مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا‘
مجھے کہا گیا کہ بھاری پتھر کو اٹھانے کا ارادہ ترک کرو ‘ مشرف کا تو کچھ نہیں بگڑے گا لیکن آپ کے لئے مشکلات پیدا ہوجائیں گی لیکن میں نے مشورہ نما دھمکیوں کو مسترد کردیا۔
ڈکٹیٹر کو عدالتی کٹہرے میں لانا آسان کام نہیں ‘ قانون و انصاف کے سارے ہتھیار صرف اہل سیاست کے لئے بنے ہیں‘ ہائی جیکر ‘ سسلین مافیا ‘ گاڈ فادر، وطن دشمن یا غدار کے القابات سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘
میں پاکستان کا بیٹا ہوں اور اس مٹی کا ایک ایک ذرہ مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے‘ مجھے کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں‘ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے 5ارب ڈالر کی پیشکش ہوئی جسے مسترد کیا۔
احتساب عدالت میں استغاثہ میرے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش کرسکا نہ کوئی الزام ثابت ہوا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں پانامہ پیپرز کی بنیاد پر بنائے گئے کھوکھلے ریفرنسز کی لمبی داستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے مختصراً یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں
کہ مجھے ان مقدمات میں الجھانے کا حقیقی پس منظر کیا ہے؟ ان مقدموں‘ ان ریفرنسز‘ میری نااہلی اور پارٹی صدارت سے فراغت کے اسباب و محرکات کو میں ہی نہیں پاکستانی قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے
انہوں نے کہا کہ 12اکتوبر 1999ءکو پرویز مشرف نامی جرنیل نے آئین سے بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ ہر دور کے آمروں کو خوش آمدید کہنے والے منصفوں نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور اس کے ہاتھ پر بیت کرلی۔
8سال بعد 3نومبر 2007 کو اس نے ایک بار پھر آئین توڑا‘ ایمرجنسی کے نام پر ایک بار پھر مارشل لاءنافذ کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ساٹھ کے لگ بھگ جج صاحبان کو اپنے گھروں میں قید کردیا۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کی شرمناک واردات کی نظیر شاید ہی ملتی ہو۔ نواز شریف نے کہا کہ ایک جمہوری جماعت کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) نے مشرف کے غیر آئینی اقدامات کے بارے میں ایک واضح موقف اپنایا۔
2013 کی انتخابی مہم میں اپنا یہ موقف عوام کے سامنے رکھتے ہوئے ہم نے واضح طور پر کہا کہ حکومت قائم ہونے کی صورت یں آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کی روشنی میں مشرف پر ہائی ٹریزن کا مقدمہ قائم کیا جائے گا۔
عوام نے ہمارے موقف کی تائید کی۔ حکومت قائم ہونے کے بعد توانائی کے بحران اور دہشت گردی پر قابو پانے کی اولین ترجیحات کے ساتھ میری حکومت نے پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے لئے وکلاءسے مشاورت کا آغاز کیا۔
مجھے مشورہ دیا گیا کہ اس بھاری پتھر کو اٹھانے کا ارادہ ترک کردوں۔ مجھے ایسے پیغامات بھی ملے کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے سے اس کا تو شاید کچھ نہ بگڑے مگر میرے لئے بہت مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔
ان مشورہ نما دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میں اپنے ارادے پر قائم رہا۔ نواز شریف نے کہا کہ اس سے بھی پہلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آصف علی زرداری ایک اہم قومی سیاسی رہنما کے ہمراہ میرے پاس آئے
انہی مصلحتوں نے جمہوریت کو اس قدر کمزور کردیا ہے کہ وہ سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ آئین سے غداری کرنے والے ڈکٹیٹر کو Indeminity دینے یعنی اس کے غیر آئینی اقدام کی پارلیمانی توثیق کرنے کے بجائے اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
اس سے پوچھا جائے کہ اس نے اپنا حلف کیوں توڑا اور مسلح افواج کی طاقت کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے کیں استعمال کیا؟۔ 2013ءکے اواخر میں غداری مقدمہ قائم کرنے کا عمل شروع ہوتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ آئین اپنی جگہ جمہوریت کے تقاضے اپنی جگہ‘
پارلیمنٹ کی بالادستی اپنی جگہ‘ قانون کی حکمرانی اپنی جگہ اور پاکستان کے عوام کا منڈیٹ اپنی جگہ لیکن ایک ڈکٹیٹر کو عدالت کے کٹہرے میں لانا کوئی آسان کام نہیں۔ شاید قانون و انصاف کے سارے ہتھیار صرف اہل سیاست کے لئے بنے ہیں۔
جابروں کا سامنا ہوتے ہی ان ہتھیاروں کی دھار کند ہوجاتی ہے اور فولاد بھی موم بن جاتا ہے۔
جنوری 2014 میں ہائی ٹریزن کا ملزم گاڑیوں کے جلوس میں عدالت پیشی کے لئے اپنے محل سے نکلا اور اچانک کسی طے شدہ پلان کے تحت وہ راولپنڈی کے
آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچ گیا جہاں وہ کسی پراسرار بیماری کا بہانہ کرکے ہفتوں قانون اور عدالت کی دسترس سے دور بیٹھا رہا۔ سیاستدانوں اور وزیراعظم کے منصب پر بیٹھنے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اور آج بھی ہورہا ہے
اس سے آپ بخوبی واقف ہیں لیکن کوئی قانون نہ تو غداری کے مرتکب ڈکٹیٹر کو ہتھکڑی ڈال سکا نہ اسے ایک گھنٹے کے لئے جیل بھیج سکا۔ اس کی نوبت آئی بھی تو اس کے عالی شان محل نما فارم ہاﺅس کو سب جیل کا نام دے دیا گیا۔ #غدار_نہیں_وفادار
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار ، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ
چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا
نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج
کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس
نوازشریف نے کہا میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتاہوں کہ مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیالیکن قوم وملک کامفادمجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں دےرہا آپ اگر پاکستان کی تاریخ سےواقف ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں؟کن لوگوں پر بنتے ہیں؟اور
ان لوگوں کا اصل گنا کیا ہوتا ہے ان کا اصل گناہ صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت انہیں چاہتی ہے ان پر اعتماد کرتی ہے انہیں قیادت پر بٹھاتی ہے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت عوام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ملکی
پالیساں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں میں بھی اسی راستے کا ایک مسافر ہوں میں بھی چاہتا ہوں کہ عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے ان کے ووٹ کی عزت کی جائے ان کی مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے آئین کا احترام کیا جائے تمام ادارے اپنی طے کردہ حدود میں رہیں
میاں محمد نواز شریف نے کہا یہ بات بھی ریکارڈ پر ھے کہ میں نے یہ بھی ہدایت کی سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔
لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت و عظمت ، اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔
آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا۔
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی شکل میں پاکستان کی عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
سلطنت پر یلغار کی تو بغداد سلطان #خوارزم_علاؤ_الدین کا ساتھ پوری قوت سے دےگا۔ مگر اس سفارتی وفد میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جس نے بڑےبڑے بال رکھےہوئے تھےجو اُس نےمنگول دارالحکومت میں پہنچ کر منڈوا لئے۔ سفارتی وفد میں اور کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ اس شخص
👇
کی کھوپڑی پر ایک خفیہ پیغام کندہ تھا جس میں منگول خاقان کو یقین دلایاگیا تھا کہ منگولوں اور خوارزمیوں کی جنگ کی صورت میں بغداد مکمل طور پر غیر جانبدار رہےگا۔ غداری کی اسی داستان کو #نسیم_حجازی_مرحوم نے اپنے مشہور ناول #آخری_چٹان کا موضوع بنایا تھا۔
👇👇