نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے لئے بطور کارکنان کام کرنے والے جری بہادر اور وفا پرست کارکنان پر آفرین ہے کس پامردی سے اس ناپاک ریاست کا مقابلہ کیا جب کے حالات اس قدر دگرگوں تھے کے پورے دن میں بی بی سی کا سیر بین ہی سننے کو ملتا تھا یا پھر پی ٹی وی کا خبر نامہ۔ ایسے ایسے انسانیت
سوز مظالم ڈھائے جاتے تھے جو ہٹلر کی گستاپو اور اسٹالن کی کے جی بی کو بھی شرما دے۔ لیکن سلام ہے سن ہزاروں شہید ساتھیوں پر کے انہوں نے قائد سے غداری پر شہادت کی اس موت کو ترجیح دی جس میں لواحقین کو ان کا لاشہ تک نا ملا ایسے کئی لاپتہ ساتھیوں کے گروپس شہید کر کے ویرانوں میں پھینک
دئے گئے یا بے نام و نشان دفن کر دئے گئے۔ انہی بے نام و نشان ساتھیوں کی یاد میں یادگار شہدا تعمیر کی گئی کیونکے قومیں صرف ووہی زندہ رہتی ہیں جو اپنے شہدا کو یاد رکھتی ہیں۔
ان عظیم شہدا کی یاد کی جو بے قدری اور بے توقیری دو ہزار سولہ کے بعد دیکھی گئی اور اس پر شہدا کے خون کا سودا
کر کے تحریک کو غصب کرنے والے نام نہاد مہاجر رہنماؤں نے اسمبلی فلور پر ان کی شہادت کی نفی کی آج اسی عمل کے باعث ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے اگر آج ایک بھی مہاجر جو ان کے اوپر ذرہ بھر بھی اعتماد کا شائبہ رکھتا ہو تو وہ ان کے جرائم، مظالم، اور قوم کی اس بے توقیری میں شریک مجرم
ہے۔ اور جو ساتھی اور ہمدرد کسی بھی وجہ سے مایوس ہو کر گھر میں بیٹھ چکا ہے ان سے میری درخواست ہے اس طرح سے مایوس ہو کر گھر بیٹھنے سے قوم کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی ماسوا اس کے آپ کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ کبھی ڈکیتی میں کبھی راہ چلتے، کبھی ریاستی تحویل میں اور کبھی کیسے کبھی کیسے
ساتھیو! اٹھو اور #Mohajir_Needs_Altaf کا نعرہ لگا کر نائن زیرو پر لگا قابض ریاست کا تالا توڑ کر اپنی توقیر کا مرکز، مہاجر جدوجہد کا نشان اپنی تحویل میں لے لو۔ پہلے قدم پر مرکزیت کی بحالی اور پھر اس کے بعد جوق در جوق قائد سے بعیت وفا کی تجدید، اور پھر اس وقت مرکز پر دھرنا و تادم
مرگ بھوک ہڑتال کے یہ ظالم ریاست اپنی متکبرانہ،غیر قانونی اور متعصبانہ پالیسی جس کے تحت قائد تحریک کی تقریر و تصویر پر پابندی عائد کر رکھی ہے اٹھا نا لے اور تحریک کے تمام دفاتر بائیس اگست دو ہزار سولہ سے پہلے کی حالت میں بحال نا کر دے ۔ یہی وہ بقا اور بحالی کا راستہ ہے ۔
مہاجر قومیت و سیاست کی بقا کیلئے قوم کے نام پیغام:
اب تک جو ہوا وہ بہت برا ہوا۔اب اس سے زیادہ برا ہو بھی نہیں سکتا گر آپ چاہتے ہیں کے آگے سے سب اچھا ہو تو خدارا #Mohajir_Needs_Altaf کے بینر تلے جمع ہوں اور لیاقت علی خاں کے اس مکے کی مانند ایکدوسرے سے جڑ جائیں جس کی مثال نا ہو۔
دو ہزار سولہ کے بعد سے جن دوستوں نے اپنی ایک علیحدہ راہ متعین کی وہ قوم کو ایک بند گلی میں لے آئی ہے اب اس بند راستے سے اس پار لیجانے کیلئے ایک مضبوط اور مربوط قیادت کیلئے #Mohajir_needs_Altaf ہی ایک فوری حل ہے قوم کے گھر گھر میں آج بھی انکا پیغام سنا اور مانا جاتا ہے۔
دیگر گروپس میں ذی ہوش اور شعور رکھنے والے کارکنان، ذمے داران اور ہمدردان سے ایک بار پھر درخواست صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے اگر رتی بھر بھی قوم کا درد دل و دماغ میں باقی ہے تو جس #مہاجر_اتحاد کا خواب آپ کو دکھایا جا رہا ہے اس کی تعبیر اور تکمیل کیلئے
کراچی کی سیاسی ترکیب میں الطاف حسین وہ مسلمہ حقیقت ہے جس سے ضرب کھا کر مٹی سیاستدان بھی کندن بن جاتا ہے۔ میں آج تک اس گتھی کو سلجھانے میں ناکام رہا ہوں کے کیونکر ایک سیاستدان مٹی میں ضائع ہوتے نوجوانوں کو ملک کے بڑے ایوانوں میں پہنچا دیتا ہے لیکن خود ان ایوانوں میں حصہ لینے سے
اجتناب کرتا ہے۔ میری تیس سال کی الطاف حسین کی ذات پر مشاہدہ سے اب تک جو میں سمجھ پایا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کے وہ غلط ہو اور میرا صرف قیاس ہو کے الطاف حسین اپنی اوائل عمری سے ہی پاکستان کی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور اثر و رسوخ کا اندازا لگا چکے تھے اور ملکی ایوانوں کو
حاصل شدہ اختیارات کی محدودیت کو جان چکے تھے اور اب انکے سامنے صرف دو راستے تھے کے یا تو وہ اس نیم اختیار آتی نظام کی سیاست کے ایوانوں میں جا کر نواز شریف، زرداری اور عمران خان کی طرح اپنی جگ ہنسائی کرواتے یا پھر موجودہ طریق سیاست اختیار کرتے ہوے اپنے حمایت یافتہ نمائندوں کو ان
ڈاکٹر عمران فاروق غازی بانوے آپریشن اور شہید انقلاب، آخری وقت تک قائد کے بازو رہے۔
ان کی شخصیت پاکستانی فوج کیلئے اکہتر کی ہار جیسی شرمندگی سے مماثلت رکھتی تھی۔ ان کی جنگ براہ راست آئی ایس آئی سے تھی۔ جس طرح سے وہ کئی سال کراچی میں جاری بد ترین آپریشن کے دوران کراچی میں روپوش
رہ کر تنظیمی نیٹورک کو چلاتے رہے جبکے پاکستان بھر کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں جوشکاری کتوں کی طرح ان کی بو سونگھتے پھر رہی تھیں ان کو زچ کئے رکھا۔ یاد رہے اس ریاست نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر سات لاکھ روپوں کا انعام بھی رکھا۔ اور کئی بار اس ملک کی نالائق ایجنسیوں
نے ان کے قتل کئے جانے کی خبریں چلو آئیں بلکے صولت مرزا کی اولین جے آئی ٹی میں اس سے یہ بھی کہلوایا گیا کے اس نے بلوچستان کے کسی دور افتادہ علاقے میں عمران فاروق بھائی کی جان بھی لے لی ہے۔ ان سخت حالات اور پاکستانی فوج کی کیلئے ایک ڈراؤنے خواب بنے رہنے کے بعد اس وقت آپ کراچی سے
کبھی آپ لوگوں نے یہ سوچا ہے کہ یہ پنجابی فوج مہاجروں کے اتنا خلاف کیوں ہے ؟
جبکے مہاجر قوم نے ہمیشہ دامے درمے قدمے پاکستان کی سالمیت کیلئے اس فوج کا ہمیشہ ساتھ دیا اور صلے میں ہمیشہ پیٹھ میں خنجر پایا۔
نوزائدہ سلطنت کا نظام اور افسر شاہی کس نے بنائی لیاقت علی خان کی قیادت
میں کھڑی کی اور صلے میں لیاقت علی کی لاش ملی۔
بنگلہ دیش میں جب چننا پڑا تو اس فوج کو چنا ان کی حفاظت کی اور صلے میں پایا کیمپ میں کئی نسلوں کی زندگی۔
الطاف حسین نے بارہا ملکی سالمیت کیلئے خدمات پیش کیں اور ملک دشمن جماعتوں کا راستہ عرصہ دراز تک کراچی کی سیاست میں روکے رکھا
اور صلے میں پائے کئی ریاستی آپریشن، ماورائے عدالت قتل، لاپتہ نوجوان مسخ شدہ لاشیں سیاسی دفاتر کی مسماری، اور ملک شکنی کے الزامات۔
اس تمہید کے بعد آتے ہیں اصل مدعے کی طرف جو اس تھریڈ کے شروع میں لکھا گیا یعنی مہاجر قوم سے اس پنجابی فوج کی نفرت کی وجہ کیا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے
پیپلز پارٹی اور فوج کے مابین انیس سو اٹھاسی کی بینظیر جو حکومت ملنے سے پہلے معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ طے ہوا تھا کے کراچی کو چھوڑ کر پورے سندہ پر پیپلز پارٹی کی عملداری ہو گی اور کراچی کور کمانڈر کی عملداری میں ہو گا
اس معاہدے پر آج تک عمل ہوتا رہا لیکن اب اسٹیل ملز کی کھربوں روپوں کی زمین جو کے اتفاق سے اندرون سندھ اور کراچی کے بارڈر پر واقع ہے اس کی ملکیت پر دونوں دعویدار ہیں دونوں پارٹیوں کے پاس بہترین ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے ادارے موجود ہیں یعنی ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن
زرداری کی دورس نگاہوں نے عرصہ دراز پہلے فوج کی ڈی ایچ اے سٹی بنانے کے قدم سے اندازا لگا لیا تھا کے ان فوج اگلا قدم اسٹیل ملز کی زمینوں کیلئے اٹھائے گی سو اس نے ادارے کے مقابل بحریہ ٹاؤن کی پیٹھ تھپک کر اس کو میدان میں اتار دیا تھا اب ان دو ہاتھیوں کی جنگ میں سب سے بڑا نقصان
لونڈے بازی پنجاب میں ایک عام مشغلہ سمجھا جاتا رہا ہے اس لئے اکثر اس قبیح جرم کی سزا و جزا جا تعین علاقے کے معززین کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کا عموماً فیصلہ توبہ کرانے اور دو چار چھتر سے لیکر منہ کالا اور گنجا کر کے گدھے پر چکر دلانے تک ہوتا ہے۔ اب اس ہومیوپیتھک سزا
کے بعد لونڈے باز اور شیر ہو جاتا ہے اور پھر جب اس پر دوبارہ ہیجان چڑھتا ہے تو وہ پھر اپنے آپ کو اس علت سے روک نہیں پاتا اور پھر سے کسی معصوم شکار کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ عموماً معصوم بچے بچیاں خاص کر کے غریب گھروں والے ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں
سے آٹھ بچوں کیساتھ پنجاب میں کبھی نا کبھی زیادتی ہوتی ہے یا کوشش ہوتی ہے۔ سو اس معاشرے میں جیسے کے مذکورہ خبر میں ہے کے اس علت کا شکار نوجوان اس سے پیشتر دو بار اس قبیح جرم کا ارتکاب کر چکا تھا اور ہر بار علاقہ معززین جو کہ عموما وہی حرام زادے بزرگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ بچپن میں