آپریشن جیرونیمو (Operation Geronimo)
2 مئی 2011_____رات 2 بجے
امریکہ نے بالاآخر پاکستان کے کنٹونمنٹ شہر ایبٹ آباد میں دنیا کےسب سے بڑےدہشتگرد اسامہ بن لادن کاسراغ لگایا لیاجسےوہ 9/11 کے بعد سےتلاش کررھا تھا۔
وہی ایبٹ آبادجو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے چند میل #Pakistan #History
کے فاصلے پر ھے۔
افغانستان سے دو ہیلی کاپٹر رات کے دو بجے پاک حدودمیں پہلے سے تعینات دوطیارےاورامریکی فورس ایک کمپائونڈ میں گھستی ھےاورالقاعدہ کےسربراہ کو40منٹ کے اس آپریشن سے ہلاک کرڈالتی ھے۔
آپریشن میں کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ مرنے والوں میں تین دیگر مرد یعنی کوریئر
اسکا بھائی، لادن کابیٹا اور ایک عورت (لادن کی بیوی) بھی شامل ہیں۔
بقول امریکی سلامتی کونسل مشیر جان برینن لادن کی میت افغانستان سے بحیرہ عرب میں موجو دامریکی جہاز تک پہنچائی جاتی ھے جہاں سے اسکو اسلام کےمطابق رسومات ادا کرکے سمندر برد کر دیا جاتا ھے۔ تمام دستاویزات قبضے میں لے لی
جاتی ہیں اور یوں یہ سکیورٹی فورسز اور امریکہ کی ملی بھگت کا "ڈرامہ" منطقی انجام کو پہنچتا ھے۔
امریکی صدر اوبامہ، ہیلری کلنٹن ان کے قریبی ساتھی بزریعہ سیٹلائیٹ یہ آپریشن براہ راست دیکھتےہیں۔
کمال ھے پاکستانی حکام کے تعاون کے بغیر امریکہ کا ایسا آپریشن ممکن نہ تھانہ ہی صدر وزیراعظم
کا وضاحتی بیان۔
پھرسابق DGISI لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی ہی بھانڈا پھوڑ کر کہانی کا رخ بدل دیتے ہیں کہ اس آپریشن میں امریکی نیوی سیلز کوزمینی سپورٹ بھی حاصل تھی۔
ڈرامہ تھا یا طےشدہ آپریشن سوال یہ ھے کہ ہمیں ملا کیا؟
پاکستان کی خود مختاری کو کھلا چیلنج ھوا
عوام بھی سوتی رہ گئی اور فوج بھی
عوام کا مورال ڈاءون ھوا
امریکہ پاکستان کے تعلقات بگڑے
70 ہزار قربانیاں ضائع گئیں
نمبرون اعتراضات کی زد میں گھری
صرف ایک رات میں اتنا سب کچھ ھو گیا۔
کافی کی تاریخ
( Coffee History)
آپ کو یہ جان کرحیرت ھو گی کہ کافی کافہ یا کیفا (Keffa, ایتھوپیا) کی پیداوار ھے۔
پندرہویں صدی میں کافی کےپودے کو جنوبی عرب میں کاشت کیا گیا۔
بعض روایات میں ھے کہ کافی کوسب سےپہلے ایک کلیدی (Kaldi) نامی چرواہےنے نویں صدی عیسوی میں دریافت کیا۔ #Coffee
قہوہ خانہ یعنی کافی ہاؤس پہلے 15 ویں صدی میں مکہ میں اور 16 ویں میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں نمودار ھوئے۔
کافی کو 16ویں اور 17ویں صدی میں ایک کے بعد ایک یورپی ملک میں متعارف کرایا گیا اور کافی مذہبی ، سیاسی اور طبی دوائی کے طور پراستعمال کی جانے لگی۔
17ویں صدی کےاختتام تک یہ
کافی ہاؤس پورے برطانیہ، امریکہ میں برطانوی کالونیوں اور براعظم یورپ میں پھل پھول رھے تھے۔
مشروب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سےپودےکا پھیلاؤ 17ویں صدی میں جاوا اور انڈونیشیا کے جزیرے کے اور 18ویں صدی میں امریکہ تک تیزی سے پھیل گیا۔ کافی کی کاشت 1825میں ہوائی جزائر میں شروع ھوگئی۔
ھندو مذہب کے مقدس دیوتا
(Holy gods/Lords of Hinduism)
پارجینا بارش کادیوتا کہلاتا تھا۔
رودرا وبائی ہواکا دیوتاکہلاتا تھا اسے شیو بھی کہا جاتا تھا۔
اندرا طوفان و بادوں باراں کا دیوتا تھا۔دیوتاؤں کے بھرے مندر میں اندرا سب سے مشہور اورمن پسند یہی دیوتا تھا۔ یہ دیوتا ھندوءوں #History
کیلئے بیش قیمت بارش برساتا,
سورج سے زیادہ اھمیت رکھتا۔ جنگوں میں بجلی کیطرح حملہ آور ھونے کیلئے اندرا کے منتر پڑھے جاتے۔ پھر ھندو خوشی میں سینکڑوں بیل کھاتے۔
دیو دیوتا ہوا کا دیوتا کہلاتا تھا۔
پرتھوی دیوتابارش اور نباتات کا دیوتا کہلاتا تھا۔
اساس سحر کا دیوتا تھا۔
کھیتوں کی دیوی
سیتا کو کہا جاتا ھے۔۔
سورج کے دیوتا سوریا، وشنو یا مترا تھے۔
سوما دیوتا ایسے مقدس درخت کی علامت تھا جس کا متبرک رس پینے والوں کو مدہوش کر دیتا ھے۔
اگنی ایک عرصے تک تمام دیوتاؤں میں سب سے اھم اور مقدس ترین تھا۔ آسمانوں سے باتیں کرتا یہ مقدس شعلہ قربانی کو سورگ تک لے جاتا تھا۔ اگنی
کارگل آپریشن (1999)
3 مئی 1999سے 12 اکتوبر 1999 تک کا سفر
مشرف اوراسکے ھم دماغ" جنرلز (جنرل عزیز،جنرل محمود) نےکنٹرول لائن کیساتھ کارگل کی پہاڑیوں پریہ آپریشن شروع کیا اورجمہوری PM نوازشریف کواس سے بالکل لاعلم رکھاگیا، ڈس انفارمیٹ کیاگیا اور اعتمادمیں نہ لیاگیا۔ #PakArmy #History
درحقیقت مشرف کا یہ کارگل منصوبہ کئی برسوں سے زیرِ غور تھا۔ لیکن اس پر عمل 1999 میں ھوا۔
نوازشریف کو بتایا گیا کہ اس آپریشن میں کوئی جانی نقصان ھوگا نہ ہی فوج حصہ کے گی بلکہ صرف مجاہدین لڑیں گے۔
لیکن جب حملہ کیا گیا تو دشمن کیطرف سے پوری ناردرن لائٹ انفنٹری اڑادی گئی۔
دو ہزار فوجی
شہید اور سینکڑوں زخمی ھوئے۔
انڈیا نے کارگل میں اپنی فضائیہ کو خوب استعمال کیا لیکن پاکستان کی ایئرفورس کو کارگل آپریشن کا فوجیوں کے LOC پار کرنے کے بہت دن بعد علم ھوا۔
مشرف سےپوچھا گیا کہ کیاآپ کو اسکااندازہ نہیں تھا؟ تو مشرف نےکارگل جنگ کی بالکل الٹ اور من چاہی دروغ گوئی پر مبنی
نکسل باڑی کی تحریک (1967)
یہ مغربی بنگال کے زمینداروں کیخلاف مسلح تحریک تھی جو کسانوں کی بغاوت سے شروع ھوئی۔ نکسل باڑی گاءوں سے اس تحریک کا آغاز ھوا جس کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا۔
تحریک کا آغاز ایک مسلمان عورت کی جاگیردار کے گماشتوں کے ہاتھوں آبروریزی سے ھوا، جس میں #History
خاتون کو بے آبرو کرنے کے بعد اسے اور اس کے شوہر کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا تھا۔
1966 میں بھارتی کمیونسٹوں نے سلیگری گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ کی اعلٰی قیادت میں چارو مجمدار، جنگل سنتھل، کانو سانیال، تربھینی کانو،سبحان، علی گورکھا اور تلکا ماجھی تھے۔یہ لوگ ماءوزے تنگ کے فلسفہ عوامی
جنگ پہ یقین رکھتے تھے۔
1970 میں جب ھندوستان کی حکومت نے جبرا اس تحریک کو ختم تو کر دیا مگر اسکے مزید چھوٹے چھوٹے گروپس بن گئے جو آج بھی متحرک ہیں اور نریندر مودی کیلئے سردرد بنے ھوئے ہیں اور سرکارپوری طاقت سے انکی پرتشدد کاروائیوں کیخلاف نبرد آزما ھے۔
نکسلی تحریک میں گذشتہ 55 برس
عراقی جنرل صدرصدام حسین کی پھانسی کا منظر
صدر صدام کو عید کے دن 30 دسمبر 2006 کی صبح 6 بجے بغداد مقام خدیمیئہ کے گرین زون (Camp Justice) میں پھانسی دی گئی۔ میت کو بذریعہ ہیلی کاپٹر تکریت ان کے آبائی قبرستان میں نہایت خاموشی کی ساتھ اس جگہ دفن کیا گیا جو کبھی اپنے #Iraq #History
دور اقتدار میں صدام نے خود اپنے لئے کھدوائی تھی۔ اس کے پہلو میں انکی والدہ اور انکے دو شہید بیٹے عزت حسین اور قصےحسین بھی مدفن ہیں۔
اگرتاریخی اوراق ٹٹولےجائیں تو پتا چلتا ھے کہ صدام کو پھانسی کی سزا 5 نومبر 1982 کو ایک شیعہ کو قتل کرنے کی پاداش میں سنائی گئی تھی جس کی اپیل پھانسی
سے 4 روز قبل خارج کردی گئی تھی۔
2006 میں بوقت پھانسی خود چل کر gallows تک آنا، سیاہ کپڑا پہننے سے انکار کرنا، چہرے پر کوئی غم، ملال نہ ڈر، اطمینان سے پھندے پر جھول جانا یہ ظاہر کرتا ھے کہ صدام امریکی حکم پر دی جانے والی پھانسی کو شہادت تصور کرتے تھے۔
صدام کو جیل سے پھانسی گھاٹ تک
خدا اور عزرائیل کے درمیان مکالمہ
خالق کائنات (عَزَّوَجَلَّ) نے ملک الموت حضرت عزرائیل سے سوال پوچھا کہ تم آدم سے لیکر اربوں انسانوں کی جاں قبضے کرچکے ھو اور خصلتا بے رحم مشہور ھو۔ کیا تمہیں جان نکالتے ھوئے کبھی کسی پر رحم آیا؟
آپ فرماتے ہیں میں آپ کی سرتابی کاتصور #سوچ_کا_سفر
بھی نہیں کرسکتا لیکن مجھے دو بار رحم ضرور آیا۔
ایک تب جب تیرتا ھوا سمندری جہاز لہروں کی نذر ھو رھاتھااور لکڑی کےایک تختے پر معصوم بچہ اور ماں تھپیڑوں سے جاں بچارھےتھے تب اسکی ماں کی جاں نکالنے کاحکم ھوا۔
دوسرا تب جب شدادنامی بادشاہ اپنی بنائی ھوئی جنت، باغات اور حوروں کو دیکھنے
کیلئے ایک قدم اندر رکھنے ہی والا تھا تب اسکی جاں نکالنے کا حکم ھوا۔
رب کائنات(عَزَّوَجَلَّ) یہ سن کر فرماتے ہیں کہ یہ شداد بادشاہ کےروپ میں وہی بچہ تھا جسکی ماں کی جان نکالتے ھوئے تمہیں ترس آگیاتھا۔ ھم نے اسےساحل پر پہنچایا، معزز گھرانے میں پالا، بےشمار خوبیاں دیں، پھر اس نے ساری