As the people of Kashmir continue to bleed & slide deeper into abject poverty,their rulers in #AJK use those very miserable people as their justification to spend 100s of millions of taxpayers’ money to sustain their
own personal lifestyle @ the level of high luxury.
Within 16 months, AJK government purchased 164 luxury cars worth Rs. 870 million for its administrative and political elite in utter violation of rules.
As life-size posters Kashmiri martyrs go up all over the country to show how much we care for Kashmir in this most difficult hour in Kashmir’s history,those who claim to represent Kashmiris continue to stick to their reckless selfish ways. kashmirwatch.com/ajk-govts-race…
کشمیر:ایک تاریخی فریب
4 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک حکومت قائم ہوئی۔ 24 اکتوبر 1947 کو اس حکومت کی تشکیل نو ہوئی۔ سردار ابراہیم خان صدر مقرر ہویے۔ یہ لوگوں کی منتخب کردہ حکومت نہیں تھی بلکہ راولپنڈی کے کمشنر، خواجہ عبدالرحیم نے اس حکومت کو تشکیل دیا۔
2. اس حکومت نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت ہے اور کشمیر کے اُس حصے کو آزاد کرائے گی جو اب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کہلاتا ہے۔
لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کشمیر کے اس حصے کو کس سے آزاد کرانا تھا
3. کیونکہ وہاں ایک صدی پر محیط ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف ایک جاندار تحریک چل رہی تھی۔
اس نئی حکومت نے یہ ذمہ داری خود ہی لے لی تھی۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں نے اس نئی حکومت سے کوئی مدد نہیں مانگی اور نہ ہی ان کو کوئی مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ ان کی نمائندگی کریں۔
ریاست جموں و کشمیر کے صرف 6 فیصد حکومت پوری ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت ہوسکتی ہے؟ پہلے تو اس کا احتساب ہونا چاہیے کہ اس حکومت کے قیام کے بعد سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لوگ مرتے ائے ہیں اور اب تک جموں سے وادی تک تین لاکھ لوگ مارے گیے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں تین نسلیں قبروں میں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چند خاندانوں کی تین نسلیں اقتدار کے ایوانوں میں۔ کیا اپ نہیں سمجھتے انکے ہاتھوں پر خون ہے؟ کیا یہ وہی حکومت نہیں جس نے 2019 میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے لوگوں سے اعلانیہ طور پر لاتعلقی
3. کا اظہار کیا اور کہا کہ
وہ لوکل اتھارٹی ہیں اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے لوگوں کے لیے بات کر کا اختیار نہیں رکھتے۔
کیا یہ وہی حکومت نہیں ہے جس نے 1947 میں کہا کہ وہ کشمیر کو ازاد کرائیں گے۔ کس سے ازادی؟ اسی دوران جموں میں نسل کشی ہوئی اور کشمیر میں انڈیا کی فوج اگئی۔
A fabricated narrative is being spread to create hatred against Kashmiri refugees: that the 12 refugee members in the Pakistan-administered Kashmir Assembly, out of a total of 53, form or topple governments in the region, supposedly under the direction of the Pakistani govt.
This propaganda is pushed by pro-status quo political elites and regionalist groups. The hatred has spread beyond Pakistan-administered Kashmir to Europe, the United States, and Canada.
3
The Facts:
The Pakistan-administered Kashmir Assembly has 53 members: 41 from Pakistan-administered Kashmir and 12 elected from Kashmiri refugees living in Pakistan. A President or Prime Minister requires 27 votes to be elected; 35 votes are needed to amend the constitution.
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری پناہ گزینوں (ریفیوجیز) کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے یہ جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کی حکومت کے کہنے پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں۔
2. اس پروپیگنڈے میں status quo کو برقرار رکھنے والے سیاسی جماعتوں سے لے کر hyper-regionalist گروہ تک سب شامل ہیں۔
یہ نفرت صرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تک محدود نہیں بلکہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا تک پھیل چکی ہے۔
3
حقیقت کیا ہے؟
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی اسمبلی میں کل 53 اراکین ہیں۔
ان میں سے 41 اراکین کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، جبکہ 12 اراکین پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی نشستوں پر منتخب ہوتے ہیں۔
پاکستان کے زیرانتظام کش۔یر میں 2022-2023 اور 2023-2024 میں
869 ٹریفک حادثات، 310 جانیں ضائع – 113 ارب خرچ مگر آزاد کشمیر کی سڑکیں، قانون شکنی اور پرانی گاڑیاں موت کا سامان.
آزاد کشمیر میں سنہ 2023 کے مقابلے میں سنہ 2024 میں ٹریفک حادثات کی تعداد میں 54۔6 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ان حادثات میں اموات کی شرح میں 23.02 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
جنوری 2023 سے فروری 2025 تک، محض دو سالوں میں، آبادی کے لحاظ سے راولپنڈی ڈسٹرکٹ سے بھی چھوٹے علاقے میں 869 ٹریفک حادثات پیش آئے۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی وہ حکومت جو خود کو پوری ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت کہلاتی رہی ہے اور اس خطے کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انڈیا مخالف جدوجہد کا بیس کیمپ گردانتی رہی
اس وقت سیاسی اشرافیہ کی مراعات بڑھاتی رہی
جب انڈیا نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کو بندوق کےنوک پر ضم کیا اور وہاں کی مقامی ابادی مہینوں فوجی محاصرے میں رہی اور ان کو نسل کشی کا خطرہ تھا۔
2017 سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں سیاسی اشرافیہ کے لیے 7 مرتبہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا گیا۔