نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دباﺅ کا نشانہ بننا پڑا۔
میں دھرنوں سے صرف دو ماہ قبل مارچ 2014 میں اپنے دو رفقاءکے ہمراہ بنی گالہ میں عمران خان سے ملا تھا یہ ایک خوش گوار ملاقات تھی۔ انہوں نے دھاندلی کے موضوع پر کوئی بات کی نہ ہی کسی احتجاجی تحریک کا اشارہ دیا۔
لیکن ادھر پرویز مشرف کے مقدمے میں تیزی آئی اور ادھر اچانک لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد بظاہر دھاندلی کو موضوع بنا کر اسلام آباد میں دھرنوں کا فیصلہ کرلیا گیا۔
14 اگست 2014 سے شروع ہونے والے یہ دھرنے چار ماہ جاری رہے۔ ان دھرنوں کے دوران جو جو کچھ ہوا وہ سب اس قوم کے سامنے ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان کا مشترکہ مطالبہ صرف یہ تھا کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائے۔
ان دھرنوں کا منصوبہ کیسے بنا طاہر القادری اور عمران خان کیسے یکجا ہوئے کس نے ان کے منہ میں وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ ڈالا اور کون چار ماہ تک مسلسل ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا یہ باتیں اب کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں۔
عمران خان خود کھلے عام یہ اعلان کرتے رہے کہ بس ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ کون تھا وہ ایمپائر؟ وہ جو کوئی بھی تھا اس کی مکمل پشت پناہی ان دھرنوںکو حاصل تھی۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان دھرنوں کے دوران جو کچھ ہوا اس کی پوری تفصیلات قوم کے سامنے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاﺅس‘ پریذیڈنٹ ہاﺅس‘ وزیراعظم ہاﺅس‘ پی ٹی وی غرض کچھ بھی فسادی عناصر سے محفوظ نہ تھا۔ اس تماشے نے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا لیکن اصل مقصد ایک ہی تھا کہ مجھے وزیراعظم ہاﺅس سے نکال دیا جائے تاکہ مشرف کے خلاف مقدمے کی کارروائی آگے نہ بڑھ سکے۔
منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ اس شدید اور طویل یلغار سے میرے اعصاب جواب دے جائیں گے اور میں خود کو بچانے کے لئے ہر طرح کے کمپرومائز پر آمادہ ہوجاﺅں گا۔
بلاشبہ یہ ایک سوچا سمجھا اور نہایت سخت حملہ تھا ایسے دن بھی آئے کہ وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہونے اور باہر جانے
والے راستوں پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا۔ اعلان کئے گئے کہ وزیراعظم کے گلے میں رسی ڈال کے گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں گے لیکن میں اﷲ کی تائید و حمایت پر بھروسہ کرتے ہوئے ڈٹا رہا۔
میاں نواز شریف نے کہا کہ دھرنوں کے ذریعے مجھ پر لشکر کشی کرکے مجھے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ انہی دنوں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کا پیغام مجھ تک پہنچایا گیا کہ میں مستعفی ہوجاﺅں
اگر یہ ممکن نہیں تو طویل رخصت پر چلا جاﺅں۔ اس پیغام سے بے حد دکھ پہنچا مجھے رنج ہوا کہ پاکستان کس حال کو پہنچ گیا ہے عوام کی منتخب حکومت اور اس کے وزیراعظم کی بس اتنی ہی توقیر رہ گئی ہے۔
کہ اس کے براہ راست ماتحت ادارے کا ملازم اپنے وزیراعظم کو مستعفی ہونے یا چھٹی چلے جانے کا پیغام بھجوا رہا ہے۔ شاید ہی تیسری دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنی افسوسناک صورتحال ہو
میرے مستعفی ہونے یا طویل رخصت پر چلے جانے کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹا دیا گیا تو مشرف کے خلاف مقدمے کو لپیٹنا بھی مشکل نہیں رہے گا۔
اقتدار کی لذتیں بھی صرف مٹھی بھر جرنیلوں کے حصے میں آتی ہیں لیکن اس کی قیمت مسلح افواج کے پورے ادارے کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
میں اپنی مسلح افواج کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
میں جانتا ہوں کہ فوج کی کمزوری کا مطلب ملکی دفاع کی کمزور ہے۔ قابل تحسین ہیں ہمارے وہ بہادر سپوت جو مادر وطن کے دفاع کے لئے ہر وقت سینہ سپر رہتے اور وقت آنے پر اس پاک سرزمین کے لئے اپنے خون کا نذرانہ تک پیش کردیتے ہیں۔
اس فوج کی اصل آبرو بہادر ماﺅں کے وہی فرزند ہیں جو اقتدار کی بارگاہوں کے بجائے سرحدی مورچوں میں بیٹھتے اور حکمرانی کی لذتیں سمیٹنے کے بجائے ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کردیتے ہیں۔
دفاع وطن کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ہی 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا دو ٹوک اور ٹھوس جواب دینے کا فیصلہ کرنے میں میں نے چند گھنٹوں کی تاخیر بھی نہیں کی تھی۔
مجھے پختہ یقین تھا کہ اگر ہم نے اپنی ایٹمی قوت کا کھلا اظہار نہ کیا تو شاید آئندہ کبھی اس کا موقع نہ ملے۔ مجھے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے نہ کئے تو خطے میں شدید عدم توازن قائم ہوجائے گا،
اقدام قتل، ناجائز اسلحے، کار ، پولیس سے جھگڑوں سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ایک کریمنل ریکارڈ ہولڈر نے دو روز قبل لاہور میں پاکستان کی سیاسی اور قانونی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا جب اس نے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ
چار سابق گورنروں، تین سابق جرنیلوں، بارہ خواتین اور آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم سمیت پینتالیس افراد کے خلاف بغاوت اور غداری کا مقدمہ اتنی آسانی سے درج کروا دیا کہ لاہور میں جتنی آسانی سے چوری چکاری کا پرچہ بھی درج نہیں ہوتا
نام اس شخص کا بدر رشید بتلایا جا رہا ہے جوتھانہ شاہدرہ کے علاقے سہراب فیکٹری، خورشید پارک کا رہائشی بیان کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ درج
کرنے کے لئے قانون کے مطابق حکومت کا فریق بننا اور اس
نوازشریف نے کہا میں اور بھی بہت کچھ کہہ سکتاہوں کہ مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیالیکن قوم وملک کامفادمجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں دےرہا آپ اگر پاکستان کی تاریخ سےواقف ہیں تو آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ ایسے مقدمات کیوں بنتے ہیں؟کن لوگوں پر بنتے ہیں؟اور
ان لوگوں کا اصل گنا کیا ہوتا ہے ان کا اصل گناہ صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت انہیں چاہتی ہے ان پر اعتماد کرتی ہے انہیں قیادت پر بٹھاتی ہے وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں وہ آئین اور قانون کے تحت عوام کی حاکمیت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ملکی
پالیساں اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں میں بھی اسی راستے کا ایک مسافر ہوں میں بھی چاہتا ہوں کہ عوام کی مرضی کا احترام کیا جائے ان کے ووٹ کی عزت کی جائے ان کی مرضی پر اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے آئین کا احترام کیا جائے تمام ادارے اپنی طے کردہ حدود میں رہیں
میاں محمد نواز شریف نے کہا یہ بات بھی ریکارڈ پر ھے کہ میں نے یہ بھی ہدایت کی سارا کام کم سے کم درکار وقت یعنی سترہ دن کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے۔ 5ارب ڈالر کالالچ دیا گیا۔
لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت و عظمت ، اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔
آئین شکنی کرنے اوراپنا مقدس حلف توڑ کر قتدار پر قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کا محاسبہ کرنا آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں خود فوج کے وقار و تقدس کا بھی تقاضا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے‘ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں
سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ءکے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا‘
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی شکل میں پاکستان کی عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فرد کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کی نظر میں غداری کیا ہے اور غدار کون ہوتا ہے غداری کا تعین کرنے اور غدار کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا حق آئین کس کو دیتا ہے؟ پھر یہ کارروائی کیسے ہوتی ہے؟ پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
سلطنت پر یلغار کی تو بغداد سلطان #خوارزم_علاؤ_الدین کا ساتھ پوری قوت سے دےگا۔ مگر اس سفارتی وفد میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جس نے بڑےبڑے بال رکھےہوئے تھےجو اُس نےمنگول دارالحکومت میں پہنچ کر منڈوا لئے۔ سفارتی وفد میں اور کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ اس شخص
👇
کی کھوپڑی پر ایک خفیہ پیغام کندہ تھا جس میں منگول خاقان کو یقین دلایاگیا تھا کہ منگولوں اور خوارزمیوں کی جنگ کی صورت میں بغداد مکمل طور پر غیر جانبدار رہےگا۔ غداری کی اسی داستان کو #نسیم_حجازی_مرحوم نے اپنے مشہور ناول #آخری_چٹان کا موضوع بنایا تھا۔
👇👇