سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی شکل میں پاکستان کی عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
کون غدار ہے؟
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ ’ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر
#غدار_نہیں_وفادار
بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے۔‘
یہ آئینی تعریف کی وہ شکل ہے جو آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد سامنے آتی ہے۔
’ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والا شخص‘ آئین کے مطابق غداری کی تعریف کے اندر نہیں آتا۔ وہ ’قومی سلامتی‘ کے زمرے میں آتا ہے جس کی کئی ذیلی دفعات ہو سکتی ہیں۔
غداری کے آئینی تصور کا تعلق آئینی معطلی سے ہے۔
’یعنی اگر آئین کو معطل یا منسوخ کیا جائے۔ اس کی تاریخ بھی یہی ہے کہ اس سے قبل کیونکہ فوجی حکومتیں آتی رہی تھیں تو 1973 کے آئین میں غداری کا تصور شامل کیا گیا۔‘
’غداری کا یہ آئینی تصور انتہائی احتیاط سے ترتیب دیا گیا ہے اس لیے ہمارا جو اکثر یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر کسی ادارے کے خلاف کوئی بات کر دیں تو وہ غداری کے زمرے میں آ جائے گا، میرا نہیں خیال کہ یہ بات درست ہے۔‘
غداری کا تعین کرنا اور اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا صرف اور صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ اس بات کی تحقیق کے بعد وفاقی حکومت شکایت کا آغاز کرتی ہے۔
مقدمے کی کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سنہ 1973 کے آئین میں غداری کا تصور شامل کرنے کے بعد ایک قانون بنایا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ کوئی غداری کا مرتکب ٹھہرا ہے یا نہیں۔
یہ ایک فوجداری مقدمہ ہوتا ہے جس کی سزا موت یا عمر قید ہے تو اس میں اسی طرز کی شہادتیں اور گواہان درکار ہوتے ہیں۔
’اسی طرح بارِ ثبوت بھی الزام لگانے والے پر یعنی حکومت پر ہو گا۔‘
اگر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت کا تختہ آئینی طریقے سے نہ الٹایا، اس کا مطلب ہے کہ آئین تحلیل ہوا۔ دوسرا یہ ہے کہ جب وہ حکومت میں آئے اور کہے کہ ہم نے آئین تحلیل کر دیا تو یہ دوسری شہادت ہوتی ہے۔
’آئین تحلیل کرنے والے کے خلاف اس کے اعمال کی بنیاد پر بہت سی مثالیں موجود ہوتی ہیں جیسا کہ کبھی مارشل لا لگایا جاتا ہے تو کبھی ایمرجنسی لگائی جاتی ہے۔‘ #غدار_نہیں_وفادار
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار ، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ
چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا
نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج
کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس
نوازشریف نے کہا میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتاہوں کہ مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیالیکن قوم وملک کامفادمجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں دےرہا آپ اگر پاکستان کی تاریخ سےواقف ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں؟کن لوگوں پر بنتے ہیں؟اور
ان لوگوں کا اصل گنا کیا ہوتا ہے ان کا اصل گناہ صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت انہیں چاہتی ہے ان پر اعتماد کرتی ہے انہیں قیادت پر بٹھاتی ہے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت عوام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ملکی
پالیساں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں میں بھی اسی راستے کا ایک مسافر ہوں میں بھی چاہتا ہوں کہ عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے ان کے ووٹ کی عزت کی جائے ان کی مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے آئین کا احترام کیا جائے تمام ادارے اپنی طے کردہ حدود میں رہیں
میاں محمد نواز شریف نے کہا یہ بات بھی ریکارڈ پر ھے کہ میں نے یہ بھی ہدایت کی سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔
لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت و عظمت ، اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔
آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا‘
سلطنت پر یلغار کی تو بغداد سلطان #خوارزم_علاؤ_الدین کا ساتھ پوری قوت سے دےگا۔ مگر اس سفارتی وفد میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جس نے بڑےبڑے بال رکھےہوئے تھےجو اُس نےمنگول دارالحکومت میں پہنچ کر منڈوا لئے۔ سفارتی وفد میں اور کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ اس شخص
👇
کی کھوپڑی پر ایک خفیہ پیغام کندہ تھا جس میں منگول خاقان کو یقین دلایاگیا تھا کہ منگولوں اور خوارزمیوں کی جنگ کی صورت میں بغداد مکمل طور پر غیر جانبدار رہےگا۔ غداری کی اسی داستان کو #نسیم_حجازی_مرحوم نے اپنے مشہور ناول #آخری_چٹان کا موضوع بنایا تھا۔
👇👇