#mughals #Rajput #relationships #facts
مغل راجپوت تعلقات___تاریخ کے آئینے میں
تاریخ شاہدھے کہ مغل اور راجپوت روابط تاریخ کےسب سےمضبوط سیاسی اتحاد میں سے ایک رھے ہیں۔
"تاج محل" کے پاءوں کے نیچے کی زمین مغلوں کوایک راجپوت کی عنایت کردہ ھے اوران دونوں میں خون کےروابط رھے۔
مغل بادشاہ
جلال الدین اکبر کی شادی راجپوت شہزادی ہرکھا بائی سے ھوئی۔
اس شادی سے پہلے بھی ہمارے پاس یہ تاریخی ثبوت موجود ھے کہ کس طرح ہمایوں نے ایک راجپوت شہزادی جو اسکی راکھی بہن تھی، کی حفاظت کے لیے شیر شاہ سوری کےمقابل ایک جیتی ھوئی جنگ ہار دی۔
اسی ہار نے حقیقت میں ہمیشہ کے لیے اس کی قسمت
بدل کر رکھ دی۔
پھر تاریخ نے لکھا کہ راجپوت_مغل خون کےملاپ نے دو شہنشاہوں شاہجہان اور جہانگیر کو جنم دی۔ یہی اتحاد بہت سے کامیاب حملوں اور فتوحات کاپیش خیمہ بنا۔
تاریخ نے پھر لکھا کہ یہ بندھن لافانی تب بنا جب شاہ جہان نے اپنےپرجوش اور شہرہ افاق منصوبے تاج محل کی تعمیر کیلئے راجپوت
راجہ مرزا مان سنگھ جو *امیر کا مہاراجہ تھا، کے باغ کی جگہ کا انتخاب کیا، جو آج دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک ھے۔
راجپوت راجہ مان سنگھ کے شاہی دربار سے گہرے خاندانی روابط بھی تھے کیونکہ وہ ہرکھا بائی کا بھتیجا اور جہانگیر کی پہلی بیوی کا بھائی تھا۔
گویا ھم کہ سکتے ہیں کہ "تاج محل"
راجپوتوں کی زمین پر کھڑا ھے اور راجپوت مغل ایک دوسرے کے خون میں شامل ہیں۔
لیکن راجپوت اور مغل اتحاد کا بنیادی تعلق اور #تاریخ شاید ہی کسی کو معلوم ھو۔
#Shia #Scholar
علامہ طالب جوہری (شیعہ اسکالر)
پٹنہ، بھارت
27 اگست 1929- 22 جون 2020
خانوادہءآیت اللہ مولانامحمدمصطفیٰ کے چشم وچراغ اورفرزندجلیل
عظیم المعتبر خطیبِ دوراں، شاعر
مفکر، مفسرقرآن وحدیث
ماہرعلوم اسلامیہ،ستارہ امتیازکےمالک
اردو، فارسی،عربی زبانوں پردسترس
فقہ جعفریہ
کی نہایت قد آور اور ممتاز شخصیت مولانا طالب جوہری 1929 میں ریاست بہار کے شہر پٹنہ (بھارت) میں پیدا ھوئے۔
ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کرکے مذہبی تعلیم کیلئے نجف وعراق کاسفر کیا۔ وھاں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الخوئی کے زیرانتظام "حوزہ علمیہ" (Howza Ilmiya) جہاں شیعہ طلباءتعلیم
پاتے تھے، میں داخلہ لیا۔
عراق میں تقریباً دس سال قیام کیا اور نہ صرف عربی و فارسی پر عبور حاصل کیا بلکہ عرب وعجم کی تاریخ پر بھی مکمل گرفت حاصل کی۔
اگر ھم علامہ صاحب کی شخصیت میں غوطہ زن ھوں تو قہوہ اور کھجوروں کے دلدادہ طالب جوہری علوم قرآنی پر ملکہ رکھنے کے باوجودخشک طبیعت ہرگز
جنگ اہرام (مصر) اور (فری میسنری) نپولین بوناپارٹ
مصر اور نپولین کے درمیان تعلق بھی بہت گہرا ھے اسکےمذہب کی وجہ سے۔
اہرام مصرسے متعلق ایک سیر حاصل تحقیق اسوقت بھی عمل میں آئی جب فرانسیسی ملٹری جنرل ڈکٹیٹرنپولین مسنداقتدار پر بیٹھا۔
نپولین صرف شخصی حساب #Egyptology #France #History
سے ہی نہیں بلکہ عادات میں بھی عجیب و غریب رحجانات کا مالک تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک فری میسن (Illuminati) تھا۔
اپنے فری میسنری خیالات کی ترویج نے اسے اہرام مصر کی تحقیق اور فتح پر مجبور کیا۔
وہ پہلے مصر کو فتح کرنا چاہتا تھا پھر ھندوستان کو اور پھرپوری دنیا کو.
۳۳۰ جنگی جہازوں پر
۳۶ ہزار سپاہیوں کےلشکرجرار کے ساتھ تولون (Toulon) سے مصرفتح کرنےنکلا۔
نپولین پراسرار قوتوں پر شدت سے یقین رکھتاتھا اسی لیے اسکی مصرمیں دلچسپی انتہاپر پہنچ چکی تھی۔
اسکندریہ کیطرف سفر کرتےوقت اسکےساتھ 175 عالم تھےیہ وہ فرانسیسی دانشورتھے جنہیں قدیم مصری ثقافت جاننےکابہت دعویٰ تھا۔
#Sikh #architecture #ਪੰਜਾਬ #ਨੌਨੀਹਾਲ_ਸਿੰਘ_ਹਵੇਲਿ
نونہال سنگھ حویلی (بھاٹی گیٹ، لاھور)
گزرے وقت کی جاہ وحشمت والی حویلی، پھرعہد برطانیہ کاوکٹوریہ سکول اور آج کا گرلز ہائر سکینڈری سکول
مہاراجہ رنجیت کے پوتےکنور نونہال سنگھ (1821-1840) کی یادگار
بلاشبہ اپنے باپ کھڑک سنگھ کیطرح نونہال
نالائق نہ تھا۔
نونہال سنگھ نے بھاٹی گیٹ (لاھور) کے اندر یہ حویلی 1830 میں عہد رنجیت میں ہی تعمیر کروائی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نونہال سنگھ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1839سے 1840 تک ایک Defecto حکمران رہا۔
نونہال سنگھ زیادہ تر ایسا حکمران تھا جسکےدوسرے شاہی درباروں سےاچھے
تعلقات رہے۔
اس کی یہ حویلی سکھ عہد کے طرزِ تعمیر کا بہترین شاہکار ھے۔
یہ حویلی برطانوی راج میں ایک طویل عرصہ "Victoria Girls School" کیلئے مختص رہی۔ داخلی دروازے کے دونوں طرف بڑے سائز کے محافظوں کی پینٹنگز جن پر آج پینٹ کر دیا گیا ھے۔
بیسیوں کشادہ کمرے،سجاوٹی کام، جھروکے، کھڑکیاں
#ancientEgypt #Egyptology
پیپائرس (Pepyrus)
قدیم کاغذ___5000 سال قبل مسیح
سب سے پہلی بات کہ /"کاغذ (Pepyrus) اسکندر اعظم نےمتعارف کروایا تھا" یہ غلط تاریخ ھے۔
جب تاریخ کا فن ایجاد ھواتو سب سے پہلے اسے بذریعہ زبان کاغذ پر اتارنے کا عمل شروع ھوا۔
پیپائرس ہی دنیاکاوہ قدیم اور اولین
کاغذ تھا جسے قدیم مصریوں نے نہایت نفاست اور مہارت سے ایسے بنایا کہ وہ ٹائم پروف ھو گیا۔
قدیم مصری پیپرس سے گودا نکالتے، پھر اسے کاٹتے، کوٹتے، اسکے ریشے کھول کے اسے ہموار کرتے اور آپس میں جوڑ کے فل اسکیپ شیٹ بناتے تھے۔
کمال دیکھیں کہ وہ پیپائرس آج کےکاغذ سے کہیں زیادہ پائیدار ھوتا
تھا جب ہی اس پر درج تحریریں اور دستاویزات آج تک موجود ہیں۔
ماہر مصریات بلکہ تمام موءرخین اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اہل مصر تمام علوم پر مہارت و دسترس رکھتے تھے۔
قدیم مصر کے بارھویں خاندان کے مقبرے اور یادگاروں سے Pepyri کے رول ملے ہیں۔ چوتھے خاندان مصر کے مقبروں سے ملنے
#Baloch #literary #History
بلوچی ادب کے ادوار
بلوچی ادب ہر کھٹن اور رنگین زندگی کے ہر موڑ اور ہر موسم کا عکاس ھے۔
بلوچی ادب راست بازی، راست گفتاری، غیرت و محبت، حمیت، سخاوت، مہمان نوازی، حقوق، قول و قرار کی پابندی، عزم و استقلال، اخلاصِ عمل کا ترجمان ھے۔
آغاز میں شاعری کےموضوع یا
تو جنگی ھوتے تھےیا بارش اور فطرتی یاپھر عشقیہ۔ بلوچ قدیم ادب میں قصیدہ سرائی نہیں ملتی۔ ڈائریکٹ، سچی اوررواں شاعری ھوتی تھی۔ غزل کاوجود نہ تھا۔
طویل نظمیں ھوتی تھیں جن میں صرف بحرکاخیال رکھاجاتاتھا۔ بلوچی ادب کوچار ادوارمیں تقسیم کیاجاتاھے؛
پہلا دور__یہ دورسولہویں صدی کاshivalrey
دور تھا۔ اس دور کےشعراء رندولاشار کے مابین لڑی جانےوالی تیس سالہ تاریخی جنگ کی مفصل تاریخ پر مبنی شاعری پیش کرتا ھے۔
اس دورکی شاعری کاموضوع انسانوں کابےدریغ قتل، بہادروں کےکارنامے، بزدلوں اورمیدان جنگ کےبھگوڑوں پرلعن طعن، نفرتوں وحشتوں اور رونگٹے کھڑی کردینےوالےواقعات، قحط وبھوک،
کا نام دیا گیا کیونکہ اودھم سنگھ نے اس بدلے کیلئے 20 سال انتظار کیا۔
اودھم سنگھ نے 2000 لوگوں کے قاتل لیفٹیننٹ گورنرآف پنجاب Michael O'Dwyer کو Caxton Hall لندن (برطانیہ) میں قتل کیا۔
تقریباً20سال اودھم سنگھ نےاس قتل کی منصوبہ بندی کی، برطانیہ ہجرت کی، اپناحلیہ بدلا، شناخت چھپائی
سالہا سال وھاں گزارے اور 13 مارچ 1940ء میں یہ "کارنامہ" لندن Caxton Hall مل یں انجام دیا۔
یہ "سانحہ جلیانوالہ باغ" (1919ء) ہی تھا جس نے "سردار شہید بھگت سنگھ سندھو"، "سردار شہید اودھم سنگھ" جیسی انقلابی بغاوتوں سےنئی تاریخ کو بھی جنم دیا۔
آج اس سانحے کےقاتل اور مقتول دونوں کے فعل