تو آپ چاہتے ہیں کہ بڑی بڑی بزرگ ہستیوں کی اصلیت سامنے آجائے؟ چلیں آپ کی مرضی شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی نامی دو بھیے کشمیر میں جہاد کرنے پہنچے, کس وقت؟ اُس وقت جب سارا ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں جا چُکا تھا اور صرف پنجاب ایک واحد آزاد ملک برصغیر میں تھا جو نا صرف
آزاد تھا بلکہ وہاں عظیم مسلمان فاتحین کی اولادوں کے بجائے مقامی راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی, اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کے سر میں کونسی چوٹ آئی تھی کہ وہ بنگال چھوڑ کر بہار چھوڑ کر اترپردیش چھوڑ کر بلکہ سارا ہندوستان چھوڑ کر کشمیر کی طرف لپکے اور کشمیر آزاد کروانے کی کوشش
کرنے لگے؟ لیکن کشمیر ہی کیوں؟ پنجاب کیوں نہیں؟ پنجاب میں تو کشمیر سے سو گنا زیادہ مسلمان تھے کشمیر کی تو اُس وقت کی آبادی پنجاب کے دو چار قصبوں کے برابر تھی پھر وہ کونسا ظلم تھا جو کشمیریوں پر سکھ کر رہے تھے اور اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی سے وہ برداشت نا ہوا؟
اسماعیل دہلوی کا دہلی اور احمد بریلوی کا بریلی دونوں اُس وقت انگریز کے قبضے میں تھے لیکن یہ دونوں سید زادے کشمیر پہنچے اپنے دہلی و بریلی کو چھوڑ کر, بھلا کیوں؟ کیا آفت آگئی تھی بھلا؟
تو موصوف حضرت شاہ اسماعیل دہلوی سے انکے ہی ایک شاگرد نے بزریعہ خط سوال کیا کہ شاہ جی آپ کا وطن دہلی تو انگریز کے ظلم سے جُوجھ رہا ہے لیکن آپ کشمیر فتح کرنے سکھوں سے لڑنے کیوں پہنچے ہوئے ہیں؟ تو انکل جی نے جواب دیا جو کہ سونے کے پانی سے لکھا جانے کے قابل ہے "اللہ تعالیٰ
ہمیں انگریز کے خلاف جہاد کا حکم نہیں دیتا" 😃
انکل کی لاجک دیکھو ذرا, وہ دہلی جسے انگریز نے تہس نہس کردیا پورا شہر کاٹ ڈالا مغلوں کے بیٹیوں کو جا کر چکلوں پر بیٹھا دیا اس شہر کا شاہوں کا لونڈا کہہ رہا ہے ہمیں انگریز کے خلاف جہاد کا حکم ہی اللہ کی طرف سے نہیں ہے, لیکن کبھی سوچا
دہلی کا یہ حال کیوں ہوا تھا؟ بہادر شاہ ظفر اتنا بے بس بادشاہ کیسے بنا تھا؟ کہ دہلی فتح ہونے سے پہلے خود بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے وظیفے پر گزر اوقات کرتا تھا, مغلوں کی اس موجودہ حالت کی وجہ کیا تھی؟
تو سُنیں اسماعیل دہلوی کے ہی دادا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ دامت برکاتہم عالی نے ایرانی بادشاہ نادرشاہ کو ہندوستان پر حملے کا دعوتی خط لکھا تھا, حضرت نادر شاہ ایرانی کے بارے میں یہ جان لیں کہ وہ نا شیعہ تھا نا سنی خیر احمد شاہ ابدالی اسی ایرانی بادشاہ نادرشاہ
کا ایک جرنیل تھا, حضرت شاہ ولی اللہ کی دعوت پر نادرشاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا لاکھوں لوگوں کا خون بہایا تختِ طاؤس اُٹھایا, کوہِ نور, نورِدریا, نورالعین, مغلوں کا خزانہ, دہلی کی عورتیں, اور جو کچھ راستے میں آیا تباہ و برباد کرکے واپس ایران چلا گیا, شاہ ولی اللہ جو اس عذاب کو
بلانے والے تھے خیر پھر بھی مکمل محفوظ رہے کہا جاتا ہے کہ شاہ ولی اللہ نے مغلوں کی عیاشیوں سے تنگ آکر نادرشاہ کو ہند آنے کی دعوت دی تھی لیکن نادرشاہ کے ہند آکر لوٹ مار کرنے سے اسلام کی کونسی بحالی ہوگئی یہ بات آج تک بھی راز ہے اور پھر نادر شاہ نے ہند پر کونسا قرآن و سنت کا نظام
نافذ کیا یہ بھی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہی جانتے ہیں, خیر اس حملے سے ملتِ اسلامیہ کہ ترقی و نصرف کی بنیاد پڑی مرہٹے اور پھر افغانی لٹیرے ملت اسلامیہ پر پیر پھیلانے لگے سکھوں نے بھی غلامی کی زنجیر توڑی اور پنجاب واپس چھین لیا ملتان سے نادرشاہ کے ملازم احمد شاہ ابدالی کی اولاد کو
بھگا دیا کشمیر اور پُرشا پور(پشاور) بھی واپس لے لئیے, تب تک حضرت شاہ ولی اللہ تو جنت میں جا چُکے تھے البتہ انکے پوتے نے وہابیت کے ساتھ ساتھ سکھوں کے خلاف جہاد کا بھی بیڑا اُٹھایا اور کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ اُس وقت عربی وہابی بھی تو انگریز کے لشکر میں ہی تھے اور عثمانیوں کے خلاف
جدو جہد آزادی کررہے تھے, اسماعیل دہلوی سچے تھے انگریز کے خلاف جہاد کا حکم اللہ نے دیا ہی نا تھا کیونکہ عرب میں انگریز کے دشمن تُرکوں اور ہند میں انگریز کے دشمن سکھوں سے لڑ کر وہابیت توحید کے نفوذ کا راہ ہموار کر رہی تھی, جو کل نادر شاہ کے جاسوس تھے آج انگریز کے جاسوس بن کر
انگریز سے بچی ہوئی آخری ریاست کو فتح کروانے کی سر توڑ کوشش کررہے تھے اس مقصد میں کیا وہابی کیا گدی نشین کیا پٹھان کیا بلوچ کیا قزلباش کیا بہولپوریا نواب سب انگریز کا بازو تھے, ان سب اسلامی مجاہدین کے نام انگریز خود ہی لکھ کر گیا ہے, خیر اب آپ خود فیصلہ کریں آپکا ہیرو کسے ہونا
چاہئے دھرتی زاد رنجیت سنگھ کو جس نے کوہ نور واپس لیا افغانی مار بھگائے یا پھر اسماعیل دہلوی کو جو انگریز کا پٹھو اور کوہ نور و تختِ طاؤس لٹوانے والے وظیفہ خور مولوی کا پوتا تھا,.....
📝راناعلی
نوٹ: شاہ اسماعیل دہلوی نسباً سید نا تھا, چونکہ عام طور پر اسے "شاہ" کی وجہ سے سید سمجھا جاتا ہے اس لیے میں نے بھی تحریر کا فلو خراب نہیں کیا, شاہ اسماعیل دہلوی کا سارہ کنبہ شاہ کہلواتا تھا جبکہ یہ سادات نا تھے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
میں خود بھی نہیں چاہتا تھا کہ کسی کی نیند ٹوٹے خاص کر وہ لوگ جو میرے پچھلے نظریات کی وجہ سے ساتھ تھے لیکن اب نظریات میں تغیر کی وجہ سے ہرٹ ہورہے ہیں چھ ماہ قبل ان تمام دوستوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے خود ہی الگ کردیا تھا تاکہ انکا مطالعہ پاکستانی بخار نا اُتر جائے, ایک بات یاد
رکھیں پنجاب پرستی کو آپ کی نہیں آپ کو پنجاب پرستی کی ضرورت ہے اپنی بقاء کے لیے میرے اپنے لوگ مجھے کئی باتیں سناتے ہیں اپنی برادری کی کئی تنظیموں میں اوپرچونسٹ بن کر کوئی بھی عہدہ لے سکتا ہوں پنجاب پر میرا کوئی احسان نہیں بلکہ پنجاب کا مجھ پر احسان ہے میں اپنی برادری کی سیوا کو
ایک بُت کی سیوا کی طرح سمجھتا ہوں جو آپکو کچھ نہیں دے گا پنجاب کی ہر برادری کا مفاد پنجاب کی بقاء سے جڑا ہوا ہے جس کا کسی برادری کی تنظیم کو تنکا برابر علم و اندازہ نہیں وہ بودر ہی نہیں کرتے جناب انکو بس اپنی برادری کی پوجا سے مطلب ہے کیا خیال ہے ایک یوٹیوب چینل بنا کر اپنی
راجپوت اور جٹ عالمِ دین یعنی مولوی بننے کے لیے نہیں بنے یہ مولوی بنتے ہیں تو مذہب کو جھگڑے کی طرف لے جاتے ہیں یہ لڑاکا برادریاں ہیں انکے ہاتھ میں مذہب دینا گویا لڑائی کا گھر ہے, ہندوؤں میں برہمنوں پر گوشت اسی لیے حرام تھا کہ وہ ٹھنڈی طبیعت سے رہیں اور عقیدوں میں متشدد نا ہوں…
لیکن پھر بھی برہمنوں میں کئی متشدد عقیدے پائے جاتے تھے لیکن پھر بھی بات قتل و غارت نا پہنچتی جیسے کہ ہمارے ہاں پہنچتی ہے, تو ان دو خونخوار برادریوں میں سے اگر کوئی مولوی بن جائے تو اسے ہر مسئلے کا حل کیا دِکھے گا؟ صرف جھگڑا اور جبر,..
پخ پخوں کی تباہی کی وجہ بھی یہی ہے کہ نسل در نسل کرودھ رکھ کر دشمنیاں پالنے والے خونخوار لوگ منبروں پر بیٹھ گئے اب اُن کو ہر مسئلے کا بس ایک حل دکھتا ہے, یعنی جبر,
پنجاب میں اگر کوئی برادری معصوم اور صلح جو ہے تو وہ شیخ برادری ہے یہ ہندوؤں کی بنّیا یا کھتّری برادری سے مسلمان
جب مولوی بے بس ہوجائے تو اُس کے پاس اگلا راستہ تہمت اور الزام تراشی ہوتا ہے یہ ہمارے بچپن کا دور تھا گھر کی بیٹھک میں ویہراں والے قوال مولوی احمد حسن کی لاالہ دی مُرلی جدّوں وجائی اے, قاری سعید چشتی کی علی دم دم دے اندر, بابے نصرت کی ہلکا ہلکا سرور, مقبول احمد کی تُسی اُچ شریف دے
اُچے ہو, اور سسی پُنوں جیسی قوالیاں سُنی جاتی تھیں, یہ قوال اپنے دور کے بہترین اور ہِٹ ترین پنجابی قوال تھے, سب کا تعلق فیصل آباد سے تھا, خیر پھر ہم نے وہ دور دیکھا کہ یہ سبھی نام بابے نصرت فتح علی خان کےسامنےماند پڑ گئےقوالی کو جوجلا نصرت نے بخشی برصغیر کا کوئی قوال نا بخش پایا,
ہر طرف نصرت تھا وہ جس کلام کو پڑھ دیتا جس غزل کو گا دیتا وہ سُوپر ہِٹ ہوجاتی ایک نہیں سینکڑوں نمبر بیک ٹُو بیک ہِٹ ہوئے, عملاں دے نبیڑے, مائیں نی مائیں, حق علی علی مولا علی علی, دم مست قلندر مست مست, اکھیاں اُڈیک دیاں, کالی کالی زُلفوں کے پھندے نا ڈالو, کیا پنجابی کیا اُردو کیا
پنجاب کا ایک عام پنجابی مسلمان قوم پسند پنجابیوں کو کیسے دیکھتا ہے؟
وہ ریاست کے بیانیے سے متاثر ہے اسے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جو کچھ بتایا پڑھایا اور سنایا جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہی سچ ہے وہ پنجابی قوم پسندوں کو سکھوں کے معاشقے میں مبتلا سمجھتا ہے اسکا خیال ہے کہ
پنجابی قوم پسندی سے فیڈریشن کو نقصان ہو سکتا ہے ہمیں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہئے پختون, سندھی, بلوچ, کشمیری ہمارے بھائی ہیں ان پر کسی قسم کی کوئی انگلی اٹھانا یا پنجابیت کو پروموٹ کرنا سٹیٹ, نظریہ پاکستان, اور قومی یک جہتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے,
اس میں اُس کا قصور نہیں اس کے ذہن سے پنجاب کا جغرافیہ پنجاب کی تاریخ پنجابیوں کی مزاحمت پنجاب کا صوفی مزاج کلچر فراموش کروانے کے لیے ہمارے نصاب, میڈیا اور علماء و مشائخ نے چوہتّر سال محنت کی ہے, وہ بھولا پنجابی یہی سمجھتا ہے کہ ہماری فلاح پختون قوم پرستوں, سندھی قوم پرستوں اور
وہ ہر صبح بڑے بڑے جادوگروں کے مجمعوں کے باہر تماشائیوں کو بتانے جاتا کہ جادو کے بنیادی عوامل و سٹیپس کیا ہوتے ہیں فلاں ٹرِک کیسے ہوتی ہے فلاں ٹِرک کس نے ایجاد کی تھی فلاں جادوگر نے کس کی ٹرِک چُرائی ہے
وہ لوگوں کو ایسے ایسے ٹرِک بھی سُناتا جو لوگوں نے دیکھے ہی نا ہوتے تھے وہ لوگوں کو عجیب عجیب ٹرِک بتاتا جیسے کہ وہ جانتا ہے کہ پاؤں سے درانتی پکڑ کر کس طرح کھڑے کھڑے ہی چارہ کاٹا جاسکتا ہے اور کس طرح اس ٹرِک سے غریب کسانوں کی زندگیاں بدل جائیں گی اور جس دن اسے سٹیج ملا وہ اس
جادو کا مظاہرہ کرکے بھی دکھائے گا اور تماشائیوں کو بھی سکھائے گا
وہ انہیں بتاتا کہ کیسے اسکے جادو جینئین اور فلاحی ہیں وہ لوگوں میں گیان بانٹتا اور روزانہ ان مجمعوں کے باہر لوگوں کو ثابت کرتا کہ وہ جادو گری کا کتنا نالج رکھتا ہے اور کتنا عظیم جادوگر ہے,
تو اتنی بات سمجھ آئی ہے کہ یہ چودہ اگست کو ٹِک ٹاکر عائشہ اکرام بیگ کا مینار پاکستان پر اپنے فینز کے ساتھ میٹ اپ تھا, جس میں اسے گھسیٹا گیا ظاہر ہے اُس دن اسکے فینز کے علاوہ کئی ہُلڑ باز بھی وہاں پہلے سے ہی ہوں گے, پارک میں ہزاروں فیملیز موجود تھیں ہزاروں لڑکیاں بھی موجود تھیں
لیکن کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ہاں بالکل اگر کوئی محاش رقاصہ و طوائف بھی اُس جگہ ہوتی تو اسکے ساتھ بھی یہ سلوک کرنا ٹالریٹ نہیں کیا جاسکتا لیکن یہاں کُچھ لوچا ہے بھائی صاحب, اس لڑکی کا بوائے فرینڈ ٹیم سرعام کا ممبر ہے جو اُس وقت وہاں موجود بھی تھا اس لڑکی کے ساتھ, اس لڑکی نے
بے وقوفی کی کہ چودہ اگست کو میٹ اپ رکھا شاید اس نے سوچا ہوکہ اُس دن قدرتی طور پر رش بھی کافی ہوگا اور فینز کے ساتھ ساتھ باقی عوام کے رش کی وجہ سے کافی مشہور ہونے والی فیلنگ آئے گی, خیر اس لڑکی کے ساتھ یہ واقعہ چودہ اگست کو پیش آیا جبکہ اس لڑکی نے پندرہ اگست کو اپنے انسٹاگرام پہ