میاں محمد نواز شریف نے کہا یہ بات بھی ریکارڈ پر ھے کہ میں نے یہ بھی ہدایت کی سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔
لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت و عظمت ، اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔
آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔
اسکی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ عوامی سطح پر اس کے احترام پر بھی منفی اثر پڑتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی ساکھ مجرح ہوتی ہے۔ انہی محرکات کے پیش نظر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانا ضروری خیال کیا گیا۔
اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خلاف جھوٹے ، بے بنیاد ، من گھڑت اور خود ساختہ مقدمات کی وجہ یہ کہ میں نے سرجھکا کے نوکری کرنے سے انکار کردیا۔
میں نے مشرف کے خلاف مقدمات نہ بنانے سے انکار کردیا۔ میں نے اپنے گھر کی خبر لینے اور حالات ٹھیک کرنے پر اصرار کیا۔ میں خارجہ پالیسی کو قومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ میں اس سب کچھ کو اپنے منصب کا دستور تقاضا سمجھتا تھا۔
لیکن اس سے غالباً یہ تاثر لیا گیا کہ میرا وجود کچھ معاملات میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اس لئے مجھے منصب سے ہٹانا، پارٹی سے ہٹانا، عمر بھر کیلئے نااہل قرار دے ڈالنا اور سیاست کے عمل سے خارج کردینا ہی واحد حل سمجھا گیا۔
اب تک ریفرنسز کی حقیقت آپ پر کھل چکی ہوگی ۔ استغاثے کا کوئی گواہ میرے خلاف اپنے الزامات کا کوئی ادنیٰ سا ثبوت بھی پیش نہیں کرسکا۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ استغاثہ کے گواہوں نے بھی عملاً امیرے موقف کی تصدیق کی ہے۔
پانامہ پیپرز میں دنیا کے کئی ممالک کے
افراد کے نام آئے ہیں ان میں حکمران بھی تے اور سیاسی لیڈر بھی مجھے معلوم نہیں کہ ساری دنیا میں ان پیپرز کی بنیاد پر کتنے افراد کے خلاف مقدمات بنے کتنے افراد کو سزائیں ملیں کتنے وزرائے اعظم یا صدور کو معزول کیا گیا اور کتنے عمر بھر کےلئے نااہل قرار پائے۔
پانامہ کےنام پر یہ سب کچھ صرف ایک ایسے شخص کےخلاف ہوا جس کاپانامہ میں نام تک نہ تھا اس شخص کا نام نوازشریف ہے چونکہ پاکستان کے عوام اس سے محبت کرتے ہیں اسے بار بار ووٹ دیتے ہیں اسے پاکستان کی وزارت عظمی کے منصب پر بٹھاتے ہیں اس لئے وہ ایک نامطلوب شخص قرار پایا
اسے کبھی اپنی آئینی معیاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اسے سبق سکھانے کیلئے قید کیا گیا۔ کال کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا۔ اسے ہائی جیکر قرار دے کر عمر قیدکی سزا دی گئی۔ خطرناک مجرموں کی طرح اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر جہاز کی سیٹ سے باندھ دیا گیا۔
اس کی ہرممکن تذلیل کی گئی ۔ پھر ملک کو اس کے شر سے بچانے کیلئے جلا وطن کردیا گیا۔ اس کی جائیداد یں ضبط کرلی گئیں۔ اس کے مورثی گھروں پر قبضہ جمالیا گیا۔ وہ ساری پابندیاں توڑ کر وطن آیا تو ہوائی اڈے ہی سے ایک بار پھر ملک بدرکردیا گیا۔
کیا آج سے 19سال قبل یہ سب کچھ ”پانامہ“ کی وجہ سے ہورہا تھا؟ کیا میرے ساتھ یہ سلوک لندن فلیٹس کی وجہ سے کیا جارہا تھا؟ نہیں جناب والا! انیس بیس سال پہلے بھی میرا قصور وہی تھا جو آج ہے۔ نہ اس وقت کسی پانامہ کا وجود تھا نہ آج کسی پانامہ کا وجود ہے۔
اس وقت بھی میں عوام کی حاکمیت اور آئینی تقاضوں کے مطابق حقیقی جمہوریت کی بات کررہا تھا، آج بھی یہی کررہا ہوں۔ اس وقت بھی میرا کہنا یہ تھا کہ داخلی اور خارجی پالیسیوں کی باگ ڈور منتخب عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے،
2۔ کیا کبھی اس طرح کے معاملات کی چھان بین کیلئےJITبنی ہے؟
3۔ کیا کبھی اس طرح کے معاملات میں انٹیلی جنس ایجنسیز کوJITکا حصہ بنایا گیا؟
4۔ کیا کبھیJITکے ارکان کےانتخابات کیلئے خفیہ طور پر واٹس ایپ کالزکی گئیں اور مخصوص افراد کواس میں ڈالنےکیلئے دباﺅ ڈالا گیا؟
5۔ کیا آج سپریم کورت کے کسی بنچ نے JITکے کام کی نگرانی کی ہے؟
6۔ کیا کسی بھی پٹیشنز نے اپنی پٹیشن میں کسی دبئی کمپنی اور میرے اقامے کی بنیاد پر مجھے نااہل قرار دینے کی درخواست کی تھی؟
7۔ کیا کوئی عدالت ملک کےواضح قانون اورضابطوں کی موجودگی اورکسی لفظ کی قانونی تشریح ہوتے ہوئےاس لفظ کی من مانی تعبیرکیلئے کسی گمنام ڈکشنری کاسہارا لے سکتی ہے؟
8۔ کیاکبھی ایسا ہواہے کہ ایک ہی مقدمے میں کبھی دوکبھی تین اور کبھی پانچ ججوں کے کئی فیصلے سامنے آئیں؟
نوازشریف نے کہا کہ یہ وہ چند سوالات جو میں اٹھائے تھے۔ مجھے ااج تک ان کا جواب نہیں ملا۔ یقیناً آپ کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں۔ لیکن میں یہ سوالات اس لئے دوہرا رہا ہوں کہ آپ ان پر غور ضرور کریں اور سوچیں کہ یہ پراسرار کہانی کیا کہہ رہی ہے۔
جناب عالیٰ! جب فیصلے پہلے ہوجائیں اور ان کے جواب کیلئے حیلے بہانے بعد میں تراشے جائیں تو اسی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ ”مائنس ون“ کا اصول طے پایا جائے تو اقامہ جیسا بہانہ ہی بہت کافی ہوتا ہے۔
میں اس فیصلے کے حوالے سے مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن
اپنی یہ بات ضرور تاریخ کے ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس کا شمار بھی ہماری عدالتی تاریخ کے انہی فیصلوں میں ہورہا ہے جو نہ پاکستان کیلئے باعث فخر ہیں، نہ ہمارے نظام قانون وانصاف کیلئے ، نہ عدلیہ کی عزت وقار کیلئے۔
اور نہ ان منصفوں کیلئے جنہوں نے نظریہ ضرورت ہی کی بنیاد پر نہ جانے کس کی ضرورت پوری کرنے کیلئے ایک خیالی تنخواہ کو اثاثہ قرار دینے کا عجوبہ روزگار ایجازکرلیا۔ اس فیصلے میں شروع سے آخر تک بدعنوانی تو کسی کو نظر نہیں آئی، ناانصافی ہر ایک کو نظر آرہی ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار ، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ
چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا
نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج
کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس
نوازشریف نے کہا میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتاہوں کہ مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیالیکن قوم وملک کامفادمجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں دےرہا آپ اگر پاکستان کی تاریخ سےواقف ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں؟کن لوگوں پر بنتے ہیں؟اور
ان لوگوں کا اصل گنا کیا ہوتا ہے ان کا اصل گناہ صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت انہیں چاہتی ہے ان پر اعتماد کرتی ہے انہیں قیادت پر بٹھاتی ہے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت عوام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ملکی
پالیساں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں میں بھی اسی راستے کا ایک مسافر ہوں میں بھی چاہتا ہوں کہ عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے ان کے ووٹ کی عزت کی جائے ان کی مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے آئین کا احترام کیا جائے تمام ادارے اپنی طے کردہ حدود میں رہیں
نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا‘
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی شکل میں پاکستان کی عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
سلطنت پر یلغار کی تو بغداد سلطان #خوارزم_علاؤ_الدین کا ساتھ پوری قوت سے دےگا۔ مگر اس سفارتی وفد میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جس نے بڑےبڑے بال رکھےہوئے تھےجو اُس نےمنگول دارالحکومت میں پہنچ کر منڈوا لئے۔ سفارتی وفد میں اور کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ اس شخص
👇
کی کھوپڑی پر ایک خفیہ پیغام کندہ تھا جس میں منگول خاقان کو یقین دلایاگیا تھا کہ منگولوں اور خوارزمیوں کی جنگ کی صورت میں بغداد مکمل طور پر غیر جانبدار رہےگا۔ غداری کی اسی داستان کو #نسیم_حجازی_مرحوم نے اپنے مشہور ناول #آخری_چٹان کا موضوع بنایا تھا۔
👇👇