ہیں ۔
۲۳
کدال دیکھتا ہے تو ایک فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر ہوتی ہے۔ جیسے اس نے نوراں کی شادی کا بدلہ لے لیا۔

اس کو یہ سوچ کر طمانیت ہوتی ہے کہ اب ہر جمعرات کو اس کے ماں باپ کی قبروں پر پھول اور دیئے روشن ہوگے۔قرآن خوانی اور فاتحہ پڑی جائے گی اور اس نے اپنے ماں باپ کا حق ادا کر دیا ہے
۲۴
بوٹی کا ایک بڑا پیالہ پی کر خود کو کہتا ہے۔۔۔ " کوڈو فکر نہ کر بد بختا ۔ کھود کر کون دیکھتا ہے۔ ویسے بھی امیر فقیر سب کی ہڈیاں کھوپڑیاں ایک سی ہی ہوتی ہیں"..........

@threadreaderapp

please compile

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

15 Jun
ابنِ انشاء۔۔۔۔۔

اگرچہ آج ابنِ انشاء کی سالگرہ ہے مگر میں آپ سے اپنی پسندیدہ انکی ایک نظم پیش کرنا چاہوں گا جو کہ انکی موت سے متعلق ہے۔ اس کے لئے معذرت۔

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی۔۔۔۔۔

نظم سنانے سے پہلے اس سے جڑا ایک واقعہ بزبانِ جمیل الدین عالی اور یہی واقعہ اس نظم کی بنیاد ہے
انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے سی۔ایم۔ایچ گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا گیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات ہی رہ گئی ہے

شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے
کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ میں اُسے کمرے میں لے آیا۔

محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاء جی میں آپ کی فین ہوں
Read 16 tweets
20 May
نظر کا دھوکہ

جیسے جیسے میلے کا دن قریب آ رہا تھا اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔ کبھی بکری، کبھی کتا ، کبھی سانپ ، آدھی لڑکی آدھا جانور۔۔۔ وہ یہ سب بن بن کر وہ آدھی لڑکی بھی کہا ں رہی تھی۔ گھنٹوں ایک ہی جگہ اکڑوں بیٹھے رہنا قبر میں زندہ لیٹے رہنے سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔
1
بچے اسے دیکھ کر خوش ہوتے۔ مگر وہاں صرف بچے تو نہیں ہوتے ہیں۔ جوان اوباش لڑکے بڑی عمر کے ہوس زدہ بھوکے مرد بھی ہوتے ہیں۔ لڑکے آوازیں کستے اشارے کرتے مرد للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ میلے میں اور بھی کئی کھیل تماشے ہوتے ہیں۔ یہ سب مرد وہاں بھی جاتے ہیں
2
مگر وہاں حرکت تو ہے۔ کم از کم انسان ہل تو سکتا ہے کسی سے بات تو کر سکتا ہے مسکرا تو سکتا ہے محض قبر میں بیٹھےیہ سب عذاب تو نہیں سہنا پڑتا۔ گھنٹوں بیٹھے رہنے کی ذہنی اذیت سے بچنے کے لئے وہ کبھی کبھی ارد گرد سے لا تعلق ہو کر جاگتے جاگتےسپنے دیکھنے لگ جاتی۔
3
Read 25 tweets
8 May
لاہور کے میوزک سینٹر: بکھری سنہری ، مد بھری یادیں

میں اس نسل سے ہوں جو ستر کی دہائی میں پیدا ہوئی جس نے زمانے کے بہت سے اتار چڑھاو بہت ہی کم عرصے میں دیکھے ۔ جس نےاپنے بہت سے دل و جاں سے جمع شدہ اثاثے کاڑ کباڑ بنتے دیکھے ہیں۔ انہیں میں ایک اثاثہ میوزک کیسٹس کاتھا۔
کیسٹس دو طرح کی ہوا کرتی تھیں۔ عمومی طور پر بہت سے کمپنیاں تھیں جو کیسٹس ریلیز کرتیں۔ 20 روپے کی پری ریکاڈیڈ کیسٹ مل جاتی تھی۔ سونک ، ایگل ، ہیرا اور ایسی کئی میوزک کمپنیاں بینکا گیت مالا، جھنکار والیم اور ایسے لا تعداد نمبر انڈین اور پاکستانی فلموں کے ریلیز ہوتے۔
شالیمار EMI, MHV اور لوک ورثا غزل گائیگی اور کلاسیکل میوزک کے لئے مشہور تھے۔

لیکن صاحب ذوق حضرات پری ریکارڈیڈ کی بجائے اپنی کلیکشن خود تیار کرواتے یا ان میوزک سینٹرز کا رخ کرتے جن کا میں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں۔ یقیناً آپ میں سے بہت سے حضرات کے لیے یہ تھریڈ یادوں کو تازہ کر دے گا
Read 14 tweets
10 Apr
سینگ اور سرگم

عجیب وغریب بچے پیدا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ مگر ریاست کے کسی دور دراز مقام پر بغیر کانوں کے ایک بچے کی پیدائش پر بادشاہ کا پریشان ہونا نہ قابلِ فہم بات تھی۔

اگلے ہی روز وزیر نے ایک اور ایسے ہی بغیر کانوں کے بچے کی پیدائش کی اطلاع دی تو بادشاہ ٹھٹھکا۔
1
کیا یہ محض اتفاق تھا؟
بادشاہ کو کسی غریب کے گھر ایسے بچے کی پیدائش سے کیا لینا مگر پریشانی یہ تھی کہ مدتوں اور بہت سی دعاوں منتوں کے بعد ملکہ کی گود ہری ہوئی تھی اور بادشاہ کو ولی عہد ملنے والا تھا۔ اگر وہ بھی ایسا ہی پیدا ہوا تو۔۔۔ پھر؟ بادشاہ کو سوچ کر جھرجھری آگئی۔
2
پھر ایسی خبریں روز کا معمول بننا شروع ہوگئی تو بادشا ہ نے اجلاس طلب کر لیا۔ کوئی وزیر مشیر پیر فقیر ان واقعات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ شاہی طبیب نے ملکہ کے لئے کچھ ادویات اور پرہیز بتائے مگر وجہ بتانے سے وہ بھی قاصر رہا۔ بادشاہ کا آرام و سکون غارت ہو گیا۔
3
Read 20 tweets
27 Mar
اگر آپ ایک حساس دل و روح کے مالک ہیں تو یہ کہانی آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی منشا یاد کا ایک شاہکار۔۔۔آپ کے لئے اختصار کے ساتھ۔

راستے بند ہیں!

مجھے سمجھ نہیں آتی وہ میلے پر لینے کیا آ یا جب اسکی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔
اس سے سوال پوچھوں تو وہ عجیب سا جواب دیتا ہے
1
"میں میلے میں نہیں آیا۔۔ میلہ خود میرے چاروں طرف لگ گیا ہے۔ اور میں اس میں کھو گیا ہوں واپسی کا راستہ ڈھونڈوں تو بھی نہیں ملتا"

مجھے اس کی بات پر یقین ہے۔ ویسے بھی میں اس کی نگہداشت پرمعمور ہوں اس کی حفاظت میرا ذمہ ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں اس کی حفاظت پر کس نے معمور کیا ہے
2
بس مجھے اس کے ساتھ رہنا ہے اور بھٹکنے سے بچانا ہے۔

وہ انتہائی ندیدہ آدمی ہے۔کسی کھانے کی دکان پراس کے قدم زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔ گھنٹوں کھڑا رہے گا۔ صبح پوڑیوں والے کی کڑاہی کے سر پر کتنی دیر کھڑا جھلستا رہا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جیب میں کچھ نہیں ہے
3
Read 16 tweets
24 Mar
شکوہ جواب ِ شکوہ

پنجابی زبان میں اپنی طرز کی ایک الگ چیز!

سید قاسم شاہ

#پنجابی_ماں_بولی
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(